Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۵(کتاب السیر)
4 - 150
تذکارات
 (۱) آپ جانتے ہیں اور زمانہ پر روشن ہے کہ بفضلہٖ سالہا سال سے کس قدر رسائل کثیرہ عزیزہ آپ اور آپ کے اکابر جناب مولوی گنگوہی صاحب وغیرہ کے رد میں  ادھر سے شائع ہوئے اور بحمدہٖ تعالٰی ہمیشہ لاجواب رہے۔
 (۲) وہ اورآپ صراحۃ مناظرہ سے استعفاء دے چکے
 (۳) سوالات گئے جواب نہ ملے، رسائل بھیجے داخل دفتر ہوئے، رجسٹریاں  پہنچیں  منکر ہوکر واپس فرمادیں ،
 (۴) اخیر تدبیر کو دیوبندجلسہ میں  ان رئیسوں  کے ذریعہ سے جن کا جناب پر بارہے تحریک کی،اس پر بھی آپ ساکت ہی رہے۔
 (۵) رئیسوں  کا دباؤتھا، ناچار دفعہ وقتی کو وہی چانپوری صاحب آپ کے وکیل بنے، فقیر نے اپنے خط وقلم سے جناب کو رجسٹری شدہ کارڈ بھیجا۔ پھر کیا آپ مناظرہ معلومہ پر آمادہ ہوئے، کیا آپ نے چاند پوری صاحب کو اپنا وکیل مطلق کیا؟ سات مہینے سے زائد گزر گئے آپ نے اس کا بھی جواب نہ دیا۔ ظاہر ہے کہ اگر آپ واقعی آمادہ ہوئے ہوتے۔ واقعی آپ نے وکیل کیا ہوتا تو ''ہاں '' لکھ دینا دشوار نہ ہوتا۔ مردانہ وار اقرار سے فرار نہ ہوتا۔ یہ ہے وہ فرضی، لایعنی، غیر واقع، بے بہیقی معاہدہ جس سے عدول کا ادھر الزام لگایا جاتاہے۔ سبحان اللہ! اپنے وکیل بالادعا کی وکالت آپ نہ مانیں  اور عدول جانب خصم سے جانیں ۔ ہاں  جناب تو نہ بولے، سولہ دن بعد انھیں  آپ کے موکل صاحب نے لب کھولے کہ ہم جو رؤسا کے سامنے اپنے منہ آپ ہی دعوٰی وکالت کرچکے ہیں ۔ اب جناب تھانوی صاحب سے دریافت کرنا ذلت اور رسوائی، گردن کا طوق، ناپاک چالیں ، بے شرمی کے حیلے ہیں  (ملاحظہ ہو ان کا شریفانہ مہذب خط مورخہ ۳۰ ربیع الآخر شریف ۱۳۲۷؁ھ) جو ان کی اعلٰی تہذیبوں  سے نمونہ خروارے ہے۔ یہ خطاب  محض اس جرم پر ہیں  کہ تھانوی صاحب سے ہماری وکالت کا کیوں  استفسار کیا، ان کے قبول وعدوں  پر کیوں  موقوف رکھا ، ہمارا زبانی اعا کیوں  نہ مان لیا، جناب تھانوی صاحب لاکھ نہ مانیں  ہم جو ان کے وکیل بن بیٹھے ہیں ، اب نہ ماننا بے شرمی کا حیلہ ہے ، ناپاک چال ہے، ذلت ہے، رسوائی ہے، طوق وبال ہے، جناب تھانوی صاحب! آپ اپنے موکل یعنی خود ساختہ وکیل صاحب کی بابت خود ہی فیصلہ فرماسکتے ہیں ، آج تک ایسی وکالت کسی غیر مجنون کے نزدیک قابل قبول ہوئی یا کوئی عاقل ایسے حضرات سے خطا روا رکھے گا۔
