کفریہ ۵۷ تا ۶۱: صراط مستقیم ص ۳۶: ائمہ ایں طریق واکابرایں فریق در زمرہ ملٰئکہ مدبرات الامر کہ در تدبیر امور از جانب ملاء اعلٰی ملہم شدہ دراجرائے آں می کو شند معدود ند پس احوال ایں کرام بر احوال ملائکہ عظام قیاس باید کرد ۱؎۔
اس طریقہ کے ائمہ وراس گروہ کے اکابر حضرات کا شمار مدبرات الامر فرشتوں کے گروہ میں ہوتاہے یہ فرشتے ملاء اعلٰی کی طرف سے تدابیر امور کے لئے الہام پاتے ہیں اور پھر ان کے اجراء میں کوشاں ہوتے ہیں، پس ان بزرگوں کے احوال کو معظم فرشتوں کے احول پر قیاس کرنا چاہئے (ت)
(۱؎ صراط مستقیم باب اول ہدایت رابعہ افادہ ۱ المکتبۃ السلفیہ لاہور ص۳۲)
ص ۶۶: قطبیت وغوثیت وابدالیت وغیرہا ہمہ از عہد کرامت مہد حضرت مرتضی تا انقراض دنیا ہمہ بواسطہ ایشاں ست در سلطنت سلاطین وامارت امراہم ہمت ایشاں رادخلے ہست کہ برسیاحین عالم ملکوت مخفی نیست ۲؎۔
قطبیت وغوثیت وابدالیت وغیرہا یہ تمام مراتب حضرت علی مرتضی کے زمانہ باکرامت سے دنیا کے اختتام تک بواسطہ علی مرتضی حاصل ہوتے ہیں اور ان حضرات کو بادشاہوں کی سلطنت اور امراء کی امارت میں اہم دخل ہوتاہے جو عالم ملکوت کی سیر کرنے والوں پر مخفی نہیں ہے۔ (ت)
(۲؎صراط مستقیم باب دوم ہدایت ثانیہ افادہ ۱ المکتبہ السلفیہ لاہور ص۵۸)
صفحہ ۱۱۲: ارباب ایں مناصب رفیعہ ماذون مطلق درتصرف عالم مثال وشہادت مے باشند وایں کبار اولی الایدی والابصار رامے رسد کہ تمامی کلیات رابسوئے خود نیست نمایند مثلا ایشاں رامی رسد کہ بگویند کہ از عرش تافرش سلطنت ماست ۱؎۔
ان بلند منصب والے حضرات عالم والے حضرات علم امثال وشہادت میں تصرف کرنے میں مجاز مطلق ہوتے ہیں، ان طاقتوں اور بصیرت والے اکابرین کو اختیار ہے کہ تمام امور کلیہ اپنی طرف منسوب کرلیں، مثلا ان کوا ختیار ہے کہ وہ عرش تا فرش اپنی سلطنت ہونے کا دعوٰی کریں۔ (ت)
(۱؎ صراط مستقیم باب دوم فصل چہارم افادہ ۲ المکتبۃ السلفیہ لاہور ص۱۰۱)
صفحہ ۵۴: دریں مقام بعضے خلیفۃ اللہ مے باشند خلیفۃ اللہ اں کسے ست کہ برائے انصرا م جمیع مہام اورامقرر کردہ مانند نائب سازند ۲؎۔
اسی مقام پر بعض حضرات خلیفۃ اللہ ہوتے ہیں خلیفۃ اللہ وہ شخص ہوتاہے جو تمام مہمات کے انتظام پر مقرر ہوتاہے اور نائب کی طرح ہوتاہے۔ (ت)
(۲؎ صراط مستقیم باب سوم تکملہ دربیان سلوک المکتبۃ السلفیہ لاہور ص۱۴۳)
صفحہ ۳۴: او رادرکیف ولایت خودگرفتہ وزیر سایہ کفالت تربیت خود آوردہ جارحہ تدبیر تکوینی تشریعی خود مے سازد ۳؎۔
اس کو اپنی ولایت کے پہلو میں لے کر اس کی تربیت کی کفالت خود کرتے ہیں اور تکوینی وتشریعی امور میں خود تصرف والا بناتے ہیں۔ (ت)
(۳؎ صراط مستقیم باب اول ہدایت رابعہ افادہ ۱ المکتبۃ السلفیہ لاہور ص۲۹)
