Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۵(کتاب السیر)
43 - 150
مسئلہ ۴۴: از میرٹھ کوٹھی سید محمد حسین صاحب بیرسٹر مسئولہ محمد مجتبٰی خاں ۱۵ ذی الحجہ ۱۳۳۹ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ تبلیغ خلافت کی غرض سے جامع مسجد میں ایک جلسہ ہوا جس میں ہنود بھی شریک ہوئے، دوران تقاریر میں مسلمانوں نے اللہ اکبر کے نعرے لگائے اور ہنود نے بندے ماترم، مہاتما گاندھی کی جے، تلک مہاراج کی جے کے نعرے لگائے، کیا ہنود کو مساجد میں اس قسم کے نعرے لگانا جائزہے؟ اور اگر بعض مسلمانوں نے خود اپنی زبان سے اسی مقام پر دوران تقاریر میں اہل ہنود کے ساتھ یا خود پیش قدمی کرتے ہوئے اس قسم کی جے کی آوازین بلند کی ہوں تو ان کا کیاحکم ہے؟
بینوا بالدلیل توجروا من الرب الجلیل
(دلیل کے ساتھ بیان کرو رب جلیل سے اجر پاؤ۔ ت)
الجواب

مشرکین کی جے پکارنا ان کی تعظیم ہے اور کافروں کی تعظیم کفرہے، فتاوٰی ظہیریہ واشباہ ودرمختار میں ہے، تبجیل الکافر کفر ۱؎ (کافر کی تعظیم کفرہے۔ ت)
 (۱؎ الاشباہ والنظائر    کتاب السیروالردۃ    ادارۃ القرآن کراچی    ۱/ ۲۸۸

درمختار         کتاب الحظرو الاباحۃ    مطبع مجتبائی دہلی    ۲/ ۲۵۱)
ایسے کلمہ گویوں پر لازم ہے کہ نئے سرے سے اسلام لائیں، پھر اپنی عورتیں رکھنا چاہیں تو ان سے از سر نو نکاح کریں، بلکہ ایسے جلسوں میں جو مضامین باطلہ و مخالف شرع ہوتے ہیں پر بہ نیت تحسین اللہ اکبر کہنا بھی حرام قطعی ہے کہ ذکر الٰہی کی توہین ہے۔ مشرکوں کو مسجد میں اس طرح لےجانا اور ان کا اپنےکلمات کفربالاعلان کہنا اور مسلمان کہلانے والوں کا اسی پر راضی ہونا باجماع امت حرام ہے، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
انما بینت المساجد لما بنیت لہ ۲؎ (وفی اخری) لذکر اﷲ والصلوۃ وقراء ۃ القراٰن ۳؎۔
مسجدیں تو صرف اس لئے بنیں جس لئے بنیں، دوسری روایت میں ہے وہ تو اللہ تعالٰی کی یاد اورنماز اور تلاوت قرآن کے لئے بنیں۔
 (۲؎صحیح مسلم    کتا ب المساجد    قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱ /۲۰۱)

(۳؎ صحیح مسلم   باب وجوہ غسل البول الخ   قدیمی کتب خانہ کراچی     ۱/ ۱۳۸)

