کفریہ ۲۸ و ۲۹: یہ کفریہ اٹھائیس سب سے بدتر خبیث ، صراط مستقیم ص ۹۵:
بمقتضائے ظلمت بعضہا فوق بعض از وسوسہ زنا خیال مجامع زوجہ خود بہتر ست وصرف ہمت بسوئے شیخ وامثال آں ازمعظمین گو جناب رسالتمآب باشند بچندیں مرتبہ بد تر ازاستغراق درصورت گاؤ خر خود ست خیال آں باتعظیم
واجلال بسوید اے دل انسان مے چسپد بخیال گاؤ و خرکہ نہ آں قدر چسپیدگی میبود ونہ تعظیم بلکہ مہان و محقرمیبود واین تعظیم واجلال غیر کہ درنماز ملحوظ ومقصود می شود بشرک میکشد ۱؎۔
ظلمات بعضہا فوق بعض کی بناپر زنا کے وسوسہ سے اپنی بیوی سے مجامعت کا خیال بہترہے اور اپنی ہمت کو شیخ اور ان جیسے معظم لوگوں خواہ جناب رسالت مآب ہی ہوں، کی طرف مبذو ل کرنا اپنے گائے اور گدھے کی صورت میں مستغرق ہونے سے کئی گنا بدترہے کیونکہ ان کا خیال تعظیم اور اجلال کے ساتھ انسان کے دل کی گہرائی میں چپک جاتاہے بخلاف گدھے اور گائے کے خیال میں نہ تو اس قد ر چسپیدگی ہوتی ہے اورنہ ہی تعظیم بلکہ ان کا خیال بے تعظیم اور حقیر ہوتاہے اور یہ غیر کی تعظیم واجلال نماز میں ملحوظ ومقصود ہو تو شرک کی طرف کھینچ لیتی ہے۔
مسلمانو، مسلمانو! خدارا ان ناپاک ملعون شیطانی کلموں کو غور کرو محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی طرف نماز میں خیال لےجانا ظلمت بالائے ظلمت ہے کسی فاحشہ رنڈی کے تصور اور اس کے ساتھ زنا کا خیال کرنے سے بھی براہے، اپنے بیل یا گدھے کے تصورمیں ہمہ تن ڈوب جانے سے بدرجہا بدتر ہے، ہاں واقعی رنڈی نے تو دل نہ دکھایا گدھے نے تو کوئی اندرونی صدمہ نہ پہنچایا، نیچا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے دکھایا کہ قرآن عظیم میں وخاتم النبیین پڑھ کر تازی نبوتوں کا دربار جلایا ان کا خیال آنا کیوں نہ قہر ہو ان کی طرف سے دل میں کیوں نہ زہر ہو۔
مسلمانو! للہ انصاف، کیا ایسا کلمہ کسی اسلامی زبان وقلم سے نکلنے کا ہے! حاش للہ! پادریوں پنڈتوں وغیرہم کھلے کافروں مشرکوں کی کتابیں دیکھو جو انھوں نے بزعم خود اسلام جیسے روشن چاند پرخاک ڈالنے کو لکھی ہیں۔ شاید ان میں بھی اس کی نظیر نہ پاؤگے کہ ایسے کھلے ناپاک لفظ تمھارے پیارے نبی سچے رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی نسبت لکھے ہوں کہ انھیں مواخذہ دنیا کا اندیشہ ہے مگر اس مدعی اسلام بلکہ مدعی امامت کا کلیجہ چیر کر دیکھئے کہ اس نے کس جگرے سے محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی نسبت بے دھڑک یہ صریح (عہ) سب ودشنام کے لفظ لکھ دئے اور روز آخر اللہ عزیز غالب قہار کے غضب عظیم وعذاب الیم کا اصلا اندیشہ نہ کیا۔
عہ: اور ان کی شان میں ادنٰی گستاخی کفر جس کی مبارک مقدس منور تفصیل شفا شریف اور اس کی شرح میں ہے ۱۲ سل السیوف۔
مسلمانو! کیا ان گالیوں کی محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اطلاع نہ ہوئی یا مطلع ہوکر ان سے انھیں ایذا نہ پہنچی، ہاں ہاں، واللہ واللہ انھیں اطلاع ہوئی، واللہ واللہ انھیں ایذا پہنچی، واللہ واللہ جو انھیں ایذا دے اس پر دنیا وآخرت میں اللہ جبار وقہار کی لعنت ، اس کے لئے سختی کا عذاب شدت کی عقوبت۔
