Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۵(کتاب السیر)
24 - 150
کفریہ ۲۰ و ۲۱: صراط مستقیم مطبع ضیائی ۱۲۸۵ھ ص ۱۷۵:
نسبت پیر خودتا اینکہ روزے حضرت جل و علادست راست ایشاں رابدست قدرت خاص خود گرفتہ و چیزے رااز امور قدسیہ کہ بس رفیع بدیع بود پیش روے حضرت ایشاں کردہ فرمود کہ ترا ایں چنیں دادہ ام و چیز ہائے دیگر خواہم داد ۵؎۔
اپنے پیر کی نسبت یہاں تک کہ ایک روز ان کا دایاں ہاتھ اللہ نے اپنے خاص دست قدرت میں پکڑا اور امور قدسیہ کی بلند وبالا چیز کو ان کے سامنے پیش کرکے فرمایا کہ تجھے میں نے یہ چیز دے دی اور مزید چیزیں دوں گا۔ (ت)
 (۵؎ صراط مستقیم        باب چہارم خاتمہ دربیان پارہ از واردات الخ     المکتبۃ السلفیہ لاہور    ص۱۶۴)
ص ۱۳: مکالمہ ومسامرہ بدست مے آید ۶؎ (مکالمہ اور گفتگو حاصل ہوگی۔ ت)
 (۶؎صراط مستقیم       ہدایت رابعہ دربیان ثمرات حب عشقی        المکتبۃ السلفیہ لاہور     ص۱۲)
ص ۱۵۴: گاہے کلام حقیقی ہم مے شود ۷؎ (عہ)
(اور کبھی کلام حقیقی بھی ہوتی ہے۔ ت)
عہ: یہ صراحۃً اپنے پیر وغیرہ کو نبی بتاناہے ۱۲ سل السیوف
 (۷؎صراط مستقیم        باب سوم فصل چہارم تکملہ دربیان سلوک       المکتبۃ السلفیہ لاہور     ص۱۴۳)
شفاء شریف ص ۳۶۰: من اعترف بالٰھیۃ اﷲ تعالٰی ووحد انیتہٖ و لکنہ ادعی لہ ولد اوصاحبتہ فذلک کفر باجماع المسلمین وکذلک من ادعی مجالسۃ اﷲ تعالٰی والعروج الیہ ومکالمتہ ۱؎ا ھ ملخصا۔
جو اللہ تعالٰی کی الوہیت و توحید کا تو قائل ہومگر اس کے لئے جورو یا بچہ ٹھہرائے وہ باجماع مسلمین کافرہے اسی طرح جو اللہ تعالٰی کے ساتھ ہمنشینی اس تک صعود اس سے باتیں کرنے کا مدعی ہو۔
 (۱؎ الشفاء بتعریف حقوق المصطفی    فصل فی بیان ماھومن المقالات    المطبعۃ الشرکہ الصحافیۃ فی البلاد العثمانیہ    ۲/ ۲۶۸)
ص ۳۶۲:  وکذلک من ادعی منھم انہ یوحی الیہ وان لم  یدع النبوۃ اوانہ یصعد الی السماء ویدخل الجنۃ ویاکل من ثمارھا ویعانق الحور العین فھؤلاء کلھم کفار مکذبون للنبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ۲؎۔
اسی طرح جھوٹا متصوف دعوٰی کرے کہ اللہ تعالٰی اسے وحی کرتاہے اگرچہ نبوت کا مدعی نہ ہو، یا یہ کہ وہ آسمان تک چڑھتاہے جنت میں جاتا اس کے پھل کھاتا حوروں کو گلے لگاتاہے یہ سب کافر ہیں رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی تکذیب کرنے والے۔
 (۲؎الشفاء بتعریف حقوق المصطفی    فصل فی بیان ماھومن المقالات    المطبعۃ الشرکہ الصحافیۃ فی البلاد العثمانیہ    ۲/ ۷۱۔ ۲۷۰)
حوروں سے اس معانقہ کے دعوے پر تو یہ حکم ہے خود رب العزت سے ہاتھ ملاکر مصافحہ پر کیا حکم ہوگا۔
تحفہ اثناعشریہ ص ۲۹۹: درحین بعثت بلکہ درحین مناجات ومکالمہ کہ اعلائے مراتب قرب بشری باجناب خداوندی ست ۳؎۔
نبی کی بعثت کے وقت بلکہ مکالمہ اورمناجات کے وقت جو کہ اللہ تعالٰی کے ہاں بشری قرب کا اعلٰی مرتبہ ہے۔ (ت)
