تمام تعریفیں اللہ تعالٰی کے لئے جس نے اپنارسول بھیجا گواہ اور خوشی اور ڈرسناتا ہوا، تاکہ تم ایمان لاؤ اللہ تعالٰی پر اور اس کے رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پراور تم اس کی تعظیم اور توقیر اپنے دل اور زبان سے بجالاؤ، تو اللہ تعالٰی نے ان کی تعظیم وتوقیر اور اعزاز کو تمھارے ایمان اور دین حق کا مضبوط رکن بنایا۔ اورتم پر حرام کیا ہے کہ تم اپنی آوازوں کو نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی آواز پر بلند کرو یا تم ان کے حضور اس طرح چلا کر بولوجس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو، کہیں تمھارے اعمال اکارت نہ ہوجائیں اورتمھیں اپنے خسارے کی خبر نہ ہو، اور اللہ تعالٰی نے ان کی اطاعت کو اپنی اطاعت اوران کی بیعت کو اپنی بیعت بنایا تو اگر تم اپنے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی بیعت کرو تو تمھارے ہاتھ پررحمان کا ہاتھ ہے اور اللہ تعالٰی نے اپنے اسم کریم کے ساتھ ان کا اسم پاک ملایا غنی کرنے، عطاکرنے، عطاکی امید کرنے، آگے ہونے، فیصلہ کرنے، مخالف ہونے، راضی ہونے اور خلوص وایذا میں تمھارے قرآن پاک میں، اور اللہ تعالٰی نے ان کی شان بلند فرمائی اور ان کی عظمت مکانی فرمائی، تو یوں اللہ تعالٰی نے ان کے معاملہ کو ان کے ماسوا سے ممتاز فرمایا۔ تو ان کی شان تمھارے ترازو سے ماوراء ہے، کیا تم کنکر کو موتی یا خون کو مشک یا بھس کو پھول قرارد و گے، تو بیشک تمھارے رب نے تمھیں راہنمائی دی ہے کہ تم رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو پکارنا ایسا نہ ٹھہراؤ جیسا تم آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو خواہ تمھارا باپ ہو یا آقا ہو یا بادشاہ ہو، اور اللہ تعالٰی نے ان لوگوں کے بارے میں جو زبان درازی ان کی شان میں کرتے ہیں فرمایا کیا تم اللہ تعالٰی اور اس کی آیات اوراس کے رسول کے معاملہ میں ٹھٹھا کرتے ہو، بہانے نہ بناؤ تم کافر ہوچکے ہو اپنے ایمان کے بعد، اے سرکش منافقو، فاسقو، تمھارے بڑے نے خیال ظاہر کیا کہ رسول اللہ کی مدح تمھاری آپس میں ایک دوسرے کی مدح کے مساوی بلکہ اس سے بھی کم ہے یہ تو تمھارے خیال میں ہے جبکہ بغض تمھارے منہ سے ظاہر ہوگیا ہے جو تمھارے دلوں میں ہے وہ اس سے بھی خطرناک ہے اور اللہ تعالٰی تمھارے حسد کو ظاہر فرمانے والا ہے، تم پر شیطان غالب آگیا ہے اس نے تم کو اللہ تعالٰی کی یاد اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی تعظیم بھلادی ہے اور بلاشک قرآن نے تمھاری رسوائی بیان فرمادی پس شیطان نے تمھاری فاء پر اپنے شین کے نقطوں میں ایک نقطہ بڑھادیا اور تمھاری تاء کا دائرہ اپنے نون کے دائرہ سے بڑھادیا تو شیطان نے تمھیں ایمان کے ضائع کرنے میں، ایمان کی تقویت دکھائی، مومنوں کو اللہ تعالٰی اس حال پر نہ چھوڑے گا جس پر تم اب ہو جب تک خبیث کو طیب سے جدا نہ کردے اور اللہ تعالٰی تمھارے کفر سے غافل نہیں، محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے رب کی قسم تم مومن نہیں ہوسکتے جب تک وہ تمھارے والد۔ اولاد، تمام لوگوں اور تمھارے روحوں سے زیادہ محبوب نہ ہوں۔ صلی اللہ تعالٰی وبارک وسلم علیہ وعلٰی آلہ الکرام وصحابتہ العظام اور ساتھ ہی تمھاری سرکشی اور غلط روی کے رد کرنے کی سنت پر قائم خدام پر سلام و برکات ہوں، اور اللہ تعالٰی ہمیں انتہائی تعظیم کے ساتھ آپ کی سچی محبت اور قیامت تک آپ کا دائمی ذکر عطا فرمائے اگرچہ اس میں تمھاری ناکیں آلود اور تمھاری آنکھیں بیمار ہوں،
آمین یا ارحم الراحمین والحمد للہ رب العالمین وصلی اللہ تعالٰی علی سیدنا ومولانا محمد وآلہ واصحابہ اجمعین۔
(ترجمہ خطبہ ختم ہوا، یہاں سے جواب شروع ہے)
بلا شبہہ وہابیہ مذکورین اور ان کے پیشوائے مسطور پربوجوہ کثیر قطعا یقینا کفرلازم اور حسب تصریحات جماہیر فقہائے کرام اصحاب فتاوٰی اکابر واعلام رحمہم اللہ الملک المنعام ان پر حکم کفر ثابت وقائم اور بظاہر ان کا کلمہ پڑھنا اس حکم کانافی اور ان کو نافع نہیں ہوسکتا آدمی فقط زبان سے کلمہ پڑھے یا اپنے آپ کو مسلمان کہنے سے مسلمان نہیں ہوتا جبکہ اس کا قول یا فعل اس کے دعوے کا مکذب ہوگیا، اگر کوئی شخص اپنے آپ کو مسلمان کہے کلمہ پـڑھے بلکہ نماز وروزہ حج زکوٰۃ بھی اداکرے باینہمہ خدا اور رسول کی باتیں جھٹلائے یا خدا اور رسول وقرآن کی جناب میں گستاخیاں کرے یا زنار باندھے، بت کے لئے سجدے میں گرے تو وہ مسلمان قرار پاسکتایا عادت کے طورپر وہ کلمہ پڑھنا اس کے کام آسکتاہے؟ ہر گز نہیں۔ ہم ابھی حاشیہ خطبہ میں یہ مضمون آیات قرآنیہ سے ثابت کرچکے۔
درمختار مطبع ہاشمی ص ۳۱۸:
لواتی بھما علی وجہ العادۃ لم ینفعہ مالم یتبرأ ۱؎۔
اگر عادت کے طورپر کلمہ پڑھا تونفع نہ دے گا جب تک اپنی اس کفری بات سے توبہ نہ کرے۔
(۱؎ درمختار باب المرتد مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۳۵۶)
امام الوہابیہ کا خود اپنے اقرار سے کافر ہونا نیز سب وہابیہ کا اپنے امام کی تصریح سے کافر ٹہہرنا
ان کے مذہبی عقیدوں اور ان کے پیشوائے مذہب کی کتابوں میں بکثرت کلمات کفریہ ہیں جن کی تفصیل کو دفتر درکار ،ا ور ان کے پیشوانے اپنی کتاب تقویۃ الایمان میں (جسے یہ لو گ معاذاللہ کتاب آسمانی کی مثل جانتے اور اپنے مذہب کی مقدس کتاب مانتے ہیں) اپنے اور اپنے سب پیرووں کے کھلم کھلا کافرہونے کا صاف اقرار کیا ہے، میں پہلے ان کا وہ اقرار ی کفر نقل کروں پھر بطور نمونہ صرف ستر کفریات ان کے اور لکھوں، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ایک حدیث میں ختم دنیا کا حال ارشاد فرمایا ہے کہ زمانہ فنا نہ ہوگا جب تک لات وعزٰی کی پھر پرستش نہ ہواور وہ یوں ہوگی کہ اللہ تعالٰی ایک پاکیزہ ہوابھیجے گا جو ساری دنیا سے مسلمانوں کو اٹھا لے گی جس کے دل میں رائی برابر بھی ایمان ہوگا وہ اٹھا لیاجائے گا جب زمین میں نرے کافر رہ جائیں گے پھر بتوں کی پوجا بدستور ہوجائے گی ۲؎۔
