Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۵(کتاب السیر)
20 - 150
رسالہ

الکوکبۃ الشھابیۃ فی کفریات ابی الوھابیۃ (۱۳۱۲ھ)

(امام الوہابیہ کے کفریات کے بارے میں چمکدار ستارہ)

بسم اللہ الرحمن الرحیم
مسئلہ ۲۹: از بدایوں مرسلہ مولٰنا مولوی محمد فضل المجید صاحب قادری فاروقی سلمہم اللہ تعالٰی ۲۲ جمادی الاول ۱۳۱۲ھ 

بخدمت بابرکت مولٰنا مرجع الفتاوٰی والمفتین ملاذ العلماء المحققین جناب مولوی احمد رضاخاں صاحب اللھم ادم افاضاتھم وافاداتھم (یا اللہ! ان کے فیوض وافادات کو دائمی بنا۔ ت) السلام علیکم!

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ وہابیہ غیر مقلدین جو تقلید اربعہ کوشرک کہتے ہیں، جس مسلمان کو مقلد دیکھیں اسے مشرک بتاتے ہیں، دہلی والے اسمعیل مصنف تقویۃ الایمان وصراط مستقیم وایضاح الحق ویک روزی وتنویر العینین کو اپنا امام وپیشوا بتاتے، اس کے اقوال کو حق وہدایت جانتے اور اس کے مطابق اعتقاد رکھتے ہیں، ہمارے فقہائے کرام وپیشوایان مذہب کے نزدیک ان پر اور ان کے پیشوا پر حکم کفر ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا (بیان کیجئے اجر پائیے۔ ت)
الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم الحمد ﷲ الذی ارسل(عہ۱) رسولہ شاھداومبشراو نذیرا لتومنوا(عہ۲) باﷲ ورسولہ و تعزروہ وتوقروہ بجنانکم ولسانکم ÷ فجعل تعظیمہ وتوقیرہ وتعزیرہ ھو الرکن الرکین لدینکم الحق وایمانکم ÷
عہ۱: یہ خطبہ قرآنی آیتوں اور ایمانی ہدایتوں پر مشتمل ہے، تعمیم فائدہ کے لئے ان آیات اور زبان اردومیں ان ہدایات کی طرف اشارہ مناسب،
آیت ا: اِنَّا اَرْسَلْنٰکَ شَاھِدً ا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا ۱؎ o
بیشک ہم نے تمھیں بھیجا گواہ اور خوشی اور ڈر سناتا۔
(۱؎ القرآن الکریم         ۳۳/ ۴۵ و ۴۸/ ۸)
کہ جو تمھاری تعظیم کرے اسے فضل عظیم کی بشارت دو اور جو معاذاللہ بے تعظیمی سے پیش آئے اسے عذاب الیم کا ڈر سناؤ، اور جب وہ شاہد وگواہ ہوئے اور شاہد کو مشاہدہ درکار، تو بہت مناسب ہواکہ امت کے تمام افعال واقوال واعمال واحوال ان کے سامنے ہوں، طبرانی کی حدیث میں حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالٰی عنہما سے ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
ان اﷲ رفع لی الدنیا فانا انظر الیھا والٰی ماھو کائن فیھا الی یوم القٰیمۃ کانما انظر الی کفی ھٰذہٖ ۲؎۔
بیشک اللہ تعالٰی نے میرے سامنے دنیا اٹھالی تومیں دیکھ رہاہوں اسے اور جو اس میں قیامت تک ہونے والا ہے جیسے اپنی اس ہتھیلی کو دیکھ رہاہوں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۱۲ منہ مدظلہ۔
 (۲؎ کنز العمال     بحوالہ عن ابن عمر حدیث ۳۱۹۸۱    موسسۃ الرسالہ بیروت    ۱۱/ ۴۲۰)
عہ۲ :  آیت ۲: لِتُؤْمِنُوْا بَاﷲِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُعزِّرُوْہُ (عہ) وَ تُوَقِّرُوْہُ ۳؎۔
 (یہ رسول کا بھیجنا کس لئے ہے خود فرماتاہے ا س لئے کہ) تم اللہ ورسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم وتوقیر کرو۔