 (۳؎ تحفہ اثنائے عشریہ        باب ششم دربحث نبوت        سہیل اکیڈمی لاہور        ص۱۶۴)
اس ترقی سے صاف ظاہر کہ مکالمہ کا مرتبہ نفس نبوت سے خاص تر ہے تو دنیا میں کسی کے لئے اللہ عزوجل سے کلام حقیقی کا دعوی صراحۃً اس کی نبوت کا دعوٰی ہے، تفسیر عزیزی سورہ بقرہ مطبع کلکتہ ۱۲۴۹ھ ص ۴۲۳ زیر
قولہ تعالٰی وقال الذین لایعلمون لو لایکلمنا اﷲ:
منشائے ایں گفتگوے ایشاں جہل ست زیر اکہ نمی فہمند کہ رتبہ ہمکلامی باخدائے عزوجل بس بلندست ہنوز بہ پائہ اولین آں کہ ایمان ست نرسیدہ اند وآن رتبہ مختص ست بملائکہ وانبیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام وغیرہ ایشاں راہرگز میسر نمی شود پس فرمائش ہمکلامی باخدا گویا فرمائش آنست کہ تاہمہ راپیغمبراں یا فرشتہا سازد ۱؎۔
ان کی اس گفتگو کا منشاء جہالت ہے کیونکہ وہ یہ نہ سمجھے کہ اللہ تعالٰی کے ساتھ ہم کلامی کا رتبہ بہت بلند ہے یہ لوگ ابھی ایمان کی ابتداء کو نہیں پہنچے حالانکہ وہ رتبہ ہمکلامی فرشتوں اور انبیاء کو ہی حاصل ہے کسی دوسرے کوہر گز میسر نہیں ہے، تو اللہ تعالٰی سے ہمکلامی کی فرمائش کرنا گویا یہ فرمائش ہے کہ وہ سب کو پیغمبر یا فرشتے بنادے (ت)
(۱؎ فتح العزیزی (تفسیر عزیزی)    سورہ بقرہ تحت آیۃ ۲/ ۱۱۸    مطبع مجتبائی دہلی    ص۴۲۷)
شرح عقائد جلالی مطبع مصر ص ۱۰۶ اس مسئلہ کی دلیل میں کہ جو شخص دنیا میں اللہ عزوجل سے کلام حقیقی کا مدعی ہو کافر ہے۔
فرمایا:المکالمۃ شفاھا منصب النبوۃ بل اعلی مراتبہا وفیہ مخالفۃ لما ھو من ضروریات الدین وھوانہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم خاتم النبیین علیہ افضل صلٰوۃ المصلین ۲؎۔
اللہ عزوجل سے کلام حقیقی منصب نبوت بلکہ اس کے مراتب میں اعلٰی مرتبہ ہے توا س کے دعوے کرنےمیں بعض ضروریات دین یعنی نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کا انکار ہے۔
 (۲؎ الدوانی علی العقائد العضدیۃ    بحث توبہ سے قبل       مطبع مجتبائی دہلی    ص۱۰۶)
کفریہ ۲۲: صراط مستقیم ص ۱۲: از جملہ آں شدت تعلق قلب ست بمرشد خود استقلالاً یعنی نہ بآں ملاحظہ کہ ایں شخص کہ ناوداں فیض حضرت حق وواسطہ ہدایت اوست بلکہ بحیثیت یہ کہ متعلق عشق ہماں می گردد چنانکہ  یکے از اکابرایں طریق فرمود کہ اگرحق جل وعلا درغیرکسوت مرشد من تجلی فرماید ہر آئینہ مرابا اوالتفات درکارنیست ۳؎۔
ان میں سے ایک یہ کہ اپنے مرشد سے شدید قلبی مستقل تعلق یعنی یہ لحاظ نہ ہو کہ یہ مرشد اللہ تعالٰی کے فیض کا ذریعہ اور اس کی ہدایت کے لئے واسطہ ہے بلکہ اس حیثیت سے کہ عشق کا تعلق کے لئے واسطہ ہو چنانچہ اس طریقت کے ایک بڑے نے فرمایا کہ اگر اللہ تعالٰی مجھ پر میرے مرشد کے لباس وشکل کے بغیر تجلی فرمائے تو مجھے اس کی طرف التفات درکا رنہیں ہے۔ (ت)
 (۳؎ صراط مستقیم   ہدایت ثالثہ      افادہ ۲   المکتبۃ السلفیۃ لاہور  ص۱۱)
