Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۵(کتاب السیر)
23 - 150
کفریہ ۵:ـ ایضاح الحق مطبع فاروقی دہلی ۱۲۹۷ھ ص ۳۵ و ۳۶:
تنزیہ او تعالٰی از زمان ومکان وجہۃ واثبات رؤیت بلاجہت ومحاذات (الی قولہ) ہمہ از قبیل بدعات حقیقیہ است اگر 

صاحب آں اعتقادات مذکورہ را از جنس عقائد دینیہ مے شمارد ۳؎ اھ ملخصا۔
اللہ تعالٰی کو زمان ومکان اور جہت سے پاک قرار دینا اور اس کا دیدار بلاجہت وکیف ثابت کرنا (آگے یوں کہا) یہ تمام امور از قبیل بدعت حقیقیہ ہیں اگر کوئی شخص ان مذکورہ اعتقادات کو دینی اعتقاد شمار کرے اھ ملخصا (ت)
 (۳؎ ایضاح الحق (مترجم اردو)     فائدہ اول پہلا مسئلہ            قدیمی کتب خانہ کراچی        ص۷۷ و ۷۸)
اس میں صاف تصریح کی ہے کہ اللہ تعالٰی کو زمان ومکان وجہت سے پاک جاننا اور اس کا دیدار بلا کیف ماننا بدعت وضلالت ہے اس میں ا س نے تمام ائمہ کرام وپیشوایا ن مذہب اسلام کوبدعتی وگمراہ بتایا۔
شاہ عبدالعزیز صاحب تحفہ اثناء عشریہ مطبوعہ کلکتہ ۱۳۴۳ھ ص ۲۵۵ میں فرماتے ہیں:
عقیدہ سیزدہم : آنکہ حق تعالٰی رامکان نیست واُوراجہتے از فوق وتحت متصور نیست وہمینست مذہب اہل سنت وجماعت ۳؎۔
تیرھواں عقیدہ : یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کے لئے مکان اورفوق وتحت کی جہت متصور نہیں ہے اور یہی اہل سنت وجماعت کا مذہب ہے(ت)
  (۴؎ تحفہ اثنا عشریہ        باب پنجم درالہیات            سہیل اکیڈمی لاہور         ص۱۴۱)
بحرالرائق ج ۵ ص ۱۲۹،عالمگیری ج ۲ ص ۲۵۹: یکفر باثبات المکان ﷲ تعالٰی ۱؎۔
اللہ تعالٰی کے لئے مکان ثابت کرنے سے آدمی کافر ہوجاتاہے۔
 (۱؎ بحرالرائق    باب احکام       ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۵/ ۱۲۰

 فتاوٰی ہندیہ    الباب التاسع فی احکام المرتدین        نورانی کتب خانہ پشاور    ۲/ ۲۵۹)
فتاوی قاضی خاں فخر المطابع ج ۴ ص ۴۳:
رجل قال خدائے بر آسمان میداند کہ من چیزے ندارم یکون کفرا لان اﷲ تعالٰی منزہ عن المکان ۲؎۔
کسی نے کہا کہ خدا آسمان پر جانتا ہے کہ میرے پاس کچھ نہیں۔ کافر ہوگیا۔ ا س لئے کہ اللہ تعالٰی مکان سے 

پاک ہے۔
 (۲؎ فتاوٰی قاضی خاں    کتاب السیر    باب مایکون کفر امن المسلم الخ    نولکشور لکھنؤ   ۴ /۸۸۴)
خلاصہ کتاب الفاظ الکفر فصل ۲ جنس ۲:
لو قال نرد بان بنہ وبرآسمان برآئے وباخدائے جنگ کن یکفر لانہ اثبت المکان ﷲ تعالٰی ۳؎۔
اگر کوئی یوں کہے کہ سیڑھی لگاؤ اور آسمان پر جاکر خداسے جنگ کرو ، توکافر ہوجائے گا اس لئے کہ اس نے اللہ تعالٰی 

کے لئے مکان مانا۔ (ت)
(۳؎ خلاصۃ الفتاوٰی  کتاب الفاظ الکفر فصل ۲ جنس ۲  مکتبۃ حبیبیہ کوئٹہ  ۴ /۳۸۴)
کفریہ ۶: رسالہ یکروزی فاروقی ص ۱۵۵: بعداخبار ممکن ست کہ ایشان رافراموش گردانیدہ شود پس قول بامکان وجود مثل اصلا منجر بتکذیب نصی از نصوص نگرددوسلب قرآن مجید بعد انزال ممکن ست ۴؎۔
