مسئلہ ۴۰: از قصبہ رچھاروڈ ضلع بریلی مسئولہ حکیم محمد احسن صاحب ۹ شوال ۱۳۳۹ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں پر کسی فعل ناجائز کے سبب کفر کا فتوٰی دینا جائز ہے یا نہیں ہے؟ بینوا تو جروا
الجواب
فعل ناجائزکہ صرف گناہ ہو محض اس کی وجہ سےکفر کا فتوٰی دینا سید وغیر سید کسی پر بھی جائز نہیں واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۴۱ تا ۴۲: از جمشید پور ڈاک خانہ خاص ضلع سنگھ بھوم آفس کارکمبے مسئولہ حمید اللہ ۹ شوال ۱۳۳۹ھ
(۱) مسلمان یا ہندو کسی مسلمان کا نام لے کر کہیں کہ فلاں شخص کی جے۔ جیسے شوکت علی محمد علی کی جے، یہ درست ہے یا نہیں؟
(۲) شوکت علی وغیرہ کے مجلسوں میں جانادرست ہے یا نہیں؟ اورلفظ مہاتما کہنا جائز ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا
الجواب
(۱) جے جو کافر بولتے ہیں جیسے گاندھی وغیرہ کی یاعام ہنود کی، یہ بحکم فقہائے کرام کفر ہے، درمختار وغیرہ میں ہے: تبجیل الکافر کفر ۱؎ (کافر کی تعظیم کفر ہے۔ ت) یونہی جو نام کا مسلمان حد کفر تک پہنچ گیا ہو اس کی جے کا بھی یہی حکم ہے،اور مسلمان کی جے بولنا بھی منع ہے کہ کفار سے مشابہت ہے۔
(۱؎ درمختار کتاب الحظروالاباحۃ فصل فی البیع مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۲۵۱)
(۲) مشرک کو مہاتما کہنا حرام ہے بلکہ بحکم فقہائے کرام کفر ہے اور ان کے جلسوں میں جانا ناجائز۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۴۳: از محلہ سوداگران مسئولہ حضرت ننھے میاں صاحب مدظلہم ذی القعدہ ۱۳۳۹ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ امام نے یہ
رکوع یایھا الذین اٰمنوا کونوا انصار اﷲ ۲؎
(اے اہل ایمان! ہوجاؤ اللہ تعالٰی کے مددگار۔ ت) پڑھا پھرمن بنی اسرائیل کی جگہ منکم کہہ گیا۔
(۲؎ القرآن الکریم ۶۱/ ۱۴)
زید نے بعد سلام کہا کہ قرآن عظیم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے فرماتاہے: اللہ کے مددگار ہوجاؤ، پھر بنی اسرائیل کی حالت دکھائی جاتی ہے کہ ایک گروہ ان میں سے ہمارا فرمانبرادر ہوا ور ایک فرقہ نے کفر کیا منکم کی ضمیر گویاانصار اللہ ک طرف تم نے راجع کی تو معاذاللہ صحابہ کے دو گروہ ہوگئے اس پر امام نے جواب دیا کہ قرآن عطیم عامہ مسلمین سے بھی خطاب فرماتاہے کفار سے بھی خطاب فرماتاہے اگر ایسا نہیں یعنی مخاطبہ اس کا صرف صحابہ کرام ہی سے ہو تو اوامرا ونواہی سب اٹھ جائیں گے اور کوئی کافر کافر نہ رہے گا۔ اور یہ کہہ دے گا کہ ہم کو کوئی حکم نہیں پہنچا، ا س پر زید نے کہاکیا ہم کمینے اس قابل نہیں کہ قابل نہیں کہ قرآن عظیم ہم سے مخاطبہ فرمائے، صحابہ سے اس نے خطاب فرمایا ان کے صدقہ میں ہم کوملا، عالمگیر دنیا کا بادشاہ ایک چمار سے بات کرنے میں اپنی تذلیل سمجھے گا۔ ہماری نسبت قرآن عظیم سے وہ نہیں جو چمار کو علمگیر سے ہے، کافروں سے مخاطبہ نہیں بلکہ ان کو جھڑکیاں دینا ہے
وامتازوا الیوم ایھا المجرمون ۱؎
(اور جدا ہو جاؤ آج کے دن اے مجرمو۔ ت)
(۱؎ا لقرآن الکریم ۳۶/ ۵۹)
