مسئلہ ۳۴: از پڑاوہ علاقہ ریاست ٹونک محلہ سلطان پورہ مسئولہ ابراہیم ۲۸ رمضان ۱۳۳۹ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص اپنے ہاتھوں سے تعزیہ بناتاہے اور پرستش جیسے افعال اس سے سرزد ہوتے ہیں یعنی منت وغیرہ ماننا، اس شخص میں اور بت پرست میں کیا فرق ہے؟ اس کی زوجہ اس کے نکاح میں رہی یا نہیں؟ بینوا تو جروا
الجواب
تعزیہ بنانا ناجائز ہے مگر ہر گز کوئی مسلمان اس کی پرستش نہیں کرتا نہ اسے معبود جانتاہے، یہ مسلمان پر شدید بد گمانی ہے اور بدگمانی حرام، اوروہ منتیں کہ مانی جاتی ہیں عرفی یا اختراعی ہیں شرعی نہیں، بلکہ خود نذر شرعی کے عبادت ہونے میں کلام ہے۔ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے صحیح حدیثوں میں نذر ماننے سے منع فرمایا اور عبادت سے منع نہیں کیا جاتا۔ صحیحین میں ابوہریرہ وعبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہم سے ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لاتنذروا فان النذر لایغنی من القدر شیئا وانما یستخرج بہ من البخیل ۱؎۔
نذر نہ مانو تقدیر کے آگے نذر کچھ کام نہیں دیتی اس سے تو فقط اتنا ہوتاہے کہ بخیل سے مال نکال لیا جاتاہے۔
(۱؎ صحیح مسلم کتاب النذر قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۴۴)
اولیاء کے لئے نذرعرفی(ف) صدہا سال سے مومنین وصالحین میں معمولی ہے جس کا بیان ہماری کتاب ''السنیۃ الانیقہ فی فتاوی افریقہ'' میں ہے غرض اس کی زوجہ کا اس کے نکاح میں نہ رہنا محض بلاوجہ خیال باطل ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
(ف: نذر عرفی اور نذر فقہی کی وضاحت فتاوٰی رضویہ جلد ۱۳ مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور کے ص ۵۹۷ پر مسئلہ ۲۴۹ کے تحت فتاوٰی افریقہ سے نقل کردی گئی ہے اسے وہاں ملاحظہ کیا جاسکتاہے ۱۲)
مسئلہ ۳۵: از غازی پور یوپی مسئولہ قاضی محمود احمد صاحب ۲ شوال ۱۳۳۹ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ایسے شخص کی امامت کے بارے میں جو خلافت اسلامیہ کی تباہی اور مقامات مقدسہ پر قبضہ ہونے اعدائے دین اسلام کی مسرت میں شرکت کرتاہو اورمصیبت زدہ مسلمان کوئی ایسی تدبیر کرتے ہوں جس سے خلافت اسلامیہ کا وقار قائم ہوجائے اور جزیرۃ العرب پر اسلامی حکومت قائم ہوجائے تومسلمانوں کے خلافت قاتلان اسلام کی نہ صرف امداد کرتاہو بلکہ ان کی تحسین وتبریک اور ایسی مجالس میں شرکت کرتاہوں جوخلافت کی تباہی وبربادی کے واسطے کی جاتی ہوں، اس سے تمام اہل اسلام کے قلوب متنفر ہوں کیا اس کے پیچھے نماز جائزہے یا نہیں؟ بینوا توجروا
الجواب