کنزالعمال     حدیث ۲۰۷۹۳    موسسۃ الرسالۃ بیروت    ۷/ ۶۶۱)
یہاں تک کہ صحیح حدیثوں میں فرمایا: جو مسجد میں اپنی گمی چیز کو پوچھے ا س سے کہو لا رداﷲ علیک ضالتک وان المساجد لم تبن لھذا ۱؂ اللہ تیری گمی چیز کو تجھے نہ ملائے مسجدیں اس لئے نہ بنیں، نہ کہ کافروں کے لے جانے اور مشرکوں کی جے پکروانے کے لئے،مگر کیا کیجئے کہ ان لوگوں کے دل مسخ ہوگئے، انھوں نے مشرک کے غلام ہوکر اللہ ورسول کے سب احکام منسوخ کردئیے،
 (۱؎ جامع الترمذی    ابواب البیوع النہی عن البیع فی المسجد     امین کمپنی کتب خانہ رشیدیہ دہلی    ۱/ ۱۵۸)
احمق بے عقل وجاہلوں کی کیا گنتی ساری کمیٹی میں سب سے بڑے عالم کہلانے والے مولوی عبدالباری فرنگی محلی ہیں جنھوں نے جلسہ مدراس میں اپنے منہ سے اپنے آپ کو نہ صرف عالم بلکہ بہت بڑا مجدد کہا وہ اقرارلکھ رہے ہیں کہ وہ بالکل پس روگاندھی کے ہیں اس کو اپنا رہنما بنالیا ہے جو وہ کہتاہے وہی مانتے ہیں انا ﷲ وانا الیہ راجعون ۳؎ (ہم اللہ کے مال ہیں اور ہم کو اسی کی طرف پھرنا ہے۔ ت) ا س کانام دین ہے اس کانام اسلام ہے حالانکہ رب عزوجل فرماتاہے: اگرتم نے کافروں کاکہا مانا تو ضرور تم بھی مشرک ہو۔
ولکن الظالمین بایت اﷲ یجحدون ۳؎o وسیعلم الذین ظلموا ای متقلب ینقلبون ۴؎o واﷲ تعالٰی اعلم۔
بلکہ ظالم اللہ کی آیتوں سے انکار کرتے ہیں اور اب جان جائیں گے ظالم کہ کس کروٹ پر پلٹا کھائیں گے، واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)
 (۲؎ القرآن الکریم       ۲/ ۱۵۶)

(۳؎ القرآن الکریم         ۶/ ۲۳)

(۴؎ القرآن الکریم         ۲۶/ ۲۳۷)
مسئلہ ۴۵: از مانڈے برمارود نمبر ۲۹ زرباری مرسلہ حاجی حسین احمد صاحب ماسورتی سوداگر آہن

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میںکہ ایک شخص نے اپنے وعظ میں کہا کہ فرعون نے ایک نماز میں خداوند کریم سے پانی کی دعا مانگی اور کہا میں تجھ کو وحدہ، لاشریک لہ جانتاہوں میری دعا قبول فرما، پس اس کی دعا قبول ہوئی آج کل کے مسلمانوں کا ایمان اگر فرعون جتنا بھی ہوتا سب جنت میں چلے جاتے، دوسری بات یہ کہی کہ ترک موالات پانچ بنائے اسلام سے بڑھ کرہے، پس ایسے واعظ کے لئے کیا حکم ہے ایسے ملعونہ کلمات سے کافر ہوایا نہیں؟ اگر نہیں تو فاسق ہوایا نہیں؟ اس کی امامت کا کیا حکم ہےـ؟ بینوا تو جروا
الجواب

