Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۵(کتاب السیر)
29 - 150
مسلمانو! ہر رکعت میں الحمد شریف پڑھنا ہمارے نزدیک امام ومنفرد پر واجب اور ان غیر مقلدوں وہابیوں کے یہاں سب پر فرض ہے ان سے کہو اس میں سے
صراط الذین انعت علیہم ۱؎
نکال ڈالیں یعنی راہ ان کی جن پر تونے انعام کیا۔ جانتے ہو وہ کون ہیں؟ ہاں قرآن سے پوچھو وہ کون ہیں:
اولئک الذین انعم اﷲ علیھم من النبیین و الصدیقین والشھدآء والصلحین ۲؎۔
جن پر خدا نے انعام کیا وہ انبیاء اور صدیق اور شہداء اور نیک لوگ ہیں
 (۱؎ القرآن الکریم        ۱ /۶)		(۲؎ القرآن الکریم        ۴ /۶۹)
جب صراط الذین انعمت علیہم ۳؎ پڑھ کر ان کی راہ مانی جائے گی ضرور عظمت کے ساتھ ان کا خیال آئے گا اور وہ 

اس کے نزدیک شرک ہے تو الحمد میں سے اس شرک کے دور کرنے کی کوشش کریں صرف غیر المغضوب علیہم ولاالضالین ۴؎ رکھیں کہ انبیاء وصدیقین کی جگہ نماز میں یہود نصارٰی کی یاد گاری رہے، بلکہ اھدنا الصراط المستقیم ۵؎ بھی رکھنے کے قابل نہیں کہ حدیث میں اس سے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وصدیق اکبر وفاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہما مراد لئے گئے ہیں،
 (۳؎ا لقرآن الکریم        ۱/ ۶)	(۴؎ القرآن الکریم        ۱/ ۷)	(۵؎القرآن الکریم        ۱/ ۵)
فتح الخبیرشاہ ولی اللہ دہلوی مصر ۹۵ ھ ص ۳:
الصراط المستقیم کتاب اﷲ وقیل رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم وصاحباہ ۱؎۔
صراط مستقیم سے مراد قرآن ہے اور بعض نے کہا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق وعمرفاروق رضی اللہ تعالٰی عنہما مراد ہیں (ت)
 (۱؎ فتح الخبیر مع الفوز الکبیر   الباب الخامس تکملہ الفوز الکبیر    نورمحمد کارخانہ تجارت کتب کراچی    ص۸۷)
مسلمانو! میں فقط الحمد کو کہتاہوں۔ نہیں نہیں شاید دو ایک کے سوا قرآن عظیم کی کسی سورت کا نماز میں تلاوت کرنا اس وہابی شرک سے نہ بچے گا۔ جن سورتوں میں حضو ر پر نورمحمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یا دیگر انبیائے کرام یا ملائکہ عظام یا صحابہ کباریا مہاجرین وانصار یا متقین ومحسنین وعباداللہ الصالحین کی صریح تعریفیں ہیں ان کا تو کہنا ہی کیاہے، یونہی وہ بھی جن میں حضرات انبیاء علیہم الصلٰوۃ والثناء کے قصص مذکورہیں کہ ان کا تصور جب آئے گاعظمت ہی سے آئے گا جس کا اس شخص کو خود اقرار ہے ان کے سوا گنتی ہی کی سورتیں حضور اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ذکر صریح سے خالی ہوں گی اور کچھ نہ ہو تو کم سے کم حضور سے خطاب ہوں گے جب چاروں قل، "تبت" میں کھلا ہوا حضور قدس صلی کا ذکر لگا ہواہے کہ ا س کی تلاوت میں ضرور خیال جائے گاکہ یہ بھاری انتقام اللہ عزوجل کس کی طرف سے لے رہاہے، یہ سخت غضب الٰہی کس کی جناب میں گستاخی کرنے پر اتر رہا ہے "لایلف" شریف میں ا گرحضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا صراحۃً ذکر نہیں تو کعبہ معظمہ کاذکر ہے اور وہ بھی کمال تعظیم کے ساتھ کہ اپنی ربوبیت کو اس کی طر ف اضافت فرمایا اس کا تصور کب بے عظمت آئے گا بنظر ظاہر صرف سورہ تکاثر اس عالمگیر وبا سے بچے گی باقی تمام وکمال ہر سورۃ کی تلاوت شرک (عہ) میں ڈالے گی پھر تکاثر بھی بچی تو صرف شرک سے معصیت یا کراہت سے اسے بھی نجات نہیں کہ مقابر وجحیم واموال ونعیم کا خیال اس میں بھی رکھا ہوا ہے یہ عظمت کے ساتھ نہ آکر خیال انبیاء واولیاء کے شرک میں نہ ملا تو خیال گاؤخر کی قباحت میں تو شریک ہوگا۔ تف ہزار تف ایسے ناپاک اختراع پر۔

عہ: اور شریعت محمدیہ علی صاحبہا افضل الصلٰوۃ والتحیۃ عیاذاً باللہ ان شرکیات کی واجب وسنت وجائز کرنیوالی ہوئی، صحابہ سے آج تک تمام مسلمان کہ ان امور پر اجماع کیے  ہوئے ہیں سب شرک میں گرفتار ٹھہرے ا س سے بڑھ کر اور کیا کلمہ ہوگا،
شفاء شریف ص ۳۶۲ و ۳۶۳: نقطع بتکفیر کل قائل قال قولا یتوصل بہ الی تضلیل الامۃ ۲؎۔ ۱۲ سل السیوف الھندیۃ علی کفریات بابا النجدیۃ للمصنف العلامۃ مدظلہ
جو شخص ایسی بات کہے جس سے تمام امت کے گمراہ ٹھہرنے کی راہ نکلتی ہو ہم بالیقین اسے کافر کہتے ہیں ۱۲
سل السیوف الہندیۃ علی کفریات بابا النجدیۃ للمصنف العلامۃ مدظلہ۔
 (۲؎ الشفاء بتعریف حقوق المصطفی    فصل فی بیان ماھو من المقالات    المطبعۃ الشرکۃ الصحافیۃ فی البلاد العثمانیہ     ۲/ ۲۷۱)
مسلمانو! میں صرف نمازہی میں گفتگو کرتاہوں، نہیں نہیں۔ اس کے نزدیک بیرونی نماز بھی قرآن عظیم کی تلاوت شرک ہے کیافقط نماز ہی عبادت ہے نفس تلاوت نہیں کیا اس عبادت میں شرک رواہے، حاشا کسی عبادت میں روانہیں۔ اور قرآن کی سورتیں محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی نعت، ان کی ذکر، ان کی یاد، ان کی تعظیم، ان کی تکریم سے گونج رہی ہیں توعبادت تلاوت بے تصورعظمت سیدنا عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کیونکر متصور ، تو اس چوپائی شرک سے کدھر مفر، غرض اس دشنام صریح سے قطع نظر یہ وجہ قبیح خود اقبح القبائح ومجموعہ صدہا کفریات وفضائح ہے۔
مسلمانو! تم نے دیکھا کیسی خبیث وناپاک وجہ کے حیلے سے اس شخص نے تمھارے پیارے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو گالی دی اور ہنوز دعوٰی اسلام باقی ہے۔ سبحان اﷲ! یہ منہ اور یہ دعوٰی!
رب اعوذبک من ھمزات الشیطین واعوذبک رب ان یحضرون ۱؎۔
اے میرے رب تیری پناہ شیاطین کے وسوسوں سے، اور اے میرے رب تیری پناہ کہ وہ میرے پاس آئیں (ت)
 (۱؎ القرآن الکریم            ۲۳/۹۸)
تنبیہ: میں نے اس کفریہ ملعونہ کی تفضیح وتقبیح میں ذرا اپنے قلم کو وسعت دی کہ یہ مقام اس شخص کی اشد شقاوت کاتھا اورمیں نے نہ دیکھا کہ ہمارے علماء نے یہاں کلام کوکامل رنگ تفصیل دیاہو، اب اس قول خبیث اخبث الاقوال بلکہ ارجس الابوال کے بعد مجھے اس کے کفریات جزئیہ زیادہ گنانے کی حاجت نہیں کہ طول وجہ ملال ہے مگر اجمالاً اتنااور سن لیجئے کہ اس کے حصہ میں جزئیات کثیرہ کے علاوہ بعد دابواب جہنم سات کلیات کفریات کے ہیں:
دہلوی ملاکے یہاں کفریات کے سات کلیے
 (۱) جابجا قرآن عظیم ایک بات فرمائے اوریہ صاف اسے غلط وباطل کہہ جائے۔ شفاء شریف میں ص ۳۷۳، معین الحکام امام علاء الدین علی طرابلسی حنفی مطبع مصر ص ۲۲۹:

ۤ
من استخف بالقراٰن اوبشیئ منہ او حجدہ اوکذب بشیئ منہ اواثبت مانفاہ اونفی مااثبتہ علی علم منہ بذلک اوشک فی شیئ من ذٰلک فھو کافر عنداھل العلم بالاجماع ۱؎۔ (ملخصا)