بیشک جو لوگ ایذا دیتے ہیں اللہ اورا س کے رسول کو ان پر اللہ نے لعنت فرمائی دنیا وآخرت میں اور ان کے لئے بنارکھا ہے ذلت والا عذاب ۔
(۱؎ القرآن الکریم ۳۳/ ۵۶)
آیت: والذین یؤذون رسول اﷲ لھم عذاب الیم ۲؎۔
جو ایذادیتے ہیں اللہ کے رسول کو ان کے لئے دکھ کی مارہے۔
(۲؎القرآن الکریم ۹/ ۶۱)
مسلمانو! پھر ان مقتدیوں کا ایمان دیکھئے، ایمان کی آنکھ پر ٹھیکری رکھ کر اسلام کے کان میں انگلیاں دے کر یہ کچھ دیکھتے یہ کچھ سنتے ہیں اور پھروہ ویسا ہی امام کا امام، یہ اس کے چیلے بیدام کے غلام، سبحان اللہ! یہ حرکات اور اسلام کا نام، مسلمان وہ ہیں جنھیں قرآن عظیم فرماتاہے،
تو نہ پائے گا ان لوگوں کو جو مانتے ہیں اللہ اور پچھلے دن کو کہ محبت رکھیں اس سے جس نے ضدباندھی اللہ اور اس کے رسول سے اگرچہ وہ ان کے باب یا بیٹے یا بھائی یا کنبے والے ہوں یہ لوگ ہیں کہ نقش کردیا اللہ نے ان کے دلوں میں ایمان اور مدد فرمائی ان کی اپنی طرف کی روح سے۔
(۳؎القرآن الکریم ۵۸/۲۲)
وہابی صحابو! مسلمان بننا چاہتے ہو تو حضور پر نورمحمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی عظمت سویداے دل کے اندر جماؤ جو ان کی جناب عالم مآب میں گستاخی کرے اگر تمھارا باپ بھی ہو الگ ہوجاؤ جگر کا ٹکڑا ہو دشمن بناؤ، بہزار زبان وصد ہزاردل اس سے تبری کرو تحاشی کرو اس کے سایہ سے نفرت کرو اس کے نام محبت پر لعنت کرو، ورنہ اگر دوسرا تمھیں اللہ ورسول سے زیادہ عزیز ہے تو اسلام کا نام لیے جاؤ حقیقت اور چیز ہے، وائے بے انصافی اگر کوئی تمھارے باپ کو گالی دے تو اس کے خون کے پیاسے رہو صورت دیکھنے کے روادار نہ ہو۔ بس پاؤ توکچا نگل جاؤ۔ وہاں نہ تاویلیں نکالو نہ سیدھی بات ہیر پھیر میں ڈالو، اور محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی نسبت وہ کچھ سنواور آنکھ میلی نہ کرو۔ بلکہ ا س کی امامت وپیشوائی کا دم بھرو، ولی جانو، جو اسے برا کہے الٹی اس سے دشمنی ٹھانو، ہدلگام کی بات میں سو سو طرح کے پیچ نکالو، رنگ رنگ کی تاویلیں ڈھالو، جیسے بنے کی بگڑی سنبھالو، اسی کی حمایت میں عظمت مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو پس پشت ڈالو، یہ کیا ایمان ہے ، کیسا اسلام ہے، کیا اسلام اسی کا نام ہے ؎
اے راہ روپشت بمنزل ہشدار
(اے منزل کی طر ف پشت کرکے چلنے والے! ہوش کر۔ ت)
مزہ یہ ہے کہ وہ خود تمھاری ساری بناوٹوں کا دربا جلا گیا۔ تقویۃ الایمان:
''یہ بات محض بے جا ہے کہ ظاہر میں لفظ بے ادبی کا بولئے اور اس سے کچھ اور معنی لیجئے معما اور پہیلی بولنے کی اور جگہ ہیں۔ کوئی شخص اپنے باپ یا بادشاہ سے جگت نہیں بولتا، اس کے واسطے دوست آشنا ہیں نہ باپ اور بادشاہ ۔ ''
