کفریہ ۵۶: مکتوبات جنا ب موصوف ج ۱ مکتوب ۳۱۲ ص ۴۴۸: مخدوما احادیث نبوی علی مصدرہا الصلٰوۃ والسلام
درباب جواز اشارت بسبابہ بسیار وارد شدہ اند وبعضے از روایات فقہیہ حنفیہ دریں باب آمدہ ۱؎۔
میرے مخدوم، نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی احادیث شہادت کی انگلی سے اشارہ کی بابت بہت وادر ہیں اور فقہ حنفی کی بعض روایات بھی اس سلسلہ میں آئی ہیں۔ (ت)
(۱؎ مکتوبات امام ربانی مکتوب ۳۱۲ بمیر محمد نعمان نولکشور لکھنؤ ۱/ ۴۴۸)
صفحہ ۴۴۹: وغیر ظاہر مذہب ست وآنچہ امام محمد شیبانی گفتہ کان رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یشیرو یصنع کما یصنع النبی علیہ وعلی الہ الصلوۃ والسلام ثم قال ھذ ا قولی و قول ابی حنیفۃرضی اﷲ تعالٰی عنہما از روایات نوادر ست نہ روایات اصول وفی المحیط اختلف المشائخ فیہ منہم من قال لایشیر ومنہم من قال یشیر وقد قیل سنۃ وقیل مستحب والصحیح حرام، ہر گاہ درروایات معتبرحرمت اشارت واقع شدہ باشد برکراہت اشارت فتوٰی دادہ باشند مامقلدان رانمیر سدکہ بمقتضائے احادیث عمل نمودہ جرأت در اشارت نمائیم مرتکب ایں امراز حنفیہ یا علمائے مجہتدین راعلم احادیث معروفہ جواز اشارت اثبات نمی نماید یا انگارد کہ اینہا بمقتضائے ارائے خود برخلاف احادیث حکم کردہ اند ہر دوشق فاسد ست تجویز نکند آنرا مگر سفیہ یا معاند، ظاہر اصول اصحاب ما عدم اشارت ست سنت علمائے ما تقدم شدہ ۲؎۔
اور وہ ظاہر مذہب پر نہیں ہیں اورامام محمد شیبائی رحمہ اللہ تعالٰی سے جو منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اشارہ کیا کرتے تھے، اور امام محمد رحمہ اللہ تعالٰی بھی اسی طرح کرتے جس طرح حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کیا کرتے تھے، اورپھر انھوں نے فرمایا یہی میرا اور امام ابوحنیفہ (رضی اللہ تعالٰی عنہ) کا قول ہے، یہ نقل نادر روایات میں سے ہے کہ اس میں مشائخ کا اختلاف ہے، بعض نے فرمایا اشارہ نہ کرے، اور بعض نے فرمایا اشارہ کرے اور اس کو سنت بھی کہا ہے بعض نے مستحب کہا ہے، اور صحیح یہ ہے کہ حرام ہے، ہر گاہ کہ معتبر روایات میں اشارہ کی حرمت واقع ہوئی ہے اور اشارہ کی کراہت پر فتوٰی دیا گیا ہے ہم مقلدین حضرات کو یہ حق نہیں کہ ا حادیث کے مقتضی پر عمل کریں اور اشارہ کرنے کی جرأت کریں، اس چیز کے مرتکب کو چاہئے کہ احناف یا مجتہدین کو معروف احادیث سے اشارہ کے جواز کا اثبات کرے یا پھر واضح کرے کہ وہ اپنی رائے سے احادیث کے خلاف حکم کررہے ہیں جبکہ دونوں شقیں فاسد ہیں ان کو بیوقوف یا معاند کے بغیر کوئی بھی جائز نہیں کریگا، ہمارےاصحاب کا ظاہر اصول اشارہ کرنا ہے پس عدم اشارہ ہی ہمارے متقدمین علماء کی سنت ہے۔ (ت)
(۲؎مکتوبات امام ربانی مکتوب ۳۱۲ بمیر محمد نعمان نولکشور لکھنؤ ۱/ ۴۴۹)
صفحہ ۴۵۰: احادیث راایں اکابر بیشتر از ما، می شناختند البتہ وجہ موجہ داشتہ باشند درترک عمل بمتقضائے ایں احادیث علٰی صاحبہا الصلٰوۃ والسلام ۱؎۔
احادیث کوہماری نسبت یہ اکابر زیادہ بہتر سمجھتے ہیں، یقینا وہ ان احادیث کے مقتضا کے ترک پرکوئی موثر وجہ پیش نظر رکھتے ہیں۔ (ت)
(۱؎ مکتوبات امام ربانی مکتوب ۳۱۲ بمیر محمد نعمان نولکشور لکھنؤ ۱/ ۴۵۰)
ص ۴۵۱: اگر گویند کہ علمائے حنفیہ برجواز اشارت نیز فتوٰی دادہ اند گویم ترجیح عدم جواز راست ۲؎ اھ ملخصا۔
اگر یوں کہیں کہ علمائے احناف اشارہ کے جواز کا فتوٰی دیتے ہیں تو ہم جواب میں کہیں گے کہ ترجیح عدم جوازکو ہے اھ ملخصا (ت)
(۲؎مکتوبات امام ربانی مکتوب ۳۱۲ بمیر محمد نعمان نولکشور لکھنؤ ۱/ ۴۵۱)
اب ذرا حضرات غیر مقلدین کا نوں سے ٹینٹ، آنکھوں سے جالے ہٹاکر یہ دھوم دھامی عبارت سنیں اورا سکے تیور دیکھیں جناب شیخ سلسلہ کو صاف اقرار ہے کہ دربارہ اشارہ میں احادیث حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بکثرت آئی ہیں اور وہ حدیثیں معروف مشہور ہیں مگر ہمارے یہاں اصول مذہب میں اشارہ کا ذکر نہیں اور ہمارے علماء کی سنت عدم اشارہ ہے ہماری فقہ میں مکروہ ٹھہرا ہے لہذا ہمیں احادیث کے مطابق عمل کرنا جائز نہیں۔ معاذاللہ اس بھاری شرک تقلید کو کچھ کہئے کہ مذہب کے مقابل احادیث صحیحہ مشہورہ کونہیں مانتے اور سنت رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے جواب میں اپنے مولویوں کی سنت پیش کرتے ہیں او رجو حنفی مذہب حنفی کے خلاف کسی حدیث پر عمل کرے اسے بے عقل ہٹ دھرم بتاتے ہیں، مزہ یہ کہ یہ مسئلہ خود مذہب حنفی میں متفق علیہا نہیں، آپ ہی اقرار فرماتے ہیں کہ مشائخ کو اختلاف ہے جواز واستحباب وسنیت اشارہ کے بھی قائل ہوئے یہاں تک کہ ائمہ کا فتوی بھی حدیثوں کے موافق موجود حتی کہ خود امام مذہب امام محمد نے تصریح فرمائی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اشارہ فرمایا کرتے اور ہم وہی کریں گے جو رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کرتے تھے، اور فرماتے ہیں یہی مذہب میرا اور امام ابو حنیفہ کا ہے مگر از انجا کہ یہ روایت نوادر کی ہے اس پر بھی نظر نہ ہوگی، نہ اختلاف مشائخ وفتوٰی پر لحاظ ہوگا۔ صرف اس لئے کہ ظاہر روایۃ میں ذکر نہ آیا حرمت مرجح اور اس کے خلاف صحیح ومشہور حدیثوں پر ہمیں عمل نہیں پہنچتا، ایمان سے کہنا ایمان ترک تقلید کاکہیں تسمہ بھی لگا رہا، اب شخص مذکور کے جبروتی احکام سنئے کہ خاص اپنے پیر سلسلہ حضرت شیخ مجدد کو بمقابلہ مذہب احادیث چھوڑنے اور سنت نبوی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے مقابل سنت علماء کی سند پکڑنے پر کیا کیا جلی کٹی بے نقط سناتاہے۔
تقویۃ الایمان ص۴۲:''جوکوئی کسی امام یا مجتہد کی بات کو رسول کے فرمانے سے مقدم سمجھے حدیث کے مقابل قول کی سند پکڑے، سوایسی باتوں سے شرک ثابت ہوتاہے ۱؎۔''
(۱؎ تقویۃ الایمان الفصل الرابع فی ذکر ردالاشراک فی العبادۃ مطبع علیمی اندرون لوہاری گیٹ لاہور ص۲۸ و ۲۹)
ص ۲ و ۳: ''ا س زمانہ میں دین کی بات میں لوگ کتنی راہیں چلتے ہیں، کوئی پہلوں کی رسموں کو کوئی مولویوں کی باتوں کو جو انھوں نے اپنے ذہن کی تیزی سے نکالیں سند پکڑتے ہیں۲؎۔''
صفحہ ۶: ـ''اسی طرح کی خرافاتیں بکتے ہیں، سبب یہ کہ خدا ورسول کے کلام کو چھوڑ کر غلط سلط رسموں کی سند پکڑی، پیغمبر خدا کے سامنے بھی کافر لوگ ایسی ہی باتیں کرتے تھے۴؎۔''
(۴؎تقویۃ الایمان پہلا باب توحید وشکر کے بیان میں مطبع علیمی اندرون لوہاری گیٹ لاہور ص۴)
تنویر العینین: لیت شعری کیف یجوزالتزام تقلید شخص معین مع تمکن الرجوع الی الروایات المنقولۃ عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم الصریحۃ الدالۃ علی خلاف قول امام المقلد فان لم یترک قول امامہ ففیہ شائبۃ من الشرک ۵؎۔
میں کیسے جانوں کہ ایک شخص کی تقلید کو لئے رہنا کیونکر حلال ہوگا جبکہ اپنے امام کے خلاف مذہب پر صریح حدیثیں پاسکے اس پر بھی امام کا قول نہ چھوڑے تو اس میں شرک کا میل ہے۔
(۵؎ تنویر العینین )
تنویر العینین: اتباع شخص معین بحیث یتمسک بقولہ وان ثبت علی خلافہ دلائل من السنۃ والکتاب و یاول الی قولہ شوب من النصرانیۃ وحظ من الشرک والعجب من القوم لایخافون من مثل ھذا الاتباع یخیفون تارکہ فما احق ھذہ الاٰیۃ فی جوابھم وکیف اخاف مااشرکتم ولایخافون انکم اشرکتم باﷲ ۱؎۔
ایک امام کی پیروی کہ اس کی بات کی سند پکڑے اگرچہ اس کے خلاف حدیث وکتاب سے دلیلیں ثابت ہوں اور انھیں اس قول کی طرف پھیرے یہ نصرانی ہونے کا میل ہے اور شرک میں کاحصہ اور تعجب یہ کہ لوگ آپ تو اس تقلید سے ڈرتے نہیں بلکہ اس کے چھوڑنے والے کو ڈارتے ہیں تو کتنی ٹھیک ہے یہ آیت ان کے جواب میں کہ میں کیونکر ڈروں اس سے جسے تم نے اللہ کا شریک بنایا حالانکہ تم نہیں ڈرتے کہ تم نے اوروں کو اللہ کا شریک ٹھہرایا۔
(۱؎ تنویر العینین)
افسوس حضرت شیخ مجدد صاحب کو کیا خبر تھی کہ ہمارے سلسلہ میں ایسے فرزند دلبندسعادت مند پیدا ہونے والے ہیں جو ہماری معرفت وولایت بالائے طاق سرے سے اصل ایمان میں خلل بتائیں گے معاذاللہ کافر مشرک نصرانی بتائیں گے شاہ ولی اللہ وشاہ عبدالعزیز صاحب کیا جانتے تھے کہ ہماری نسل میں وہ ہونہار سپوت اٹھنے کوہیں جو ہماری پیر پدری استادی درکنار عیاذاباللہ کفر وشرک سے قبر پاٹیں گے ہمیں سے پیدا ہوکر ہماری ہی مسلمانی کی جڑ کاٹیں گے از ماست کہ برماست (ہم سے ہی ہمارے خلاف ہے۔ ت) اللہ تعالٰی گندہ کرنے والی مچھلی سے بچائے ؎
بدنام کنندہ نکونامے چند
(بہت سے نیک ناموں کو تونے بدنام کیا۔ ت)
زنان بارور گرمار زانید بہ از طفلے کہ ناہنجار زانید
(حاملہ عورتیں اگر سانپ جنیں تو ناہنجار بچہ جننے سے وہ بہتر ہے۔ ت)
غرض کہاں تک گنئے انبیاء ومرسلین وملائکہ وصحابہ وائمہ وسائر مسلمین وتمام جہان وخو درب العالمین تک جو شرک کے چھینٹے پہنچے تھے خاندان دہلی کا ایک ایک بزرگ، عالم، صوفی پیشوا بوڑھا سب اسی ہولی کی پچکاریوں میں رنگا ہوا ہے، حضرات وہابیہ سے استفسار کہ اپنے امام کاساتھ دے کر شاہ عبدالعزیز صاحب شاہ ولی اللہ صاحب جناب شیخ مجدد صاحب سب کو کھلم کھلا مشرک مان لوگے۔ یا کچھ ایمان دھرم کا خیال کرکے اس مصنوعی امام کو گمراہ بد دین ومکفر مسلمین ومورد لزوم ہزاراں کفر جانو گے، میں عبث تشقیق کرتاہوں بلکہ شق ثانی ہر طرح لازم، اگر اسی کو اختیار کیجئے اور خدا ایسا ہی کرے، جب تو ظاہر ورنہ شق اول پر جب وہ حضرات معاذاللہ مشرک ٹھہرے اور یہ ان کا مداح، ان کا معتقد ان کا مرید، ان کا مقلد، انھیں امام سمجھے، پیشوامانے، ولی کہے، مقبول خدا جانے، تو آپ لزوم کفر سے کب محفوظ رہ سکتاہے کہ جو شخص مشرکین کو ایسا سمجھے خود کافرہے، اس شخص پر کفر ہر طرح لازم رہا کہ کردکہ نیافت یہ اس کی جزا ہے کہ مسلمانوں کو محض بے وجہ ناروا بات بات پر مشرک کہا تھا ؎
دیدی کہ خون ناحق پروانہ شمع را چنداں اماں ندارد کہ شب راسحر کند
(شمع کے پروانے کا ناحق خون تونے دیکھا، کچھ امن نہ دیا کہ شب کو سحر بنادیتا۔ ت)