خبر دینے کے بعد ممکن ہے کہ اللہ تعالٰی اسے بھلادے پس حضو رعلیہ الصلٰوۃ والسلام کی ہم مثل ثابت کرنا ہر گز نصوص میں سے کسی نص کی تکذیب نہیں اور قرآن پاک کے نازل کرنے کے بعد اس کا سلب ہوجانا ممکن ہے۔ (ت)
 (۴؎ رسالہ یکروزی (فارسی)     فاروقی کتب خانہ ملتان    ص۱۷)
اہل حق نے کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کامثل یعنی تمام صفات کمالیہ میں حضور کا شریک وہمسر محال ہے، اور بعض علماء اس پر دلیل لائے تھے کہ اللہ عزوجل نے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو خاتم النبیین فرمایا اگر حضور کا مثل بمعنی مذکورر ممکن ہو تومعاذاللہ کذب الٰہی لازم آئے، اس کے جواب میں شخص مذکور نے وہ کفری بول بولا کہ اگر اللہ تعالٰی قرآن مجید دلوں سے بھلا کر ایسا کرے تو کس نص کی تکذیب ہوگی، یہاں صاف اقرار کردیا کہ اللہ عزوجل کی بات واقع میں جھوٹی ہو جانے میں تو حرج نہیں حرج اس میں ہے کہ بندے اس کے جھوٹ پر مطلع ہوں اگر انھیں بھلا کر اپنی بات جھوٹی کردے تو تکذیب کہاں سے آئیگی کہ اب کسی کو وہ نص یاد ہی نہیں جو جھوٹ ہوجانا بتائے غرض سارا ڈر بندوں کا ہے جب ان کی مت ماردی پھر پرواکیا
تعالی اﷲ عما یقول الظلمون علوا کبیرا
 ظالموں کی باتوں سے اللہ تعالٰی بہت بلند ہے۔ ت)
شفاء شریف ص ۳۶۱: من دان بالو حدانیۃ وصحۃ النبوۃ و نبوۃ نبینا صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ولکن جوز علی الانبیاء الکذب فیما اتوابہ ادعی فی ذٰلک المصلحۃ بزعمہ اولم یدعھا فھوکافر باجماع ۱؎۔
جو اللہ تعالٰی کی وحدانیت نبوت کی حقانیت ہمارے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی نبوت کا اعتقاد رکھتاہو بااینہمہ انبیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام پر ان باتوں میں کہ وہ اپنے رب کے پاس سے لائے کذب جائز مانے خواہ بزعم خود اس میں کسی مصلحت کا ادعا کرے یا نہ کرے ہر طرح بالاتفاق کافرہے۔
 (۱؎ الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی    فصل فی بیان ماھومن المقالات    المطبعۃ الشرکۃ الصحافیہ فی البلاد العثمانیہ     ۲/ ۲۶۹)
حضرات انبیاء علیہم افضل الصلٰوۃ والثناء کا کذب جائز ماننے والا بالاتفاق کافر ہوا اللہ عزوجل کا کذب جائز ماننے والا کیونکر بالاجماع کا فر مرتد نہ ہوگا، اس مسئلے میں شخص مذکور اوراس کا کاسہ لیسوں کے اقوال سخت ہولناک وبیباک وناپاک ہیں جن کی تفصیل وتشریح اور ان کے رد بلیغ کی تنقیح ہماری کتاب سبحن السبوح عن عیب کذب مقبوح (۱۳۰۷ھ) سے روشن ۔
کفریہ ۷: یکروزی ص ۱۴۵: لانسلم کہ کذب مذکور محال بمعنی مسطور باشد چہ مقدمہ قضیہ غیر مطابقہ للواقع والقائے آں برملٰئک و انبیاء خارج از قدرت الہیہ نیست والالازم آید کہ قدرت انسانی ازید ازقدرت ربانی باشد ۲؎۔
اللہ تعالٰی کے لئے مذکور کذب کوہم محال نہیں مانتے کیونکہ واقع کے خلاف کوئی قضیہ وخبر بنانا اور اس کو فرشتوں اور انبیاء پر القاء کرنا اللہ تعالٰی کی قدرت سے خارج نہیں ورنہ لازم آئیگا کہ انسانی قدرت اللہ تعالٰی کی قدرت سے زاید ہوجائے۔ (ت)
 (۲؎ رسالہ یکروزی (فارسی)   فارقی کتب خانہ ملتان        ص۱۷)
اس میں صاف تصریح ہے کہ جو کچھ آدمی اپنے لئے کرسکتاہے وہ سب خدائے پاک کی ذات پر بھی رواہے جس میں کھانا پینا، سونا، پاخانا پھرنا، پیشاب کرنا، چلنا، ڈوبنا، مرنا، سب کچھ داخل ۔ لہذا اس قول خبیث کے کفریات حد شمار سے خارج۔
کفریہ ۸: یکروزی ص۱۴۵ :عدم کذب را از کمالات حضرت حق سبحنہ میشمارند واوراجل شانہ بآں مدح می کنند بر خلاف اخرس و جماد وصفت کمال ہمیں ست کہ شخصے قدرت برتکلم بکلام کاذب دارد وبنا بر رعایت مصلحت ومقتضائے حکمت بتنزہ از شوب کذب تکلم بکلام کاذب ننماید ہماشخص ممدوح می گردد بخلاف کسے کہ لسان او ماؤف شدہ یا ہر گاہ ارادہ تکلم بکلام کاذب نماید آواز بند گرددیا کسے دہن اورابند نماید ایں اشخاص نزد عقلا قابل مدح نیستند، بالجملہ عدم تکلم کلام کاذب ترفعا عن عیب الکذب وتنزہا عن التلوث بہ از صفا ت مدح ست ۱؎ اھ ملخصا۔
عدم کذب کو اللہ تعالٰی کے لئے کمالات میں سے شمار کرتے ہیں اور عدم کذب کو گونگے اور جماد کے مقابلہ میں اللہ تعالٰی کی مدح بتاتے ہیں، اور جبکہ صفت کمال یہ ہے کہ کسی شخص کو جھوٹ بولنے پر قدرت ہو تووہ مصلحت اور حکمت کی بنا پر جھوٹی بات کہنے سے گریز کرے تو ایسا شخص مدح کا مستحق ہوتاہے، اس کے برخلاف کوئی ایسا شخص کہ اس کی زبان ناکارہ ہو یا جب وہ جھوٹی بات کہنے کا ارادہ کرے تو اس کی آواز بند ہوجائے یا دوسرا کوئی اس وقت تک اس کا منہ بند کردے تو ایسے لوگ عقلاء کے ہاں مدح کے قابل نہیں ہوتے غرضیکہ جھوٹ کے عیب سے بچنا اور اپنے آپ کو جھوٹ میں ملوث نہ کرنا مدح کی صفات میں سے ہے اھ ملخصا (ت)
 (۱؎ رسالہ یکروزی (فارسی)         فارقی کتب خانہ ملتان    ص۱۸۔ ۱۷)
اس میں صاف اقرار ہے کہ اللہ عزوجل کا جھوٹ بولنا ممتنع بالغیر بلکہ محال عادی بھی نہیں کہ گونگے کا بولنا ہر گز نہ محال بالذات نہ ممتنع بالغیر، نہ ممتنع عقلی، نہ محال شرعی، صرف محال عادی ہے، اور وہ تصریح کرتاہے کہ اللہ تعالٰی کا جھوٹ بولنا ایسا بھی نہیں جیسے گونگے کا بولنا کہ اللہ تعالٰی کی تو اس سے مدح کرتے ہیں اور گونگے کی نہیں، توضرور ہواکہ کذب الٰہی محال عادی بھی نہ ہو یہ صریح کفر ہے اور اس میں ایمان ودین وشرائع سب کا ابطال کہ جب خدا پر جھوٹ ہر طرح روا ہے تو اس کی کسی بات پر اطمینان کیا ہے۔
کفریہ ۹: اسی قول میں صراحۃ مان لیاکہ اللہ تعالٰی میں عیب والآئش کا آنا جائز ہے مگر مصلحۃ ترفع کے لئے اس سے بچتا ہے یہ صراحۃً اللہ عزوجل کو قابل ہر گونہ نقص وعیب وآلودگی ماننا ہے کہ یہ بھی مثل کفریہ ہفتم ہزاروں کفریات کا خمیر ہ ہے۔
