یہ بطورنمونہ طائفہ حائفہ اور اس کے کفری اقوال اور ان پر کتب ائمہ دین سے احکام کفر و اشد الضلال تھے جن کا شمار بظاہرستر کفریات تک پہنچا اور حقیقۃ تو بے شمار ہیں کہ ساتھ سے گیارہ تک پانچ کفریات کے کلمات میں ہر کلمہ صد ہزار کفریہ کا خمیرہ ہے۔ یونہی کفریہ ۲۳ و ۲۹ بھی مجمع کفریات کثیرہ، یہ ستر کیا ان میں سے جس ایک کو چاہئے ستر ۷۰ کردکھائے تو اب کفریات کو خواہ ستر کہے خواہ ستر ہزار کفریات ٹھہرائے او کیوں نہ ہوں کہ وہاں عمربھریہی کمایا تھا پڑھا لکھا سب اسی میں گنوایا تھا مشقیں چڑھی تھیں مہارتیں بڑھی تھیں ایک ایک قول میں ہزار ہزار کفر بے بول جانا وہاں کیا بات تھی، یہاں قصد استیعاب آب دریا پیمودن ودانہائے ریگ شمرون کے تمیل سے ہے لہذا اس طرف سے عطف عنان کیجئے اور ان کے اقوال خاصہ پر خاک ذلت ڈال کر بہت مشائخ کرام کے نزدیک اس سارے فرقہ متفرقہ اور اس کے تمام طوائف سابقہ ولاحقہ اکا ایک کفریہ عامہ قدیمہ سن لیجئے کہ انھیں کافر کہنا فقہاًواجب ہے، واضح ہو کہ وہابیہ منسوب بہ عبدالوہاب نجدی ہیں، ابن عبدالوہاب ان کا معلم اول تھا، اس نے کتاب التوحید لکھی جس میں اپنے فرقہ خبیثہ کے سوا تمام اہل اسلام کو کھلم کھلا مشرک بنایا اور حرمین طیبین زادہما اللہ شرفا وتکریما پر چڑھائی کرکے کوئی دقیقہ گستاخی وبے ادبی وشرارت وظلم وقتل غارت کا اٹھا نہ رکھا۔ تقویۃ الایمان اسی کتاب التوحید کا ترجمہ ہے۔ اس کا حال کتاب مستطاب سیف الجبار کے مطالعہ سے کھلتاہے، یہ فرقہ حادثہ گروہ خوارج کی ایک شاخ ہے جنھوں نے سب میں پہلے حضرت امیر المومنین مولی المسلمین سیدنا مولی علی کرم اللہ وجہہ الکریم پر خروج کیا اور اسد اللہ القہار کافر شکار سے دارالبوار کا رستہ لیا جن کی نسبت حدیث میں آیا کہ وہ قیامت تک منقطع نہ ہوں گے۔ جب ان کا ایک گروہ ہلاک ہوگا دوسرا سر اٹھائے گا یہاں تک کہ ان کا پچھلا طائفہ دجال لعین کے ساتھ نکلے گا بموجب اس وعدہ صادقہ کے یہ قوم مغضوب ہمیشہ فتنے اٹھایا کی تیرہ صدی کے شروع میں ا س نے دیار نجد سے خروج کیا اور بنام نجدیہ مشہور ہوئی جن کا پیشوا نجدی تھا اسی کا مذہب میاں اسمعیل دہلوی نے قبول کیا اور اس کی کتاب کا ترجمہ بنام تویۃالایمان کہ حقیقۃ تفویت الایمان ہے ان دیار میں پھیلایا اور بلحاظ معلم اول وہابیہ وبنظر معلم ثانی اسمعیلیہ لقب پایا اس طائفہ کا ہمیشہ سے یہی مذہب رہاہے کہ دنیا میں وہی موحد ومسلم ہیں باقی سب معاذاللہ کافر۔
ردالمحتار جلد ۳ ص ۴۷۸:
ویکفرون اصحاب نبینا صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم علمت ان ھذا غیر شرط فی مسمی الخوارج بل ھو بیان لمن خرجوا علی سیدنا علی رضی اﷲ تعالٰی عنہ والافیکفی فیھم اعتقاد ھم کفر من خرجوا علیہ کما وقع فی زماننا فی اتباع عبدالوھاب الذین خرجوا من نجد وتغلبوا علی الحرمین وکانوایتحلون مذھب الحنابلۃ لکنھم اعتقدوا انھم ھم المسلمون وان من خالف اعتقادھم مشرکون واستباحوا بذلک قتل اھل السنۃ وقتل علمائھم حتی کثراﷲ تعالٰی شوکتھم وخرب بلادھم وظفربھم عساکر المسلمین عام ثلث وثلثین ومائتین والف ۱؎۔
