Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۵(کتاب السیر)
25 - 150
کفریہ ۲۴: صراط مستقیم ص ۳۸: صدیقی من وجہ مقلد انبیاء می باشد ومن وجہ محقق در شرائع پس اگر صدیق زکی القلب ست رضا وکراہیت حضرت حق درافعال و اقوال مخصوصہ وصحت وبطلان در عقائد خاصہ و محمودیت ومذمومیت در اخلاق وملکان شخصیہ بنور جبلی خود دریافت می نماید ۱؎۔
صدیق من وجہ انبیاء کا مقلد ہوتاہے اور من وجہ احکام شریعت میں محقق ہوتاہے ۔ اگر صدیق زکی القلب ہو تو اللہ تعالٰی کی رضا اور عدم رضا کو افعال واقوال مخصوصہ میں اور صحت وبطلا ن کوعقائد خاصہ، پسندیدہ وناپسندیدہ کو اخلاق وعادات شخصیہ میں اپنے فطری نور سے جان لیتاہے۔ (ت)
 (۱؎ صراط مستقیم    ہدایت رابعہ دربیان ثمرات حب ایمانی    المکتبۃ السلفیہ لاہور    ص۳۳ و ۳۴)
ص ۳۹:  پس احکام ایں امور مذکورہ اورابدو  وجہ معلوم میشود یکے بشہادت قلب خود خصوصا ودیگر بسبب اندراج او در کلیات شرع عموما وعلم کہ بوجہ اول حاصل شدہ تحقیقی ست وثانی تقلیدی واگرزکی العقل ست نو ر جبلی او بسوئے کلیات اورا راہنمونی می فرماید پس علوم کلیہ شرعیہ اورا بدو واسطہ می رسد بوساطت نور جبلی و بوساطت انبیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام در کلیات شریعت و حکم احکام ملت او راشاگرد انبیاہم میتواں گفت وہم استاذ انبیاہم ونیز طریق اخذآنہم شعبہ ایست ا زشعب وحی کہ انرا در عرف شرح بنفث فی الروع تعبیر میفر مایندوبعضے اہل کمال آں رابوحی باطنی مے نامند ۲؎۔
پس مذکور احکام اس کو دو طرح معلوم ہوتے ہیں، ایک خصوصی طورپر اپنے قلب کی گواہی سے اور دوسرا عموما شرعی کلیات میں داخل ہونے کی وجہ سے، اور پہلے طریقہ سے حاصل شدہ علم تحقیقی ہے اور دوسرا تقلیدی ہے، اور اگر ذکی العقل ہو تو اس کا فطری نور کلیات کی طرف اس کی رہنمائی کرتاہے، پس امور کلیہ شرعیہ ا س کو دو طرح سے پہنچتے ہیں، ایک فطری نورکے ذریعہ سے، دوسرا انبیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام کے واسطہ سے، پس شرعی کلیات کااور حکم واحکام ملت میں اس کو انبیاء کا شاگرد کہہ سکتے ہیں، اور ان کا ہم استاذ بھی کہہ سکتے ہیں، نیز ان کے اخذ کا طریقہ وحی کے اقسام میں سے ایک قسم ہے جس کو عرف شرع میں نفث فی الروع سے تعبیر کرتے ہیں، اور بعض اہل کمال اس کو باطنی وحی کا نام دیتے ہیں۔ (ت)
(۲؎صراط مستقیم    ہدایت رابعہ دربیان ثمرات حب ایمانی    المکتبۃ السلفیہ لاہور    ص۳۴)
ص ۴۰: ہمیں معنی رابامامت ووصایت تعبیرمی کنند وعلم ایشاں راکہ بعینہ علم انبیاست لیکن بوحی ظاہری متلقی نشدہ بہ حکمت مے نامند ۳؎۔
اس معنی کو امامت اور وصایت سے تعبیر کرتے ہیں اور ان کے علم کو جو کہ بعینہ انبیاء کو علم ہے لیکن ظاہری وحی سے حاصل نہیں ہوتا، اسکو حکمت کا نام دیتے ہیں۔ (ت)
 (۳؎صراط مستقیم    ہدایت رابعہ دربیان ثمرات حب ایمانی    المکتبۃ السلفیہ لاہور     ص۳۵)
ص ۴۱ : لابد اورا بمحافظتے مثل محافظت انبیاکہ مسمٰی بہ عصمت ست فائز مے کنند ۱؎۔
ضروری ہے کہ اس کو محفوظ قرارد یاجائے جس طرح انبیاء کا محفوظ ہونا جس کو عصمت کہتے ہیں۔ (ت)
 (۱؎ صراط مستقیم     ہدایت رابعہ در بیان ثمرات حب ایمانی    المکتبۃ السلفیہ لاہور    ص۳۵)
ص ۴۲: ندانی کہ اثبات وحی باطن وحکمت ووجاہت وعصمت مرغیر انبیاء رامخالف سنت واز جنس اختراع بدعت ست  وندانی کہ ارباب ایں کمال از عالم منقطع شدہ اند۲؎ اھ ملخصا۔
یہ نہ سمجھناکہ باطنی وحی، حکمت، وجاہت اور عصمت کو غیر انبیاء کے لئے ثابت کرنا خلاف سنت اور از قبیل 

اختراع بدعت ہے اور یہ بھی نہ سمجھنا کہ اس کمال کے لوگ دنیا سے ختم ہوچکے ہیں اھ ملخصا (ت)
 (۲؎ صراط مستقیم    ہدایت رابعہ دربیان ثمرات حب ایمانی    المکتبۃ السلفیہ لاہور  ص۳۶)