اگر یہ باتیں واقعی ہیں کہ وہ معاذاللہ شکست اسلام پر مسرت کرتاہے اور قاتلان مسلمین کی تحسین، تو اس کی قابلیت امامت درکنار اس کے اسلام ہی میں کلام ہے، باقی وہ ناجائز طریقے جو مدعیان حمایت نے نکال رکھے ہیں اورجس میں مشرکین سے محبت وداد بلکہ اتحاد بلکہ غلامی وانقیاد برت رہے ہیں، وہ سب مخالف قرآن عظیم ہیں، مسلمانوں کو ان سے جدائی فرض ہے
، قال اﷲ تعالٰی لاتجدقومایومنون باﷲ والیوم الاخریوا دون من حاد اﷲ ورسولہ ولوکانوا اٰباؤھم وابنائھم اواخوانھم اوعشیرتھم ۱؎۔
اللہ تعالٰی نے فرمایا: تم نہ پاؤ گے انھیں جو ایمان رکھتے ہیں اللہ وقیامت پر کہ اللہ ورسول کے مخالفوں سے دوستی کریں
اگرچہ ون ان کے باپ یابیٹے یا بھائی یا عزیز ہوں۔
(۱؎ا لقرآن الکریم ۵۸/ ۲۲)
اور فرماتاہے :
ولوکانوا یؤمنون باﷲ والنبی وما انزل الیہ مااتخذوھم اولیاء ۲؎۔
(۲؎ ا لقرآن الکریم ۵/ ۸۱)
اور اگر انھیں اللہ اور نبی اور قرآن پر ایمان ہوتا تو کافروں کو اپنا دوست یا مدد گار نہ بناتے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۳۶ و ۳۷: ازسہسرام محلہ پرتالہ ضلع آرہ مسئولہ قدرت اللہ صاحب ۵ شوال ۱۳۳۹ھ
(۲) کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص نے اثنائے تقریر میں کہا کہ غلاف کعبہ جلادیا گیا، دوسرے نے کہا کیا ہوا دوسرا غلاف آجائے گا۔ اس پر کہا گیا کہاں سے آئے گا، قسطنطیہ سے تو نہیں آسکتا۔ تو اس نے جواب دیا کیا کعبہ کو جاڑا لگتاہے، ایسا کہنے والے کے لئے عندالشرع کیا حکم ہے؟
(۲) خلیفۃ المسلمین کے لئے احکام کو ماننا یا ان کی مدد کرنا ان کے وقار کو قائم رکھنا اندر حدود والوں پر فرض ہے یا ہندوستانیوں پر بھی؟ بینوا تو جروا۔
الجواب
(۱) ا س کے کلام سے استہزا مترشح ہوتاہے اس پر توبہ فرض ہے، اور اگر معاذاللہ فی الواقع کعبہ معظمہ سے استہزا مقصود ہو تو کفر ہے۔
(۲) احکام سلطانی اس کے قلمرو تک ہیں اور اعانت وحمایت ابتداءً ا س ملک والوں پر ہے اور وہ عاجز ہوں یانہ کریں تو قریب والوں پر یونہی منتہائے دنیا تک، مگر ہر فرض بقدر استطاعت ہے اور ہر مطالبہ بقدر قدرت، بحالت موجودہ ہندوستانیوں کو جہاد قائم کرنے کی اجازت شرع میں نہیں۔ کما ھو مبین فی المحجہ المؤتمنۃ (جیسا کہ المحجۃ المؤتمنۃ میں اس کا تفصیلی بیان ہے۔ ت) واللہ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۳۸: ا ز سرکار اجمیر مقدس لنگر گلی مسئولہ حکیم غلام علی صاحب ۶ شوال ۱۳۳۹ھ
اگر کوئی مولوی اپنے مدرسہ کے دروازے پر اور خلافت کے بورڈ پر اور خلافت کی ٹوپی پر اور خلافت کی رسید پر فقط اجمیر لکھے کیا اجمیر کے ساتھ شریف نہ لکھنا اور اصلی نام غلام معین الدین پر غلام نہ لکھا خلاف عقیدہ اہلسنت ہے یا نہیں؟ بینوا تو جروا
الجواب