اس کی دو نوں باتیں کفر ہیں، فرعون بالاجماع وبنص قطعی قرآن کافر تھا،
قال اﷲ تعالٰی کذبت قبلھم قوم نوح و اصحاب الرس وثمود o وعاد فرعون واخوان لوطo واصحاب الأیکہ وقوم تبع  کل کذ الرسل فحق وعید ۱؎۔
اللہ تعالٰی نے فرمایا: ان کافروں سے پہلے رسولوں کو جھٹلایا نوح کی قوم اور رس والوں اور ثمود نے اور فرعون اور قوم لوط نے اور ایکہ والوں اورتبع کی قوم نے ان سب نے رسولوں کو جھٹلایا تو تکذیب رسل پر ہم نے جو وعید فرمائی تھی ان سب پر ثابت ہوگئی۔
 (۱؎ القرآن الکریم    ۵۰ /۱۲ تا ۱۴)
مسلمانوں کے ایمان کو اس کافر اکفر کے ایمان سے کم کہنا صریح کفرہے، یہ کفر کو ایمان پر تفضیل دینا ہے، کافر میں ایمان کہاں اور ہ بھی مسلمانوں کے ایمان سے افضل، جس کانام ان لوگوں نے ترک مولات رکھاہے، اول تو وہ ہرگز ترک مولات نہیں، مشرکوں سے صراحۃ مولات کررہے ہیں بلکہ ان کے غلام بن رہے ہیں، ان میں جذب ہوچکے، ان میں فنا ہو رہے ہیں، مشرک کے پس روہوئے، اسے اپنا رہنما بنالیا، جو وہ کہتاہے وہی مانتے ہیں، ان کے سب سے بڑے عالم مولوی عبدالباری فرنگی محلی نے صاف صاف ان باتوں کا اقرار اکیا اور صراحۃ لکھ دیا کہ میں نے قرآن وحدیث کی تمام عمر بت پرستی پر نثار کردی، قرآن عظیم نے بکثرت آیتوں میں تمام کفار سے موالات قطعا حرام فرمائیں مجوس ہوں خواہ یہود ونصارٰی ہوں، خواہ ہنود، اورسب سے بدتر مرتدان ہنود، ا ور یہ مدعیان ترک موالات مشرکین مرتدین سے یہ کچھ

 موالات برت رہے ہیں۔ پھر ترک موالات کا دعوٰی، اس کی نظیر یہی ہوسکتی ہے کہ کوئی مشرک مہادیو کو پوجتا جائے اور کہے دیکھو شرک بہت بری چیز ہے سوا خدا کے کسی کو نہ پوچنا وغیر خدا کو سجدہ نہ کرنا، نصارٰی سے ترک معاملت جائز دنیویہ جس کانام انھوں نے ترک موالات رکھاہے ور اسے فرض بلکہ مدار ایمان بتاتے ہر گز شریعت نے اسے واجب نہ کیا، یہ ان کا شریعت پر افتراء اور ان کا بلکہ ان کے رہنما گاندھی کا اختراع ہے، ان سب امور کی تفصیل ہماری کتاب المجحۃ المؤتمنہ میں ہے۔ اور بفرض غلط اگر یہ واجب بھی ہوتی تو اسے اسلام کی پانچوں بناؤن سے بڑھ کر کہنا صریح کفر تھا، اللہ عزوجل کو ایک اور نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اس کا رسول برحق ماننے کے برابربھی کوئی فرض نہیں ہوسکتا، سب فرض اس کے نیچے ہیں اور اس کے سبب مقبول، یہ نہ ہو تو سب مردود،
قال اﷲ تعالٰی وقدمنا الی ماعملوا من عمل فجعلنہ ھباء منثوراo۲؎
اللہ تعالٰی نے فرمایا: اور جو کچھ انھوں نے کام کئے تھے ہم نے قصد فرماکر انھیں باریک باریک غبار کے بکھرے ہوئے ذرے کردیا۔ (ت)
 (۲؎القرآن الکریم    ۲۵/ ۲۳)
وقال تعالٰی من یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ وھوفی الاٰخرۃ من الخسرین ۱؎۔
اور اللہ تعالٰی نے فرمایا: اور جو اسلام کے سوا کوئی دین چاہے گا وہ ہرگز اس سے قبول نہ کیا جائیگا اوروہ اخرت میں زیاں کاروں سے ہے۔ (ت)
(۱؎ القرآن الکریم     ۳/ ۸۵)
بالجملہ واعظ مذکور کے کفر میں کوئی شک نہیں اور اس کے پیچھے نماز ایسی ہے جیسی گاندھی کے پیچھے، اس کی عورت نکاح سے نکل گئی، اسے واعظ بنایا اس کا وعظ سننا درکنار مسلمانون کو اس سے میل جول اس کے پاس اٹھنا بیٹھنا، اس سے سلام کلام، اس کی موت وحیات میں کوئی معاملہ اہل اسلام سب یکسر حرام جب تک وہ اپنے کلمات ملعونہ سے توبہ کرکے اسلام نہ لائے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۴۶: مسئولہ حکیم عبدالرحمن محلہ جمال پورہ مقال سون پت ضلع رہتک ۱۱ شوال امعظم ۱۳۳۴ھ