اس قول ناپاک میں ا س قائل بیباک نے بے پردہ وحجاب صاف صاف تصریحیں کیں کہ بعض لوگوں کو احکام شرعیہ جزئیہ وکلیہ بےوساطت انبیاء اپنے نور قلب سے بھی پہنچتے ہیں، خاص احکام شرعیہ(عہ۱) میں انھیں وحی آتی ہے ایک طرح وہ انبیا کے مقلد ہیں اور ایک طرح تقلید انبیاء سے آزاداحکام شرعیہ میں خود محقق، وہ انبیاء کے شاگرد بھی ہیں اور ہم استاد بھی، تحقیقی علم وہی ہے جو انھیں بے توسط انبیاء خود اپنی قلبی وحی سے حاصل ہوتاہے، انبیاء کے ذریعے سے جو ملتاہے وہ تقلیدی بات ہے، وہ علم میں انبیاء کے برابر وہمسر ہوتے ہیں فرق اتنا ہے کہ انبیاء کو ظاہری وحی آتی ہے انھیں باطنی ، وہ انبیاء کے مانند معصوم ہوتے ہیں اسی مرتبہ کا نام حکمت ہے یہ کھلم کھلاغیر نبی کو نبی(عہ۲) بنانا ہے ۔
عہ۱:  اقول اورا حکام شریعت میں بھی کلیہ کی تصریح کردی ہے کہ کوئی ناواقف یہ دھوکا نہ کھائے کہ یہ لوگ مجہتدین امت سے ہیں۔ اگر بے وساطت انبیاحکم پہنچنا ہی اخراج مجتہدین کو بس تھا، مگر زیادت فرق وکمال صراحت کے لئے احکام کلیہ کا اونچاطرہ چمکتا پھندنا لٹکادیا کہ احکام کلیہ شرعیہ تو نبی ارشاد فرماتاہے کہ مجتہدین کی اتنی شان کہ ان سے احکام جزئیہ استنباط کرتاہے، یہاں ایسا نہیں بلکہ انھیں خود احکام کلیہ شریعت بے وساطت نبی بذریعہ وحی پہنچتے ہیں، مسلمانو! خدا کے واسطے اور نبی کسے کہتے ہیں ۱۲ سل السیوف
عہ۲: اور نبی بھی کیسا صاحب شریعت ۱۲ سل السیوف
جب ایک معصوم کو اعمال وعقائد وغیرہا امور شرعیہ میں احکام الہیہ بے توسط انبیا خود بذریعہ وحی آئے پھر نبوت اور کس شے کا نام ہے فقط وحی باطنی ہونا کچھ منافی نبوت نہیں، بہت انبیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام کو وحی الٰہی باطنی طور پر آتی، کہا جاتاہے کہ سیدنا داؤد علیہ الصلوۃ والسلام کی وحی اس طرح کی تھی
کما نقلہ الامام البدر محمود فی عمدۃ القاری
 (جیساکہ امام بد ر محمود نے عمدۃ القاری میں اسے نقل کیا۔ ت) خود حضور اقدس سیدالانبیاء صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو بہت احکام اسی وحی باطنی سے آئے، جسے نفث فی الروع کہتے ہیں، علماء نے جو انبیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام پر وحی آنے کی سات صورتیں لکھیں ان میں یہ بھی ذکرفرمائی کما فی العمدۃ والارشاد وغیرہما، تو حقیقت نبوت مع لازم عصمت پوری پوری صادق آکر صرف وحی باطنی کی بناپر نفی نبوت ممکن نہیں۔
مشکوٰۃ شریف مطبع انصاری ۱۳۰۲ھ ص ۴۴۴: عن ابن مسعود رضی اﷲ تعالٰی عنہ قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم (فذکر الحدیث الی ان قال)وان روح القدس نفث فی روعی ان نفسالن تموت حتی تستکمل رزقھا ۱؎۔ الحدیث رواہ البغوی فی شرح السنۃ ۲؎ قلت وبنحوہ رواہ الحاکم عنہ البزار فی مسندہ عن حذیفۃ والطبرانی فی الکبیر عن الحسن بن علی غیرانہ لم یذکر جبرئیل کالبیہقی فی شعب الایمان عن ابن مسعود رضی اﷲ تعالٰی عنہم اجمعین۔
ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک روح القدس نے میرے باطن میں وحی کی کہ کوئی جاندار نہ مرے گا جب تک اپنارزق پورا نہ کرے۔ الحدیث۔(اس کو بغوی نے شرح السنۃ میں روایت کیا قلت (میں کہتاہوں اور ایسی روایت امام حاکم نے ان سے کی اور بزار نے اپنی مسند میں حضرت حذیفہ سے اور طبرانی نے کبیر میں حسن بن علی سے لیکن انھوں نے جبریل کا ذکر نہ کیا جس طرح بیہقی نے ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین سے ذکر کیا ہے۔ (ت)
 (۱؎ مشکوٰۃ المصابیح    باب التوکل والصبر الفصل الثانی    مطبع مجتبائی دہلی    ص۴۵۲)

(۲؎مشکوٰۃ المصابیح    باب التوکل والصبر الفصل الثانی    مطبع مجتبائی دہلی    ص۴۵۲)
Flag Counter