(۲؎ مشکوٰۃ المصابیح باب لاتقوم الساعۃ الا علی شرار الناس مطبع مجتبائی دہلی نصف ثانی ص۴۸۱)
تقویۃ الایمان مطبع فاروقی دہلی ۱۲۹۳ھ ص ۴۴ پر یہ حدیث بحوالہ مشکوٰۃ نقل کی اورخود اس کا ترجمہ کیا کہ:
''پھر بھیجے گا اللہ ایک باؤ اچھی، سوجان نکال لے گی جن کے دل میں ہوگا ایک رائی کے دانہ بھر ایمان، سو رہ جائیں گے وہی لوگ جن میں کچھ بھلائی نہیں۔ سوپھر جائیں گے اپنے باپ دادوں کے دین پر ۔''۱؎
(۱؎ تقویۃالایمان الفصل الرابع فی ذکر ردالاشراک فی العبادۃ مطبع علیمی لوہاری گیٹ لاہور ص۳۰)
حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے یہ بھی صراحۃً ارشاد فرمایا تھا کہ ''وہ ہوا خروج دجال لعین ونزول عیسی مسیح علیہ الصلٰوۃ والسلام کے بعد آئے گی۲؎۔
(۲؎ مشکوٰۃ المصابیح باب لاتقوم الساعۃ الاعلی شرار الناس مطبع مجتبائی دہلی نصف ثانی ص۴۸۱)
تقویۃ الایمان میں حدیث کے یہ الفاظ بھی خود ہی نقل کئے اور اس کا ترجمہ کیا ص ۴۵: ''نکلے گا دجال سو بھیجے گا اللہ عیسٰی بیٹے مریم کو، سووہ ڈھونڈے گا اس کو، پھر تباہ کردے گا اس کو ، پھر بھیجے گا اللہ ایک باؤ ٹھنڈی شام کی طرف سے، سونہ باقی رہے گا زمین پر کوئی کہ اس کے دل میں ذرہ بھر ایمان ہو مگر مار ڈالے گی اس کو۔''۳؎
(۳؎ تقویۃ الایمان الفصل الرابع فی ذکر ردالاشراک فی العبادۃ مطبع علیمی لوہاری گیٹ لاہور ص۳۱)
باینہمہ حدیث مذکور لکھ کر اسی صفحہ پر صاف لکھ دیا: ''سو پیغمبر خدا کے فرمانے کے موافق ہوا۔''۴؎
(۴؎تقویۃ الایمان الفصل الرابع فی ذکر ردالاشراک فی العبادۃ مطبع علیمی لوہاری گیٹ لاہور ص۳۰)
اب نہ خروج دجال کی حاجت رہی نہ نزول عیسٰی کی ضرورت بلکہ ان کے نصیبوں کے لئے وہ ہوا بھی چل گئی، تمام مسلمانوں کے کافر مشرک بنانے کے لئے ختم دنیا کی حدیث صاف صاف اپنے زمانہ موجودہ پر جمادی، اور کچھ پروا نہ کی کہ جب یہ وہی زمانہ ہے جس کی اس حدیث نے خبر دی اور وہ ہوا چل چکی اور جس کے دل میں رائی برابربھی ایمان تھا مرگیا اب تمام دنیا میں نرے کافر ہی کافر رہ گئے ہیں تو یہ شخص خود اور اس کے سارے پیر وکیا دنیا کے پردے سے کہیں الگ بستے ہیں، یہ خود اپنے اقرار سے ٹھیٹ کافر پکے بت پرست ہیں، یہ خود ان کا اقراری کفر تھا، اب گنئے کہ علمائے کرام فقہائے عظام کی صریح تصریحوں سے ان پر کتنی وجہ سے کفر لازم:
کفریہ ۱:
یہی اقرار کفرکہ جو اپنے کفر کا اقرار کرے وہ سچ کافرہے،
نوازل فقیہ ابواللیث، پھر خلاصہ، پھر تکملہ لسان الحکام مطبوعہ مصر ص ۵۷:
رجل قال انا ملحد یکفر ۵؎
جو اپنے الحاد کا اقرار کرے وہ کافرہے۔
(۵؎ خلاصۃ الفتاوٰی کتاب الفاظ الکفر فصل ثانی جنس خامس مکتبۃ حبیبیہ کوئٹہ ۴/ ۳۸۷)