اور انصاف کیجئے تو اس کھلی گستاخی میں کوئی تاویل کی جگہ نہیں میں جانتاہوں تم یوں نہیں سمجھو گے ذرا اپنے کلیجہ پر ہاتھ رکھ کر دیکھو اورآنکھیں بند کرکے بہ نگاہ انصاف غور کرو، اگر کوئی وہابی اپنے باپ کی نسبت کہے کہ تیرے کان گدھے کے سے ہیں تیری ناک بجو کی سی ہے، تو کیااس نے اپنے باپ کو گالی نہ دی، یا کوئی سعادت مند نجدی اٹھ کراپنے بدلگام مصنوعی امام کی نسبت کہے کہ ان کی آواز لطیف کتے کے بھونکنے سے مشابہ تھی، ان کا دہن شریف سور کی تھوتھنی سے ملتاتھا، تو تم اسے کیسا سمجھو گے۔ کیا اپنے طائفے میں رکھوگے یا بسبب گستاخی پیشواذات سے باہر کردو گے۔ اب تمھیں ظاہر ہوگاکہ اس خبیث بددین نے جوہمارے عزت والے رسول دوجہان بادشاہ عرش عالم پناہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی نسبت یہ لعنتی کلمات (عہ) لکھے۔
عہ: یہاں اس کے پیرووں کی غایت معذرت وسخن سازی جو کچھ ہے یہ ہے کہ کلام اس نے بقصد توہین نہ لکھا سوق سخن تاکید اخلاص کے لئے ہے مگر یہ بناوٹ اسی قبیل سے ہے کہ ؎
لن یصلح العطاء مافسدہ الدھر
(زمانے کے فساد کویہ عطیہ ہر گز درست نہیں کرسکتا۔ ت)
قصد قلب کلمات لسان سے ظاہر نہ ہوگا تو کیا وحی اترے گی کہ فلاں کے دل کا یہ ارادہ تھا اور صریح لفظ شنیع وقبیح میں سوق کلام خاص بغرض توہین ہونا کس نے لازم کیا، کیا اللہ ورسول کو براکہنا اس وقت کلمہ کفر ہے جب بالخصوص اسی امر میں گفتگو ہو ورنہ باتوں باتوں میں جتنا چاہے برا کہہ جائے کفروکلمہ کفر نہیں علت وہی ہے کہ ان حضرات کے دلوں میں حضور پر نور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی عزت عظمت نہیں ان کی بدگوئی کو ہلکا جانتے ہیں اس میں طرح طرح کی شاخیں نکالتے ہیں جیسے بنے اپنے امام کے کفریات سنبھالتے ہیں،
شفاء شریف ص ۳۳۰: تقدم الکلام فی قتل القاصد لسبہ الوجہ الثانی لاحق بہ فی الجلاء ان یکون القائل غیر قاصد للسب والازراء لامعتقد لہ ولکن تکلم فی جہتہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم بکلمۃ الکفر مماھو فی حقہ صلی اﷲ علیہ وسلم نقیصۃ مثل ان یاتی بسفہ من القول اوقبیح من الکلام ونوع من السب فی جہتہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم وان ظھر بدلیل حال انہ لم یقصد سبہ اما لجہالۃ او ضجر او سکراوقلۃ ضبط لسانہ، او تھور فی کلامہ فحکم ھذا حکم الوجہ الاول قتل من دون تلعثم۱؎ اھ مختصرا۔
یعنی اس کاحال تو اوپر معلوم ہوچکا جو بالقصد تنقیص شان اقدس کرے،دوسری صور ت اسی کی طرح روشن وظاہر یہ ہے کہ قائل نہ تنقیص وتحقیر کا قصد کرے نہ اس کا معتقد ہو مگر حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے معاملہ میں کلمہ کفر بول اٹھے جو حضور کے حق میں تنقیص شان ہو مثلا کوئی بے ادبی کا لفظ یا بری بات اور ایک طرح کی تنقیص بولے اگرچہ اس کے اس کے حال سے ظاہر ہو کہ ا س نے مذمت وتوہین کا ارادہ نہ کیا بلکہ جہالت یا جھنجھلاہٹ یا نشہ میں بک دیا یا بات کہنے میں زبان روکنے کی کمی یا بیباکی سے صادر ہوا، اس صورت کاحکم بعینہٖ وہی پہلی صورت کاحکم ہے فورا قتل کیا جائے بلا توقف ۱۲ منہ۔
(۱؎ الشفاء بتعریف حقوق المصطفی فصل قال القاضی تقدم الکلام المطبعۃ الشرکۃ الصحافیۃ فی البلاد العثمانیہ ۲/ ۲۲۲)
