Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۵(کتاب السیر)
27 - 150
کفریہ ۲۵: تقویۃ الایمان ص ۶۰، حدیث تو یہ لکھی:
أرأیت لومررت بقبری اکنت تسجدلہ
(بتاؤ اگر میری قبرپر گزر ہو تو تم اس کو سجدہ کروگے۔ ت) خودہی اس کا ترجمہ یوں کیا کہ: ''بھلا خیال تو کر جو تو گزرے میری قبر پرکیا سجدہ کرے تو اس کو ۔''
آگے جو گستاخی کی رگ اچھلے جھٹ آفت کی، (ف) لکھ کر فائدہ یہ جڑدیا:
"یعنی میں بھی ایک دن مرکر مٹی میں ملنے والا ہوں "۳؂ ۔
 (۳؎ تقویۃ الایمان مع تذکیر الاخوان    الفصل الخامس    مطبع علیمی اندرون لوہاری  گیٹ لاہور    ص۴۲)
اس کے حامی اور اس کے پیر وایمان سے بتائیں یہ حدیث کے کس لفظ کا مطلب ہے، کہاں تو وہ لفظ حدیث کہ اگر تومیری قبر سے گزرے، کہاں یہ فائدہ خبیث کہ مرکر مٹی میں ملنے والاہوں۔ کیوں یہ کیسا کھلا افترا ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر ،
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: من کذب علی متعمدا فلیتبوا مقعدہ من النار ۱؎۔
جو دانستہ مجھ پر جھوٹ باندھے وہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنالے۔
 (۱؎ صحیح البخاری        کتاب العلم باب اثم من کذب علی النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم     قدیمی کتب خانہ کراچی        ۱/ ۲۱

صحیح مسلم        تغلیظ الکذب علی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم       قدیمی کتب خانہ       ۱ /۷)
وہابی صاحبو! ہمارے نبی محمدرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ارشاد پر اپنے پیشوا کا ٹھکانا بتاؤ، ہمارے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
ان اﷲ حرم علی الارض ان تاکل اجساد الانبیاء ۲؎۔
بیشک اللہ تعالٰی نے زمین پر حرام کیاہے کہ پیغمبروں کے بدن کھائے۔
 (۲؎ سنن ابو داؤد     باب تفریع ابواب الجمعۃ     آفتاب عالم پریس لاہور         ۱/ ۱۵۰

سنن النسائی         کتاب الجمعۃ      نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی    ۱ /۲۰۴