اصحاب رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو معاذا للہ کافر کہنا کچھ خارجیوں کے لئے ضروری نہیں بلکہ خاص یہ ان خارجیوں کا بیان حال ہے جنھوں نے ہمارے آقامولی علی کرم اللہ وجہہ الکریم پر خروج کیا تھا خارجی ہونے کو اتنا کافی ہے کہ جن پر خروج کریں انھیں اپنے عقیدے میں کافر جانیں جیساہمارے زمانے میں عبدالوہاب کے پیرووں سے واقع ہوا جنھوں نے نجد سے نکل کرحرمین شریفین پر ظلما قبضہ کیا اپنے آپ کو حنبلی بتاتے تھے مگر ان کا مذہب یہ کہ صرف وہی مسلمان ہیں اور جو ان کے خلاف مذہب میں مشرک ہیں اسی بناء پر انھوں نے اہل سنت وعلماء اہل سنت کا شہید کرنا حلال ٹھہرالیا یہاں تک کہ اللہ عزوجل نے ان کی شوکت توڑی ان کے شہرو یران کئے مسلمان کے لشکر کو ان پر فتح دی ۱۲۳۳ بارہ سو تینتیس ہجری میں،
(۱؎ ردالمحتار باب البغاۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۳/ ۳۰۹)
یہاں سے تو ان کی اصل نسل مذہب مشرب معلوم ہولئے، اب علمائے کرام سے ان کا حکم سنئے،
خارجیوں کو کافر کہنا واجب ہے ا س بناء پر ک وہ اپنے سوا تمام امت کو کافر کہتے ہیں۔
(۲؎ فتاوٰی بزازیہ علی ہامش فتاوٰی ہندیہ الباب الرابع فی المرتد نورانی کتب خانہ پشاور ۶/ ۳۱۸)
ظاہر ہوا کہ یہ خصلت خبیثہ ان میں آج کی نہیں بلکہ ہمیشہ سے ان کے اگلے پچھلے سب اسی مرضی میں گرفتار
تھے جس پر مشائخ مذہب رحمہم اللہ تعالٰی نے انھیں کافر جانا، اور ان کی تکفیر کو فرض واجب مانا۔ لطف یہ کہ
جناب شاہ عبدالعزیز صاحب بھی انھیں مشائخ کرام کی موافق فرماتے بلکہ تکفیر خوارج کو مجمع علیہ بتاتے ہیں۔
تحفہ اثنا عشریہ ص ۷۳۲ : محارب حضرت مرتضی اگر از راہ عداوت وبغض ست نز د اہل سنت کافر ست بالاجماع وہمیں ست مذہب ایشاں درحق خوارج ۳؎۔
حضرت علی مرتضی سے جنگ کرنیوالا اگر ان سے عداوت وبغض کی وجہ سے کرتاہے تو اہل سنت کے نزدیک بالاجماع وہ کافر ہے۔اور خوارج کے متعلق ان کا یہی مذہب ہے (ت)
(۳؎ تحفہ اثنا عشریہ باب دوازدہم در تولا وتبرا سہیل اکیڈمی لاہور ص۳۹۴)
بالجملہ (عہ) ماہ نیم ماہ ومہر نیمروز کی طرح ظاہر وزاہر کی اس فرقہ متفرقہ یعنی وہابیہ اسمعیلیہ اوراس کے امام نافرجام پرجزما قطعا یقینا اجماعا بوجوہ کفر لازم، او ربلاشبہ جماہیر فقہائے کرام واصحاب فتوٰی اکابر واعلام کی تصریحات واضحہ پر یہ سب کے سب مرتد کافر باجماع ائمہ ان سب پر اپنے کفریات ملعونہ سے بالتصریح تو بہ و رجوع اور ازسر نو کلمہ اسلام پڑھان فرض وواجب اگرچہ ہمارے نزدیک مقام احتیاط میں اکفارسے
عہ: اس میں شک نہیں کہ اس گروہ ناحق پژدہ پر ہزاروں وجہ سے کفر لازم اور جماہیر فقہائے کرام کی تصریحیں ان کے صریح کفرپر حاکم،
نسأل اﷲ تعالٰی العفو والعافیۃ فی الدنیا والاخرۃ
(ہم اللہ سے دنیا وآخرت میں عفو وعافیت کا سوال کرتے ہیں۔ ت)