عہ:  قرئ تعززوہ بزائین معجمین۱۲ منہ۔(م)
    آیہ کی تعززوہ دوزاء کے ساتھ بھی قرأت ہے ۱۲ منہ (ت)
 (۳؎ القرآن الکریم         ۴۸/ ۹)
معلوم ہوا کہ دین وایمان محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی تعظیم کا نام جو ان کی تعظیم میں کلام کرے اصل رسالت کو باطل وبیکار کیا چاہتاہے والعیاذ باﷲ تعالٰی ۱۲۔
وحرم (عہ۱) علیکم ان ترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی اوتجھر والہ بالقول کجھر بعضکم لبعض فتحبط اعمالکم وانتم لاتشعرون بخسرانکم ÷ وجعل(عہ۲) طاعتہ طاعتہ وبیعتہ(عہ۳) بیعتہ فان بایعتم نبیکم فانما فوق ایدیکم یدرحمانکم ÷
عہ۱:  آیت ۳: یَایُّھَاالَّذَیْنَ اٰمَنُوْا لَاتَرْفَعُوْآ اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْت النَّبِیِّ وَلاَتَجْھَرُوْا لَہ بِالْقوْلِ کَجَھْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالکُمْ وَاَنَتُمْ لاَتَشْعُرُوْنَ ۱؎ o
اے ایمان والو! نہ بلند کرو اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اور اس کے حضور چلاّ کر نہ بولو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہیں تمھارے عمل اکارت نہ ہوجائیں اور تمھیں خبر نہ ہو۔
 (۱؎ القرآن الکریم        ۴۹/ ۲)
امیر المومنین عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے روضہ انور کے پاس کسی کو اونچی آواز سے بولتے دیکھا، فرمایا کیا اپنی آواز نبی کی آواز پر بلند کرتاہے، اور یہی آیت تلاوت کی ۱۲۔
عہ۲:  آیت ۴: مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اﷲُ ۲؎۔
جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی ۱۲ ۔
 (۲؎ القرآن الکریم        ۴ /۸۰)
عہ۳:  آیت ۵: اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّماَ یبایِعُوْنَ اﷲ یَدُاﷲِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ ۳؎۔
بیشک جو لوگ تجھ سے بیعت کرتے ہیں وہ تو اللہ ہی سے بیعت کررہے ہیں۔ اللہ کا ہاتھ ہے ان کے ہاتھوں پر۱۲ ۔
 (۳؎القرآن الکریم     ۴۸/ ۱۰)
وقرن (عہ۴) اسمہ الکریم باسمہ العظیم فی الاغناء(عہ۵) والایتاء(عہ۱) ورجاء العطاء والتقدیم(عہ۲) والقضاء(عہ۳) والمحادۃ(عہ۴) والارضاء(عہ۵) والنصح (عہ۱)  والایذآء(عہ۲) فی قراٰنکم ÷ ورفع شانہ مکانہ فمیز امرہ عن امور من عداہ فما کان لیوزن بمیزانکم ÷
عہ۴:  اللہ عزوجل نے بے شمار امور میں اپنے محبوب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا نام پاک اپنے نام اقدس سے ملایا کہیں اصل شان اپنی تھی اس میں حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ذکر بھی شامل فرمایا، کہیں اصل معاملہ حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا تھا ان کے ساتھ اپنے ذکر والا سے اعزاز بڑھایا، آئیندہ کی آٹھ آیتیں اسی کے بیان میں ہیں ۱۲ منہ مدظلہ۔
عہ۵:  آیت ۶: اَغْنٰھُمْ اﷲ  وَرَسُوْلُہ منْ فَضْلِہٖ ۴؎۔
انھیں دولتمند کردیا اللہ اور اللہ کے رسول نے اپنے فضل سے ۱۲
