Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۵(کتاب السیر)
37 - 150
کفریہ دوم: بعض علماء دلیل لائے تھے کہ سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا مثل تمام صفات کمالیہ میں شریک وہمسر اگر ممکن ہو تو معاذاللہ آیہ کریمہ وخاتم النبیین کی تکذیب لازم آئے، اس کے جواب میں شخص مذکور کا کلام سنئے، یکروزی مطبع فاروقی ص ۱۴۴:
بعد اخبار است کہ ایشان رافاموش گردانیدہ شود، پس قول بامکان وجود مثل اصلا منجرتکذیب نصی از نصوص نگرد دو سلب قرآن مجید بعد انزال ممکن است ۱؎۔
خبردینے کے بعد ممکن ہے کہ اللہ تعالٰی ان کی خبروں کو بھول جائے پس حضور علیہ السلام کی مثل کا وجود ممکن ہونا ہر کسی نص کی تکذیب کاسبب نہیں ہوسکتا جبکہ نزول قرآن کے بعد قرآن کا سلب ہوجانا ممکن ہے۔ (ت)

یہاں صاف بے پردہ اقرار کردیا کہ اللہ عزوجل کی بات واقع میں جھوٹی ہوجائے تو کچھ حرج نہیں حرج ا س میں ہے کہ بندے اس کے جھوٹ پر مطلع ہوں اگر انھیں بھلاکر اپنی بات جھوٹی کردے تو تکذیب کہاں سے آئے گی اب کسی کو وہ نص یاد ہی نہیں کہ جھوٹ پر اطلاع پائے۔
 (۱؎ رسالہ ایک روزہ (فارسی)        فاروقی کتب خانہ ملتان    ص۱۷)
شفا شریف مطبع صدیقی ص ۳۶۱:

من دان بالوحدانیۃ وصحۃ النبوۃ ونبوۃ نبینا صلی اﷲ تعالٰی علیہ وعلی الہ وسلم ولکن جوز علی الانبیاء الکذب فیما اتوا بہ ادعی فی ذلک المصلحۃ بزعمہ اولم یدعھا فھو کافر باجماع ۲؎۔
جو اللہ تعالٰی کی وحدانیت، نبوت کی حقانیت، ہمارے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی نبوت کا اعتقادرکھتا ہو 

اینہمہ انبیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام پر ان باتوں میں کہ وہ اپنے رب کے پاس سے لائے کذب جائز مانے خواہ بزعم خود اس میں کیسی مصلحت کا ادعاء کرے یا نہ کرے ہرطرح بالاتفاق کافر ہے۔ (ت)
 (۲؎الشفاء بتعریف حقوق المصطفی    فصل فی بیان ماھومن المقالات    المطبعۃ الشرکۃ الصحافیۃ    ۲/ ۲۶۹)
حضرات ابنیاء علیہم افضل الصلٰوۃ والثناء کا کذب جائزجاننے والا بالاتفاق کافرہوا اللہ عزوجل کا کذب جائز ماننے والا کیونکر بالاجماع کافر ومرتد نہ ہوگا!
کفریہ سوم: صرامستقیم مطبع ضیائی ۱۲۸۵ھ ص ۱۷۵ اپنے پیر کی نسبت لکھا:

روزے حضرعت جل وعلا دست راست ایشاں رابدست قدرت خاص خود گرفتہ وچیزے را از امور قدسیہ کہ بس رفیع وبدیع بود پیش روئے حضرت ایشاں کردہ فرمودہ کہ ترا ایں چنیں دادہ ام وچیز ہائے دیگر خواہم داد ۳؎۔
ایک روزہ اللہ تعالٰی نے اس حضرت کا دایاں ہاتھ اپنے دست قدرت میں پکڑا اور امور قدسیہ کی ایک بلندوبالا عجیب چیز کو پیش کرکے فرمایا تجھے یہ دیااور اس کے علاوہ اور چیز یں بھی دیں گے۔ (ت)
 (۳؎ صراط مستقیم         خاتمہ دربیان پارہ        المکتبۃ السلفیہ لاہور    ص۱۶۴)
ص ۱۳: مکالمہ ومسامرہ بدست می آید ۴؎
(ہم کلامی اور باتیں حاصل ہوئیں۔ ت)
 (۴؎ صراط مستقیم       ہدایت اربعہ دربیان ثمرات حب     المکتبۃ السلفیہ لاہور   ص۱۲)
ص ۱۵۴: گاہے کلام حقیقی ہم می شود ۱؎
 (کبھی حقیقی گفتگو بھی حاصل ہوتی ہے۔ ت)
یہ صراحۃ اپنے پیر وغیرہ کو نبی بناناہے۔
 (۱؎ صراط مستقیم    باب سوم تکملہ دربیان سلوک ثانی    المکتبۃ السلفیہ لاہور    ص۱۴۳)
تفسیر عزیزی سورہ بقرہ شاہ عبدالعزی صاحب مطبع کلکتہ ۱۲۴۹ھ ص ۴۲۳:

ہمکلامی باخدائے عزوجل مختص است بملائکہ وانبیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام وغیر ایشاں راہر گز میسر نمی شود، پس فرمائش ہمکلامی باخداگویا فرمائش آن ست کہ ماہمہ راپیغمبراں یا فرشتہاسازد ۲؎۔
اللہ تعالٰی سے ہم کلامی صرف انبیاء اور فرشتوں کے لئے خاص ہے، علیہم الصلٰوۃ والسلام ان کے علاوہ کسی دوسرے کوہر گز میسر نہیں ہوتی۔ پس اللہ تعالٰی سے ہم کلامی کی فرمائش کرنا گویا کہ اپنے کو پیغمبروں اور فرشتوں میں شمار کرنا ہے۔ (ت)
 (۲؎ فتح العزیزی (تفسیر عزیزی)     آیہ ۲/ ۱۱۸ کے تحت    مطبع مجتبائی دہلی    ص۴۲۷)
شرح عقائد جلالی طبع مصر ص ۱۰۶، اس مسئلہ کی دلیل میں کہ دنیامیں اللہ تعالٰی سے ہمکلامی کامدعی کافرہے فرمایا :
المکالمۃ شفاھا منصب النبوۃ بل اعلی مراتبھا وفیہ مخالفۃ لماھو من ضروریات الدین وھو انہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وعلی آلہ وسلم خاتم النبیین علیہ افضل صلٰوۃ المصلین ۳؎۔
اللہ عزوجل سے کلام حقیقی منصب نبوت بلکہ اس کے مراتب میںاعلی مرتبہ ہے تواس کے دعوے میں بعض ضروریات دین یعنی نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کا انکار ہے۔
 (۳؎ الدوانی علی العقائد العضدیہ    بحث توبہ سے قبل    مطبع مجتبائی دہلی    ص۱۰۶)
اسی طرح شفاء شریف میں مدعی مکالمہ کو بالاجماع کافر بتایا ص ۳۶۰، اسی میں ہے ص ۳۶۲:
وکذالک من ادعی منھم انہ یوحی الیہ وان لم یدعی النبوۃ وانہ یصعد الی السماء ویدخل الجنۃ ویاکل من ثمارھا ویعانق الحور العین فھٰؤلاء کلھم کفار مکذبون للنبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ۴؎۔
اسی طرح جو جھوٹا متصوف دعوٰی کرے کہ اللہ تعالٰی اسے وحی کرتاہے اگر چہ مدعی نبوت نہ ہو یا کہ وہ آسمان تک چڑھتا جنت میں جاتا اس کے پھل کھاتا حوروں کو گلے لگاتا ہے،یہ سب کافر ہیں اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی تکذیب کرنے والے۔
 (۴؎ الشفاء بتعریف حقوق المصطفی    فصل فی بیان ماھو من المقالات    المطبعۃ الشرکۃ الصحافیہ    ۲/ ۷۱۔ ۲۷۰)
حوروں سے اس معانقہ کے دعوٰی پر تو یہ حکم ہے رب العزۃ سے ہاتھ ملاکر مصافحہ پر کیا حکم ہوگا!
کفریہ چہارم: تقویۃ الایمان ص ۱۴:

''جتنے پیغمبر آئے وہ اللہ کی طر ف سے یہی حکم لائے ہیں کہ اللہ کو مانے اور اس کے سوا کسی کو نہ مانے۱؎۔''
 (۱؎ تقویۃ الایمان    الفصل الاولی فی الاجتناب عن الاشراک    مطبع علیمی اندرون لوہاری دوازہ لاہور    ص۱۰)
ص ۱۶ و ۱۷: ''اللہ صاحب نے فرمایا میرے سوا کسی کو نہ مانیو۲؎۔''
 (۲؎تقویۃ الایمان    الفصل الاولی فی الاجتناب عن الاشراک    مطبع علیمی اندرون لوہاری دوازہ لاہور  ص۱۲)
ص۱۸: ''اللہ کے سوا کسی کو نہ مان۳؎۔''
 (۳؎ تقویۃ الایمان    الفصل الاولی فی الاجتناب عن الاشراک    مطبع علیمی اندرون لوہاری دوازہ لاہور  ص۱۲)
ص ۷: ''اوروں کو ماننا محض خبط ہے۴؎۔''
 (۴؎تقویۃ الایمان    مقدمۃ الکتاب    مطبع علیمی اندرون لوہاری دوازہ لاہور    ص۵)
مسلمانوں کے مذہب میں جس طرح اللہ تعالٰی عزوجل کا ماننا رکن ایمان ہے یونہی اس کے انبیاء وملائکہ، کتابوں، جنت، نار وغیرہا ایمانیات کا ماننا ان میں سے ہے جسے نہ مانے گا کافر ہوگا۔ ماننا ترجمہ ایمان کاہے اور نہ ماننا کفر کا تو یہ صراحۃ انبیاء وغیرہم کے ساتھ کفر کا حکم ہوا کہ خود کفر ہے اور اللہ تعالٰی ورسول پر اس کے حکم کا افتراء دوسرا کفر۔ آیت بقرۃ :
أانذرتھم ام لم تنذرھم لایؤمنون ۵؎ o
 (۵؎ القرآن الکریم          ۲ /۶)
موضح قرآن: تو ڈراوے یا نہ ڈراوے وے نہ مانیں گے۔۶؎
 (۶؎ موضح القرآن     ترجمہ وتفسیر شاہ عبدالقادر        تاج کمپنی لاہور        ص۴)
آیت اعراف : قال الذین استکبروا انا بالذین اٰمنتم کٰفرون۷؎ o
 (۷؎ القرآن الکریم           ۷ /۷۶)
موضح قرآن : کہنے لگے بڑائی والے جو تم نے یقین کیا سو ہم نہیں مانتے۔۸؎
 (۸؎ موضح القرآن    ترجمہ وتفسیری شاہ عبدالقادر        تاج کمپنی لاہور        ص۱۹۴)
آیت آخر بقرۃ: اٰمن الرسول بما انزل الیہ من ربہ والمؤمنون کلٌ اٰمن باﷲ وملٰئکتہ وکتبہ ورسلہ ۱؎o
موضح قرآن : مانا رسول نے جو کچھ اترا اس کو اس کے رب کی طرف سے اور مسلمانوں نے سب نے مانا اللہ کو اوراس کے فرشتوں کواور کتابوں کو اور رسولوں کو۔۲؎
 (۱؎ القرآن الکریم    ۲ /۲۸۵)

(۲؎ موضح القرآن    ترجمہ وتفسیر شاہ عبدالقادر    تاج کمپنی لاہور    ص۶۱)
دیکھو اللہ عزوجل تو فرماتاہے کہ ایمان والوں نے اللہ اور اس کے فرشتوں، کتابوں، نبیوں سب کومانا، یہ کہتاہے ''اللہ نے فرمایا میر سوا کسی کو نہ مانیو'' اگراس کے کلام کے کچھ نئے معنی اپنی جی سے گھڑےے بھی تو اول تو صریح لفظ میں تاویل کیامعنی!
شفاء شریف ص ۳۲۳:  ادعاء التاویل فی لفظ صراح لایقبل ۳؎۔
صریح لفظ میں تاویل کا دعوٰی مقبول نہیں۔
 (۳؎ الشفاء بتعریف حقوق المصطفی  الباب الاولی فی بیان ماھو حقہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم  المطبعۃ الشرکۃ الصحافیہ    ۲ /۲۱۰)
ثانیا وہ آپ سب تاویلوں کا دروازہ بند کرچکا تو اس کے کلام میں بناوٹ نری گھڑت جو اسے خود قبول نہیں۔ تقویۃالایمان ص۵۵ :

''یہ محض بے جا ہے کہ ظاہر میں لفظ بے ادبی کا بولئے اور اس سے کچھ اور معنی مراد لیجئے، معما اور پہیلی بولنے کی اور جگہ ہیں، کوئی شخص اپنے باپ یا بادشاہ سے جگت نہیں بولتا اس کے واسطے دوست آشنا ہیں نہ باپ اور

بادشاہ ۴؎'' یہ نفیس فائدہ ہے ہر جگہ ملحوظ خاطر رہے کہ اکثر حرکات مذبوجہ کا جواب شافی رہے۔
 (۴؎ تقویۃ الایمان    الفصل الخامس        مطبع علیمی اندرون لوہاری دروازہ لاہور    ص۳۹)
تذکیر الاخوان حصہ دوم تقویۃ الایمان مترجمہ سلطان خاں مطبع فاروقی ص ۷۳ :

'' اصحاب رضی اللہ تعالٰی عنہم سے محبت رکھنا ایمان کی نشانی ہے جو ان کو نہ مانے اس کا ٹھکانا دوزخ ہے۵؎۔''
 (۵؎ تذکیر الاخوان    حصہ دوم تقویۃ الایمان    الفصل الرابع    مطبع علیمی اندرون لوہاری دروازہ لاہور     ص۱۰۵)
سبحن اللہ! دوسرے حصے والا کہتاہے جو صحابہ کو نہ مانے وہ بدعتی جہنمی، پہلے والا کہتاہے صحابہ تو صحابہ جو ابنیاء کو مانے وہ بھی کافر  دوزخی کفی اﷲ المؤمنین القتال ۶؎ (اور اللہ نے مسلمانوں کو لڑائی کی کفایت فرمادی۔ ت)
(۶؎ القرآن الکریم        ۳۳/ ۲۵)
Flag Counter