شخص مذکورہ کے پیروؤں سے استفسار ہے کہ اپنے اصول پر اس کلمہ کا حکم بتائیں یا خود اسی سے پوچھیں کہ وہ ہمیشہ ایک جگہ ایک بات کہنے دوسری جگہ آپ ہی اس کو کفر وضلالت بنا دینے کا عادی ہے،
تقویۃ الایمان ص ۱۵۶:''اشر ف المخلوقات محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی تو اس کے دربار میں یہ حالت ہے کہ ایک گنوار کے منہ سے اتنی بات سنتے ہی مارے دہشت کے بیحواس ہوگئے پھر کیا کہئے ان لوگوں کو کہ اس مالک الملک سے  ایک بھائی بندی کارشتہ  یا دوستی آشنائی کا سا علاقہ سمجھ کر کیابڑھ بڑھ کر باتیں مارتے ہیں کوئی کہتاہے کہ اگر میرا رب میرے پیر کے سواکسی اور صورت میں ظاہر ہوں تو ہر گز اس کو نہ دیکھوں، اللہ پناہ میں رکھے ایسی ایسی باتوں سے ؎
بے ادب محروم گشت از فضل رب ۱؎'' ملخصاً
میں کہتاہوں ہاتھ میں ہاتھ ملاکر باتیں ہونا تو بھائی بندی یا آشنائی کا سا علاقہ نہیں ؎
بے ادب محروم ماندازفضل رب
 (۱؎ تقویۃ الایمان    الفصل الخامس فی ردالاشراک فی العادات        مطبع علیمی اندرون لوہاری  گیٹ لاہور    ص۳۸)
کفریہ ۲۳: تقویۃ الایمان ص ۱۴:
''جتنے پیغمبر آئے سو وہ اللہ کی طرف سے یہی حکم لائے ہیں کہ اللہ کو مانے اس کے سوا کسی کو نہ مانے''۲؎
 (۲؎تقویۃ الایمان    الفصل الاول فی الاجتناب عن الاشراک       مطبع علیمی اندرون لوہاری  گیٹ لاہور     ص۱۰)
ص ۱۶ و ۱۷: ''اللہ صاحب نے فرمایا کسی کو میرے سوا نہ مانیو''۳؎
 (۳؎تقویۃ الایمان    الفصل الاول فی الاجتناب عن الاشراک       مطبع علیمی اندرون لوہاری  گیٹ لاہور  ص۱۲)
ص ۱۸: ''اللہ کے سواکسی کو نہ مان۔''۴؎
 (۴؎تقویۃ الایمان    الفصل الاول فی الاجتناب عن الاشراک       مطبع علیمی اندرون لوہاری  گیٹ لاہور     ص۱۲)
ص ۷ـ: ''اور وں کو ماننامحض خبط ہے۔''۵؎
 (۵؎تقویۃ الایمان     پہلا باب توحید وشرک کے بیان میں         مطبع علیمی اندرون لوہاری  گیٹ لاہور     ص۵)
یہاں انبیاء وملائکہ وقیامت وجنت ونار وغیرہا تمام ایمانیات کے ماننے سے صاف انکار کیا اور اس کا افتراء اللہ تعالٰی اور اس کے رسولوں پر رکھ دیا، یہ کفریہ بھی صدہا کفریات کامجموعہ ہے،مسلمانوں کے مذہب میں جس طرح اللہ عزوجل کاماننا ضرور ہے یونہی ان سب کا ماننا جزء ایمان ہے ان میں جسے نہ مانے گا کافرہے۔ ہر اردو زبان والا جانتاہے کہ ماننا تسلیم وقبول واعتقاد کو کہتے ہیں ولہذا اہل زبان ایمان کا ترجمہ ''ماننا'' اور کفر کا ترجمہ ''نہ ماننا'' کرتے ہیں۔     آیت (بقرۃ)  :
أ انذرتھم ام لم تنذرھم لایؤمنون ۶؎۔
موضح قرآن ترجمہ شاہ عبدالقادر: تو ڈراوے یا نہ ڈراوے وَے نہ مانیں گے۔ ۷؎
(۶؎ القرآن الکریم       ۲ /۶) (۷؎ موضح القرآن     ترجمہ شاہ عبدالقادر     تاج کمپنی کراچی        ص۴)
آیت (یٰس) لقد حق القول علی اکثرھم فھم لایؤمنون ۱؎o
موضح القرآن:ـ ثابت ہوچکی بات ان بہتوں پر سو وَے نہ مانیں گے۔ ۲؎
 (۱؎ القرآن الکریم       ۳۶ /۷)