عالمگیری قول مذکورہ درکفریہ ۳، اعلام بقو اطع الاسلام مطبع مصر ۱۲۹۲ھ ص ۱۵:
من نفی اواثبت ماھو صریح فی النقص کفر ۱؎۔
جو اللہ تعالٰی کی شان میں کوئی ایسی بات نہ یا ہاں کہے جس میں کھلی منقصت ہو کا فر ہوجائے۔
 (۱؎ فتاوٰی ہندیہ      الباب التاسع فی احکام المرتدین    نورانی کتب خانہ پشاور        ۲/ ۲۵۸

اعلام بقواطع الاسلام مع سبل النجاۃ    مکتبۃ دارالشفقت استنبول ترکی    ص۳۵۱)
کفریہ ۱۰: اس قول میں صدق الٰہی بلکہ اس کی سب صفات کمال کو اختیاری مانا کہ مصلحت عیب و آلائش سے بچنے کو اختیار کیاہے جس طرح کفریہ ۳ میں صفت علم غیب کو صراحۃً اختیاری کہا تھا اور جو چیز اختیاری ہو ضرور حادث ونو پیداہوگی،
شرح عقائد النسفی طبع قدیم ص ۲۲: الصادر عن الشیئ بالقصد والاختیار یکون حادثا بالضرورۃ ۲؎۔
جوکسی سے اس کے قصد و اختیار سے صادر ہو وہ بالبداہت حادث ہوگا۔ اور صفات الٰہی کو حادث ٹھہرانا کلمہ کفر ہے۔
(۲؎ شرح العقائدالنسفیہ      دارالاشاعۃ العربیہ قندھار افغانستان    ص۲۳)
فقہ اکبر حضرت امام اعظم ابو حنیفہ وشرح فقہ اکبر ملا علی قاری طبع حنفی ۱۲۶۹ھ ص ۲۹:
صفاتہ فی الازل غیر محدثۃ ولامخلوقہ فمن قال انھا مخلوقۃ او محدثۃ اووقف فیہا اوشک فیھا فھو  کافر باﷲ تعالٰی ۳؎.
اللہ تعالٰی کی سب صفتیں ازلی ہیں،نہ  وہ نو پیدا ہیں نہ مخلوق، تو جو انھیں مخلوق یا حادث بتائے یا اس میں توقف یا شک کرے وہ کافر ہے۔
 (۳؎ الروض الازھر شرح الفقہ الاکبر     الباری جل شانہ موصوف فی الازل الخ    مصطفی البابی مصر        ص۲۵)
کفر ۱۱ تا ۱۹: اسی قول میں صاف بتایا کہ جن چیزوں کی نفی سے اللہ تعالٰی کی مدح کی جاتی ہے وہ سب باتیں اللہ عزوجل کے لئے ہوسکتی ہیں ورنہ تعریف نہ ہوتی، تو اللہ تعالٰی کے لئے سونا، اونگھنا، بہکنا، بھولنا، جورو، بیٹا، بندوں سے ڈرنا، کسی کو اپنی بادشاہی کا شریک کرلینا، ذلت وخواری کے باعث دوسرے کو اپنا بازو بنانا وغیرہ سب کچھ روا ٹھہر اکہ ان سب باتوں کی نفی سے اللہ تعالٰی کی مدح کی جاتی ہے آیت
لا تاخذہ سنۃ ولانوم ۴؎
نہ اسے اونگھ آتی ہے نہ نیند۔
  (۴؎ القرآن الکریم     ۲/ ۲۵۵)
آیت لایضل ربی ولاینسی ۱؎
 نہ میرا رب بہکے نہ بھولے۔
(۱؎ القرآن الکریم             ۲۰/ ۵۲)
آیت مااتخذ صاحبۃ ولاولدا ۲؎
اللہ نے کسی کو اپنی جورو بنایا نہ بیٹا۔
(۲؎ القرآن الکریم          ۷۲ /۳)
آیت ولایخاف عقبھا ۳؎
اللہ کو ثمود کے پیچھے کا خوف نہیں۔
 (۳؎القرآن الکریم           ۹۱ /۱۵)
آیت لم یکن لہ شریک فی الملک ولم یکن لہ ولی من الذل ۴؎
نہ کوئی باد شاہی میں اس کا ساجھی نہ کوئی دباؤ کے سبب اس کا حمایتی ۔یہ سب صریح کفرہیں۔
 (۴؎القرآن الکریم            ۱۷/ ۱۱۱)
Flag Counter