تنبیہ نبیہ: یہ حکم فقہیہ متعلق بکلمات سفہی تھا مگراللہ تعالٰی کی بے شمار رحمتیں بیحد برکتیں ہمارے علمائے کرام عظمائے اسلام معظمین کلمہ خیر الانام علیہ وعلیہم الصلٰوۃ والسلام پر کہ یہ کچھ دیکھتے وہ کچھ سخت وشدید ایذا ئیں نہ پاتے ہیں اس طائفہ تالفہ کا کے پیر وپیر سے ناحق ناروا بات بات پر سچے مسلمان خاص سنیوں کی نسبت حکم کو کفر وشرک سنتے، ایسی ناپاک وغلیظ گالیاں کھاتے ہیں، با ایہنمہ نہ شدت غضب دامن احتیاط ان کے ہاتھ سے چھڑائی نہ ان نالائق ولا یعنی خباثتوں پر قوت انتقام حرکت میں آ تی ہے، وہ اب تک یہی تحقیق فرمارہے ہیں کہ لزوم والتزام میں فرق ہے اقوال کاکلمہ کفر ہونا اور بات،اور قائل کو کافر لینا اور بات، ہم احتیاط برتیں گے سکوت کریں گے، جب تک ضعیف ساضعیف احتمال ملے گا حکم کفرجاری کرتے ڈریں گے،فقیر غفرلہ تعالٰی نے اس مبحث کا قدرے بیان آخر رسالہ سبحن السبوح عن عیب کذ ب مقبوح (۱۳۰۷ھ) میں کیا اور وہاں بھی با آنکہ ا س امام وطائفہ پر صرف ایک مسئلہ امکان کذب میں اٹھتر۷۸ وجہ سے لزوم کفرکا ثبوت دیا کفر سے کف لسان ہی کیا، بالجملہ اس طائفہ حائفہ خصوصا ان کے پیشوا کا حال مثل یزید پلید علیہ ماعلیہ ہے کہ محتاطین نے اس کی تکفیر سے سکوت پسند کیا،ہاں یزید مرید اور انکے امام عنید میں اتنا فرق ہے کہ اس خبیث سے ظلم وفسق وفجور متواتر مگر کفر متواتر نہیں۔ اور ان حضرت سے یہ سب کلمات کفر اعلی درجے تواتر پر ہیں پھر اگرچہ براہ احتیاط سے زبان روکے ان کے خساروبوار کو یہ کیا کم ہے کہ جماہیر ائمہ کرام فقہائے اسلام کے نزدیک ان پر بوجوہ کثیرہ کفرلازم، والعیاذ باﷲ القیوم الدائم، امام ابن حجر مکی قواطع میں فرماتے ہیں:
انہ یصیر مرتدا علی جماعتہ وکفی بھذا خسارا وتفریطا ۱؎۔
ایک جماعت کے قول پر وہ کافر ہے اسی کے خسارے و ذلت کو یہی کافی ہے۔ (ت)
(۱؎ الاعلام بقواطع الاسلام مع سبل النجاۃ مکتبۃ الشفقۃ استنبول ترکی ص۳۶۲)
اللہ عزوجل پناہ دے اور دین حق پر دینا سے اٹھائے آمین، والحمد اﷲ رب العالمین واللہ سبحنہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم ۱۲ سل السیوف تصنیف العلامۃ المصنف مدظلہ العالی
الحمد اللہ کہ یہ اجمالی اجلالی جواب باصواب غرہ جمادی الآخرہ روزمبارک جمعہ فاخرہ ۱۳۱۲ہجریہ طاہرہ کو بدر سمائے ختام اور بلحاظ تاریخ الکوکبۃ الشھابیہ فی کفریات ابی الوہابیۃ نام ہو۔
نسأل اﷲ تعالٰی ان یدینا علی الایمان والسنۃ ویختم لنا علی دینہ الحق بعظیم المنۃ ویدخلنا بجاہ حبیبہ الکریم علیہ افضل الصلٰوۃ والتسلیم فرادیس الجنۃ، وصلی اﷲ تعالٰی علی سیدنا ومولٰنا محمد سید الانس والجنۃ وعلی اٰلہ وصحبہ واھلہ وحزبہ اجمعین والحمد ﷲ رب العالمین۔
ہم اللہ تعالٰی سے دعاکرتے ہیں کہ وہ ہمیں ایمان وسنت پر دوام بخشے اور اپنے دین حق پر ہمارا خاتمہ فرمائے اپنے بڑے احسان سے اور حضورعلیہ الصلٰوۃ والسلام اپنے حبیب کریم کے وسیلہ سے ہمیں جنت الفردوس عطا فرمائے، وصلی اللہ تعالٰی علیہ ومولانہ محمد سید الانس والجنۃ وعلی الہ وصحبہ واہلہ وحزبہ اجمعین والحمد اللہ رب العالمین۔ (ت)
کتبہ
عبدہ المذنب احمد رضاالبریلوی عفی عنہ بمحمدن المصطفی النبی الامی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم