مسئلہ ۳۱: از جی آئی پی ریلوے اسٹیشن بھوساول مسئولہ عبدالباسط ۱۳ رمضان ۱۳۳۹ھ
مسلمانوں نے اتفاق کیا کہ جو مسلمان نماز نہ پڑھے گا وہ برادری سے خارج سمجھا جائے گا اس پر چند افراد جو نماز و روزہ وحج وزکوٰۃ کے پابند نہ ہوں عالم کے سمجھانے پر بھی نہ مانیں اور کہیں کہ پہلے شرابیوں اور زانیوں کو برادری سے خارج کرنا یہ ضرور اور فرض ہے سوا اس کے نصیحت کرنے والے عالم کو کہیں کہ تم جھوٹے ہو اور تم پر خدا کی لعنت ہے حالانکہ وہ عالم ان کا امام ہے تو ایسے بے نمازیوں کو ابھارنے اور جرأت دینے والے اور باوجود تاکید عالم کو جھوٹا اور لعنتی بنانے والے مسلمان (بے نمازیوں) کوشرع شریف کے موافق کیا تنبیہ ہونی چاہئے؟ ایسا کہنے والے ایمان سے خارج ہوچکے اور انھیں تجدید ایمان اور تجدید نکاح کرانا ضرورہے یا نہیں؟ اگر ایسے اشخاص اپنی بات رکھنے کے لئے نادانی سے یا مغروری سے استفتاء نہ پڑھیں نہ تجدید نکاح شرم سے کریں اور مرجائیں تو مسلمان ایسوں کی میت میں جائیں اور قبرستان میں دفن کریں یا نہیں؟ بینوا تو جروا
الجواب
وہ لوگ سخت اشد کبیرہ کے مرتکب ہوئے، موردغضب جبارہیں، مستحق نار ہیں، مستحق لعنت پر وردگارہیں، مگرا تنی بات پر صاف حکم کفر ان پر نہیں ہوسکتا، اگر مرجائیں تو ان کے ساتھ اسلامی برتاؤ فرض ہوگا ہاں اگر کوئی خاص مکالمہ ایسا تھا جس پر یہ جواب دینا موجب کفر ہو تو اس کا ذکر سائل نے نہ کیا۔ واللہ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۳۲: از درنگر دایا مہسانہ گجرات گاڑیکے دروازہ بنجارہ چاندا ر سول کے پاس والا مکان مسئولہ عبدالرحیم احمد آبادی ۲۲ رمضان المبارک ۱۳۳۹ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین کہ سیدالاولین والآخرین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر الزام لگانا اور ان کو اپنے جیسا جاننا کفر ہے یا نہیں؟ تفصیل اس کی یہ ہے کہ جو وقت زید وعمر میں جھگڑا ہوا، عمرو نے زید کے پاس ایک رقعہ بھیجا جس کی نقل یہ ہے، قولک مجھ کو اس کا مطلق رنج نہیں، اقوال یہ بات تو سراسر غلط ہے کیونکہ سب وشتم اور برا کہنے سے مانند مقناطیس کے جس طرح لوہے میں اثر پیداکرتاہے اسی طرح دل پر اثر ہوجاتاہے، خواص ہوں یا عوام، نبی ہویا ولی سب کے دل پر غم تو ضرور سرایت کرتاہے، دیکھئے ہمارے پیشوا فخر عالم محمد مصطفی صلی اللہ تعالٰی تعالٰی علیہ وسلم کو کفا ر قریش کی ایذا دہی وطعن زنی کی وجہ سے دل پر غم وحزن کا صدمہ ازحد پہنچا تھا ہر وقت غم کی تسلی کے لیئے اللہ جل شانہ نے وقتا فوقتا جبریل علیہ السلام کی معرفت نازل فرمایا، جیسے قرآن مجید میں فرماتاہے :
اور اے محبوب تم صبر کرو اور تمھارا صبر اللہ ہی کی توفیق سے ہے اور ان کا غم نہ کھاؤ اور ان کے فریبوں سے دل تنگ نہ ہو۔ (ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۱۶ /۱۲۷)