(۲؂موضح القرآن    ترجمہ وتفیسر شاہ عبدالقادر        تاج کمپنی لاہور    ص۵۳۰)
آیت (نساء) یؤمنون بما انزل الیک ۳؎۔
موضح القرآن: سو مانتے ہیں جو اترا تجھ پر۔ ۴؎
(۳؎ القرآن الکریم      ۴/ ۱۶۲)

(۴؎ موضح القرآن    ترجمہ وتفیسر شاہ عبدالقادر        تاج کمپنی لاہور    ص۱۲۶)
آیت (اِعراف) وقطعنا دابرالذین کذبوا باٰیتنا وماکانوا مؤمنین ۵؎o
موضح القرآن: اور پچھاڑی کاٹی ان کی جو جھٹلاتے تھے ہماری آیتیں اور نہ تھے ماننے والے۔۶؎
 (۵؎ القرآن الکریم       ۷ /۲۷۲)

(۶؎ موضح القرآن    ترجمہ وتفیسر شاہ عبدالقادر        تاج کمپنی لاہور    ص۱۹۳)
آیت (انعام) واذاجاءک الذین یؤمنون باٰیتنا فقل سلٰم علیکم۔ ۷؎
موضح القرآن: اور جب آویں تیرے پاس ہماری آیتیں ماننے والے تو کہہ سلام ہے تم پر۔ ۸؎
 (۷؎ القرآن الکریم       ۶/ ۵۴)

(۸؎ موضح القرآن    ترجمہ وتفسیر شاہ عبدالقادر        تاج کمپنی لاہور    ص۱۶۲)
آیت (بقرہ) اٰمن الرسول بما انزل الیہ من ربہ والمومنون کل اٰمن باﷲ وملٰئکتہ وکتبہ ورسلہ ۹؎۔
موضح القرآن: مانارسول نے جو کچھ اترااس کے رب کی طرف سے اور مسلمانوں نے سب مانا اللہ کو اور اس کے فرشتوں 

کو اور کتابوں کو اور رسولوں کو۔ ۱۰؎
(۹؎ القرآن الکریم        ۲/ ۲۸۵)

