مسئلہ ۵۱: از بمبئی چھاچھ محلہ نمبر ۳ مرسلہ محمد ایوب ابن حاجی صدیق میمن صاحب ۳ شعبان المعظم ۱۳۳۵ھ
یہاں کے باشندے حضرت مولانا ممدوح کے بہت ہی معتقد ہیں اور ان کے فرمان کو بہت عزت اورقدر کی نظر سے دیکھتے ہیں اور ان کے زور قلم کا ہر شخص لوہا مانے ہوئے ہے، مولانا کی تحریر ہی پر گویا سارا دارومدار ہے، مولانا صاحب میں خدا کی عنایت سے علاوہ عالم ہونے کے یہ بھی بڑا کمال ہے کہ آپ فن شعر اور نکات شاعری سے بخوبی واقف ہیں اور ماہر ہیں یہ بات دوسرے عالم میں نہیں پائی جاتی آپ ہی سے فیصلہ اس کا بھی اچھی طرح ہوسکتاہے ثم التسلیم بالتکریم۔
خیر طلب ہیچدان حیدر علی خاں عفی عنہ حیدر فرخ آبادی
جواب فورا مع فتوٰی ودستخطی ومہری حضرت مولانا مرشد آنا چاہئے
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ خالد سنی المذہب نے مندرجہ ذیل شعر کلمات شہادت کا ابتدائی ٹکڑا نظم کیا ہے جس سے پورا کلمہ شہادت مراد ہے، لیکن زید جو مذہبا شیعہ ہے اس سے پورا
کلمہ شہادت مراد نہیں لیتاہے بلکہ صرف اشھدان الا الہ کے معنی سے خالد کو ملحد قرار دیتاہے ؎
اشھد ان لاالہ نقش ہے اس لوح پر نیر تو حید کب عاشق کی پیشانی نہ تھی
مندرجہ بالا شعر کی نسبت زید نے مندرجہ ذیل الفاظ لکھے ہیں: شعر کا پہلا مصرعہ الحادی کا سائن بورڈ ہے کیونکہ ا شھد ان لا الہ کے تو یہ معنٰی ہوئے کہ میں گواہی دیتاہوں کہ نہیں ہے کوئی خدا، پھر جس پیشانی پر یہ کفر کا کلمہ لکھا ہو اسے ہم الحاد کا سائن بورڈنہ کہیں تو کیا کہیں۔ اسی طرح زید نے بکر سنی المذہب کے اس نعتیہ کی نسبت ؎
پھر روضہ حضرت کی زیارت کو چل اخلاص پھر چھوڑ دے تو بہر خدا حب وطن کو
مندرجہ ذیل الفاظ تحریر کئے ہیں: اخلاص صاحب! کبھی کبھی تو ہش کی باتیں کیا کیجئے، ا ۤپ نے حب الوطن من الایمان ۱؎ (وطن کی محبت ایمان کاحصہ ہے۔ ت) والی حدیث پڑھی نہیں تو کیا سنی بھی نہیں۔
فلہذا زید کا خالد کو ملحد اور بکر کو بے ایمان قرار دینا جائز اور مندرجہ بالاالفاظ زبان سے کہنا جائز ہے یا قلم سے
لکھنا درست ہے یا نہیں؟ اگر نہیں ہے تو علمائے کرام وفضلائے عظام زید اور زید کے ان مؤیدین کی نسبت جو باوجود سنی ہونے کے زید کی تائید وتصدیق کررہے ہیں از روئے شرع شریف کیا فتوٰی صادر فرماتے ہیں۔ بینوا تو جروا
الجواب
حاشا شعر مذکور سے خالد سنی المذہب پر کسی طرح حکم کفر والحاد ممکن نہیں۔ مگر اس کے نزدیک جو اس کلمہ طیبہ کو کہ مدار ایمان ہے معاذاللہ وہ ٹکڑے کفر واسلام پر منقسم کرے اور ا س کا پہلا آدھا کفر خالص جانے اور یہ کس درجہ ناپاک وشنیع ہے۔
اولا یوں ہو توہر مسلمان جتنی بار لا الہ اللہ کہے ہر بار اس کا کافر ہونا اور بعد کفر اسلام لانا ٹھہرے کہ جب تک پہلا جز کہا تھا اس معترض کے طور پر تومطلقا ہر الہ کی نفی تھی ارویہ بیشک کفر ہے، جب الااللہ کہا تو اب اللہ عزوجل کی الوہیت مان کر مسلمان ہوا۔
ثانیا بلکہ اب بھی مسلمان ہونا بخیرکہ اس وقت الا اللہ کہہ لیا تو کیا ہوا، اس کا پھر ارادہ ہے کہ یہی کلمہ سرے سے پڑھے اور پہلے جز سے خدا کی نفی مطلق کرکے کافر ہو تو کفر سے رجوع کب ہوئی جب کہ پھر عزم کفر موجود ہے اورعزم کفر فی الحال کفر ہے۔
ثالثا قرآن عظیم میں کس قدر کثرت سے لا الہ الا اللہ و لا الہ الا ھو وار دہے، اگر پہلے جز میں نفی عام الوہیت ہر الہ ہے جیسے کہ معترض کا خیال تبع ہے تو معاذاللہ قرآن کریم نے صدہا بار الوہیت رب العزت کی نفی فرمائی اور ہر بار نفی کرکے اثبات فرماکر تنا قضوں کی ٹھہرائی، تعالی اللہ عن ذٰلک علوا کبیرا ۱؎ (اللہ تعالٰی اس سے بلند ہے۔ ت)
(۱؎ شرح المقاصد المبحث الثانی الوجود مفہوم واحد الخ دارالمعارف النعمانیہ لاہور ۱/ ۷۴)
رابعاً معترض کے طور پر معاذاللہ سب کلمہ گو جن میں بزعم معترج خود معترض بھی داخل فاسد النکاح ہوں اور ان کی اولاد اولاد الزنا کہ جب پہلا جزء کہا کافر ہوگئے، نکاح ٹوٹ گئے اور الا اللہ کہنے سے اگرچہ اسلام عو بھی کرائے ٹوٹا نکاح تو نہیں جڑتا تب تک از سر نو نہ وہ اور ہ ونہ ہوا تو سب بے نکاحی رہیں اور اولاد والدالحرام۔
خامساً معترض کے نزدیک نزع روح کے وقت کلمہ طیبہ کی تلقین سخت حرام وبدخواہی اہل اسلام ہو اپنے آپ تو کافر ہوہو کر الا اللہ سے مسلمان ہولئے اس پر کیا بھروسہ ہے کہ پہلے ہی جز پر روح پر واز کر جائے یا زبان بند ہوجائے تو معاذاللہ کافر مرے۔
سادساً اس کے یہ معنی سمجھنا اسلام پر کیسا سخت الزام پر عبارت صحیح بتانے سے معاذاللہ عجز کا اتہام ہے کہ ایمان کا آغاز کفر سے رکھا لا الہ اللہ کی جگہ کلمہ طیبہ یوں کیوں نہ بتایا
ان اﷲ ھو الا لہ وحدہ لاشریک لہ لیس غیرہ من الہ
یہ خالص اسلام ہوتا اور معترض کا کفر والحاد راہ نہ پاتا۔
بالجملہ اس کے یہ معنی سمجھنا کہ نہیں ہے کوئی خدا، عاقل سے معقول نہیں بلکہ بلاشبہ ا س کے معنی نفی الوہیت غیر خدا ہیں یقینا قطعا مسلمان جس وقت اس سے تلفظ کرتاہے یہی مراد لیتاہے تو بحمداللہ تعالٰی اس کے دونوں جزعین ایمان ہیں، پہلا جز الوہیت غیرخدا کی نفی اور دوسرا جز الوہیت الٰہ حق کا اثبات اور دو نوں ایمان ہیں۔
رضی نے کہ نحو وعربیت کا بڑا محقق اور مذہب کا شیعی تھا ، اس کی تحقیق کی اور بتادیا کہ یہاں ہرگز نفی عام نہیں۔ ورنہ تناقص لازم آئے بلکہ ماوراء مستثنٰی کی نفی ہوتی ہے، شرح کافیہ میں اس کی عبارت بالتلخیص یہ ہے :
