فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۵(کتاب السیر) |
مسئلہ ۴۷: مسئولہ قاضی قاسم میاں از مقام گونڈل علاقہ کاٹھیا وار بروز چہار شنبہ ۴ ذی القعدہ ۱۳۳۳ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومشائخ عظام اس معاملہ میں کہ زید کہتاہے کہ سوائے خدا کے کچھ نہیں یعنی یہ بھی خدا وہ بھی خدا، زید بھی خدا، بکر بھی خدا ،علی ہذالقیاس، یعنی خالق ومخلوق نہیں، فعل فاعل مفعول خدا میں صورت بےصورت ہے، بے صورت صورت ہے ،نہ یہ ہے نہ وہ ہے ،نہ زید ہے نہ عمرو ہے نہ بکر ہے ،خدا ہی خداہے ، جن کی تائید میں یہ چن اشعار جو اپنے بنائے ہوئے ہیں وہ پیش کرتاہے، اور چند اشعار دیوان جام جم مصنفہ طالب حسین صاحب فرخ آبادی کے جو فرخ آباد کے مطبع مورس کمپنی بزریہ میں چھپی ہے پیش کرکے اپنا مسلک بتلاتے ہیں جو بطور نمونہ ذیل میں درج کئے جاتے ہیں۔ یہ اشعار بھی زیدخود کے ہیں جن کا تخلص اطہر ہے : بندے کو تو خدا کہوں اوراس کو کیا کہوں بند کو بندہ اور نہ خدا کو خدا کہوں اطہر ہی خدا ہے غرض دو میں ایک سے زیور کو زر کہوں نہیں اور کیا کہوں اگرسب بھول بیٹھا توخدا بھی بھول جااطہر کہ ہے یہ سب بڑا دھوکا خدا خود ہے خدا خود ہے میں ہی مرسل میں ہی مرسل میں ہی اخبار اور قرآن محمد اور میں ہی اللہ آہاہاہا، آہا ہاہا نہ مفتی ہے نہ خنجر ہے نہ حد ہے نہ شریعت ہے خداہے تواگرسچا انا الحق کہہ انا الحق کہہ خداہوکر نہ بندہ بن زباں کھول دے پیارے ہے یہ آزادی کا ر ستہ انا الحق کہہ انا الحق کہہ نہ رکھ روزہ نہ کرسجدہ نہ جاکعبہ میں توحج کو نہ ہے روزہ نہ ہے سجدہ انا الحق کہہ انا الحق کہہ خداتھا کب محمد تھے شریعت تو ہے مفروضہ نہیں ہے ماسواحق کا انا الحق کہہ انا الحق کہہ معوبود توخدا کو کہے حور پر مرے شہوت پر ست گرنہ کہو اس کو کیا کہوں اللہ کے سوا نہیں پھر بولتاہے کون اطہر تجھے خدا نہ کہوں اور کیا کہوں اطہر تو برائے نام ہوں میں حیرت نہیں ہے اللہ ہوں میں عارف ہے اگر تو شک مت لاؤ اور نہیں میں اور نہیں آپ ہی عرش اور آپ ہی کرسی، آپ ہی دوزخ اور جنت آپ مکیں ہے آپ مکان ہے کیا کیا شور مچایا ہے کافر کو تو براکہوں مومن کو کیا کہوں! اچھا کہوں نہ اس کو نہ اس کو برا کہوں مصنفہ طالب حسین فرخ آبادی: بنا ایک وحدت کی تصویرمیں ہوں مرید آپ ہی، آپ ہی پیر میں ہوں نہ دیکھاہو جس نے اسے مجھ کو دیکھے نہاں وعیاں اس کی تصویر میں ہوں عذاب کس کا ثواب کیسا گناہ کہتے ہیں کس یارو وہی ہے فاعل جو خیر وشر کا خطا ہے عطا خطا ہے عجب معمہ ہے یہ عزیز وخلا ملا ہے ملاخلا ہے برابھلا اب کہوں میں کس کو بھلا براہے برابھلاہے (۱) مذکورہ بالاعقیدہ کو حضور پرنور شافع یوم النشور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے سینہ کا علم بتاتاہے جو آج تک سینہ بہ سینہ مشائخ طریقت میں چلاآتاہے اوراسی کا نام وصول الی اللہ ہے، (۲) اور یہی زید ظاہر میں نماز کے لئے اٹھتا ہے تواپنے مریدوں کے سامنے یہ بھی کہتاہے کہ ذرا خدا کو دھوکا دے لوں، اسی طرح قولی اور فعلی کاروائی کرکے شریعت مطہرہ سے وہ وہ نفرتیں دلاتاہے کہ مسلمان کے کلیجے پاش پاش ہوجاتے ہیں۔ (۳) اور یہی زید وعظ میں بھی پکار پکار کرکہتاہے کہ شریعت تمھارے ماں باپ نے بھی سکھائی، شریعت تو تمھارے استادوں نے بھی سکھائی، شریعت تو تمھارے مولویوں نے بھی سکھائی مگر خدا کے ملنے کا تو رستہ کچھ اور ہے اوریہ تو منترکچھ اورہے اور اسی قسم کے دھوکے دے کر مسلمانوں کو اپنی مریدی کی طرف راغب کرتاہے اورمرید کرکے مذکور عقیدہ اوریہی اللہ کی تعظیم کرتاہے یعنی خالق مخلوق نہیں۔ اب التماس یہ ہے کہ اس زید کا عقیدہ کیساہے، مسلمان اس کے ساتھ کیا برتاؤ کریں، شرع شریف میں ا س کے لئے تعزیزی بھی ہے یا نہیں، مسلمانوں کو اس کی مریدی سے خارج ہوکر بعد توبہ جدید نکاح کا ضرورت ہے یا نہیں؟ اگر جدید نکاح کی ضرورت ہے تو پہلا مہرکافی ہے یانہیں، اگر اس جدید نکاح میں عورت قبول نہ کرے تو کیا صورت ہے؟ کتاب تذکرہ غوثیہ مسلمانوں کے پڑھنے اور عمل کرنے کے قابل ہے یا نہیں؟ براہ مہربانی اوپر کے سوالوں کے جوابات مفصل طور سے ارقام فرماکر عنداللہ ماجور ہوں وعندالناس مشکور ہوجئے گا۔ فقط
الجواب صورت مذکورہ میں زید یقینا کافر مرتد ہے، اس کے کلام سرتاپاکفر سے بھرے ہوئے ہیں، مثلا (۱) زیدوعمر وبکر سب کو خدا کہنا (۲)خداکو مخلوق اور مفعول کہنا (۳)بندہ کو خدا کہوں (۴) خدا کو خدا نہ کہوں دوسرا (عہ) شعر لکھنے میں سائل سے کچھ رہ گیا ہے (۵) تیسرے شعرمیں خدا کے بھول جانے کی فرمائش اورکہ یہ بھی بڑا دھوکا ہے (۶)چوتھے شعر میں اپنے آپ کو اللہ کہنا (۷) رسول کہنا (۸) قرآن کہنا (۹) پانچویں شعرمیں شریعت کا انکار (۱۰)اناالحق کہنے پر اصرار (۱۱)چھٹے شعر میں بھی یہی (۱۲)بندہ بننے کی ممانعت (۱۳)ساتویں میں وہی (۱۴)بروجہ انکار نماز روزے، حج کی ممانعت (۱۵)آٹھویں شعر میں خدا کی نفی (۱۶)شریعت کو فرضی وساختہ بتانا کہ سیاق وسباق سے یہی مراد متعین ہے۔ (۱۷) وہ ان الحق (۱۸)دسویں شعر میں خدا بننا (۱۹)گیارھویں میں بھی یہی (۲۰)تیرھویں میں مومن کو اچھا نہ کہنا کافر کو برا نہ کہنا، یہ بیس کفر تو زید کے کلمات مذکور میں کھلے کھلے ہیں۔ (۲۱) سولھویں شعرمیں عذاب وثواب کاا نکار (۲۲) سترھویں شعر میں بھلے کو برا، برے کو بھلا کہنا (۲۳) ان صریح عقائد کفر ملعون کو حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طر ف نسبت کرنا (۲۴)کفر کو وصول الی اللہ بتانا (۲۵)نماز کے لئے ا س کا کہنا کہ خدا کو دھوکا دے لوں اس کے کلمات سابقہ کے لحاظ سے لائق تاویل نہ رہا، معنی استہزاء میں متعین ہوگیااور وہ کفر ہے (۲۶)شریعت سے نفرت دلانا (۲۷)شریعت کو راہ خدا نہ ماننا
عہ: ظاہراً یوں ہے ع اطہر ہے یا خدا ہے الخ
بالجملہ زید ان کافروں میں ہے جن کو فرمایاگیا ہے
من شک فی عذاب وکفرہ فقد کفر ۱؎
جو اس کے کافر ہونے میں شک کرے خود کافر ہے۔
(۱؎ درمختار باب المرتد مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۳۵۶)
سلطنت اسلام ہوتی تو اس کی تعزیز یہ تھی کہ بادشاہ اسلام اسے قتل کرتا، اس کا اختیار غیر سلطان کو یہاں نہیں۔ مسلمانوں کو اس سے میل جول حرا، اس سے سلام کلام حرام، اس کے پاس بیٹھنا حرام، اس کا وعظ سننا حرام، وہ بیمار پڑے تو اسے پوچھنے جانا حرام، مرجائے تو غسل دینا حرام، کفن دینا حرا،م، جنازہ اٹھانا حرا، جنازہ کے ساتھ چلنا حرام، اس پرنماز حرام، اسے مسلمانوں کے گورستان میں دفن کرنا حرام، اسے مسلمانوں کی طرح دفن کرنا حرام، اس کے لئے دعا ئے بخشش کرنا حرام، اسے کچھ ثواب پہنچانا حرام، اسکی قبر پر جانا حرام، جوان باتوں میں سے کوئی بات اسے مسلمان جان کر کرے گا یا اس کی موت کے بعداس کے لئے دعائے بخشش کرے گا یا اسے ثوب پہنچائے گا اگرچہ اسے کافر جان کر وہ خود کافر ہوجائے گا جو لوگ اس کے مرید اس کے ہوچکے ہیں ان پر فرض ہے کہ اس سے جدا ہوں دور بھاگیں کہ وہ بیعت اس کے ہاتھ پر نہیں ابلیس کے ہاتھ پر ہوئی، پھر ان مریدوں میں جو اس کے ان کفروں سے آگاہ تھے اور اس کے بعد مرید ہوئے یا بعد مریدی کے آگاہ ہوئے اور اس کی بیعت سے الگ نہ ہوئے وہ سب بھی اسلام سے خارج ہیں، ان پر بھی فرض کہ نئے سرے سے مسلمان ہوں، تو بہ کریں، تو بہ واسلام کے بعد ان کی عورتون اگر ان سے دوبارہ نکاح پر راضی نہ ہوں تو ان پر جبر نہیں۔ عورتیں جس سے چاہیں اگر عدت گزر چکی ہے تو ابھی ورنہ بعد عدت اپنا نکاح کرلیں اور اگر انھیں سے دوبارہ نکاح کریں، تو مہر جدید لازم آئیگا اورپہلا مہر بھی اگر باقی ہے دینا ہوگا۔ کتاب تذکرہ غوثیہ جس میں غوث علی شاہ پانی پتی کا تذکرہ ہے ضلالتوں، گمراہیوں بلکہ صریح کفر کی باتوں پر مشتمل ہے مثلا غوث علی شاہ جگن ناتھ کی چوکی پراشنان کرتے ملے کسی نے پہچانا تو بولے کہ اس شخص کے دو باپ تھے، ایک مسلمان اس کی طرف سے حج کرآیا ہے، دوسرا باپ ایک پنڈت تھا اس کی طرف سے جگن ناتھ تیرتھ کرنے آیا ہے ایسی ناپاکی بے دینی کی کتاب کا دیکھنا حرام ہے جس مسلمان کے پاس ہو جلا کر خاک کردے، واﷲ الھادی الی صراط مستقیم (اللہ تعالٰی ہی صراط مستقیم کی ہدایت دینے والا ہے۔ ت) واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۴۸: مسئولہ عبدالرحمن طالب علم مدرسہ چھیپوں احمد آباد گجرات ۷ ربیع الآخر ۱۳۳۴ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ چند اشخاص کی موجودگی میں ایک مرید نے اپنے پیر کی شان میں یہ قصیدہ پڑھا اورپیر نے اس قصیدہ کو سن کر پڑھنے والے کو کہا کہ تومیرا حبیب ہے اور اس کے بعد یہ قصیدے منبر پر پڑھے جاتے ہیں اوراس کے جواز کا حکم پیر نے دیا آیا شرعا یہ قصیدہ جائزہیں یا نہیں؟ قصیدہ مذکوریہ ہے : مرحبا یا مرحبا یاشاہ لواری مرحبا نورالہدٰی خیرالورٰی یاشاہ لواری مرحبا یا امام العالمین وانتحاب اولین ختم ولایت مقتدا یا شاہ لواری مرحبا پیشوائے اولیا توبرگزیدہ ذوالجلال شافع ہر دو سرایا شاہ لواری مرحبا کن عطا فضل وکرم امروز فرد اے کریم صامع بجز تونیست کس یاشاہ لواری مرحبا یا بشیر ویانذیر واے شہ اولوالعزم ملجائے والا صفیا یا شاہ لواری مرحبا منعم ومسجود قیوم وجہان بحرکرم طالب ومطلوب ومصدر یا شاہ لواری مرحبا ذات تو احد ولے میم موجودات او خلق عالم راسبب یا شاہ لواری مرحبا قاب قوسین توئی گفت مازاغ البصیر جائے تو رشک مدینہ یا شاہ لواری مرحبا سید کونین سالار سل گنج نہاں یامحمدن الزمان یا شاہ لوارٰی مرحبا ہست مدعا مظہرذات تو مسند نشیں لایموت ولم یزل یاشاہ لواری مرحبا مشکل کشا احمد زماں القاہ اللہ بہرما آوارہ پرورحافظایا شاہ لواری مرحبا
الجواب یہ خالص کفرہے اوراس کا قائل اس کا اجازت دہندہ، اس کا پسند کنندہ سب مرتدہیں، کسی امتی کو آں سرور عالم کہنا، علیہ الصلٰوۃ کہنا، مسجود ومخلوق کہنا،خیرالورٰی کہنا، انتخاب اولین کہنا، شافع ہر دوسرا کہنا، سید کونین کہنا تو حرام وجزاف تھا ہی یوہیں خلق عالم راسبب اورقاب قوسین اور مازاغ البصر اورجائے تو رشک مدینہ کہنا، ان میں بہت کلمات موہم کفریا منجر بکفر ہیں، مگر ذات تو احد اور سالار رسل اور مسند نشین لم یزل کہنا قطعا یقینا کفر ہے۔ یوہیں فقہائے کرام نے قیوم جہاں غیر خدا کو کہنے پر تکفیر فرمائی۔مجمع الانہر میں ہے :
اذا اطلق علی المخلوق من الاسماء المختصۃ بالخالق
(جل وعلا) نحوالقدوس والقیوم والرحمن وغیرہا یکفر ۱؎ اھ، واﷲ تعالٰی اعلم۔
اگر کوئی اللہ تعالٰی کی صفات مختصہ میں سے کسی صفت کا اطلاق مخلوق پر کرے، مثلا اسے قدوس کے یاقیوم یا رحمن کہے تو کافر ہوجائے گا اھ واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)
(۱؎ مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر باب المرتد ثم ان الفاظ انواع داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ /۶۹۰)
مسئلہ ۴۹: از کلکتہ محلہ دہی ہٹہ ۸۱ مولوی ولی اللہ خاں صاحب ۵ شعبان المعظم ۱۳۳۵ھ بروز چہار شنبہ
حضرات علمائے کرام کچھ عرصہ سے ایک ضخیم کتاب گلزار وحدت مصنفہ پیر جی نجم الدین متوطن جہنجون ضلع جے پو رطبع ہوئی جس میں جابجا ملحدانہ مولات مندرج ہیں مشتے نمونہ اخروارعرض ہے:
وہی وہی کوئی اور نہ دوجا اس بن کوئی اورنہ سوجا ہررنگ سے بے رنگی آیا ہر ہر بھیس سے آپ دکھایا آپ ہی دیکھتے آپ ہی دکھاوے پھروہ آپ کو آپ سراوے کہیں محمد ہوکر آیا ہادی مہدی نام دھرایا کہیں عارف ہو اگیانی اپنی اپنے قدرپہچانی کہیں عاشق ہوئے پھرے دیوانا کہیں معشوق محبوب یگانہ کہیں عابد ہوکرے عبادت کہیں زاہد ہوکرے ریاضت کہیں مؤذن بانگ سناوے آپ ہی آپ کو سیس نواوے کہیں برہمن سنکھ بجایا آپ ہی اپنا مرجس گایا کہیں رند ہوا شرابی راگ رنگ جنگ ربابی کون ہے آدم کون ہے ابلیس کون سلیمان اور بلقیس یہ سب انچھر وہ ہے معنا پہن لیا ہے ایسا بانا یہ سب روپ اسی نے دھارے ایک ایک سے بھی نیارے ص ۳: ایک نے اتنے نام دھرائے ایک ایک سے بھی نیارے اول ہوکر آخر ہوا ظاہر ہو کر باطن بیا کہیں واجب معبود کہلایا کہیں ممکن بندہ بن آیا جیسے جل کر برف بنائی جل بن اس میں ا ور نہ کائی جوں حباب دریا سے اٹھے آخر اس کا اس میں میٹے بیرنگی بہ رنگ لے آیا ہر ہر نتھہ میں آپ پوجایا مکھ پر چادر میم کی رکھ کر آپ غفور احمد اپنا نام دھر جگ میں کیا ظہور نجما دیکھ اس یار کی رمزوں کی دستور ہر رنگ میں بیرنگ رہا دو رکا دور
ص ۴۷: پھر جس شخص نے خلق اور خالق کو دو سمجھے اور ایک نہ جانا وہ مشرک ہے کہ مبتلا ہوا بیچ شرک خفی کے، اور جس شخص نے کہا ذات کو ساتھ فردیت کے یعنی خلق اور خالق کو ایک سمجھا وہ موحد ہے۔ ص ۵۹: اے عزیز چھٹا مرتبہ انسان کامل کا ہے وہ مشرک ہے مرتبوں ذاتی اور خلق میں یعنی اگر اس تعین بشریت کے خیال سے اس کو دیکھے تو آد می اور اگراس کی کمالیت فقر کی طرف دیکھے تو اللہ تعالٰی ہے بموجب ا س قول کے، قول صوفیہ: اذااتم الفقر فھواﷲ(جب فقر مکمل ہوا تو اللہ ہوا۔ ت)
ص ۱۱۹ ص ۱۲۰: نقل ہے کہ جب حضرت شیخ محی الدین ابن عربی نے درس توحید شروع کیا اور مسئلہ وحدۃ الوجود کو ظاہر فرمانے لگے۔ چنانچہ یہ رباعی ان کی تصنیف ہے :
لا آدم فی الکون ولاابلیس لاملک سلیمان ولابلقیس فالکل عبارۃ وانت المعنی یامن ھو للقلوب مقناطیس