سنن ابن ماجہ        باب ماجاء فی فضل الجمعۃ    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی   ص۷۷)
فائدہ: یہ حدیث ابوداؤد ونسائی وابن ماجہ وامام احمد وابن خزیمہ وابن حبان ودارقطنی وحاکم وابونعیم وغیرہم ائمہ حدیث نے حضرت اوس بن اوس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی امام الائمہ ابن خزیمہ وابن حبان و دارقطنی نے اس کی تصحیح اور امام عبدالغنی وامام عبدالعظیم منذری نے تحسین کی حاکم نے کہا بر شرط بخاری صحیح ہے، ابن دحیہ نے کہا صحیح ہے محفوظ ہے ثقات عدول کے سلسلے سے آئی ہے
وہابی صاحبو! تمھارے پیشوا نے یہ ہمارے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی جناب میں کیسی (عہ) صریح گستاخی کی۔
عہ زیادت جلیلہ: سبحان اللہ! رب العالمین جل مجدہ ان کے غلاموں یعنی شہدائے کرام کی نسبت ارشاد فرمائے:
ولاتقولوا لمن یقتل فی سبیل اﷲ اموات بل احیاء ولکن لا تشعرون ۳؎۔
جو خداکی راہ میں مارے جائیں انھیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمھیں خبر نہیں۔
 (۳؎ القرآن الکریم۲/ ۱۵۴)
اور فرمایا: لاتحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتا بل احیاء عند ربھم یرزقون فرحین ۱؎۔
خبردار شہیدوں کو مردہ نہ جانیو بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں روزی دئے جاتے ہیں شاد شاد۔
 (۱؎ القرآن الکریم ۳ /۱۶۹)
اور ایک سفیہ مغرور محبوبان خدا سے نفور خود حضورپرنور اکرم المحبوبین صلوات اللہ تعالٰی وسلامہ علیہ وعلیہم اجمعین کی نسبت وہ ناپاک لفظ کہے اور وہ بھی یوں کہ معاذاللہ حضورہی کی حدیث کا یہ مطلب ٹھہرائے یعنی میں بھی ایک دن مرکر مٹی میں ملنے والاہوں، قیامت میں ان شاء اللہ تعالٰی مرکر مٹی میں ملنے کا مزہ الگ کھلے گا اور یہ جدا پوچھا جائے گا کہ حدیث کے کون سے لفظ میں اس ناپاک معنی کی بو تھی جو تو نے ''یعنی'' کہہ کر محبوب اعظم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر افتراء کردیا حضور پر افتراء خدا پر افتراء ہے اور خدا پر افتراء جہنم کی راہ کا بر اسرا۔
ان الذین یفترون علی اﷲ الکذب لایفلحون o۲؎ متاع قلیل ولھم عذاب الیم o۳؎
بیشک جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں ان کا بھلا نہ ہوگا تھوڑا برتنا ہے اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔   (النھی الاکید عن الصلٰوۃ من وراء عدی التقلید من تصانیف المصنف العلامۃ قدس سرہ)
 (۲؎القرآن الکریم      ۱۶ /۱۱۶) (۳؎القرآن الکریم     ۱۶ /۱۱۷)
زرقانی شرح مواہب مطبع مصر جلد ۱ ص۱۰۶:
 فی الکامل للمبرد مما کفربہ الفقہاء الحجاج انہ رأی الناس یطوفون حول حجرتہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فقال انما یطوفون باعواد ورمۃ قال الدمیری کفروہ بھذا لانہ تکذیب لقولہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ان اﷲ حرم  علی الارض ان تاکل اجساد الانبیاء ۱؎۔ رواہ ابوداؤد ۔
ابوالعباس مبرد نے الکامل میں لکھا کہ ان باتوں میں جن کے سبب علماء کرام نے حجاج ظالم کو کافر کہا ایک یہ ہے کہ اس نے لوگوں کو روضہ اقدس حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا طواف کرتے دیکھا بولا کچھ لکڑیوں اور گلے ہوئے جسم کا طواف کررہے ہیں۔ علامہ کمال الدین دمیری نے فرمایا علماء نے اس قول پر اس وجہ سے تکفیرکی کہ اس میں ارشاد حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی تکذیب ہے کہ بیشک اللہ عزوجل نے زمین پر انبیاء کا جسم کھانا حرام کیا ہے۔ (اسے ابوداؤد نے روایت کیا ۔ ت)
 (۱؎ شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ    المقصد الاول قصۃ الفیل    دارالمعرفۃ بیروت    ۱ /۹۰)
فائدہ: یہ روضہ اقدس کا طواف کرنے والے تابعین یا اقل درجہ تبع تابعین تو ضرور تھے۔
کفریہ ۲۶: تقویۃ الایمان کی ابتداء میں شرک کی کچھ قسمیں اور ان کا اجمالی بیان گھڑا کہ یہ باتیں فلاں قسم سے شرک ہیں اس بیان کے بعد اسی اجمال کی تفصیل کی پانچ فصلیں مقرر کیں ان فصلوں میں جو کچھ ہے وہ اسی اجمالی بیان کی شرح ہے ص ۱۰پر اسی بیان اجمالی میں لکھا:
''حاجتیں برلانی اللہ ہی کی شان ہے کسی انبیاء واولیاء کی یہ شان نہیں جو کسی کو مصیبت کے وقت پکارے وہ مشرک ہوجاتاہے۲؎۔ ''
 (۲؎ تقویۃ الایمان        مقدمہ کتاب        مطبع علیمی اندرون لوہاری  گیٹ لاہور    ص۷)
اسی میں لکھا ص ۱۲: ''جوکوئی انبیاء واولیاء کی اس قسم کی تعظیم کرے مشکل کے وقت ان کو پکارے ان باتوں سے شرک ثابت ہوتاہے ان چاروں طرح کے شرک کا صریح قرآن وحدیث میں ذکرہے اس لئے اس باب میں پانچ فصلیں کیں۳؎ اھ ملخصاً۔
(۳؎تقویۃ الایمان        مقدمہ کتاب        مطبع علیمی اندرون لوہاری  گیٹ لاہور    ص۹)
غرض یہ اجمالی بیان ایک دعوی ہے اور آگے ساری کتاب اس دعوے کا بیان وثبوت، اب یہ دعوی تو یادرکھئے کہ ''جوکوئی انبیاء اولیاء کو پکارے وہ مشرک ہے'' آگے ثبوت کی فصلوں میں اس کابیان سنئے صفحہ ۲۹:

''اللہ سے زبردست کے ہوتے ایسے عاجز لوگوں کو پکارنا کہ کچھ فائدہ اور نقصان نہیں پہنچاسکتے محض بے انصافی ہے کہ ایسے شخص کا مرتبہ ایسے ناکارہ لوگوں کو ثابت کیجئے۔''۴؎
 (۴؎تقویۃ الایمان      الفصل الثالث   مطبع علیمی اندرون لوہاری  گیٹ لاہور     ص۲۰)
یہ حضرات اولیاء وانبیاء علیہم افضل الصلٰوۃ والثناء کو ''ناکارے لوگ'' کہا، کیا یہ ان کی جناب میں کھلی گستاخی نہیں، کیا انبیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام کی شان میں گستاخی کفر خالص نہیں جس کی تفصیل شفاء شریف اور اسی کی شرح وغیرہا کتب ائمہ میں ہے۔
کفریہ ۲۷: تقویۃ الایمان پہلی فصل میں اس دعوے کا کہ ''انبیاء واولیا کو پکارنا شرک ہے'' ثبوت سنئے ص ۱۹:

''ہمارا جب خالق اللہ ہے اور اس نے ہم کو پیدا کیا تو ہم کو بھی چاہئے کہ اپنے ہر کاموں پر اسی کو پکاریں اور کسی سے ہم کو کیا کام جیسے جو کوئی ایک بادشاہ کا غلام ہوچکا تو وہ اپنے ہرکام کا علاقہ اسی سے رکھتاہے، دوسرے بادشاہ سے بھی نہیں رکھتا اور کسی چوہڑ ے چمار کا تو کیاذکر ہے۔''۱؎
 (۱؎ تقویۃ الایمان    الفصل الاول        مطبع علیمی اندرون لوہاری  گیٹ لاہور    ص۱۳)
مسلمانو! ایمان سے کہنا حضرات انبیاء واولیا ء علیہم الصلٰوۃ والسلام کی نسبت ایسے ناپاک ملعون الفاظ کسی ایسے کی زبان سے نکل سکتے ہیں جس کے دل میں رائی برابر ایمان ہو، شاید اسی شخص نے اور طائفے کی نسبت سچ ہی کہا تھا کہ پیغمبر خدا کے فرمانے کے موافق ہوا کہ ان میں کوئی ایسا بھی نہ رہا جس کے دل میں دانہ خردل کے برابر ایمان ہو ، اور حضرات انبیا ء سے اسے کچھ کام نہ ہونا بہت ٹھیک ہے کہ جب اس کے میلے گندے مذہب میں ان کا ماننا ہی روا نہیں بلکہ کفر ہے تو دین تویوں گیا، اور دنیا جو ایسوں کی غایت مرام ومبلغ علم ہے اس میں کسی نبی کی سرکار سے ٹکا مہینہ جمعہ کی روٹی ملنے کی بھی امید نہیں تو زال دنیا کے ایسے کمانے والے پوتوں کو انبیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام سے کام ہونے کا کیا باعث۔
Flag Counter