اشباہ فن ثانی کتاب السیر باب الردۃ: قیل لھاانت کافرۃ فقالت انا کافرۃ کفرت ۱؎۔
کسی نے کہا توکافر ہ ہے، کہامیں کافرہ ہوں، وہ کافرہ ہوگئی۔
(۱؎ الاشباہ والنظائر کتاب السیر باب الردۃ ادارۃ القرآن کراچی ۱/ ۲۴۹)
فتاوٰی عالمگیری مطبع مصر ۱۳۱۰ھ جلد ۲ ص ۲۷۹:
مسلم قال انا ملحد یکفر ولوقال ماعلمت انہ کفر لایعذر بھذا ۲؎۔
ایک مسلمان اپنے ملحد ہونے کا اقرار کرے کافر ہوجائے گا اور اگر کہے کہ میں نہ جانتاتھا کہ اس میں مجھ پر کفر عائد ہوگا تو یہ عذر نہ سنا جائے۔
(۲؎ فتاوٰی ہندیہ الباب التاسع فی احکام المرتدین نورانی کتب خانہ پشاور ۲/ ۲۷۹)
کفریہ ۲: اسی قول میں تمام امت کو کافر مانا، یہ خود کفرہے، شفاء شریف امام قاضی عیاض ص ۳۶۲ و ص ۳۶۳:
نقطع بتکفیر کل قائل قال قولا یتوصل بہ الی تضلیل الامۃ ۳؎۔
جوکوئی ایسی بات کہے جس سے تمام امت کو گمراہ ٹھہرانے کی طرف راہ نکلے وہ یقینا کافر ہے۔
(۳؎ الشفاء بتعریف حقوق المصطفی فصل فی بیان ماھو من المقالات المطبعۃ الشرکۃ الصحافیۃ فی البلاد
العثمانیہ ۲/ ۲۷۱)
کفریہ ۳: تقویۃ الایمان ص ۲۰: ''غیب کا دریافت کرنا اپنے اختیار میں ہو کہ جب چاہے کرلیجئے، یہ اللہ صاحب کی ہی شان ہے۔''۴؎۔
(۴؎ تقویۃ الایمان الفصل الثانی فی رداالاشراک فی العلم مطبع علیمی اندرون لوہاری گیٹ لاہور ص۱۴)
یہاں اللہ سبحنہ کے علم کو لازم وضروری نہ جانا اور معاذاللہ اس کا جہل ممکن مانا کہ غیب کا دریافت کرنا اسی کے اختیار میں ہے چاہے دریافت کرلے چاہے جاہل رہے۔ یہ صریح کلمہ کفر ہے،
عالمگیری ج ۲ ص ۲۵۸: ۤیکفر اذا وصف اﷲ تعالٰی بما لایلیق بہ اونسبہ الی الجھل اوالعجز اوالنقص ۵؎ اھ
جو شخص اللہ تعالٰی کی ایسی شان بیا ن کرے جو اس کے لائق نہیں یا اسے جہل یا عجز یا کسی ناقص بات کی طرف
نسبت کرے وہ کافر ہے۔
(۵؎ فتاوٰی ہندیہ الباب التاسع فی احکام المرتدین نورانی کتب خانہ پشاور ۲/ ۲۵۸)
بحرالرائق مطبع مصر ج ۵ ص ۱۲۹، بزازیہ مطبع مصر ج ۳ ص ۳۲۳، جامع الفصولین مطبع مصر ج ۲ ص ۲۹۸:
لووصف اﷲ تعالٰی بما لا یلیق بہ کفر ۱؎۔
اگر اللہ تعالٰی کی شان میں ایسی بات کہی جو اس کے لائق نہیں کافر ہوگیا۔
(۱؎ جامع الفصولین الفصل الثامن والثلاثون فی مسائل کلمات الکفر اسلامی کتب خانہ بنوری ٹاؤن کراچی ۲/ ۲۹۸)
کفریہ ۴: ''جب چاہے دریافت کرنے'' کا صاف یہ مطلب کہ ابھی تک دریافت ہوا نہیں ہاں اختیار(عہ) ہے کہ جب چاہے دریافت کرلے تو علم الٰہی قدیم نہ ہوا ور یہ کھلا کفرہے۔
عہ: اس کے متعلق شرح عقائد وفقہ اکبر وشرح فقہ اکبر کی عبارات کفریہ ۱۰ کے رد میں دیکھئے ۱۲منہ
عالمگیری ج ۲ ص ۲۶۲: لو قال علم خدائے قدیم نیست یکفر کذا فی التتار خانیۃ۲؎ اھ ملخصا۔
جو علم خد اکو قدیم نہ مانے وہ کافر ہے ایسا ہی تار تارخانیہ میں ہے اھ ملخصا۔
(۲؎ فتاوی ہندیہ الباب التاسع فی احکام المرتدین نورانی کتب خانہ پشاور ۲ /۲۶۲)