کفریہ پنجم: صراط مستقیم بعض اولیاء کی نسبت لکھا، ص ۳۷ :
صدیق من وجہ مقلد انبیاء می باشد ومن وجہ محقق درشرائع ۱؎۔
صدیق من وجہ انبیاء کا مقلد ہوتاہے اور من وجہ احکام شریعت میں محقق ہوتاہے۔ (ت)
(۱؎ صراط مستقیم فصل ثانی المکتبۃ السلفیہ لاہور ص۳۳)
ص ۳۹: علوم کلیہ شرعیہ اور ابد و واسطہ می رسد بوساطت نور جبلی وبوساطت انبیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام پس درکلیات شریعت وحکم واحکام ملت او را شاگرد انبیاء ہم می تواں گفتہم استاذ انبیاء ہم ونیز طریق اخذ آنھم شعبہ ایست ازشعب وحی کہ آں را در عرف شرح بہ نفث فی الروع تعبیر می فرمایند وبعضے اہل کمال آن رابوحی باطنی می نامند ۲؎۔
امور کلیہ شرعیہ اس کو دو طرح سے پہنچتے ہیں، ایک فطری نور کے ذریعہ سے، دوسرا انبیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام کے واسطہ سے، پس شرعیہ کلیات اور حکم واحکام ملت میں اس کو انبیاء کا شاگرد کہہ سکتے ہیں اور انبیاء کا استاذ بھی کہہ سکتے نیز ان کے اخذ کاطریقہ وحی کے اقسام میں سے ایک قسم ہے جس کو عرف شرع میں نفث فی الروع سے تعبیر کرتے ہیں اور بعض اہل کمال اس کو باطنی وحی کا نام دیتے ہیں۔ (ت)
(۲؎صراط مستقیم فصل ثانی المکتبۃ السلفیہ لاہور ص۳۴)
ص ۴۰: ہمیں معنی رابامامت ووصایت تعبیر میکنند ۳؎۔
اس معنی کو امامت اور وصی سے تعبیر کرتے ہیں۔ (ت)
(۳؎صراط مستقیم فصل ثانی المکتبۃ السلفیہ لاہور ص۳۵)
ص ۴۱: لابد او رابمحا فظتے مثل محافظت انبیاء کہ مسمی بہ عصمت ست فائز مے کنند ۴؎۔
ضروری ہے کہ اس کو محفوظ قرار دیا جائے جس طرح انبیاء کا محفوظ ہونا جس کو عصمت کہتے ہیں۔ (ت)
(۴؎صراط مستقیم فصل ثانی المکتبۃ السلفیہ لاہور ص۳۵)
ص ۴۲:
ندانی کہ اثبات وحی باطنی وعصمت مرغیر انبیاء را مخالفت سنت واز جنس اختراع بدعت است وندانی کہ ارباب ایں کمال از عالم منقطع شدہ اند ۱؎۔
یہ نہ سمجھنا کہ باطنی وحی اور عصمت کو غیر انبیاء کے لئے ثابت کرنا خلاف سنت اوراز قبیل اختراع بدعت ہے اور یہ بھی نہ سمجھنا کہ اس کمال کے لوگ دنیا سے ختم ہوچکے ہیں۔ (ت)
(۱؎ صراط مستقیم ہدایت رابعہ در بیان ثمرات حب ایمانی المکتبۃ السلفیہ لاہور ص۳۶)
یہاں صاف تصریحیں ہیں کہ ان کے بعض خیال اولیاء کو احکام شریعت بے وساطت انبیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام وحی باطنی سے پہنچتے ہیں وہ احکام شریعت میں ایک وجہ سے خود محقق اور پیروی انبیاء سے مستغنی ہوتے ہیں وہ مثل انبیاء معصوم ہوتے ہیں۔
اقول اور احکام شریعت میں بھی کلیہ کی تصریح کردی کہ کوئی ناواقف دھوکا نہ کھائے کہ یہ لوگ مجتہدین امت سے ہیں اگرچہ بے وساطت انبیاء حکم پہنچنا ہی اخراج مجتہد کوبس تھا مگر زیادت فرق وکمال صراحت کے لئے احکام کلیہ کا اونچا طرہ چمکتاپھندنا لٹکا دیا کہ احکام کلیہ شرعیہ تو نبی ارشاد فرما تاہے مجتہد کی اتنی شان کہ ان سے احکام جزئیہ استنباط کرتاہے، یہاں ایسا نہیں بلکہ انھیں خود احکام کلیہ شریعت بے وساطت نبی بذریعہ وحی پہنچتے ہیں مسلمانو! خدا کے واسطے اور نبی کسے کہتے ہیں یہ صراحۃ غیر نبی کو نبی بنایا کہ صریح کفرہے اور نبی بھی کیسا صاحب شریعت۔ تفسیر عزیزی شاہ عبدالعزیز صاحب سورہ بقرہ ص ۴۴۳:
معرفت احکام شرعیہ بدون تو سیط نبی ممکن نیست ۲؎۔
شرعی احکام کی معرفت انبیاء کی وساطت کے بغیر ممکن نہیں۔ (ت)
تحفہ اثنا عشریہ شاہ صاحب موصوف مطبع کلکتہ ۱۲۴۳ھ ص ۱۴۰:
انچہ گفتہ است کہ فاطمہ بنت اسد راوحی آمد کہ درخانہ کعبہ برود ووضع حمل نماید در وغیست پر بیمزہ زیرا کہ کسے از فرق اسلامیہ وغیر اسلامیہ قائل بہ نبوت فاطمہ بنت اسد نشدہ ۳؎۔
جوکہا جاتاہے کہ فاطمہ بنت اسد کو وحی آئی کہ تو خانہ کعبہ میں جا اور وہاں بچے کی پیدائش کر یہ سب جھوٹ اور بے پر بات ہے کیونکہ کوئی بھی اسلامی اور غیر اسلامی فرقہ فاطمہ بنت اسد کی نبوت کا قائل نہیں ہے۔ (ت)
الدرالثمین شاہ ولی اللہ صاحب مطبع احمدی ص ۵: الامام عندھم ھو المعصوم المفترض طاعتہ الموحی الیہ وحیا باطنیا وھذا ھو معنی النبی فمذھبھم یستلزم انکار ختم نبوۃ قبحھم اﷲ تعالٰی ۱؎۔
رافضیوں کے نزدیک امام وہ ہے کہ معصوم اور اس کی اطاعت فرض اور اس کی طرف وحی باطنی آتی ہو اور یہی معنی نبی کے ہیں تو ان کے مذہب سے ختم نبوت کا انکار لازم آتاہے اللہ ان کا بُرا کرے
(۱؎ الدرالثمین شاہ ولی اللہ)
دیکھو یہ وہی امامت وہی عصمت، وہی وحی باطنی ہے جسے شاہ ولی اللہ صاحب ختم نبوت کے انکار کو مستلزم بتاتے ہیں، شفاء شریف کا قول گزرا کہ صرف وحی کا دعوٰی کفرہے اگرچہ نبوت کا مدعی نہ ہو۔
کفریہ ششم: صراط مستقیم ص ۹۵:
صرف ہمت بسوئے شیخ وامثال آں از معظمین گو جناب رسالت مآب باشند بچندیں مرتبہ بدتر از استغراق دو صورت گاؤ خرخود است کہ خیال آن باتعظیم واجلال بسویدائے دل انسان می چپد وایں تعظیم واجلال غیر کہ در نماز ملحوظ ومقصود می شود بشرک می کشد ۲؎۔
اپنی ہمت کو شیخ اور ان جیسے معظم لوگوں خواہ جناب رسالتمآب ہوں کی طرف مبذول کرنا اپنے گائے اور گدھے کی صورت میں مستغرق ہونے سے بھی کئی گنا بدتر ہے کیونکہ ان کا خیال تعظیم اور اجلال کے ساتھ انسان کے دل کی گہرائی میں چپک جاتا ہے اوریہ غیر کی تعظیم و اجلال نمازمیں ملحوظ ومقصود ہو تو شرک کی طرف کھینچ لیتی ہے۔ (ت)
(۲؎ صراط مستقیم باب دوم فصل سوم المکتبۃ السلفیہ لاہور ص۸۶)
یہ صراحۃً حضور اقدس سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو فحش گالی دیناہے اور ان کی شان میں ادنٰی گستاخی کفر، جس کی مبارک مقدس منور تفصیل شفاشریف اور اس کی شرح میں ہے۔ للہ انصاف! بدرجہاں بدتر گناہ درکنار اگر تمھارا بیٹا یا نوکر یا غلام تمھاری کسی شے کو گدھے یا کتے سے صرف تشبیہ ہی دے کہ تمھاری فلاں بات گدھے کی سی ہے فلاں چیز کتے سے ملتی ہے تو کیا اس نے تمھیں گالی نہ دی؟ کیا تمھارے ساتھ شدید گستاخی نہ کی؟ ذرا اپنے کلیجہ پر ہاتھ رکھ کر دیکھو تو جانو کہ اس ملعون قول نے مسلمانوں کے سچے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو کھلی دشنام دے کر ان کے دلوں پر کیسا زخم عظیم پہنچایا
وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون ۳؎
(اب جان جائیں گے ظالم کہ کس کروٹ پر پلٹا کھائیں گے۔ ت)
بیشک جو ایذا دیتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کو ان پراللہ کی لعنت ہے دنیا اور آخرت میں، اور اللہ نے ان کے لئے ذلت کاعذاب تیار کر رکھا ہے۔ (ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۳۳/ ۵۷)
اوریہ وجہ خبیث خود بھی کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا خیال آئے گا تو عظمت کے ساتھ اور ان کی نوبت شرک تک پہنچے گی اس قائل کو لزوم کفر تک پہنچانے کے لئے بوجہ کافی کہ اس بناء پر التحیات میں السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ، اور اشھدان محمداً عبدہ ورسولہ، پچھلے قعدہ میں اللھم صلی علی محمد وال محمد، ہر رکعت میں صراط الذین انعمت علیہم یوں ہی نمازوں میں وہ سورۃ وآیت جس میں حضور پر نور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یا کسی نبی یا ملک یا کسی نیک بندے یا کعبہ وغیرہ معظمات دینیہ کا ذکر یا خطاب رہے، خلاصہ ی کہ الھکم التکاثر کے سوا الحمد وغیرہ کسی سورت کا پڑھنا سب معاذاللہ شرک کی راہ ہوا اور شریعت محمدیہ علی صاحبہا افضل الصلٰوۃ والتحیۃ عیاذاًباللہ ان شرکیات کی واجب وسنت وجائز کرنے والی ہوئی، صحابہ سے آج تک تمام مسلمان کہ ان امور پر اجماع کئے ہوئے ہیں سب شرک میں گرفتار ٹھہرے، اس سے بڑھ کر اورکیا کلمہ کفر ہوگا۔ شفاء شریف ص ۳۶۲ و ۳۶۳:
نقطع بتکفیر کل قائل قال قولا یتوصل بہ الی تضلیل الامۃ ۲؎۔
جو شخص ایسی بات کہے جس سے تمام امت کے گمراہ ٹھہرنے کی راہ نکلتی ہو ہم بالیقین اسے کافر کہتے ہیں۔
(۲؎ الشفاء بتعریف حقوق المصطفی فصل فی بیان ماھومن المقالات المطبعۃ الشرکہ الصحافیہ ۲/ ۲۷۱)
حجۃ اللہ البالغہ شاہ ولی اللہ دہلوی مطبع صدیقی ص ۲۱۰: ثم اختار بعدہ السلام علی النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ والہ وسلم تنویھا بذکرہ و اثباتا للاقرار برسالتہ واداءً لبعض حقوقہ ۳؎۔
پھر اس کے بعد التحیات میں نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر سلام اختیار کیا ان کا ذکر پاک بلند اور ان کی وساطت کا اقرار ثابت اوران کے حقوق کا ایک پارہ اداکرنے کے لئے۔
(۳؎ حجۃ اللہ البالغہ الامور التی لابدمنہافی الصلٰوۃ المکتبہ السلفیہ لاہور ۲ /۶)
مکتوبات جناب شیخ مجدد صاحب مطبو لکھنؤ ج ۲ مکتوب ۳۰ ص ۴۶:
خواجہ محمد اشرف ورزش نسبت رابطہ نوشتہ بودند کہ سجدے استیلا یافتہ است کہ در صلٰوۃ آنرا مسجود خو د میداند وبیند واگر فرضا نفی کند منتفی نمیگردد محبت اطوارایں دولت متمنائے طلاب ست از ہزاران یکے رامگربدہند صاحب ایں معاملہ مستعد تام المناسبۃ ست یحتمل کہ باندک صحبت شیخ متقدا جمیع کمالات او راجذب نماید رابطہ راچرا نفی کنند کہ او مسجود الیہ است نہ مسجود لہ چرامحاریب و مساجد رانفی نہ کنند وظہور ایں قسم دولت سعادتمندان رامیسر است تادرجمیع احوال صاحب رابطہ را متوسط خود دانند ودرجمیع اوقات متوجہ او باشند نہ درنگ جماعہ بیدولت کہ خود رامستغنی دانند وقبلہ توجہ را از شیخ خودمنحرف ساز ند و معاملہ خود رابرہم زنند ۱؎۔
خواجہ محمد اشرف ورزش نے رابطہ (تصویر شیخ) کی نسبت لکھا ہے کہ اس کا اس حد تک غلبہ ہے کہ نمازوں میں اپنا مسجود جانتے اور دیکھتے ہیں اور اگر ا س رابطہ کو ختم کرنے کی کوشش کریں تو بھی ختم نہیں ہوتا (تواس پر آپ نے فرمایا) اس دولت کے حصول کی خواہش ہزاروں طالبوں کی تمنا ہے مگر کسی ایک کو عطا ہوتی ہے، اس کیفیت والاشیخ سے مکمل مناسبت کے لئے مستعد ہوتاہے وہ امید کرتاہے کہ اپنے مقتداشیخ کی صحبت کی کمی ا سکے تمام کمالات کو جذب کر دے گی لوگ رابطہ (تصور شیخ) کی نفی کیوں کرتے حالانکہ وہ مسجود الیہ ہے مسجود لہ نہیں ہے یہ لوگ محرابوں اور مسجودوں کی نفی کیوں نہیں کرتے (حالانکہ وہ مسجود الیہ ہیں) اس قسم کی دولت کا ظہور سعاتمندوں کو نصیب ہوتاہے حتی کہ تمام احوال میں وہ صاحب رابطہ (شیخ) کواپنا وسیلہ جانتے ہیں اور ہمہ وقت ا س کی طرف متوجہ رہتے ہیں اس بے دولت جماعت کی طرح نہیں ہوتے جواپنے آپ کو شیخ سے مستغنی جانتے ہیں اور اپنی توجہ کا قبلہ شیخ سے پھیر کر خود سر ہوجاتے ہیں۔ (ت)
(۱؎ مکتوبات امام ربانی مکتوب ۳۰ خواجہ محمد اشرف وحاجی محمد نولشکور لکھنؤ ۲ /۴۶)
سبحان اللہ! کہاں تو اس شخص کا وہ کفری بول کہ نماز میں محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا خیال آیا اور خاکش بدہن شرک نے منہ پھیلایا، نہ فقط نماز برباد کہ ایمان ہی ابتر، تف بر روئے کا فروش و کفر ان کے (بدگویوں کی) طرف خیال لے جانا اپنے بیل اورگدھے کے نہ صرف تصور بلکہ ہمہ تن اس میں ڈوب جانے سے بدر جہانج بدتر اور کہاں شیخ طریقت وآقائے نعمت وخداوند دولت خاندان دہلی حضرت شیخ مجدد کایہ واشگاف قول کہ تصور صورت شیخ سے غافل نہ ہونمازوں عبادتوں سب وقتوں حالتوں میں اسی کی طرف متوجہ رہو اگرچہ عین نماز میں اسی صورت کو سجدہ محسوس ہو کہ وہ قبلہ عبادت ہے، نہ مسجودلہ، جو اس قبلہ سے پھرا وہ بے دولت تباہ ہوا اس کا کام بربادہوگیا تصویر شیخ کی ایسی دولت سعادت مندوں کو ملتی ہے طالبان خداس کو ا س کی بہت تمنا رہتی ہے غرض وہ بول یہ قول باہم لڑے ہیں کفر وشرک کے عقاب پرتولے کھڑے ہیں، دیکھئے وہابی صاحب کدھر ڈھالتے ہیں ادھر جھکاتے ہیں یا ادھر ڈالتے ہیں ؎
یادامن یار رفت از دست یا ایں دل زار رفت از دست
(یار کا دامن ہاتھ سے گیا یا یہ آزردہ دل سے ہاتھ گیا۔ ت)
کذلک العذاب ولعذاب الاخرۃ اکبر لوکانوا یعلمون۱؎o
مارایسی ہوتی ہے اور بیشک آخرت کی مار سب سے بڑی، کیا اچھا تھا اگروہ جانتے (ت)