 (۶) جلسہ دیوبند کے بعد جناب مولوی گنگوہی صاحب کے ایک شاگر رشید مولوی علی رضا مودی نے آپ حضرات سے مناظرہ کرلینے کی تحریک کی، انھیں  فوراً لکھا گیا، یہاں تو برسوں  سے یہی درخواست ہے، جناب گنگوہی صاحب اپنی راہ گئے، جناب تھانوی صاحب بھی انھیں  کی راہ پر مہر برلب ہیں ۔ آپ ہی ہمت کیجئے اور تھانوی صاحب سے جواب لادیجئے، اس کے پہنچنے پر ان صاحب نے بھی ہمت ہاردی۔
 (۷) اذناب جناب کے افتراء اعظم پر مسلمانوں  نے پانچ سو روپے نقد کا اشتہار دیا اور آپ کو رجسٹری بھیجا، آپ نے نہ جواب دے سکے نہ ثبوت،
 (۸) دوسرے اشدا فتراء نامہ پر تین ہزار روپے کا اشتہار آپ کو دیا اور رجسٹری بھیجا، اگر تمام جماعت سے کچھ بن پڑتی تو اپنے مدرسہ دیوبند کے لئے اتنی بڑی رقم نہ چھوڑی جاتی مگر نہ جواب ہی ممکن ہوا نہ ثبوت ناچار چارہ کار وہی سکوت۔
 (۹) یہ ماناکہ جب جواب بن ہی نہ پڑے تو کیا کیجئے، کہا ں  سے لائیے، کس گھر سے دیجئے، مگر جناب والا! ایسی صورتوں  میں  انصاف یہ تھا کہ اپنے اتباع کا منہ بند کرتے، معاملہ دین میں  ایسی ناگفتنی حرکات پر انھیں  لجاتے شرماتے، اگر جناب کی طرف سے ترغیب نہ تھی تو کم از کم آپ کے سکوت نے انھیں  شہہ دی یہاں  تک کہ انھوں نے ''سیف النقٰی'' جیسی تحریر شائع کی جس کی نظیر آج تک کسی آریہ یا پادری سے بن نہ پڑی یعنی میرے رسائل قاہرہ کے قرض اتارنے کایہ ذریعہ شنیعہ ایجا د کیا کہ میرے والد ماجد و جد امجد وپیر ومرشد قُدِّسَتْ اَسْرَارُھُمْ وخود حضور پر نور سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اسمائے طیبہ سے کتابیں  گھڑلیں ، ان کے نام نہاد مطبع تراش لئے، فرضی صفحوں  کے نشان سے عبارتیں  تصنیف کرلیں  جس کی مختصر جدول یہ ہے :
15_1.jpg
اور بے دھڑک لکھ دیا کہ تم یہ کہتے ہو اور تمھارے اکابر اپنی ان کتابوں  میں  ان مطابع کی مطبوعات میں  ان صفحوں  پر یہ فرماتے ہیں  ، حالانکہ ان کتابوں کاجہاں میں وجود ،نہ ان مطابع کا کسی مطبع میں چھپی ،نہ ان حضرات نے تصنیف فرمائی ،نہ حوالہ دہندہ کے فرض وتراش کے باہر آئیں ، جرأت پر جرأت یہ کہ صفحہ ۲۰ پر جو فرضی مطبع لاہور کی خیالی ہدایۃ البریہ سے ایک فتوی گھڑا اس کے آخر میں  حضرت خاتم المحققین قدس سرہ، کی مہر بھی دل سے تراش لی جس میں  ۱۳۰۱؁ھ لکھے حالانکہ حضرت والا کا وصال شریف ۱۲۹۷؁ھ میں ہوچکا، حضرات کی حیا! یہ سخت گندہ افترائی رسالہ جناب کے مدرسہ دیوبندسے شائع ہوا، صاحب مطبع کا بیان ہے کہ آپ کے ایک متکلم مصنف مولوی صغیر حسین صاحب دیوبندی نے چھپوایا، آپ کے وکیل مولوی مرتضی حسن دیوبندی نے اپنے ایک خط میں  اسے افتخاراً پیش کیا کہ تحریر میں  بھی اب