کفریہ ۳۱ و ۳۲: تقویۃ الایمان ص ۱۰: ''روزی کی کشائش اور تنگی کرنی اور تندرست اور بیمار کردینا اقبال وادبار دینا، حاجتیں برلانی، بلائیں ٹالنی، مشکل میں دستگیری کرنی یہ سب اللہ ہی کی شان ہے اور کسی انبیاء اولیاء بھوت پر ی کی یہ شان نہیں جو کسی کو ایسا تصرف ثابت کرے اور اس سے مراد یں مانگے اور مصیبت کے وقت اس کو پکارے سو وہ مشرک ہوجاتاہے پھر خواہ یوں سمجھے کہ ان کاموں کی طاقت ان کو خود بخود ہے خواہ یوں سمجھے کہ اللہ تعالٰی نے ان کو قدرت بخشی ہے ہر طرح شرک ہے۴؎ اھ ملخصاً۔
(۴؎تقویۃالایمان پہلا باب مطبع علیمی اندرون لوہاری گیٹ لاہور ص۷)
کاش یہ ظالم صرف اس قدر کہتاکہ جو کسی کو قادر بالذات ومتصرف بالاستقلال سمجھے مشرک ہے تو بیشک حق تھا مگر یوں مطلب کیا نکلتاکہ یہ معنی تو کسی کی نسبت کسی مسلمان کے خیال میں ہر گز نہیں تو تمام مسلمانوں کو کیونکر مشرک بنایاجاتا اور وہ کیونکر صادق آتاکہ ص۵:
''شرک لوگوں میں بہت پھیل رہاہے اور اصل توحید نایاب۱؎۔''
(۱؎ تقویۃ الایمان پہلا باب مطبع علیمی اندرون لوہاری گیٹ لاہور ص۴)
صفحہ ۴۵: ''سو پیغمبر خداکے فرمانے کے موافق ہوا۲؎'' کہ تمام دینا میں کوئی مسلمان نہ رہا لہذایہ عام جبروتی حکم لگایا کہ ''پھر خواہ یوں سمجھے کہ اللہ نے ان کو ایسی قدرت بخشی ہے ہر طرح شرک ہے۳؎۔''
اب غور کیجئے کہ اس ناپاک وملعون قول پر انبیاء وملائکہ سے لے کر اللہ ورسول تک اور اس کے پیشواؤں سے لے کر خود اس ظلوم وجہول تک کوئی بھی حکم شرک سے نہ بچا۔
آیت: اغنھم اﷲ ورسولہ من فضلہٖ ۴؎۔
انھیں دولتمند کردیا اللہ اور اس کے رسول نے اپنے فضل سے۔
(۴؎ القرآن الکریم ۹/ ۷۴)
آیت: وتبری الاکمہ والابرص باذنی ۵؎۔
اے عیسٰی تو تندرست کرتاہے مادر زاد اندھے اور سفید داغ والے کو میرے حکم سے۔
(۵؎ القرآن الکریم ۵/ ۱۱۰)
یہ معاذا للہ قرآن عظیم کے شرک ہیں اور ''میرے حکم سے'' کالفظ بڑھادینا شرک سے نجات نہ دے گا کہ تندرست
کردینے کی قدرت اللہ ہی کے حکم سے سمجھے جب بھی تو اس شرک پسند کے نزدیک شرک ہے۔
اور جب ہم نے فرشتوں سے فرمایا آدم کو سجدہ کرو سب سجدے میں گرے سوا ابلیس کے۔
(۷؎ القرآن الکریم۲ /۳۴)
آیت : ورفع ابویہ علی العرش وخروا لہ سجدا ۱؎۔
یوسف نے اپنے ماں باپ کو تخت پر بلند کیا اور وہ سب یوسف کے لئے سجدے میں گرے۔
(۱؎ القرآن الکریم ۱۲/ ۱۰۰)
یہ (خاک بدہن گستاخان) اللہ تعالٰی اور ملائکہ وآدم ویعقوب ویوسف علیہم الصلٰوۃ والسلام سب کا شرک ہوا، اللہ نے حکم دیا ملٰئکہ نے سجدہ کیا آدم راضی ہوئے یعقوب ساجد، یوسف رضامند۔
تقویۃ الایمان ص ۱۱: ''جوکوئی کسی پیغمبرکو سجدہ کرے اس پر شرک ثابت ہے، خواہ یوں سمجھے کہ یہ آپ ہی اس تعظیم کے لائق ہیں یایوں سمجھے کہ ان کی اس طرح کی تعظیم کرنے سے اللہ خوش ہوتاہے ہرطرح کا شرک ہے۲؎ اھ ملخصا''۔