اجمیر شریف کے نام پاک کے ساتھ لفظ شریف نہ لکھنا اور ان تمام مواقع میں اس کا التزام کرنا اگر اس بنا پر ہے کہ حضور سیدناخواجہ غریب نواز رضی اللہ تعالٰی عنہ کی جلوہ افروزی حیات ظاہری و مزار پرانوارکو (جن کے سبب مسلمان اجمیر شریف کہتے ہیں) وجہ شرافت نہیں جانتا تو گمراہ بلکہ عدواللہ ہے۔ صحیح بخاری شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ عزوجل فرماتاہے :
من عادٰی لی ولیاً فقد اٰذنتہ بالحرب ۱؎۔
جس نے میرے کسی دوست سے دشمنی کی اس کے خلافت میرا اعلان جنگ ہے۔ (ت)
(۱؎ صحیح البخاری کتاب الرقاق قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۹۶۲ و ۹۶۴)
اور اگر یہ ناپاک التزام بربنائے کسل وکوتاہ قلمی ہے تو سخت بے برکتا اور فضل عظیم وخیر جسیم سے محروم ہے کما افادہ الامام المحقق محی الدین ابوزکریا قدس سرہ فی الترضی (جیسا کہ امام محقق محی الدین ابوزکریا قدس سرہ نے ترضی میں بیان فرمایا ہے۔ ت) اور اس کا مبنٰی وہابیت ہے تو وہابیت کفرہے، اس کے بعد ایسی باتوں کو کیا شکایت ؎
ماعلی مثلہ بعد الخطاء
(خطاء کے بعد اس کی مثل مجھ پر نہیں۔ ت)
اپنے نام سے لفظ غلام اس بناپر ہے کہ حضور خواجہ خواجگان رضی اللہ تعالٰی عنہ وعنہم کا غلام بننے سے انکار واستکبار رکھتاہے، توبدستور گمراہ اور بحکم حدیث مذکورہ عدواللہ ہے اور اس کا ٹھکانا جہنم،
قال اﷲ الیس فی جہنم مثوی للمتکبرین ۱؎
(اللہ تعالٰی کا ارشاد گرامی ہے: کیا نہیں جہنم میں ٹھکانا متکبرین کا۔ ت)اور اگر بربنائے وہابیت ہے کہ غلام اولیائے کرام بننے والوں کو مشرک اور غلام محی الدین وغلام معین الدین کو شرک جانتاہے تو وہابیہ خود زندیق، بے دین،
کفار ومرتدین ہیں والمکافرین عذاب مھین ۲؎
(اور کفار کے لئے رسوا کرنے والا عذاب ہے۔ ت)
واللہ تعالٰی اعلم۔
(۱؎ القرآن الکریم ۳۹ /۶۰) (۲؎ القرآن الکریم ۵۸/ ۵)
مسئلہ ۳۹: از رانی کھیت محکمہ ملٹری وائس مسئولہ ثناء اللہ سب اوورسیئر ۶ شوال ۱۳۳۹ھ
علمائے دین اس مسئلہ میں کیا فرماتے ہیں کہ میں نے ایک شخص سے کہا کہ تمھارا رکوع، سجودبالشرع نہیں ہے، اس پر اس نے فوراً یہ کہا یہ آج سے القط ہے، جوآج سے نماز پڑھے وہ مادر ......... ہے اور اس سے کہا کہ تم نے داڑھی منڈوائی توکہا کہ سنت ہے، ایسے شخص پر کیا حکم ہے؟ بینوتو جروا۔
الجواب
اس کا دوسرا لفظ کہ داڑھی منڈوانے کے جواب میں کہا سنت ہے، اگر داڑھی منڈوانے کو سنت کہا تو ضرور کلما کفر ہے، اور اگر یہ مطلب تھاکہ داڑھی رکھنا صرف سنت ہے، فرض واجب نہیں کہ اس کے ترک سے میں نے گناہ کیا تو اگرچہ اس کا یہ جواب شیطانی ہے مگر کفر سے بچ جائے گا، لیکن وہ گالی جوا س نے نماز پڑھنے والے کو دی ضرور کلمہ کفر ہے اس پر فرض ہے کہ نئے سرے سے مسلمان ہو پھر عورت کو رکھنا چاہے تو اس سے دوبارہ نکاح کرے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