یعنی آدم ہے نہ شیطان ہے جہان میں نہ ملک سلیمان علیہ السلام کا نہ بلقیس کا، پھر یہ سب عبارت ہیں اور واس عبارت کے معنی ہے اسے وہ کوئی جو واسطے دلوں کے لوہ چکا ہے۔ ف: یعنی جس طرح پتھر لوہ چگی کا ہوہ کو اٹھالیتا ہے، اسی طرح دلوں مخلوق کو اپنے تابع کر رکھتے ہیں، غرضکہ شیخ مذکور نعرہ ہمہ اوست کا مارنے لگے، علماؤ ں نے اس میں صلاح اور مشورہ کئے، کرے اور بتلائے کہ یہ فقیر تو شریعت میں رخنہ ڈالنے لگا۔ اول تو اس کو قائل کرو، اگر نہ مانے گا تو اس کو ماریں گے، غرضکہ سب کی صلاح سے ایک شخص نے ان علماؤں سے آکر شیخ کے پاس عرض کیا کہ حضرت آپ کی دعوت ہے آپ ہی نے قبول کری، اس شخص نے کئی قسم کے کھانے پکائے اور ایک خوان میں جدا جدا برتنوں میں دھرلایا اور ایک رکابی میں پلیتی بھی بھر کر اس خوان میں لایا۔ آپ نے وے تمام کھانے جو نفیس تھے کھائے اور پاخانہ نہ کھایا، جب اس شخص نے کہاکہ حضرت اس کو بھی کھالو ی بھی کوئی غیر نہیں ہے۔ وہ ہی ہے، شیخ نے فرمایا بہت اچھا ان کے مکان کے صحن میں ایک حوض پانی کا تھا آپ نے پانی میں غوطہ مارکر خوک کی صورت ہوکر نکلے اور اس پاخانہ کوکھالیا، اور پھر حوض میں غوطہ مارا اور آدمی کی شکل ہوکر نکل آئے اور فرمایا اے عزیز وہ طعام بھی میں نے کھایا اور یہ پاخانہ بھی میں نے کھایا مگر طعام واسطے صورت انسان کے تھی اور پاخانہ واسطے شکل خوک کے بناکر آیا وہ میں ہی تھا کہ آدمی تھا اور خوک ہوگیا، حضرات اسی طرح تمام کتاب جو ۴۲۵ صفحوں پر لکھی گئی ہے مضامین الحادیہ سے مملو ہے، بارہا پیر جی مذکور کے متبعین سے جو ایک جماعت جہلاکی ہیے، کہا گیا کہ یہ کتاب سراسر عقائد کو خراب کرنے والی اور ناقابل عمل ہے مگر جواب یہی ملتاہے کہ علمائے عظام حنفی المذہب سے اس کے متعلق استفسار کیا جائے جو ارشاد ہوگا اس کے مطابق عمل کیا جاوے گا۔ اس لئے یہ چند حوالہ جات معروضہ بالامقالات مختلفہ سے نقل کرکے استدعا ہے کہ عندالشرع اس شخص کا معہ اس کے مریدین اور متبعین کے جوحکم ہو بوضاحت تحریر فرماکر مزین بمہر فرمائیں تاکہ جماعت جہلاء جوان کے دام تزویر میں ہے رہائی پاکر راہ یاب ہوں۔ واللہ تعالٰی ھوالموافق۔
الجواب یہ کلمات الحاد ہیں اور حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عر بی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی نسبت جو وہ ملعون حکایت نقل کی ہے محض کذب وافتراء وساختہ ابلیس لیعین ہے، توحید ایمان ہے، اور وحدۃ وجود حق اور زعم اتحاد الحاد، صوفیہ کرام تو صاحب تحقیق ہیں اور ان کے ایسے مقلدین ملحد ونذیق ہیں، اس کتاب کا جس کے پاس ہو اس پر جلادینا فرض ہے اور سامنے دیکھنا حرام اور اس پر اعتقاد رکھنا کفر یہیں سے اس شخص کے مریدین اور متبعین کا حال ظاہر۔ واللہ تعالٰی اعلم۔