(۲؎ تقویۃ الایمان پہلا باب مطبع علیمی اندرون لوہاری گیٹ لاہور ص۸)
صفحہ ۸: ''شرک جیسے سجدہ کرنا گو کہ پھر اس کو اللہ سے چھوٹا ہی سمجھے اور اسی کامخلوق اوربندہ اور اس بات میں ا نبیاء اور شیطان اور بھوت میں کچھ فرق نہیں۳؎ اھ ملخصا۔''
(۳؎تقویۃ الایمان پہلا باب مطبع علیمی اندرون لوہاری گیٹ لاہور ص۶)
یوں تو اس گمراہ کا استاد شفیق شیطان لعین ہی اچھا رہاکہ خود کو بہتر فرمایا وہ شرک کے پاس نہ گیا اور یہاں فسخ کاجھگڑا پیش کرنا جہالت، شرک کسی شریعت میں حلال نہیں ہوسکتا، کبھی ممکن نہیں کہ اللہ تعالٰی شرک کا حکم دے اگرچہ اسے پھر کبھی منسوخ بھی فرمادے۔
کفریہ ۳۹ و ۴۰: حدیث: حضور پر نور سید المرسلین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
انہ کان فقیر افاغناہ اﷲ ورسولہ ۴؎۔
ابن جمیل فقیر تھا اسے اللہ اور اس کے رسول نے غنی کردیا۔
یہ حدیث صحیح بخاری مطبع احمدی قدیم ج۱ ص ۱۹۸ میں ابوھریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے۔
(۴؎ صحیح البخاری کتاب الزکوٰۃ باب قول اللہ تعالٰی وفی الرقاب الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۱۹۸)
حدیث: رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اپنے رب جل وعلا سے عرض کرتے ہیں:
اللھم انی احرم مابین جبلیھا مثل ماحرم بہ ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام مکۃ ۱؎۔
الٰہی! میں دونوں کوہ مدینہ کے درمیان کو حرم بناتاہوں مثل اس کے جیسے ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسلام نے مکہ کو حرم بنایا۔ صحیح بخاری ج ۱ ص ۲۵۱، صحیح مسلم ج ۱ص ۴۴۱: واللفظ لہ عن انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ (حدیث کے یہ لفظ صحیح مسلم کے ہیں۔ ت)
(۱؎ صحیح مسلم باب فضائل مدینہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۴۴۱)
حدیث : حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
(۲؎صحیح مسلم باب فضائل مدینہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۴۴۰)
اس مطلب کی حدیثیں صحاح وسنن ومسانید وغیرہا میں بکثرت ہیں جن میں حضورسید العالمین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے صاف وصریح حکم فرمایا کہ مدینہ طیبہ اور اس کے گرد وپیش کے جنگل کا وہی ادب کیا جائے جو مکہ معظمہ اوراس کے جنگل کا ہے۔ یہی مذہب ائمہ مالکیہ وشافعیہ وحنبلیہ اور بکثرت ائمہ صحابہ و تابعین رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین کاہے، ائمہ حنفیہ اگرچہ اس باب میں اور احادیث پر عمل فرماتے ہیں جو شرح معانی الآثار امام طحاوی وغیرہ میں مع نظر مذکور مگر ترجیح یا تطبیق یا نسخ دوسری چیز ہے، کلام اس میں ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے تو صراحۃً مدینہ طیبہ کے جنگل کا ادب ارشاد فرمایا، اب اس شخص کی سنئے تقویۃ الایمان ص ۱۱: ''گردو پیش کے جنگل کا ادب کرنا یعنی وہاں شکار نہ کرنا، درخت نہ کاٹنا یہ کام اللہ نے اپنی عبادت کے لئے بتائے ہیں پھر جو کوئی کسی پیغمبر یا بھوت کے مکانوں کے گرد پیش کے جنگل کا ادب کرے اس پر شرک ثابت ہے پھر خواہ یوں سمجھے کہ یہ آپ ہی اس تعظیم کے لائق ہیں یا یوں کہ ان کی اس تعظیم سے اللہ خوش ہوتاہے ہر طرح شرک ۳؎ اھ ملخصاً۔
جان برادر! تونے دیکھا کہ اس شخص کی ساری کوشش اسی میں تھی کہ اللہ اوررسول کو بھی مشرک کہنے سے نہ چھوڑے، تف ہزار تف بروئے بے دیناں ۔
(۳؎ تقویۃ الایمان پہلا باب مطبع علیمی اندرون لوہاری گیٹ لاہور ص۸)
کفریہ ۴۱ تا ۴۶: تفسیر عزیزی پارہ عم شاہ عبدالعزیز صاحب مطبوعہ بمبئی ص ۱۴۰:
'' بعضے از اولیاء اللہ راکہ آلہ جارحہ تکمیل وارشاد بنی نوع خود کرد انیدہ انددریں حالت ہم تصرف دردنیا دادہ اند واستغراق آنہا بجہت کمال وسعت مدارک آنہا مانع توجہ باین سمت نمیگردد، اویسیاں تحصیل کمالات باطنی از انہامی نمایند وارباب حاجات ومطالب حل مشکلات خود از انہامی طلبند ومے یابند زبان حال آنہا درآن قوت ہم مترنم بایں مقال است ؎
من آیم بجان گر تو آئی بہ تن۱؎''
بعض اولیاء کرام جنھوں نے اپنے آپ کو بنی نوع انسان کی رہنمائی اور تکمیل کے لئے متصرف کر رکھا ہے وہ (وفات کے بعد کی) حالت میں بھی دنیا میں تصرف کرتے ہیں اور کمال وسعت ادراک کی بناء پر ان کا استغراق اس طرف توجہ سے مانع نہیں بنتا اور اویسی خاندان باطنی کمالات کی تحصیل انہی اولیاء سے کرتے ہیں اور اہل حاجات ومشکلات انہی سے اپنی حاجات کا حل طلب کرتے ہیں اور مراد پاتے ہیں اور یہ اولیاء کرام زبان حال سے اس وقت یہ فرماتے ہیں:
اگر تو جسمانی طور پر آیا ہے تو میں جان سے حاضر ہوں۔ (ت)
(۱؎ فتح العزیز (تفسیری عزیزی) پ عم س انشقاق مطبع مسلم بک ڈپو لال کنواں دہلی ۳/ ۲۰۶)
یہ عبارت سراپا بشارت اس شخص کے مذہب ہمہ تن شرارت پر معاذاللہ سرتاپا شرک جلی سے ملوث ہے، اولیائے کرام دنیا میں تصرف،بعد انتقال بھی ان کا تعلق باقی رہنا، ان کے علوم کی وسعت کہ ادھر بھی مستغرق ہیں ادھر بھی خبر رکھیں، اولیا ء کا بعد وصال بھی فیض دینا، مریدوں کو مناصب عالیہ تک پہنچانا، حاجتمندوں کا اپنی حاجتیں ان کی پاک روحوں سے طلب کرنا ان کا حل مشکل فرمانا، نواب بہادر کی عبارت میں تو تین ہی شرک تھے حضرت شاہ صاحب کے کلام میں المضاعف ہیں، ہاں ہونا ہی چاہیے کہ وہ نواب تھے یہ شاہ ہیں کلام الملک ملک الکلام۔