منبع الفضل وبرکات الزمان مولانا احمدر ضاخان ادامہ اللہ تعالٰی بالفیض والاحسان، السلام علیکم ورحمۃ اللہ تعالٰی، اما بعد واضح رائے عالی ہو کہ بسط البنان کے رد میں آنجناب کے دو رسالہ ''ادخال السنان'' اور ''واقع اللسان'' دیکھے جن کے مطالعہ سے تمام شکوک رفع ہوگئے اور اپ کی اقصی مراتب کی تحقیق سے دل خوش ہوا، اما ایک یہ شبہ باقی رہ گیا ہے امید ک اس معما کو عما فہم عبارت میں کارڈ ملصقہ پر حل فرماکر تشفی فرمائیں گے، شبہ یہ ہےکہ چونکہ ''ادخال السنان'' کے تمام دلائل سے تو حضور سرور کائنات علیہ افضل التحیات کا عالم الغیب ہونا بماکان وبمایکون کاپیش از وفات ہی باحسن طریقہ ثابت ہوگیا، لیکن مشکوٰۃ شریف کے باب الشفاعت میں صحیحین کی حدیث میں یلھنی محمامدہ احمدہ بھا لاتحضرنی الاٰن ۲؎ (مجھے ایسے محامد کا الہام ہوگا جن کا اس وقت مجھے علم نہیں۔ ت) سے معلوم ہوتاہے کہ یہ محامدہ وثنا مستثنٰی ہیں یعنی بہ محامد حضرت کو قیامت کے اس وقت خاص سے پیشتر نہیں عطا کئے گئے کیونکہ ترمذی شریف میں اسی باب میں لم یفتحہ علی احد قبلی ۳؎ (مجھ سے پہلے کسی کو عطا نہیں کی گئیں۔ ت) فرمایا ہے۔
 (۲؎ مشکوٰۃالمصابیح    باب الحوض والشفاعۃ    مطبع مجتبائی دہلی        ص۴۸۸)

(۳؎ جامع الترمذی    باب ماجاء من الشفاعۃ    امین کمپنی کتب خانہ رشیدیہ دہلی    ۲ /۶۶)
اور شیخ دہلوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اس کی شرح اشعۃ المعات میں اسی طرح کی ہے :

ہم دران وقت نورے خاص از مقام قرب و معرفت در دل من افتد کہ علم آن محامد اثران باشد ۱؎۔

مقام قرب ومعرفت سے اس وقت میرے دل میں ایک نور خاص پیدا ہواگا جو ان محامد کا اثر ہوگا۔ (ت)
 (۱؎ اشعۃ المعات ترجمہ مشکوٰۃ (فارسی)     باب الحوض والشفاعۃ        مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر        ۴/ ۳۸۸)
اوراس حدیث سے تیسری حدیث کے اس جملہ لم یفتحہ علی احد من قبلی کی شرح میں لکھتے ہیں:
نکشادہ الہام نکردہ برہیچ یکے پیش ازمن بلکہ برمن نیز پیش ازیں وقت چنانچہ از حدیث سابق لائح می شود ۲؎۔
مجھ سے پہلے ان کا کسی پر الہام نہ ہوگا بلکہ میں بھی ا س سے پہلے ان کونہ جانوں گا جیسا کہ سابقہ حدیث سے واضح ہے۔ (ت)
 (۲؎اشعۃ المعات ترجمہ مشکوٰۃ (فارسی)  باب الحوض والشفاعۃ  مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر۴ /۳۸۹)
اور شیخ اکبر محی الدین ابن عربی فتوحات مکیہ میں گویا اسی حدیث کو بیان فرماتے ہیں:
فیاتی ویسجدویحمداﷲ بمحامد یلھمہ اﷲ تعالٰی ایاہ فی ذلک الوقت لم یکن  یعلم قبل ذلک الوقت ۳؎۔
آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تشریف لاکر سجدہ ریزی کرینگے اور اللہ تعالٰی کی ایسی محامد کریں گے جن سے اللہ تعالٰی آپ کو اس وقت نوازے گا اس سے پہلے وہ آپ کے علم میں نہ ہوں گی۔ (ت)
 (۳؎ فتوحات مکیہ الباب الخامس والعشرون وثلثمائۃ الخ  داراحیاء التراث العربی بیروت ۲/ ۸۷  و ۴۰۳  و ۳/ ۹۲ و ۹۳)
پس ان عبارات سے صاف معلوم ہوتاہے کہ یہ محامد اسی وقت تعلیم ہوں گے، اور یہ محامد بھی من جملہ مایکون سے ہے، تو گویا ابھی تک اس کا علم حضور کو نہیں۔ اورگویا بعض اشیاء کا علم نہ ہوا جیساکہ ا س حدیث سے ظاہر ہوا، تو تمام اشیاء کا علم نہ ہوا اور اس میں احتمال ذہول بھی نہیں رہتا کیونکہ خود اس سے انکار فرماتے ہیں کہ ہم کواس کا علم عطا نہیں ہوا۔ امیدکہ مفصل جواب عطافرمائیں گے، اطمینان کے لئے دریافت ہے، اورمرقاۃ میں اس کی کیا شرح کی گئی ہے؟
الجواب

مولانا المکرم اکرمکم! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،، کارڈ کے مطالعہ سے محظوظ ہوا، مولٰی تعالٰی آپ کو برکات دے،ایسی حق پسندی وحق جوئی نہایت قابل مسرت ہے۔ ماکان ومایکون جس کے ذرہ ذرہ کا احاطہ کلیہ قرآن عظیم واحادیث صحیحہ وارشادات ائمہ سے آفتاب روشن کی طرح ثابت ہے، اس کے معنی ماکان من اول یوم  ویکون الی اخر الایام یعنی روز اول آفرینش سے روز قیامت تک جو کچھ ہوا اور ہونے والا ہے ایک ایک ذرے کا علم تفصیلی حضور کو عطا ہوا، شرق وغرب میں سمٰوٰت وارض میں عرش وفرش میں کوئی ذرہ حضور کے علم سے باہر نہیں۔ ذات وصفات حضرت عزت احاطہ وتناہی سے بری ہیں، ممکن نہیں کہ جمیع مخلوقات کا علم مل کر اس کی ذات علیہ یا کسی صفت کریمہ کو محیط ہوسکے کبھی کوئی اسے پورا جان سکے گا۔ مومنین واولیاء وانبیاء اور خود حضور سید الانبیاء علیہ وعلیہم افضل الصلوات واکمل التسلیمات ابدالاباد تک اس کی معرفت میں ترقی فرمائیں گے، ہر روز اس کے وہ محارم معلوم ہوں گے جوکل تک نہ معلوم تھے اوریہ سلسلہ ابد تک رہے گا کبھی ختم نہ ہوگا۔ روزانہ بے شمار علوم متعلق ذات وصفات ان پر منکشف ہوں گے اور ہمیشہ ذات وصفات میں نامتناہی غیر معلوم رہے گا کہ وہ محیط کل ہے کسی کے احاطہ میں نہیں آسکتا۔ وہ حدیث متعلق بہ محامد علوم ذات وصفات میں ہے اور بیشک حق ہے اوردعوٰی اہل حق کو کچھ مضر نہیں۔ ولہ الحمد وھو تعالٰی اعلم۔
Flag Counter