ان پانچ شرکیات میں صاف صاف تصریحیں ہیں کہ ملائکہ واولیاء کاروبار عالم کے مدبر ہیں، اولیاء عالم کے کام جاری کرتے ہیں، اولیاء کو تمام عالم میں تصرف کا اختیار کلی دیا جاتاہے، تمام کام ان کے ہاتھ سے انصرام پاتے ہیں، بادشاہوں کے بادشا ہ بننے، امیروں کے امیری پانے میں مولا علی کی ہمت کو دخل ہے،
اب تقویۃ الایمان کی سنئے، اس کی ایک عبارت شروع کفریہ ۲۲ میں سن چکے بعض اور لیجئے ص ۷:
''اللہ صاحب نے کسی کو عالم میں تصرف کرنے کی قدرت نہیں دی۴؎۔''
(۴؎ تقویۃ الایمان پہلا باب مطبع علیمی اندرون لوہاری گیٹ لاہور ص۵)
صفحہ ۴۲: ''جس کا نام محمد یا علی ہے وہ کسی چیز کا مختار نہیں۱؎۔ ''
(۱؎ تقویۃ الایمان الفصل الرابع مطبع علیمی اندرون لوہاری گیٹ لاہور ص۲۸)
صفحہ ۲۹: ''کسی کام میں نہ بالفعل ان کو دخل ہے نہ اس کی طاقت رکھتے ہیں۲؎۔''
(۲؎ تقویۃ الایمان الفصل الثالث مطبع علیمی اندرون لوہاری گیٹ لاہور ص۲۰)
صفحہ ۲۸: ''جو کوئی کسی مخلوق کو عالم میں تصرف ثابت کرے اور اپنا وکیل ہی سمجھ کر اس کو مانے سواس پر شرک ثابت ہوتاہے گو کہ اللہ کے برابر نہ سمجھے اور اس کے مقابلہ کی طاقت اس کونہ ثابت کرے۳؎۔''
(۳؎ تقویۃ الایمان الفصل الثالث مطبع علیمی اندرون لوہاری گیٹ لاہور ص۱۹)
کفریہ ۶۲ تا ۶۸: صراط مستقیم ص ۱۲۱: دریں حالت اطلاع برامکنہ افلاک وسیر بعضے مقامات زمین کہ دور ودراز از جائے وے بود بطور کشف حاصل مے آید وآں کشفش مطابق واقع می باشد ۴؎۔
اس حالت میں وہ آسمانوں کے مقامات اور اپنے سے دور دراز تک زمین کے بعض مقامات کی سیر بطور کشف کرتے ہیں، اور ان کا کشف واقع کے مطابق ہوتاہے۔ (ت)
(۴؎؎ صراط مستقیم باب سوم فصل اول افادہ ۶ المکتبۃ السلفیہ لاہور ص۱۰۔ ۱۰۹)
صفحہ ۱۲۴: برائے انکشاف حالات سمٰوٰت وملاقات ارواح و ملائکہ وسیر جنت ونار واطلاع برحقائق آن مقام ودریافت امکنہ آنجا وانکشاف امرے از لوح محفوظ ذکر یاحی یاقیوم ست (الی قولہٖ) و در سیر مختار ست بالائے عرش نماید یا زیر آں و درمواضح آسماں نماید یابقاع زمین ۵؎ الخ''
آسمانوں کے حالات پر آگاہی اور فرشتوں اور روحوں کی ملاقات، جنت ودوزخ کی سیر اور ان مقامات کے حقائق پر اطلاع اوروہاں کے مقامات کی دریافت اور لوح محفوظ کے امور پر آگاہی کے لئے یا حی یاقیوم کا ذکر ہے، (آگے یہاں تک) اور اس سیر میں وہ مختار ہے کہ عرش سے بالا یا زیر عرش یاآسمانوں میں کسی مقام پر یا زمین کے کسی خطے کو ملاحظہ کرے۔ (ت)
(۵؎صراط مستقیم فصل دوم افادہ ۱ المکتبۃ السلفیہ لاہور ص۱۱۳)
صفحہ ۱۲۵: برائے کشف قبور سبوح قدوس ر ب الملٰئکۃ والروح مقرر ست ۱؎۔
کشف قبر کے لئے "سبوح قدوس رب الملئکۃ والروح" مقرر ہے۔ (ت)