یہ جھڑکی ہے یا مخاطبہ، شہنشاہ مجرم بدمعاش بدکار کو حکم سزا سنایا کرتا ہے اس کو کلام نہیں کہتے، صحابہ کرام کے پاک ذکر میں طغیان کلام میں یہ بھی زید کے منہ سے نکل گیا کہ اگر وہ ایسی جان نثاری اور ایسی کوششیں نہ فرماتے تو مورخین تاریخ میں لکھ دیتے کہ ایک صاحب پیدا ہوئے اور انھوں نے یہ دعوٰی کیا، ان پر کتاب اتاری گئی اس کے سوا اور کچھ پتا نہ چلتا۔ یہ انھیں کی جانبازیوں کا نتیجہ ہے جو ہم مسلمان ہیں، ان کا احسان اسلام پر قرآن پر اور سب پر، اگر معاذاللہ احسان سے قائل کی نیت اس وقت غصہ یا حماقت کے سبب منت نہادن ہو تو اس کی نسبت کیا حکم ہوگا حالانکہ زید کے اندر کے دل کا اعتقادیہ ہے کہ قرآن عظیم پر کسی کا احسان نہیں حتی کہ جس اکرم الاکرمین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر ا س نے نزول اجلال فرمایا ان کا بھی کوئی احسان اس پر نہیں بلکہ اسی کے احسانات بے نہایت ہیں، وہ اپنے عقیدے میں روح ایمان کے طریقہ پر رکھتاہے کہ اس کی ایک آیت کریمہ خود حضور پر نور سیدالمرسلین نبی الانبیاء اور جمیع مخلوقات الٰہی سے افضل تر ہے کہ وہ باری عزوجلالہ کی صفت کریمہ ہے اور یہ مخلوق وہ قدیم ہے اور یہ حادث اور وہ نماز ہوئی یا نہیں؟ بینوا تو جروا
الجواب
نماز تو یقینا ہوگئی، ضمیر منکم صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہ کو پھرنی کچھ ضرور نہیں، التفات بھی ہوسکتاہے، اور پھرے بھی تو حرج نہیں، بعض کہ اس وقت الذین امنوا اور بظاہر صحابہ میں داخل تھے معاذاللہ بعد کو مرتد ہوگئے جن سے صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے قتال فرمایا جس کا ذکر آیہ کریمہ:
یٰایھا الذین امنوا من یرتد منکم عن دینہ فسوف یاتی اللہ بقوم یحبھم ویحبونہ اذلۃ علی المؤمنین اعزۃ علی الکفرین یجاھدون فی سبیل اﷲ ولایخافون لومۃ لائم ذلک فضل اﷲ یؤتیہ من یشاء واﷲ واسع علیم ۱؎۔
اے ایمان والو! تم میں جو کوئی اپنے دین سے پھر جائے گا تو عنقریب اللہ ایسے لوگ لائے گاکہ وہ اللہ کے پیار ےاور اللہ ان کا پیارا، مسلمانوں پر نرم اور کافروں پر سخت،اللہ کی راہ میں لڑیں گے اور کسی کی ملامت کرنے والے کی ملامت اندیشہ نہ کریں گے، یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہےدے، اور اللہ وسعت والا علم والاہے۔
(۱؎ القرآن الکریم ۵ /۵۴)
یہاں بھی یایھاالذین اٰمنوا سے خطاب فرمایا او را نھیں میں سے بعض معاذاللہ مرتد ہوئے، او وہ اللہ کے پیارے صدیق اکبر اور ان کے پیرو ہوئے، زید کاکہنا کہ خطاب الٰہی صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم سے ہے اورہم بالطبع داخل ہیں بہت صحیح ہے، اور واقعی قرآن کریم کفا رسے زجر کے سوا خطاب کم فرماتا ہے، غالبا اپنے حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو حکم دیتاہے کہ ان سے یوں فرمادو،
اللہ تعالٰی نے فرمایا: اے وہ لوگوں جو موسی وعیسٰی پرایمان کانام لیتے ہو، یعنی یہود ونصاری اللہ سے ڈرو اورا س کے رسول محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر ایمان لاؤ تمھیں اپنی رحمت کا دوہرا حصہ دے گا اور تمھارے لئے نور کردے گا جس سے صراط پر چلو اور تمھارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