جو شخص قرآن مجید یا اس کے کسی حرف کی گستاخی یا اس کا انکار یااس کی کسی بات کی تکذیب یا جس بات کی قرآن نے نفی فرمائی اس کا اثبات یاجس کا اثبات فرمایااس کی نفی کرے دانستہ یا اس میں کسی طرح کا شک لائے وہ باجماع تمام علماء کے کافرہے۔ (ملخصا)
 (۱؎ الشفاء بتعریف حقوق المصطفی    فصل واعلم ان من استخف بالقرآن الخ    المطبعۃ الشرکۃ الصحافیۃ فی البلاد العثمانیہ    ۲/ ۲۸۷ و ۲۸۸)
 (۲) اس کے طور پر قرآن عظیم میں جابجا شرک موجود۔
 (۳) اس کے نزدیک انبیاء کرام علیہم الصلٰوۃ سے شرک صادر ہوئے۔
 (۴) یونہی حضرات ملائکہ عظام علیہم الصلٰوۃ والسلام سے۔
 (۵) یہی خیال خبیث حضور پرنور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی نسبت۔
 (۶) جن باتوں کو یہ صاف صاف شرک بتاتاہے وہ اس کے اکابر مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب دہلوی اور ان کے والدماجد شاہ ولی اللہ اور ان کے والد شاہ عبدالرحیم اور ان سب کے پیر سلسلہ جناب شیخ مجدد صاحب کی تصنیفات تحریرات میں اہلی گہلی پھر رہی ہیں تو اس کے نزدیک معاذاللہ وہ سب مشرک تھے پھر یہ انھیں امام وپیشوا وولی خدا کہتاہے اور بڑی لمبی چوڑی تعریفوں سے یاد کرتا ہے اور جو مشرکوں کو ایسا جانے خود کافر ہے تو یہ اس کا نیم اقراری کفریہ ہوا۔
 (۷) کھلے شرکوں کے بھاری تو دے خود اس کے کلام میں برساتی حشرات الارض کی طرح پھیلے ہیں ایک بات اس کتاب میں کفر دوسری میں ایمان، یہاں شرک وہاں عرفان، تو یہ پورا اقرار کفریہ ہے، میں ان سب کی پوری تفصیل کروں تو بلا مبالغہ ایک مجلد ضخیم لکھوں دوسرے سے پانچویں تک چار کلیے کے لئے بکثرت جزئیات فقیر نے اپنے رسالہ
اکمال الطامۃ علی شرک سوی بالامورالعامۃ (۱۳۱۱ھ)
میں جمع کئے ثلثہ باقیہ کے جزئیات پر ہمارے بہت رسائل میں کلام ملے گا اور خود اسی رسالہ کی تقریرات سابقہ سے بعض کا پتا چلے گا یہاں بطور نمونہ ساتوں کلیے کی صرف ایک مثال لکھوں۔
کفریہ ۳۰: اللہ عزوجل فرماتاہے: تلک الامثال نضربھا للناس وما یعقلھا الاالعالمون ۲؎۔
ہم یہ کہاوتیں بیان کرتے ہیں لوگوں کے لئے اور ان کی سمجھ نہیں مگر عالموں کو۔
 (۲؎ القرآن الکریم     ۲۹ /۴۳)
یہ شخص غیر مقلدی اور دین الٰہی میں ہرگونہ آزادی کا پھاٹک کھولنے کےلئے کہتاہے کہ یہ بالکل غلط ہے قرآن سمجھنے کو علم ہر گزدرکار نہیں۔
تقویۃ الایمان ص ۳: ''عوام الناس میں مشہور ہے کہ اللہ ورسول کا کلام سمجھنا بہت مشکل ہے اس کو بڑا علم چاہئے سویہ بات بہت غلط ہے ۱؎ اھ ملخصا۔
 (۱؎ تقویۃ الایمان    مقدمہ کتاب    مطبع علیمی اندرون لوہاری  گیٹ لاہور    ص۲)
لطف یہ کہ اپنے اس گھڑے مطلب پر دلیل لایا آیہ کریمہ:
ھوالذی بعث فی الامیین رسولاً منھم یتلوا علیہم اٰیتہ ویزکیھم ویعلمھم الکتب والحکمۃ ۲؎۔
سے ، اورخودہی ا س کا ترجمہ کیا کہ: ''وہ اللہ ایساہے کہ جس نے کھڑا کیا نادانوں میں ایک رسول ان میں سے کہ پڑھتاہے ان پر آیتیں اس کی اور پاک کرتاہے ان کو اور سکھاتاہے ان کو کتاب اور عقل کی باتیں۔''۳؎
 (۲؎ القرآن الکریم    ۶۲ /۲)

 (۳؎ تقویۃ الایمان     مقدمہ کتاب       مطبع علیمی اندرون لوہاری  گیٹ لاہور    ص۳)
کیوں حضرت! جب قرآن کے سمجھنے کو علم درکارنہیں ہر جاہل نادان سمجھ سکتاہے تو نبی کے سکھانے کی کیا حاجت تھی، سبحان اللہ! ردوا سدوا تو خود سمجھ لیں اور صحابہ کرام سکھانے کے محتاج۔
Flag Counter