آپ کی حقیقت دیکھنی ہے سیف النقی طبع ہوچکاہے ملاحظہ سے گزرا ہوگا (ملاحظہ ہو خط ۳۰ ربیع الآخر ۱۳۲۸؁ھ) جب حیاء ودین وغیرت و دیانت وعقل وانسانیت کی نوبت یہاں تک مشاہدہ ہوئی ہر ذی فہم نے جان لیاکہ بحث کا خاتمہ ہوگیا، حضرات سے مخاطبہ کسی عاقل کا کام نہ رہا، الحمد اللہ  کتب ورسائل فقیر تو چھتیس سال سے لاجواب ہیں ، اصحاب واحباب فقیر کے رسائل بھی بعونہٖ عزجلالہ، لا جواب ہی ہے۔ ادھر کے تازہ رسائل ظفر الدین الطیب وکین کش پنجہ پیچ وبارش سنگی وپیکان جانگداز  والعذاب البئس اور ضروری نوٹس ونیاز مانہ وکشف راز واشتہار چہارم وپنجم وہفتم وہشتم ہی ملاحظہ فرمائے، کس سے جواب ہوسکا؟ ان کے اعتراضوں  مواخذون اورمطالبوں  کا کس نے قرض اداکیا؟ بات بدل کر ادھر اُدھر کی مہمل لچر اگر ایک آدھ پرچے میں  کسی صاحب نے کچھ فرمائی اس کا جواب فوراً شائع ہواکہ پھر ادھر مہر سکوت لگ گئی والحمد اللہ رب العلمین، مگرآپ کی یہ تدبیر حضرات کوایسی سوجھی جس کا جواب ایک میں  اور میرے اصحاب کیا تمام جہاں  میں  کسی عاقل سے نہ ہوسکے، غریب مسلمان اتنی حیاء وغیرت ایسی بے تکان جرأت  اتنی بیباک طبیعت کہاں  سے لائیں  کہ کتابوں کی کتابیں  دل سے گھڑلیں ، ان کے مطبع تراش لئے، ان کی عبارتیں  ڈھال لیں  اور آنکھوں  میں  آنکھیں  ڈال کر سربازار چھاپ دیں کہ فلاں  چھاپے کی فلاں  کتاب فلاں  صفحہ پر جناب مولوی گنگوہی صاحب نے لکھا ہے کہ تھانوی صاحب کافرہیں ، فلاں  مطبع کے فلاں  رسالے فلاں  سطر میں  جناب مولوی تھانوی صاحب نے فرمایا ہے کہ گنگوہی صاحب مرتد ہیں ، جو اتنا ہولے وہ حضرات سے مخاطبہ کا نام لے کر اور واقعی سوا اس طریقے کے اور کرہی کیا سکتے تھے کہ حضرات چھتیس سال کے کتب ورسائل کے بار سے 

سبکدوش ہوتے ؎

وقت ضرورت گرنماز گریز    دست بگیر وسرشمشیر تیز

(مصیبت کے وقت جب انسان کو بھاگنے کی بھی طاقت نہیں  رہتی تو وہ لڑائی کے لئے کمر بستہ ہوجاتاہے ۔ ت
 (۱۰) الحمد اللہ! حق تمام جہان پر واضح ہولیا اور ہر عاقل اگرچہ مخالف ہو خوب سمجھ گیا کہ کس نے مناظرہ سے برسوں  فرار کیا۔ کس نے ہربار مقابلہ جواب سے انکار کیا، کون اتنا عاجز آیا کہ حیاوانسانیت کا یکسر پردہ اٹھایا، اور مرتا کیانہ کرتا کہ اس طرف چال برابا آیا جو آج تک کسی منکر اسلام کو بھی اسلام کے مقابل نہ سوجھی، مسلیمہ ملعون نے جواب قرآن عظیم کے نام سے وہ کچھ ناپاک خباثتیں  ہزل فحش لغو جہالتیں  بکیں  مگریہ اسے بھی نہ بن پڑی تھی کہ کچھ آیتیں سورتیں گھڑ کر قرآن عظیم ہی کی طرف منسوب کردیتا کہ مسلمانو! تم تویوں  کہتے ہو اورتمھارے قرآن میں یہ لکھا ہے، یہ خاتمہ کا بند اس اخیر دور میں  ''مدرسہ عالیہ دیوبند'' اوراس کے ہوا خواہوں  ہی کا حصہ تھا۔ بایں  ہمہ آپ کے بعض بیچارے نافہم عوام یہ امید کئے جاتے ہیں  کہ آپ مناظرہ فرمائیں  گے، اسی کے متعلق اب تازہ شگوفہ نے خورجہ سے خروج کیا ہے جو آپ کے کسی خلیفہ کلن صاحب کا کہلایا ہواہے۔ اگرچہ یہاں  صدہا بار کا تجربہ ہے کہ آپ نہ بولے نہ بولیں ، محمدرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو گالیاں  لکھ کر چھاپنی تھیں  وہ چھاپ چکے اور بار بار چھاپی جارہی ہے۔ اس پر مسلمانان عرب وعجم مطالبہ کریں ، آپ کو کیاعرض پڑی ہے کہ جواب دیں ، کتنی بار خودد آپ سے مطالبے ہوئے جواب غائب، جلسہ دیوبند میں  خط بھیجا جواب غائب، تصدیق وکالت کے لئے رجسٹری گئی، جواب غائب، آپ کے یہاں  کے شاگرد مودی ہمکے ان کو متوسط کیا، جواب غائب، جناب شیخ بشیر الدین وغیرہ رؤسائے میرٹھ کو متوسط کیا، جواب غائب، جب آپ کے آقایان نعمت کی وساطت پر بھی آپ نے جواب نہ دیا تو اب خورجہ والے آ پ کو بلوائیں ۔ یہ امید موہوم، بہت اچھا ہزار بار گنا بھول گئے ایک بار پھر سہی، آپ کے معتقدین خورجہ نے آپ حضرات کے اقوال سے ناتجربہ کاری یا اپنی سادگی سے لکھ دیا کہ جو صورت یہ فقیربار گاہ مصطفوی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پسند کرے منظور ہے۔ بہت خوب ادھر سے کتنی باراصول اور اہم شرائط مناظرہ کی تصریح ہوچکی اور تعین مباحث کی گنتی ہی نہیں ،فقیر نے جو خط جلسہ دیوبند میں  بھیجا اس میں بھی ان کی یاددہانی تھی، ظفر الدین الطیب وضروری نوٹس ملاحظہ ہوں  اور ان کے سوالوں  کا جواب صاف صاف خاص اپنے قلم ومہر ودستخط سے عطاہو۔ تمام اشتہاروں ، تمام مطالبوں  میں  اگرچہ آپ کو کافی ووافی مہلتیں  دیں  اور ہمیشہ بیکار گئیں  کہ آپ تو اپنے ارادوں  جیتے جی تک مہلت لئے ہوئے ہیں ۔ پھر بھی ربط ضبط کے لئے تعین مدت لازم ہے۔ یہ سوالات کچھ غور طلب نہیں ۔ تھوڑی عقل والا بھی ان فوراً ہاں  یا نہ کہہ سکتاہے، مگر بہ لحاظ استعداد جناب شرعی مہلت کہ ابلاغ اعذار کے لئے معین ہے پیشکش اور وصول خط سے تین دین کے اندر ہر سوال کا معقول جواب صاف ْصریح مہری عنایت ہو، یہ آخری بار ہے اس دفعہ بھی پہلو تہی فرمائی تو جن کو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے علم اقدس میں  ملایا انہی میں  آپ کو ملادینے کی ہمارے لئے اجازت ہو۔
Flag Counter