ان قلنا انہ داخل فی القوم والاء لاخراج زید منہم بعدالدخول کان المعنی جاء زید مع القوم ولم یجئ زید وھذا تناقض ظاہر، ینبغی ان یجنب کلام العقلاء عن مثلہ، وقدورد فی الکتاب العزیز من الاستثناء شیئ کثیر کقولہ تعالٰی فلبث فیھم تلد الخمسین عاما فیکون المعنی لبث الخمسین فی جملۃ الالف ولم یلبث تلک الخمسین تعالی اﷲ عن مثلہ علوا کبیرا (الٰی ان قال) فزبدۃ الکلام ان دخول المستثنی منہ ثم اخراجہ بالا واخواتھا انما کان قبل اسناد الفعل اوشبھہ الیہ فلایلزم التناقص فی نحوجاء فی القوم الازیدا لانہ بمنزلۃ قولک القوم المخرج منھم زید جاؤنی وذلک لان المنسوب الیہ وان تأخر لفظا لابدلہ من التقدم وجودا علی النسبۃ التی یدل علیہا الفعل اذ المنسوب الیہ والمنسوب سا بقان علی النسبۃ بینھا ضرورۃ ففی الاستثناء لما کان المنسوب الیہ ھو المستثنٰی منہ مع الاوالمستثنٰی فلا بدمن من وجود ھذہ الثلثۃ قبل النسبۃ فلا بد ذلک اذن من حصول الدخول والاخراج قبل النسبۃ فلا تناقص ۱؎ اھ۔
(اگر ہم یہ کہیں کہ جاء نی القوم الازیدا میں زید قوم میں شامل ہے اور الا اس کو قوم میں شامل ہونے کے بعد نکالنے کے لئے ہے تو معنٰی یہ ہوگا، کہ زید قوم کے ساتھ آیا اور نہ آیا۔ یہ واضح تناقص ہے لہذا ایسا متناقص کلام عقلاء سے
متصور نہیں ہوسکتا حالانکہ قرآن پاک میں یہ استثناء کثیر موجود ہے جیسے اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے کہ نوح علیہ السلام اپنی قوم میں ہزار برس بغیر پچاس کے ٹھہرے، تومعنٰی یہ ہوئے کہ آپ پچاس سمیت مجموعہ ہزار ٹھہرے، اس واضح تناقص سے اللہ تعالٰی پاک ہے، آگے انھوں نے یہ تک کہا خلاصہ کلام یہ ہے کہ مستثنٰی منہ میں دخول اور الاّ اور دیگر حروف کے ساتھ پھر اس کو خارج کرنا فعل یا شبہ فعل کے اسناد سے قبل ہوتاہے تو اب جاءنی القوم لا زیدا جیسی مثالوں میں تناقص لازم آئے گا، کیونکہ اب معنی یوں ہوا ''قوم جس سے زیدخارج ہے میرے پاس آئی، اس لئے کہ منسوب الیہ اگرچہ لفظی طورپر فعل سے موخر ہے لیکن وجودی طورپر فعل سے مقدم ہے کیونکہ منسوب اور منسوب الیہ اس نسبت سے مقدم ہوتے ہیں جو دونوں میں پائی جاتی ہے اور یہ نسبت وہ ہے جس پر فعل دال ہے تو استثناء میں جب منسوب الیہ یعنی مستثنٰی منہ اور الاّ اور مستثنٰی تین چیزیں ہیں تو لازمی طور پر یہ تین فعل والی نسبت سے پہلے ہوں گے لہذا اب دخول وخروج نسبت سے قبل ہوا تو تناقص نہ رہا۔ ت)
(۱؎ شرح الکافیہ للرضی بحث الستثنٰی دارالکتب العلمیہ بیروت ۱/ ۲۶۔ ۲۲۵)
اقول حاصل یہ ہے کہ لفظ مافی النفس سے تعبیر ہوتے ہیں یہاں اگر یوں ہو کہ متکلم نے اولاً نفی عام بلاد استثناء کی اور جزء اول سے تعبیر کیا پھر اس عام میں سے مستثنٰی کو جداکیا اوراس پر جزء استثنا سے دلالت کی توصریح تناقص ہے کہ یہ دوحکم متنافی ہوئے لا سالبہ کلیہ تھا اور یہ موجبہ جزئیہ او ر وہ دونوں نقیض ہیں، ایسا ہر گز نہیں بلکہ وہاں صرف حکم واحد ہے متکلم نے ایک مفرد کلی کو کہ مرتبہ لابشرط شے میں تھا مستثنٰی سے فارغ کرکے مرتبہ بشرط لا شی میں لیا اور اس مقید پر حکم واحد کیا بے ادخال لا والا سے معبرکیا لاحکم ہے اور الاّقید مسند الیہ کہ اس کے مرتبہ بشرط لا پر دال تو یہ لاہر گز نفی جمیع کے لئے