(۱؎ صراط مستقیم باب سوم فصل دوم ہدایت ثانیہ افادہ ۲ المکتبۃ السلفیہ لاہور ص۱۱۳)
صفحہ ۱۲۸: برائے کشف ارواح وملائکہ ومقامات آنہا وسیر امکنہ زمین وآسمان وجنت ونار واطلاع بر لوح محفوط شغل دورہ کند و باستعانت ہماں شغل بہر مقامیکہ از زمین وآسمان وبہشت ودوزخ خواہد متوجہ شدہ سیرآن مقام واحوال آنجا دریافت کند وبا اہل آں مقام ملاقات سازد ۲؎۔
ارواح، ملائکہ اور ان کے مقامات اور زمین وآسمان، جنت، دوزخ اور لوح محفوظ پر دورہ کا شغل کرے اور اس شغل کی مدد سے زمین وآسمان، بہشت و دوزخ جس مقام کی طرف چاہے متوجہ ہوتاہے اور اس مقام کی سیر سے وہاں کے احوال دریافت کرتاہے اور وہاں کے رہنے والوں سے ملاقات کرتاہے۔ (ت)
(۲؎ صراط مستقیم باب سوم فصل دوم ہدایت ثانیہ افادہ ۱ المکتبۃ السلفیہ لاہور ص۱۱۷)
صفحہ ۱۲۹:برائے کشف وقائع آئندہ اکابرایں طریقہ طرق متعدد نوشتہ اند ۳؎۔
مستقبل کے واقعات کے کشف کے لئے اس طریقہ کے اکابر نے متعدد طرق لکھے ہیں۔ (ت)
(۳؎ صراط مستقیم باب سوم فصل دوم ہدایت ثانیہ افادہ ۲ المکتبۃ السلفیہ لاہور ص۱۱۷)
صفحہ ۱۵۸: آں عزیز باوجود وجاہت عنداللہ کامل النفس قوی التاثیر صاحب کشف صحیح باشد ۴؎۔
وہ اللہ تعالٰی کے ہاں باوجاہت ہوتے ہوئے کامل النفس،قوی التاثیر اور صحیح کشف والا ہوتاہے۔ (ت)
(۴؎ صراط مستقیم باب چہارم دربیان طریق سلوک راہ نبوت المکتبۃ السلفیہ لاہور ص۱۴۷)
صفحہ ۱۷۶، اپنے پیر کو لکھا: کشف بعلوم حکمت آنجا مید انست ۵؎۔
ان سات شرکیات میں صاف صاف کشف کی صحت کا اقرار ہے وہ بھی ایسا کہ اولیاء کو ز مین کے دور ودرازمقامات ظاہر ہوتے ہیں بلکہ زمین کیاآسمانوں کے مکانات اور ملائکہ وارواح اور ان کے مقامات اور جنت و دوزخ اور قبروں کے اندر کاحال اور آنے والے واقعات کھل جاتے ہیں یہاں تک کہ عرش فرش سب میں ان کی رسائی ہوتی ہے حتی کہ لوح محفوظ پر اطلاع پاتے ہیں وہ اپنے اختیار سے زمین وآسمان میں جہاں کا حال چاہیں دریافت کرلیں، اور ان سب باتوں کے حاصل کرنے کے طریقے خود ہی اس شخص نے بتائے کہ یوں کرو تو یہ رتبے مل جائیں گے یہ کشف یہ اختیار ہاتھ آئیں گے، اب تقویۃ الایمان کی پوچھئے ص۲۷:
''جوکچھ کہ اللہ اپنے بندوں سے معاملہ کرے گا خواہ دنیا میں خواہ قبرمیں خواہ آخرت میں سو ان کی حقیقت کسی کو معلوم نہیں نہ نبی کو نہ ولی کو نہ اپنا حال نہ دوسرے کا۱؎۔''
صفحہ ۵۷ و ۵۸: ''جو کہ اللہ کی شان ہے اور اس میں کسی مخلوق کو دخل نہیں سواس میں اللہ کے ساتھ کسی کو نہ ملادے مثلا کوئی شخص فلانے درخت میں کتنے پتے ہیں یاآسمان میں کتنے تارے ہیں تو اس کے جواب میں یہ نہ کہے کہ اللہ ورسول جانے کیونکر غیب کی بات اللہ ہی جانتا رسول کو کیا خبر۳؎''۔
(۳؎تقویۃ الایمان الفصل الخامس مطبع علیمی اندرون لوہاری گیٹ لاہور ص۴۰)
