مسئلہ ۵۰: ا زگڑھی اختیار خاں تحصیل خان پور ریاست بہاولپور مرسلہ محمد یار صاحب واعظ ۹ شعبان المعظم
۱۳۳۴ھ
قبلہ معتقدین دام ظلہ، از خاکسار محمد یار مشتاق دیدار بعد نیاز حسب اینکہ شب معراج
آپ کا قصیدہ معراجیہ پڑھا گیا جس پر وہابیوں نے دولھا اور دولھن کے متعلق شور اُٹھایا کہ اللہ جل جلالہ و حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کے حق میں ان الفاظ کا استعمال کرنا موجب کفرہے، شب برأت یہاں یہاں گڑھی اختیار خاں میں ان الفاظوں کے متعلق وہابیوں کی طرف سے میرے ساتھ ایک طویل بحث ہونے والی ہے، اے مجدد بمن بے سروسمان مددے، قبلہ دیں مددے کعبہ ایماں مددے، ضرور مہربانی فرماکر دلائل قاطع سے اس تشبیہ کا ثبوت مدلل کرکے اسی ہفتہ میں بھیج کر مسلمانانِ اہلسنت وجماعت کو عزت بخشیں، حضور پر فرض سمجھی جارہی ہے، یہ فی سبیل اللہ بصدقہ روضہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اس کام کو سب کاموں پر مقدم فرماکر وہ تحریر فرمادیں کہ موجب اطمینان اہل اسلام ہو۔
الجواب
اللہ عزوجل نے وہابیہ کی قسمت میں کفر لکھاہے، انھیں ہر جگہ کفر ہی کفر سوجھتاہے، قصیدہ مذکورہ میں دو جگہ دولھن کا لفظ ہے اور چار جگہ دولھا کا، وہ اشعار یہ ہیں: ؎
(۱) نئی دولھن کی پھبن میں کعبہ نکھر کے سنورا سنور کے نکھرا
حجر کے صدقے کمر کے آل تل میں رنگ لاکھوں بناؤ کے تھے
(۲) نظر میں دولھا کے پیارے جلوے حیا سے محراب سرجھکائے
سیاہ پردے کے منہ پر آنچل تجلی ذات بحت کے تھے
(۳) دولھن کی خوشبو سے مست کپڑے نسیم گستاخ آنچلوں سے
غلاف مشکیں جو اڑ رہا تھا غزال نافے بسارہے تھے
(۴) خداہی دے صبر جان پر غم دکھاؤں کیونکر تجھے وہ عالم
جب ان کو جھرمٹ میں لے کے قدسی جناں کا دولھا بنارہے تھے
(۵) بچا جو تلووں کا ان کے دھوون بناوہ جنت کا رنگ وروغن
جنھوں نے دولھا کی پائی اترن وہ پھول گلزار نور کے تھے
(۶) جھلک سی اک قدسیوں پہ آئی ہوا بھی دامن کی پھر نہ پائی
سواری دولھا کی دور پہنچی برات میں ہوش ہی گئے تھے۱؎
(ملتقطا)
(۱؎ حدائق بخشش قصیدہ معراجیہ مکتبہ رضویہ آرام باغ کراچی حصہ اول ص۱۰۵ تا ۱۰۷)
ا
ن میں کون سی جگہ معاذاللہ اللہ عزوجل کو دولھا یا دولھن کہا گیا ہے ولکن الوھابیۃ قوم یفترون (لیکن قوم وہابیہ جھوٹ بولتی ہے۔ ت) وہابیہ کی بنائے مذہب کذب وافترا پر ہے۔ اور کیونکر نہ ہو کہ ان کے پیشوا اسماعیل دہلوی نے اپنے معبود کے لئے جھوٹا ہونا روا رکھاہے، ہاں مشیخیت نبی رکھے نہ ہو کہ ان سے بنچتاہے، اب اگر یہ بھی جھوٹ سے بچیں تو عابد ومعبود برابر ہوجائیں گے، اسی لئے ان کے دین میں نماز سے بھی بڑھ کر فرض ہوا کہ جھوٹ بکا کریں کہ کسی طرح اپنے ساختہ معبود سے تو کم رہیں
ضعف الطالب و المطلوب ۲؎، لبئس المولی ولبئس العشیر ۳؎
(کتنا کمزور چاہنے والا اور وہ جس کو چاہا، بیشک کیاہی بُرا موالٰی اور بیشک کیا ہی بُرا رفیق۔ ت)
(۲؎ القرآن الکریم ۲۲ /۷۳) (۳؎ القرآن الکریم ۲۲/ ۱۳)
شعر اول میں تو دولھن کسی کو نہ کہا اپنے معنی حقیقی پر ہے، زینت کعبہ کو نئی دولھن کی زیبائش سے تشبیہ دی ہے جس طرح ان حدیثوں میں جنت کی جنبش سرور کو دولھن کی نازش سے، خطیب نے تاریخ بغداد میں عقبہ بن عامر جہنی اور طبرانی نے معجم اووسط میں عقبہ اور انس دونوں اور ازدی نے عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہم سے دریافت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: جب جنت کو دونوں شہزادوں امام حسن اور امام حسین علی جدہما الکریم وعلیہما الصلٰوۃ والتسلیم کا اس میں تشریف رکھنا معلوم ہوا ماست الجنۃ میسا کما تمیس العروش فی خدرھا ۴؎ جنت خوشی سے جھومنے لگی جیسے نئی دولھن فرحت سے جھومے۔
شعر سوم میں کعبہ کو دولھن کہا اور مکان آراستہ کو دولھن کہنا محاورہ صحیحہ شائعہ ہے امام احمدمسند میں انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :
باقی چار اشعار میںحضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو دولھا کہا ہے اور وہ بیشک تمام سلطنت الٰہی کے دولھاہیں، امام قسطلان مواہب لدینہ شریف میں نقل فرماتے ہیں:
انہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم رأی صورۃ ذاتہ المبارکۃ فی الملکوت فاذاھو عروس المملکۃ ۳؎۔
نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے شب معراج عالم ملکوت میں اپنی ذات مبارکہ کی تصویر ملاحظہ فرمائی تو دیکھا کہ حضور تمام اہلسنت الہٰی کے دولھا ہیں (صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم)
(۳؎ المواہب اللدنیہ المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳/ ۵۷)
دلائل الخیرات شریف میں ہے :
اللھم صلی علی محمد وعلی اٰلہ بحر انوارک ومعدن اسرارک ولسان حجتک وعروس مملکتک ۴؎۔
الٰہی دورد بھیج محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اور ان کی آل پر جو تیرے انوار کے دریا اور تیرے اسرارکے معدن اور تیری حجت کی زبان اور تیری سلطنت کے دولھا ہیں۔
(۴؎ دلائل الخیرات منزل دوم جامع مسجد ظفریہ مرید کے شیخوپورہ ص۱۰۵)
علامہ محمد فاسی اس کی شرح مطالع المسرات میں فرماتے ہیں:
اس عبارت سراپا بشارت کا خلاصہ یہ ہے کہ امام محمد بن سلیمان جزولی قدس سرہ الشریف نے اس درود مبارک میں سلطنت کو برأت کے مجمع سے تشبیہ دی کہ اس میں کیسا اجتماع ہوتاہے اوراس کی آرائش انتہاء کو پہنچائی جاتی ہیں، سب کام قرینے سے ہوتے ہیں۔ ہر چیز نئی اور خوش آئند لوگ اپنے دولھا پر شاداں وفرحاں اسے چاہنے والے اس کی تعظیم واطاعت میں مصروف اس کے ساتھ قسم قسم کی من مانتی نعمتیں پاتے ہیں۔ اور عادت یوں ہے کہ برأت کے مجمع کو سلطنت اور دولھا کو بادشاہ سے تشبیہ دیتے ہیں یا اس کا عکس کیا کہ سمجھا جائے کہ جس طرح برات کے مجمع کا مغز وسبب دولھا ہوتاہے یوہیں تمام مملکت الٰہی کے وجود کا سبب اوراس کے اصل راز ومغز ومعنٰی صرف مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہیں ع
دولھا کے دم کے ساتھ یہ ساری برات ہے
(۱؎ مطالع المسرات باب ابتداء اللہ تعالٰی مکتبہ نوریہ رضویہ لائلپور ص۲۲۳)
اس لئےکہ حضورتمام ملک وملکوت پر اللہ عزوجل کےنائب مطلق ہیں جن کو رب عزوجل نے اپنےاسماء وصفات کے اسرار کا خلعت پہنایا اور ہرمغرد ومرکب ہیں تصرف کا اختیار دیاہے، دولھا بادشاہ کی شان دکھاتا ہے، اس کا حکم برات میں نافذ ہوتاہے، سب اس کی خدمت کرتے ہیں اور اپنے کام چھوڑ کر اس کے کام میں لگے ہوتے جس بات کو اس کا جی چاہے موجود کی جاتی ہے، چین میں ہوتاہے، سب براتی اس کی خدمت میں اور اس کے طفیل میں کھانا پاتے ہیں، یوہیں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں بادشاہ حقیقی عزوجل کی شان دکھاتے ہیں، تمام جہاں میں ان کا حکم نافذ ہے، سب ان کی خدمت گار وزیر فرمان ہیں، جو وہ چاہتے ہیں اللہ عزوجل موجود کردیتاہے ماارٰی ربک الا یسارع فی ھواک ۱؎۔ صحیح بخاری کی حدیث ہے کہ ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہما حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے عرض کرتی ہیں میں حضور کے رب کو دیکھتی ہوں کہ حضور کی خواہش میں شتابی فرماتاہے،
(۱؎صحیح بخاری کتاب التفسیر باب قولہ ترجی من تشاء قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۷۰۶)
تمام جہاں حضور کےصدقہ میں حضور کا دیا کھاتاہےکہ
"انما انا قاسم واﷲ المعطی"۲؎
صحیح بخاری کی حدیث ہے کہ حضور پر نور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ ہر نعت کع دینے الا اللہ ہے اور بانٹنے والا میں ہوں۔ یوں تشبیہ کامل ہوئی اور حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم الٰہی کے دولھا ٹھہرے، والحمد اﷲ رب العالمین۔
ان تقریرات سے واضح ہوا کہ ان معانی پر دولھن، دولھا، زوج، زوجہ کی طرح باہم مفہوم متضائف نہیں۔ عسقلان وعزہ کو حدیث نے دولھنیں فرمایا، دولھا کون ہے؟ بہیقی شعب الایمان میں امیر المومنین مولی علی رضی اللہ تعالی عنہ سے بسند حسن روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
لکل شی عروس وعروس القراٰن الرحمٰن ۳؎۔
ہر شے کی جنس میں ایک دولھن ہوتی ہے اور قرآن عظیم میں سورۃ الرحمن دولھن ہے۔
(۳؎ شعب الایمان حدیث ۲۴۹۴ دارالکتب العلمیہ بیروت ۲/ ۴۹۰)
یہاں کسے دولھا ٹھہرائے گا؟ توقصیدہ سے وہ مہمل ملعون خیال پیدا کرنا کسی ایسے ہی کاکام ہوگا مگر حدیثیں تو اس سے بڑھ کر اوہام باطلہ والوں پر قہر ڈھائیں گی، حاکم صحیح مستدر اور امام الائمہ ابن خزیمہ اپنی صحیح اور بیہقی سنن میں حضرت ابو موسٰی اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: ان اﷲ تعالٰی یبعث الایام القیمۃ علی ھیأتھا ویبعث یوم الجمعۃ زھراء منیرۃ اھلھا یحفون بھا کالعورس تھدی الی کریمھا ۱؎۔
بیشک اللہ عزوجل قیامت کے دن سب دنوں کو ان کی شکل پر اٹھائے گا، اورجمعہ کو چمکتا روشن دیتا، جمعہ پڑھنے والے اس کے گرد جھرمٹ کئے ہوئے جیسے نئی دولھن کو اس کے گرامی شوہر کے یہاں رخصت کرکے لے جاتے ہیں۔ (ت)
(۱؎ المستدرک للحاکم کتاب الجمعہ باب سید الایام یوم الجمعہ دارالفکر بیروت ۱/ ۲۷۷)
امام اجل ابو طالب مکی قوت القلوب اور حجۃ الاسلام محمد غزالی احیاء میں فرماتے ہیں:
قال صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ان الکعبۃ تحشر کالعروس المزفوفۃ (قال الشارح الٰی بعلھا) وکل من حجھا یتعلق باستارھا یسعون حولھا حتی تدخل الجنۃ فید خلون معھا ۲؎۔
یعنی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا بیشک کعبہ روز قیامت یوں اٹھایا جائے گا جیسے شب زفاف دولھن کو دولھا کی طرف لے جاتے ہیں، تمام اہل سنت جنھوں نے حج مقبول کیا ا سکے پردوں سے لپٹے ہوئے اس کے گرد دوڑتے ہونگے یہاں تک کہ کعبہ اور اس کے ساتھ یہ سب داخل جنت ہوں گے۔
(۲؎ احیاء العلوم کتاب اسرار الحج باب فضیلۃ البیت مطبعۃ المشہور الحئی القاہرہ مصر ۱/ ۲۴۱
اتحاف السادۃ التقین کتاب اسرار الحج باب فضیلۃ البیت دارلفکر بیروت ۴/ ۲۷۴
قوت القلوب کتاب الحج ذکرفضائل البیت الحرم دارصادر بیروت ۲/ ۱۲۱)
نہایہ امام ابن الاثیر میں ہے:
منہ الحدیث ''یزف علی بینی وبین ابراہےم علیہ الصلوۃ والسلام الی الجنۃ'' ان کسرت الزاء فمعناہ یسرع من زف فی مشیہ وازف اذا اسرع وان فتحت فھومن زففت العروس ازفھا اذا احدیتھا الی زوجھا ۳؎۔