اب فرمائیے یہ الفاظ کفریہ ہے یا نہیں؟ بینوا تو جروا (بیان فرمائے اجر پائے۔ ت)
الجواب
سوال کی تفصیل سائل نے تحریر کی اس کے دیکھنے سے یہ الزام ثابت نہیں ہوتے کہ اس نے معاذاللہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر الزام رکھنا چاہا، یا عیاذا باللہ حضور کو اپنے جیسا جانا، واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۳۳: از مدراس بتوسط جناب سید شاہ مخدوم محی الدین صاحب قاری نائب متولی مسجد وا لاجاہی ترملکھیڑی مسئولہ جناب شاہ محمد حسین صاحب قادری نائب قاضی اہلسنت مدراس ۲۲ رمضان ۱۳۳۹ھ
حضرت مولانا المحترم دام فیضکم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،،مزاج گرامی، ایک استفتاء بغرض جواب مرسل خدمت گرامی ہے، امید کہ جلد جواب باصواب مرحمت فرمائیں گے کیونکہ مدراس میں ایک شخص جو اپنے آپ کو قومی لیڈر کہلواتا ہے اور اپنے اخبار میں ہمیشہ بزرگان دین کی توہین کرتاہے جس کے سبب قوم میں تفرقہ پڑرہاہے اس کی تنبیہ اور خلق اللہ کی ہدایت کےلئے آپ کو تکلیف دی جاتی ہے امید کہ جواب سے سرفراز فرماکر عنداللہ ماجور رہوں گے
استفتاء: کیا فرماتے ہیں علمائے دین متین کہ ایک مدراسی پرچہ نویس فاتحہ دلانے والوں پر شر انگیزی کرتاہے جس کے خیالات یہ ہیں: ''فاتحہ بدعت اور زیارت تربتہا ئے مطہرہ قبر پرستیاں اور اس کی تحریر سے حضرت غوث اعظم محی الدین عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے فاتحہ دلانے والوں اور متبرک طعام کھانے والوں کو نام کی پوجا قبر کی پرستش کرنے والوں، خلافت کا خون پینے والے اور حضرت غوث الاعظم کی پاک ہڈیوں کو چبانے والے سنایا جارہاہے، ۱۱ ربیع الآخر کے اخبار میں لکھا ہے: ''آج اس کے مریدوں اور متعقدوں کو یہ حال ہے کہ نام کی پوجا اور قبر کی پرستش کررہے ہیں مگر خلافت کا خون پی رہے ہیں، حضرت غوث اعظم کی پاک ہڈیوں کو چبا رہے ہیں، الخ'' ۲ ربیع الاول کے پرچہ میں لکھا کہ: ان بدمعاشوں کو اس پر رونا نہیں آتا کہ حضرت شاہ بغداد کی روح کو کافروں نے ذلیل کیا ہے'' اور ۱۴ ربیع الاول ۱۳۳۹ھ کے پرچے میں لکھا ہے جس کا عنوان یہ ہے: ''جادو وہ جو سر پر چڑھ کے بولے کہ اجل کا فرشتہ بندر بن کر شاہ یونان کو کاٹا۔'' ۱۵ ماہ محرم ۱۳۳۷ھ کے پرچے میں لکھا ہے: ''اذان میں محمد رسول اللہ (صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم) سن کر انگوٹھے چوم لینا یا موئے مبارک کی زیارت کرلینا یا آثار خانہ کے روبرو سے گزرتے ہوئے گردن جھکا دینا یا جمعہ یا جمعرات کو فاتحہ کرلینا یہ باتیں رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی اطاعت نہیں۔'' ایسے شخص کے لئے شرع شریف میں کیا حکم کرتی ہے، ایسے شخص کو مولانا، فخر قوم، فخر مسلمانان، لیڈر قوم کا لقب دینا دائرہ اسلام میں کوئی خدمت عطاکرنا اس کی تائید واعانت کرنا اس سے راہ ورسم رکھنا ا س کا وعظ کرانا اس کا اخبار خریدنا کیا حکم رکھتا ہے؟ بینوا تو جرا
الجواب
فاتحہ کو بدعت کہنا، زیارات مزاراتِ طاہر ہ کو قبرپرستی بنانا، نیاز حضور پرنور سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کو نام کی پوجاکہنا، تعظیم آثار شریفہ حضور سیدعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو حضور کی اطاعت نہ ماننا، یہ سب شعار وہابیت ہیں اور وہابیہ گمراہ بددین بلکہ کفار ومرتدین ہیں، کما حققناہ فی غیر ماکتاب (جیساکہ ہماری متعدد کتب میں اس کی تفصیل ہے۔ ت) روح اقدس حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی نسبت وہ ناپاک کلمہ تذلیل لکھنا کذب وقبیح وتوہین صریحہ ہے ان کے غلامان غلام کی روح کو تمام جہاں کے کفار ومشرکین ووہابیہ ومرتدین مل کر ذلیل نہیں کرسکتے۔
عزت تواللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں ہی کے لئے ہے مگر منافقوں کو خبر نہیں (ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۶۳/ ۸)
حضرت ملک الموت علیہ الصلٰوۃ والسلام کی نسبت بندر کاٹنے کالفظ ملک مقرب رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ک توہین ہے کفر مبین ہے، ایسے شخص کو مولانا وفخر مسلمانان اور ہادی ورہبر قوم ماننا اگر اس کے اقوا ل پر اطلاع کے بعد ہے خود کافروموجب غضب رب ہے،
قال صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم لاتقولوا للمنافق سیدنا فانہ ان یکن سیدکم فقد اسخطتم ربکم ۲؎۔
منافق کو ''اے ہمارے سردار'' نہ کہو کہ اگر وہ تمھارا سردار ہوا تو تم نے اپنے رب کا غضب اپنے سرلیا۔
(۲؎ مسند امام احمد بن حنبل حدیث بریدہ الاسلمی رضی اللہ عنہ دارالکفر بیروت ۵/ ۴۷۔ ۳۴۶
سنن ابی داؤد کتاب الادب باب لایقول الملوک آفتاب عالم پریس لاہور ۲/ ۳۲۴)
فتاوٰی ظہریہ واشباہ والنظائر ودرمختار وغیرہا میں ہے:
تبجیل الکافر کفر ۳؎
(کافر کی توقیر کفرہے۔ ت)
(۳؎ الاشباہ والنظائر کتاب السیر باب الردۃ اداراۃ القرآن کراچی ۱/ ۲۸۸
درمختار کتاب الحظرولاباحۃفصل فی البیع مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۲۵۱)
انھیں میں ہے:
لو قال لمجوسی یا استاذ تبجیلا کفر ۴؎
(اگر مجوسی کو ''اے استاد''توقیرا کہا تو کفر ہے۔ ت) اس کا واعظم کرانا حرام ہے،
(۴؎ الاشباہ والنظائر کتاب السیر باب الردۃ ادارۃ القرآن کراچی ۱/ ۲۸۸
درمختار کتاب الحظروالاباحۃ فصل فی البیع مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۲۵۱)
تبیین الحقائق امام زیلعی میں ہے : لان فی تقدیمہ تعظیمہ وقد وجب علیہم اھانۃ شرعا ۱؎۔
کیونکہ اس کی تقدیم میں اس کی تعظیم ہے حالانکہ مسلمانوں پر شرعا ا س کی توہین لازم ہے۔ (ت)
(۱؎ تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق باب الامامۃ المطبعۃ الکبرٰی الامیریہ بولاق مصر ۱/ ۱۳۴)
اسلام کی کوئی خدمت اسے سپرد کرنا جس میں وہ مسلمانوں کا راز داریا بعض مسلمانون کا سردار بنے سخت حرام ہے
ۤ
قال اﷲ تعالٰی یاایھا الذین اٰمنوا لاتتخذوا بطانہ من دونکم ۲؎۔
اللہ تعالٰی نے فرمایا: اے ایمان والو! غیر کو اپنا راز دار نہ بناؤ۔
(۲؎ القرآن الکریم ۳ /۱۱۸)
ابو موسٰی اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جب ایک کافر کو اپنا محرر بنانا چاہا امیر المومنین عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے انھیں فرمان بھیجا :
لااکرمھم اذا اھانھم اﷲ و لااعزھم اذا اذلھم اﷲ ولا ادینھم اذا ابعد ھم اﷲ۳؎ وفی اخرٰی لیس لنا ان ناتمنھم وقد خرنھم اﷲ ولا ان نرفعہم وقد وضعھم اﷲ۴؎۔
میں کافر کو گرامی نہ کروں گا جب کہ انھیں اللہ نے خوار کیا، نہ انھیں عزت دوں گا جب کہ انھیں اللہ نے ذلیل کیا، نہ ان کوقرب دوں گا جب کہ انھیں اللہ نے دور کیا، دوسری روایت میں ہے ہمیں روا نہیں کہ کافروں کو امین بنائیں
حالانکہ اللہ تعالٰی انھیں خائن بتاتاہے یا ہم انھیں رفعت دیں حالانکہ اللہ سبحانہ، وتعالٰی نے انھیں پستی دی۔
(۳؎ لباب التاویل (تفسیر الخازن) تحت آیۃ ۵ /۵۱ مصطفی البابی مصر ۲/ ۶۲)
(۴؎لباب التاویل (تفسیر الخازن) تحت آیۃ ۵ /۵۱ مصطفی البابی مصر ۲/ ۶۲)
درمختارمیں ہے :
یمنع من استکتاب ومباشرۃ یکون بھا معظما عند المسلمین ۵؎۔
اسے کتابت اور ایسے کام سے روک دیا جائے گا جس کی وجہ سے وہ مسلمانوں کے ہاں معظم ٹھہرے۔ (ت)
قال اﷲ وتعالٰی واما نیسینک الشیطن ف لاتقعد بعدالذکرٰی مع القوم الظالمین۲؎۔
اللہ تعالٰی نے فرمایا: اگر تجھے شیطان بھلادے تو یاد آنے پر ظالموں کے پاس نہ بیٹھ۔
(۴؎ القرآن الکریم ۶/ ۶۸)
رسول ا للہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: ایاکم وایاھم لایضلونکم ولایفتنونکم ۳؎۔
ان سے دور رہو اور انہیں اپنے سے دور کرو کہیں وہ تم کو گمراہ نہ کردیں کہیں وہ تمھیں فتنہ میں نہ ڈال دیں۔
(۳؎ صحیح مسلم باب نہی عن الروایۃ عن الضعفاء قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۱۰)
اس کا اخبار بطور پسند خریدنا ہر گز جائز نہیں جب کہ وہ ایسی ناپاک ومخالف دین باتوں پر مشتمل ہوتاہے قال اﷲ تعالٰی ومن الناس من یشتری لھو الحدیث لیضل عن سبیل اﷲ بغیر علم ویتخذھا ھزوا اولٰئک لھم عذاب مھین ۴؎۔
اللہ تعالٰی کا فرمان مبارک ہے کچھ لوگ لغو باتیں خریدتے ہیں کہ ان کے سبب براہ جہالت خدا کی راہ سے بہکادیں اور اسے ہنسی بنالیں ان کے لئے ہے ذلت دینے والا عذاب۔