سبحان اللہ! وہاں تو پیرجی کے ایک ایک مرید کو زمین وآسمان،جنت و دوزخ حتی کہ قبرکے حالات آئندہ کے واقعات لوح محفوظ وعرش اعظم غرض تن تلوک روشن تھے، عرش و فرش میں ہر جگہ کے حالات کا جان لینا اپنے اختیار میں تھا،خود ان پیر جی کو وہ طریقے معلو م تھے کہ یوں کرو تو یہ سب باتیں روشن ہوجائیں گی مگر معاذاللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی انجانی یہاں تک ہے کہ آسمان کے تارے تو درکنار، کیا دخل کہ ایک پیڑ کے پتے جان لیں، اگر انھیں کوئی کہے کہ وہ کسی درخت کے پتوں کی گنتی جانتے ہیں تو اس نے انھیں اللہ کی شان میں ملادیا،
وہاں تو بندگی کو وسعت تھی یہاں آکر خدائی اتنی تنگ ہوئی کہ ایک پیڑ کے پتے جاننے پر رہ گئی، حق فرمایا اللہ عزوجل نے:
ماقدروا اﷲ حق قدرہٖ ۴؎
اللہ ہی کی قدرنہ کی جیسی چاہئے تھی،
(۴؎ القرآن الکریم ۶/ ۹۱ و ۳۹/ ۶۷)
تقویۃ الایمان صفحہ ۵۲: ''شرک سب عبادت کا نور کھو دیتاہے کشف کا دعوٰی کرنے والے اس میں داخل ہیں۱؎۔''
یعنی جیسے یہ شخص اور اس کے پیر کہ وہ اپنے اور یہ ان کے لئے کشف کا دعوٰی کرکے شرک میں ڈوبے۔
(۱؎ تقویہ الایمان الفصل الخامس مطبع علیمی اندرون لوہاری گیٹ لاہور ص۳۶)
مارایسی ہوتی ہے اور بیشک آخرت کی مار سب سے بڑی، کیا اچھا تھااگر وہ جانتے۔ (ت)
(۲ ؎ القرآن الکریم ۶۸/ ۳۳)
کفریہ ۶۹: یہ نمونہ کفریات امام الطائفہ تھا، اتباع واذناب کہ اس کے عقائد کو صحیح وحق جانتے اور اسے امام وپیشوا مانتے ہیں لزوم کفر سے کیونکر محفوظ رہ سکتے ہیں، شرح فقہ اکبر صفحہ ۲۰۱ مجمع الفتاوٰی سے:
من تکلم بکلمۃ الکفر وضحک بہ غیرہ کفرا ، ولوتکلم بہ مذکّر وقبل القوم ذلک کفروا۳؎ الخ۔
جو کلمہ کفر کہے او ر دوسرا اس پر ہنسے (یعنی راضی ہو اور انکار نہ کرے) دونوں کافر ہوجائیں اور اگر کوئی واعظ کلمہ کفر بولے اور لوگ اسے قبول کریں تو سب کافر ہوں۔
(۳؎ منح الروض الازھر شرح الفقہ الاکبر مطلب فی ایرادالفاظ المکفرۃ الخ مصطفی البابی مصر ص۱۶۵)
اعلام میں ہمارے علمائے اعلام سے کفر متفق علیہ کی فصل میں منقول، ص ۳۱:
من تلفظ بلفظ الکفر یکفر (الی قولہ) وکذاکل من ضحک علیہ اواستحسنہ اورضی بہ یکفر ۴؎۔
جو کفرکا لفظ بولے کافر ہو اسی طرح جو اس پر ہنسے یا اسے اچھا سمجھے یااس پر راضی ہو کافر ہو جائے۔
(۴؎ الاعلام بقوطع الاسلام مع سبل النجاۃ مکتبہ داالشفقۃ استنبول ترکی ص۳۶۶)
بحرالرائق ج ۵ ص ۱۲۴: من حسن کلام اھل الاھوا ء اوقال معنوی اوکلام لہ معنی صحیح ان کان ذلک کفرا من القائل کفر المحسن ۵؎۔
جو بد مذہبوں کے کلام کو اچھا جانے یا کہے بامعنی ہے یا یہ کلام کوئی معنی صحیح رکھتا ہے اگروہ اس قائل سے کلمہ کفر تھا تو یہ اچھا بتانے والا کافر ہوگیا۔