یعنی اسی باب سے ہے یہ حدیث کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ علی مرتضی میرے اور ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بیچ میں جنت کی طرف خوش خوش تیز چلیں گے، یامیرے اور ان کے بیچ میں جنت کی طرف یوں لیے جائیں گے جیسے نئی دولھن کو دولھا کے یہاں لے جاتے ہیں،
(۳؎ النہایہ لابن الاثیر باب الزء مع الفائ المکتبۃ الاسلامیہ الریاض ۲/ ۳۰۵)
امام اجل ابن المبارک وابن ابی الدنیا وابوالشیخ اورابن النجار کتاب الدرر الثمینہ فی تاریخ المدینۃ میں کعب احبار سے راوی کہ انھوں نے ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے سامنے بیان کیا اور کتاب التذکرہ میں امام ابو عبداللہ محمد قرطبی کے الفاظ یہ ہیں کہ:
روی ابن المبارک ن عائشۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہا انھا قالت ذکر وارسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم وکعب الاحبار حاضر فقال کعب الاحبار ۱؎۔
یعنی امام ابن المبارک نے ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کاذکر پاک تھا اور اس وقت کعب احبار حاضر تھے تو کعب احبار نے کہا ہر صبح ستر ہزار فرشتے اترکر مزار اقدس حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا طواف (عہ۱)کرتے اور اس کے گرد حاضررہ کر صلوٰۃ وسلام عرض کرتے رہتے ہیں۔ جب شام ہوتی ہے وہ چلے جاتے ہیں اور ستر ہزار اور اتر کر یوہیں طواف کرتے اور صلوٰۃ وسلام عرض کرتے رہتے ہیں، یوہیں سترہزار رات میں حاضر رہتے ہیں اور ستر ہزار دن میں۔
حتی اذا انشقت عنہ الارض خرج فی سبعین الفأمن الملٰئکۃ یزفون(عہ۲ )صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ۱؎۔
جب حضور انور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مزار مبارک سے روز قیامت اٹھیں گے ستر ہزار ملائکہ کے ساتھ باہر تشریف
لائیں گے جوحضور کو بارگار ہ عزت میں یوں لے چلیں گے جیسے نئی دولھن کو کمال اعزاز واکرام وفرحت وسرور وراحت وآرام وتزک احتشام کے ساتھ دولھا کی طرف لے جاتے ہیں۔
عہ۱: فی المواھب الشریفۃ من فجر یطلع الانزل سبعون الفامن الملٰئکۃ حتی یحفون ۲؎ الحدیث فقال العلامۃ الزرقانی ای یطوفون۳؎ الخ۔
مواہب شریف میں ہے ہر صبح ستر ہزار فرشتے آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوتے ہیں۔ علامہ زرقانی فرماتے ہیں
کہ یفون کا معنی یطوفون (طواف کرتے ہیں) ہے الخ (ت)
عہ۲: ھذا مافی المشکوۃ ومجمع بحار الانوار اوالمدارج الشریفۃ ولفظ التذکرۃ والمواھب یوقرونہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ۴؎ من التوقیر بمعنی التعظیم والکل صحیح، واﷲ تعالٰی اعلم ۱۲ منہ
یہ مشکوٰۃ، مجمع بحاالانوار اور مدارج شریف کے الفاظ ہیں۔ تذکرہ اور مواہب میں ہے اس کا معنی یوقرون ہے کہ وہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی تعظیم وتوقیر کرتے ہیں۔ اور تمام معانی صحیح ہے، واللہ تعالٰی اعلم ۱۲ منہ (ت)
(۱؎ شرح الزرقانی علی المواہب بحوالہ الدررالثمینہ المقصد العاشر الفصل الثالث دارالمعرفۃ بیروت ۸ /۳۴۹
التذکرۃ فی احوال الموتی باب فی بعث النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم من قبرہ دارلحدیث مصر ص۱۶۳)
(۲؎المواہب اللدینۃ المقصد العاشر الفصل الثالث المکتب الاسلامی بیروت ۴/ ۶۲۵ )
(۳؎ شرح الزقانی علی المواہب الدینیۃ القصدالعاشر دارالمعرفۃ بیروت ۸/ ۳۴۹)
(۴؎ التذکرۃ فی احوال الموتی والآخرۃ باب فی بعث النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم من قبرہ دارالحدیث مصر ص۱۶۳)
(۱؎ التذکرۃ فی احوال الموتی باب فی البعث النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم دارالحدیث مصر ص۱۶۳
مشکوٰۃ المصابیح باب الکرامات فضل الثالث مطبع مجتبائی دہلی ص۵۴۶)
مجمع بحارالانوار میں بعلامت ط علامہ طیبی شارح مشکوٰۃ سے بعد ذکر حدیث علی مثل عبارت مذکورہ نہایہ ہے :
ومنہ فی الوجھین فی سبعین الفا(عہ)من الملٰئکۃ یزفونہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ۲؎۔
سترہزار فرشتے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر آپ کا طواف کرتے ہیں (ت)
عہ: سقط الفاظ الفامن نسختہ الطبع فلیستبنہ ۱۲ منہ
اخبر رہیں کہ مطبوعہ نسخہ میں ''الفاً'' کا لفظ ساقط ہے ۱۲ منہ (ت)
(۲؎ مجمع بحار انوار تحت لفظ زفف مطبع نولکشور لکھنو ۲/ ۶۳)
شیخ محقق محدث دہلوی قدس سرہ مدارج میں اسی حدیث ک ترجمہ میں فرماتے ہیں:
چوں مبعوث می گردد و آنحضرت از قبر شریف بیروں می آید میان ایں فرشتگان زفاف می کنند اورا و زفاف دراصل بمعنی بروں عروس بخانہ زوج ومراد ایں جالازم معنی ست کہ بردن محبوت ست پیش محب یعنی بردن آں حضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بدرگاہ عزت ۳؎۔
جب آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مزار اقدس سے باہر تشریف لائیں گے تو فرشتوں نے دولھا کی طرح آپ کو گھیرا ہوگا۔ زفاف کا معنی دولہن کا خانہ زوج سے باہر آنا ہوتاہے،یہاں لازم معنی مراد ہے کہ محبوب کو محب کے پاس لے جانا یعنی حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو رب اکرم کی بارگاہ اقدس میں لے جانا (ت)
اب وہابیہہ بولیں کس کس کو کافرکہیں گے مگر ان کو اس پر تنبیہ بیکار، انکے مذہب کی بناء ہی اس پر ہے کہ اللہ ورسول تک کو مشرک بتاتے ہیں۔ پھر اور کس کی کیا گنتی، ان کے امام نے تفویت الایمان میں صاف لکھ دیا: ''جو کہے اللہ ورسول نے دولتمند کردیا، وہ مشرک ہے۴؎،''
(۴؎ تقویۃ الایمان )
حالانکہ بعینہٖ یہی کلمہ خود اللہ عزوجل وسید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے قرآن عظیم وحدیث صحیح میں فرمایاہے۔
قال اﷲ تعالٰی ومانقموا الاان اغنھم اﷲ ورسولہ من فضلہ ۱؎۔
اللہ تعالٰی نے فرمایا: اور انھیں کیا برا لگا یہی نا کہ اللہ ورسول نے انھیں دولتمند کردیا اپنے فضل سے۔
(۱؎ القرآن الکریم ۹ /۷۴)
صحیح بخاری وصحیح مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:
ماینقم ابن جمیل الا انہ ان کان فقیرا فاغناہ اﷲ ورسولہ ۲؎۔
ابن جمیل کو کیابرا لگاآخر یہی کہ وہ محتارج تھا اللہ ورسول نے اس کو دولتمند کردیا۔
(۲؎ صحیح بخاری کتاب الزکوٰہ باب فی قول اللہ تعالٰی وفی الرقاب ا لخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۱۹۸)
مسلمان دیکھیں کہ وہ بات جو اللہ جل جلالہ نے فرمائی اللہ کے رسول کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمائی، وہابیہ کا امام منہ پھیر کر کہہ رہاہے کہ جو ایسا کہے مشرک ہے، پھر بھلا جس مذہب میں اللہ ورسول تک معاذاللہ مشرک ٹھہریں اس سے مسلمانوں کو کافر کہنے کی کیا شکایت!
ولا حول ولاقوۃ الا باﷲ العلی العظیم۔ وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب منقلبون ۳؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
اللہ تعالٰی عظیم کی توفیق وتوانائی کے بغیر نہ برائی سے پھر نے کی قوت اور نہ نیکی بجالانے کی طاقت ، اب جاننا چاہتے ہیں ظالم کہ کس کروٹ پلٹا کھائیں گے ۔ واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)