(۶؎القرآن الکریم ۵۷/ ۲۸)
معالم شریف میں ہے :
یایھاالذین اٰمنوا اتقواﷲ، الخطاب لاھل الکتابین من الیہود والنصاری یقول یایھا الذین اٰمنوا بموسی وعیسی اتقوا اﷲ فی محمد صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ۱؎۔
اے اہل ایمان! اللہ کا تقوٰی اختیار کرو، یہ یہود ونصارٰی اہل کتاب کو خطاب ہے فرمایا اے وہ لوگو! جو موسٰی وعیسی پر ایمان لائےتمھیں حضرت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے بارے میں ڈرنا چاہئے۔ (ت)
(۱؎ معالم التزیل علی ہامش الخازن تحت آیۃ یایھاالذین آمنوا اتقواللہ الخ مصطفی البابی الحلبی المصر ۷/ ۴۰)
زید نے جو کچھ مدح صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم میں کہا سب حق ہے اور سچی محبت صحابہ سے ناشی ہے اور وہ لفظ احسان کہ اس کی زبان سے نکلا اس کی توجیہ نہایت صاف وآسان ہے، قرآن مصحف کریم کو بھی کہتے ہیں، ا س قرآن مجید کا ہدیہ کیا ہے، فلاں نے قرآن عظیم کو ہبہ کیا، یا فلاں مسجد پر وقف کیا، یا قرآن کریم کی جلد بندھواؤ، یا چولی چڑھاؤ، یا غلاف سی دو، ان تمام محاورات میں قرآن سے مصحف ہی مراد ہے، اور بلاشبہ یہ محاورہ عام شائع متعارف ہے اور مصحف یعنی یہ اوراق اور ان پر یہ نقوش ساتی روشنائی ضرور حادث وجنس مخلوق ہے، اور اجلہ کا اس سے افضل ہونا ممکن نہ ہو یہ کسی دلیل قطعی سے ثابت نہیں بلکہ جب جنگ صفین میں امیر المومنین مولٰی علی کرم اللہ وجہہ کے حضور قرآن عظیم بلند کیا گیا فرمایا:
ھذا مصحف صامت وانا مصحف ناطق۔
یہ خاموش قرآن ہے اور میں قرآن ناطق ہوں۔ اگر قرآن سے زید کی یہی مراد تھی تواس پر کچھ الزام نہیں اور اس کاوہ بیان کہ میں قرآن کو ایسا جانتاہوں، استدراک ودفع وہم ہوگا، یعنی قرآن حقیقی کی نسبت تومیرا یہ اعتقاد ہے جو حرف بحرف ہے، مگر حضو ر اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اکرم الاولین کہنے کے اجازت نہیں، یہ نام پاک عرف میں رب العزت کے لئے ہے، حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اکرم الاولین والآخرین ہیں، غرض زید کی نسبت حکم فتوٰی تو یہ لکھا کہ اس کا کلام معنی صحیح رکھتا ہے، اور وہ کسی سخت الزام کا مورد نہیں________لیکن وہ اپنی نیت کوخوب جانتاہے اور اس کا رب اس سے اعلم، اگریہ کلمہ اس نے قرآن حقیقی قدیم ہی کی نسبت کہا ہو توا س صورت میں ضرور حکم سخت ہوا،ا س تقدیر پر تجدید اسلام لازم ہوگی پھر اس کے بعد تجدید نکاح وبیعت وحج کے احکام، قرآن عظیم غنی عن العلمین ہے، وہ اس سے پاک ومنزہ ہے کہ تمام عالم میں اس کا اس پر کچھ احسان ہو، اگر سارا جہان کفر کرتا اس کی عظمت میں ذرہ بھر فرق نہ آتا اور اگر سارا جہاں ایمان لے آئے اس کی عظمت میں ذرہ بھر اضافہ نہ ہوکہ اس کی عظمت نا محدود ہے اور نامحدود پر اضافہ محال، بالجملہ یہ معاملہ زید اور اس کے رب میں ہے شرعا اس پر کوئی الزام نہیں کہ صاف تاویل موجودہ ہے، ہاں حفظ زبان کی احتیاط لازم، واللہ تعالٰی اعلم۔