نہیں بلکہ نفی ماورائے مستثنٰی کے لئے تو مافی الذہن یقینا حق ہے، ہاں تقیید پر دلالت درکار، وہ اگر نفس کلام میں نہ ہوتی تو کلام کی ترکیب مشہور ومعروف کا مسلمان میں دائر وسائر، اور قائل کا مسلمان ہونا خودہی دلالت کرتا کہ یہ تنگی شعر کے سبب بعض کلام پر اختصار ہے اور مراد یقینا مجموع جیسے ہے بےتنگی کلام قلیا اور لن تنا کہتے ہیں اور مراد سورہ کافرون وپارہ چہارم، مسلمان اگر ابنت الربیع البقل (موسم بہار نے سبزہ اگایا۔ ت) کہے تو اس کا سلام ہی تجوز پر قرینہ ہے، اس سے یہ گمان کہ اس نے خود فصل بہار کو سبزی کا خالق ماناہے، ہر گز مسلم عاقل کو نہیں ہوسکتا کما نصوا علیہ وصرح بہ فی الفتاوی الخیریہ وغیرہا (جیسا کہ اس پر علماء نے تصریح موجود ہے اور فتاوٰی خیریہ وغیرہ میں یہ تصریح موجود ہے۔ ت) نہ کہ یہاں نفسی کلام میں معنٰی صحیح کی صاف تصریح موجود ہے کہ مصرع دوم میں صاف توحید بتائی اور یہ ہی اول سے مراد ٹھہرائی، اگر معاذاللہ نفی مطلق ہوتی توحید کب رہتی تعطیل ہوتی، توحید تو ایک کا اثبات ہے نہ کہ معاذاللہ عام نفی تام ، تو ثابت ہوا کہ اس پرحکم الحاد اگر از قبیل کل اناء یترشح بما فیہ (ہر برتن وہی کچھ باہر پھینکتا ہیے جو اس میں ہو۔ ت) نہ ہو تو جنون خالص ہے۔
لاجرم جامع الفصولین فصل ۳۸ میں ہے : من قال لاالہ وارادان یقول الا اﷲ ولم یقل لایکفر لانہ عقد علی ایمان ۱؎۔
جس نے لا الہ کہا الا اللہ ارادہ کے باوجود نہ کہہ سکا تو وہ کافر نہیں کیونکہ ا س نے ایمان کے ارادے سے یہ کہا (ت)
(۱؎ جامع الفصولین الفصل الثامن والثلاثون فی مسائل کلمات الکفر اسلامی کتب خانہ کراچی ۲/۲۹۸)
اسی طرح خزانۃ المفتین میں ہے: آثراعنہ الی(عہ)لایکفر۲ (اسی کے عدم کفر کو ترجیح حاصل ہے۔ ت)
عہ: وھکذا فی الاصل لعلہ ''انہ''۔
(۲؎ مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر باب المرتد داراحیاء التراث العربی بیروت ۱/ ۶۸۹)
اسی طرح فتاوٰی بزازیہ و شرح ملتقی الابحر میں ہے، ہاں شاعر نے اسی قتصار میں تقصیر ضرور کی علماء تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ اس لا کا مدطویل نہ کرے کہ صورت نفی سے جلد جانب تصریح اثبات منتقل ہوجائے اس نے اتنی دیر کی کہ صورت نفی مصرع اول میں رکھی اور تصریح اثبات چھ لفظوں کے فاصلہ سے مصرع دوم میں اسے یوں کہنا تھا اشہدان الاالہٰ غیرہ ہے اس پر نقش۔
اسی طرح بکر سنی کے شعر مذکور پر اعتراض جہل فاضح یا عناد واضح ہے حب الوطن من الایمان ۲؎ (وطن کی محبت ایمان کا حصہ ہے۔ ت) نہ حدیث سے ثابت نہ ہرگز اس کے یہ معنی،
اس کا یہ معنی امام بدرالدین زرکشی نے اپنے جز اور امام شمس الدین سخاوی نے مقاصد حسنہ اور امام خاتم الحفاظ جلال الدین سیوطی نے الدرالمنتشرہ میں بالاتفاق اس روایت کو فرمایا: لم اقف علیہ۴؎ (میں ا س سے آگاہ نہیں ہوسکا۔ ت)
امام سخاوی نے اس کی اصل ایک اعرابی بدوی اور حکیمان ہند کے کلام میں بتائی کما یظھر بالرجوع الیہ (جیسا کہ اس کی طرف رجوع سے ظاہر ہے۔ ت) اللہ عزوجل نے قرآن عظیم میں اپنے بندوں کی کمال مدح فرمائی جو اللہ و رسول جل وعلا وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی محبت میں اپنا وطن چھوڑیں، یار ودیار سے منہ موڑیں، اور ان کی سخت مذمت فرمائی جو جب وطن لئے بیٹھے رہے اور اللہ ورسول کی طرف مہاجر نہ ہوئے۔
قال اﷲ تعالٰی ان الذین توفھم الملٰئکۃ ظالمی انفسھم قانوا فیم کنتم قالوا کنّا مستضعفین فی الارض قالوا الم تکن ارض اﷲ واسعۃ فتھا جروا فیھا فاولٰئک ماوٰھم جھنم وساءت مصیرا o الا المستضعفین من الرجال والنساء والوالدان لایستطیعون حیلہ ولایھتیدون سبیلا o فاولٰئک عسی اﷲ ان یعفو عنھم وکان اﷲ عفوا غفوراً o ومن یھاجر فی سبیل اﷲ یجد فی الارض مراغما کثیرا وسعۃ ومن یخرج من بیتہ مھاجرا الی اﷲ ورسولہ ثم یدرکہ الموت فقد وقع اجرہ علی اﷲ وکان اﷲ غفورا رحیما ۱؎o
اللہ تعالٰی نے فرمایا: بیشک ملائکہ جن کی جان نکالتے ہیں ا س حال میں کہ وہ اپنی جانوں پر ظلم کررہے تھے فرشتے کہتے ہیں تم کاہے میں تھے، کہتے ہیں ہم اس بستی میں کمزور دبائے ہوئے تھے، فرشتے کہتے ہیں کیا اللہ کی زمین (مدینہ طیبہ) گنجائش والی نہ تھی کہ تم وطن چھوڑ کر اس میں جارہتے ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور کیا ہی بُری پلٹنے کی جگہ مگر کمزور اور عورتیں بچے جنھیں کچھ بنائے نہ بنی نہ راہ ملی قریب ہے کہ اللہ تعالٰی ان کو معاف فرمائے، اللہ تعالٰی معاف فرمانے والا بخشنے والا ہے اور جو اللہ تعالٰی کی راہ میں وطن چھوڑ کر اللہ و رسول کی طرف ہجرت کرتاہوا اپنے گھر سے نکلے پھر اسے موت آجائے ا س کا اجر اللہ کے ذمہ کرم پر ثابت ہولیا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
(۱؎ القرآن الکریم ۴/ ۹۷ تا ۱۰)
جو مدینہ طیبہ کی حاضری پر حب وطن کو ترجیح دیں وہ ظالموں کی طرح ہیں اور جو حب وطن کو خاک بوسی آستان عرش نشان پر تصدق کریں وہ ان مقبولوں میں ہیں:
قل کل یعمل علی شاکلتہ فربکم اعلم بمن ھوا ھدی سبیلا ۲؎۔
تم فرماؤ سب اپنے کینڈے (طریقے) پر کام کرتے ہیں تو تمھارا رب خوب جانتا ہے کہ کون زیادہ راہ پر ہے۔ (ت)
(۲؎ القرآن الکریم ۱۷ /۸۴)
وہ وطن جس کی محبت ایمان سے ہے وطن اصلی ہے جہاں سے آدمی آیا اور جہاں جاناہے۔
کن فی الدنیا کانک غریب اوعابرسبیل ۳؎۔
وحسبنا اﷲ ونعم الوکیل ۴؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
دنیا میں اس طرح رہو جیسے اجنبی ہو یا مسافر، اور ہمارے لئے اللہ تعالٰی کافی ہے اور وہی سب کا کارساز ہے۔
واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)
(۳؎ کنز العمال حدیث ۶۱۲۷ موسسۃ الرسالہ بیروت ۳/ ۱۹۶) (۴؎ القرآن الکریم ۳/ ۱۷۳)