(۱۰؎ موضح القرآن    ترجمہ وتفسیر شاہ عبدالقادر        تاج کمپنی لاہور    ص۶۱)
دیکھو اللہ تعالٰی تو یہ فرماتاہے کہ ایمان والوں نے اللہ اور اس کے فرشتوں، کتابوں، رسولوں سب کو مانا، یہ شخص 

کہتاہے اللہ نے فرمایا میرے سواکسی کو نہ مانو۔
آیت (اعراف) قال الذین استکبروا انا بالذین اٰمنتم بہ کفرون o۱۱؎
موضح القرآن: کہنے لگے بڑائی والے جو تم نے یقین کیاسو ہم نہیں مانتے۔ ۱۲؎
 (۱۱؎ القرآن الکریم      ۷ /۷۶)

(۱۲؎ موضح القرآن     ترجمہ وتفسیر شاہ عبدالقادر        تاج کمپنی لاہور    ص۱۹۴)
تو اقوال مذکور کے صاف یہ معنی (عہ) ہوئے کہ اللہ تعالٰی کے سوا انبیاء ملائکہ کسی پر ایمان نہ لائے سب کے ساتھ کفر کرے اس سے بڑھ کر کفر کیاہوگا۔
عہ:  اگر اس کے کلام کے کچھ نئے معنی اپنے جی سے گھڑئیے بھی تو اولا تو صریح لفظ میں تاویل کیا معنی، 

شفا شریف صفحہ ۳۲۲: والتاویل فی لفظ صراح لایقبل ۲؎۔  صریح لفظ میں تاویل کا دعوی مقبول نہیں۔
 (۲؎ الشفاء بتعریف حقوق المصطفی  القسم الرابع الباب الاول المطبعۃ الشرکۃ الصحافیۃ فی البلاد العثمانی۲/ ۱۰۔ ۲۰۹)
ثانیا:  وہ آپ سب تاویلوں کا دروازہ بند کرچکا تو اس کے کلام میں بناوٹ نہ رہی گھڑت ہے جو اسے خود قبول نہیں،

تقویۃ الایمان ص ۵۸: ''یہ بات محض بے جا ہے کہ ظاہر میں لفظ بے ادبی کا بولئے اور اس سے کچھ اور معنی مرادی لیجئے معما اور پہیلی بولنے کی اور جگہ ہیں کوئی شخص اپنے باپ یا بادشاہ سے جگت نہیں بولتا اس کے واسطے دوست آشنا ہیں نہ کہ باپ اور بادشاہ۔''۳؎
 (۳؎ تقویۃ الایمان            الفصل الخامس        علیمی کتب خانہ   اندرون لوہاری  گیٹ لاہور    ص۳۹)
یہ نفیس فائدہ ہر جگہ ملحوظ خاطر رہے کہ اکثر حرکات مذبوجی کا جواب شافی ہے ۱۲سل السیوف

لطف یہ ہے کہ اسی تقویۃالایمان کے دوسرے حصے تذکیر الاخوان مترجمہ سلطان خاں مطبع فاروقی ص ۷۳ میں ہے : ''اصحاب رضی اللہ تعالٰی عنہم سے محبت رکھنا ایمان کی نشانی ہے جو ان کو نہ مانے اس کا ٹھکانا دوزخ ہے۔''۱؎
 (۱؎ تذکیرالاخوان حصہ دوم تقویۃ الایمان        الفصل الرابع فی ذکر الصحابہ    علیمی کتب خانہ اندرون لوہاری  گیٹ لاہور    ص۱۰۵)
سبحن اللہ! دوسرے حصے والا کہتاہے جو صحابہ کو نہ مانے وہ بدعتی ہے جہنمی، پہلے والاکہتاہے صحابہ تو صحابہ جو انبیاء کو مانے وہ مشرک دوزخی،
کفی اﷲ المومنین القتال
(مومنوں کو اللہ کافی ہے لڑائی میں۔ ت)
Flag Counter