انھوں نے ہمارے اسلامی دلوں پر تیر وخنجر سے زیادہ کام کیا، پھر ہم اسے اپنے سچے پکے اسلامی گروہ میں کیونکر داخل کرسکتے ہیں، ذرایہ فرق بھی دیکھتے جاؤ کہ ہم نے جو نظیریں دیں ان میں صر ف تشبیہ پر قناعت کی، تم جانو جب نری تشبیہ ایسی ہو تو بدرجہا بدتربتانے میں مسلمانوں کا کیا حال ہوا ہوگا
الا لعنۃ اﷲ علی اعداء رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علٰی رسولہ واٰلہ وبارک وسلم۔
مسلمانو! اور ذرااس ناپاک وجہ کو تو خیال کرو (خاکش بدہن) یہ ''بدرجہا بدتر ہونا'' اس لئے ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا خیال آیا تو عظمت کے ساتھ آئیگا اور گدھے کا حقارت سے تو نماز(عہ) میں نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا تصور آنا اس شرک پسند کے نزدیک شرک تک پہنچائے گا۔
عہ: مکتوبات شیخ مجدد صاحب مطبوعہ لکھنؤ جلد۲ مکتوب ۳ صفحہ ۴۶ خواجہ محمد اشرف ورزش نسبت رابطہ نوشتہ بودند۲؎ الخ (پوری عبارت زیر کفر ۵۳ ص ۲۱۸ میں آتی ہے)
(۲؎ مکتوبات امام ربانی مکتوب ۳۰ بخواجہ محمد اشرف وحاجی محمد نولکشورلکھنؤ ۲/ ۴۶)
سبحان اللہ! کہاں تواس شخص کا وہ کفری بول کہ نماز میں محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا خیال آیا اور خاکش بدہن شرک نے منہ پھیلایا یا فقط نماز برباد کہ ایمان ہی ابتر تف بروئے کافروشی وکفرمنشی ان کے (بدگویوں) کی طرف خیال لے جانا اپنے بیل اور گدھے کے نہ صرف تصور بلکہ ہمہ تن اس میں ڈوب جانے سے بدر جہا بدتر، اور کہاں شیخ طریقت وآقائے نعمت وخداوند دولت خاندان دہلی شیخ مجد د کا یہ واشگاف قول کہ تصور صورت شیخ سے غافل نہ ہو۔ نمازوں، عبادتوں، سب وقتوں حالتوں میں اسی کی طرف متوجہ رہو اگرچہ عین نماز میں اسی صورت کو سجدہ محسوس ہو وہ قبلہ عبادت ہے، نہ مسجودلہ جو اس قبلہ سے پھرا وہ بیدولت تباہ ہوا اس کا کام برباد ہوگیا، تصور شیخ کی ایسی دولت سعادت مندوں کو ملتی ہے طالبان خدا کو اس کی بہت تمنا رہتی ہے، غرض وہ بول یہ قول باہم لڑے ہیں کفر وشرک کے عقاب پر تولے کھڑے ہیں، دیکھئے وہابی صاحب کدھرڈھالتے ہیں ادھر جھکاتے یا ادھر ڈالتے ہیں ؎
یادامن یارفت از دست یا ایں دل زار رفت ازدست
(یار دامن ہاتھ سے جائے گا یا یہ آزردہ دل ہاتھ سے جائیگا۔ ت)
مارایسی ہوتی ہے اور بیشک آخرت کی مار سب سے بڑی ہے، کیا اچھا تھا کہ وہ جانتے، ۱۲ سل السیوف الہندیۃ علی
کفریات باباالنجدیۃ
(۱؎ القرآن الکریم ۶۸/ ۳۳)
اقول الحمد للہ محمدر سول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی عظمت تو رفیع الدرجات ذوالعرش جل وعلا
کی بنائی ہوئی ہے۔ کسی کافر یا کافرمنش کے مٹائے نہ مٹے گی، چودھویں رات کے چاند کا چمکتا نور کہیں کتوں کے بھونکنے سے کم ہوا ہے ؎
مہ فشاند نور وسگ عو عو کند ہر کسے برخلقت خود مے تند
(چاند نور پھیلا رہاہے اور کتا عو عو کرتاہے ، ہر ایک اپنی اپنی فطرت ظاہر کرتاہے۔ ت)
اس شخص کے نزدیک نماز میں محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا خیال آنا موجب شرک کہ جب وہ آئے گا عظمت کے ساتھ آئے گا، مگر واللہ العظیم کہ شریعت رب العرش الکریم نے نماز بے ان کے خیال باعظمت وجلال کے ناقص ہے، اس سے کہو کہ اپنے شریکوں کو جمع کرے اورقہر والے عرش کے مالک سے لڑائی لے کہ تو نے کیوں ایسی شریعت بھیجی جس نے نمازکی ہر دو رکعت پر التحیات واجب کی اوراس میں
السلام علیک ایھاالنبی ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ اشھدان محمداً عبدہ ورسولہ
پڑھناعرض کرنا لازم کیا۔
مسلمانو! کیا ان کے پڑھنے کاحکم محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف خیال کرنے کا حکم نہ ہوا، بیشک ہوا، اور واقعی ان کا خیال مسلمان کے دل میں جب آئے گا عظمت وجلال ہی کے ساتھ آئے گا کہ اس کا تصور ان کے پاک مبارک تصور کو لازم بین بالمعنی الاخص ہے اور عرض سلام تو خاص بغرض ذکر و اکرام ہی ہے تو یہاں نہ صرف ان کے خیال بلکہ خاص نماز میں ان کے ذکر وتکریم کا حکم صریح
ولکن المنفقین لایعلمون
(لیکن منافقین نہیں جانتے۔ ت)
احیاء العلوم مطبع لکھنؤ ج ۱ ص ۹۹: احضر فی قلبک النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم وشخصہ الکریم وقل سلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ ۱؎۔
التحیات میں نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اپنے دل میں حاضر کر اورحضور کی صورت پاک کا تصور باندھ اور عرض کر السلام علیک ایھا النبی ورحمہ اللہ وبرکاتہ،۔
(۱؎. احیاء العلوم کتاب اسرار الصلٰوۃ بیان تفصیل ماینبغی ان یحضر القلب الخ مطبعۃ المشہد الحسینی قاہرہ ۱/۱۲۹)
میزان امام شعرانی مطبوعہ مصر جلد ۱ صفحہ ۱۳۹ و ۱۴۰: سمعت سیدی علیا الخواص رحمہ اﷲ تعالٰی یقول انما امر الشارع المصلی بالصلٰوۃ والسلام علی رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فی التشھد لینبہ الغافلین فی جلوسھم بین یدی اﷲ عزوجل علی شھود نبیھم فی تلک الحضرۃ فانہ لایفارق حضرۃ اﷲ تعالٰی ابدافیخاطبونہ بالسلام مشافیۃ ۲؎۔
میں نے اپنے سردار علی خواص رحمۃ اللہ تعالٰی کوفرماتے سنا کہ شارع نے نمازی کو تشہد میں نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر درود وسلام عرض کرنے کا اس لئے حکم دیا جو لوگ اللہ عزوجل کے دربار میں غفلت کے ساتھ بیٹھتے ہیں انھیں آگاہ فرمادے کہ اس حاضری میں اپنے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو دیکھیں اس لئے کہ حضور کبھی اللہ تعالٰی کے دربار سے جدا نہیں ہوتے پس بالمشافہہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پرسلام عرض کریں۔
(۲؎ المیزان الکبرٰی للشعرانی باب صفۃ الصلٰوۃ مصطفی البابی مصر ۱/ ۱۶۷)
حجۃ اللہ البالغہ شاہ ولی اللہ صاحب صدیقی ص ۲۱۰: ثم اختار بعدہ السلام علی النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم تنویھا بذکرہ واثباتا للاقرار برسالتہ واد اء لبعض حقوقہ ۱؎۔
پھر اس کے بعد التحیات میں نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر سلام اختیار کیا ان کا ذکر پاک بلند کرنے کو اور ان کی رسالت کا اقرار ثابت اور ان کے حقوق سے ایک ذرہ ادا کرنے کے لئے۔
اولیائے عظام وعلمائے کرام نے اس عرض سے سلام کی جو حکمت ارشاد فرمائی ہے میں اسے مواہب لدنیہ وغیرہا ائمہ کتب سے نقل کروں اس سے بہترکہ ان غیر مقلدوں کے امام آخرالزمان نواب صدیق حسن خان بھوپالی کی کتاب سے سناؤں کہ یہ ان پر اشد وسخت ترہے۔
مسک الختام نواب بھوپال مقام ص ۲۴۴: نیز آں حضرت ہمیشہ نصب العین مومنان وقرۃ العین عابدان ست درجمیع احوال واوقات خصوصا درحالت عبادات ونورانیت وانکشاف دریں محل بیشتر و قوی ترست وبعضے از عرفاء قدس سرہم گفتہ اند ایں کہ خطاب بجہت سریاں حقیقت محمدیہ است علیہ الصلٰوۃ والسلام در ذرا ئر موجودات وافراد ممکنات پس آنحضرت در ذوات مصلیان موجود حاضر ست پس مصلی باید کہ ازیں معنی آگاہ باشد وازیں شہود غافل نبود تابانوار قرب واسرار معرفت منور و فائز گرددآرے ؎
درراہ عشق مرحلہ قرب وبعد نیست
می بینمت عیاں دعا می فرسمت ۲؎
تمام احوال واوقات خصوصا عبادات کی حالتوں میں حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام مومنین کا نصب العین اور عابدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتے ہیں، عبادات کے مواقع میں نورانیت اور انکشاف زیادہ قوی ہوتاہے، بعض عارفین قدس اسرارہم نے فرمایا کہ نماز میں (السلام علیک کا) خطاب حقیقت محمدیہ علیہ الصلٰوۃ والسلام کو ہوتاہے جو موجودات کے تمام ذرات اورممکنات کے تمام افراد میں سرایت کئے ہوئے ہے لہذا حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نمازیوں کی ذات میں موجوداور حاضر ہوتے ہیں اس لیے نمازی کو اس حقیقت سے آگاہ رہنا چاہئے اور حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی اس موجودگی سے غافل نہ ہوتاکہ قرب کے انوار اور معرفت کے اسرار سے منور اور فائز ہوجائے ، ہاں (شعر) عشق کی راہ میں قرب وبعد کا مرحلہ نہیں ہے۔ میں آپ کو واضح طور پر دیکھ رہا ہوں اور دعا پیش کرتاہوں۔ (ت)
(۲؎ مسک الختام شرح بلوغ المرام کتاب الصلٰوۃ باب ۷ صفۃ الصلٰوۃ مطبع نظامی کانپور ۱/ ۲۴۴)
اس عبارت میں نواب بہادر فرمائشی شرکوں کے انبار لگاگئے، نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہر عبادت میں مسلمانوں کے پیش نظر ہیں ایک شرک، نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہر نمازی کی ذات بلکہ ہر ہرذرہ ممکنات میں موجودو حاضر ہیں دو شرک، نمازی نماز میں نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے مشاہدے سے ہر گز غافل نہ ہوتاہے کہ قرب الٰہی پائے، تین شرک، مگر یہ کہے کہ اگلی پچھلی سلطنتوں میں بڑے لوگوں کو تین خون معاف ہوتے تھے گورنمنٹ وہابیت سے نواب بہاد رکو تین شرک معاف ہیں
ولاحول ولاقوۃ الا باﷲ العلی العظیم۔
اسی طرح وعلی عباداﷲ الصلحین کیا شرک سے بچے رہے گا کہ امثال آں از معظمین سب کو شامل۔
مسلمانو! کیا ہرنماز کے ختم پردرود شریف پڑھنا سنت نہیں، اور حضرت امام شافعی وامام احمد (عہ) رضی اللہ تعالٰی عنہماکے نزدیک تو فرض ہے۔پھر درود محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی یاد وتکریم نہیں تو کیا ہے۔ درود کو محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے خیال باعظمت وجلال سے انفکاک کیونکر ممکن !