 (۴؎القرآن الکریم       ۹/ ۷۴)
عہ۱:  آیت ۷: وَلَوْ اَنَّھُمْ رَضُوْا مَآ اٰتٰھُمُ اﷲ  وَرَسُوْلُہ وَقَالُوْا حَسْبُنَااﷲ سَیُؤْتِیْنَااﷲ منْ فَضْلِہٖ وَرَسُوْلُہ ۱؎۔
اور کیا خوب تھا اگر وہ راضی ہوتے اس پر جو انھیں دیا اللہ اور اللہ کے رسول نے اور کہتے ہمیں اللہ کافی ہے، اب دیتاہے ہمیں اللہ اپنے فضل سے اورا س کا رسول ۱۲۔
 (۱؎ القرآن الکریم        ۹ /۵۹)
عہ۲: آیت ۸: یاَیُّھَاالَّذِیْنَ امنوالَاتُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اﷲ وَرَسُوْلِہٖ ۲؎۔
اے ایمان والو! اللہ ورسول سے آگے نہ بڑھو ۱۲۔(۲؎ القرآن الکریم        ۴۹ /۱)
عہ۳:  آیت ۹: مَاکَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلاَ مؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اﷲ وَرَسُوْلُہ اَمْرًا اَنْ یّکُوْنَ لَھُم الْخیَرَۃُ منْ اَمْرِھِمْ وَمَنْ یّعْصِ ا للہَ وَرَسُوْلَہ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلاً مُبِیْناً ۳؎ o
نہیں پہنچتا کسی مسلمان مرد نہ عورت کو جب اللہ ورسول کوئی بات ان کے معاملہ میں ٹھہرادیں توانھیں اپنے کام کا کچھ اختیار باقی رہے اور جو حکم نہ مانے اللہ ورسول کا وہ صریح گمراہ ہوا بہک کر ۱۲۔
 (۳؎ القرآن الکریم   ۳۳/ ۳۶)
عہ۴:  آیت ۱۰: لاَ تَجِدُ قَوْماً یُّؤْمِنُوْنَ باﷲِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِیُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اﷲ وَرَسُوْلَہ وَلَوْکَانُوْا اٰبَائَھُمْ اَوْاَبْنَآئَھُمْ اَوْاِخْوَانَھُمْ اَوْعَشِیْرَتَھُمْ ۴؎۔
تو نہ پائے گا انھیں جو ایمان لاتے ہیں اللہ اور پچھلے دن پر کہ دوستی کریں اللہ ورسول کے مخالف سے چاہے وہ اپنے باپ یا بیٹے یا بھائی یا عزیز ہی ہوں ۱۳۔
 (۴؎ القرآن الکریم        ۵۸/ ۲۲)
عہ۵:  آیت ۱۱: وَاﷲ وَرَسُوْلُہ اَحَقُّ اَن یّرْضُوْہُ اِنْ کَانُوْا مُؤمِنِیْن o اَلَمْ یَعَلَمْوآ اَنَّہ مَنْ یُّحَادِدِاللہَ  وَرَسُوْلَہ فَانَّ لَہ نَارَجَہَنَّمَ خَالِدًا فِیْھَا ذٰلِکَ الْخِزْیُ الْعَظِیْمُ۵؎ o
اللہ ورسول زیادہ مستحق ہیں اس کے کہ یہ لوگ انھیں راضی کریں اگر ایمان رکھتے ہیں کیاانھیں خبر نہیں کہ جو مقابلہ کرے اللہ ورسول سے تو اس کےلئے دوزخ کی آگ ہے جس میں ہمیشہ رہے گا اور وہی بڑی رسوائی ہے ۱۲۔
 (۵؎ القرآن الکریم        ۹/ ۶۲ و ۶۳)
عہ۱:  آیت ۱۲: اِذَ انَصَحُوْا لِلّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ۲؎۔
جب خلوص رکھیں اللہ ورسول کے ساتھ۔
 (۲؎القرآن الکریم                   ۹/ ۹۱)
عہ۲:  آیت ۱۳: اِنَّ الَّذیْنَ یُؤْذُوْنَ اﷲ وَرَسُوْلَہ لَعَنَھُمُ اﷲ فِی الدُّنیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَاَعَدَّلَھُمْ عَذَاباً مُّھِیْناً ۳؎o
بیشک جو لوگ ایذا دیتے ہیں اللہ ورسول کو اللہ نے ان پر لعنت کی دنیا وآخرت میں، اور ان کے لئے تیار کررکھی ذلت کی مار۔
 (۳؎ القرآن الکریم                    ۳۳ /۵۷)
یہ معاملہ خاص حبیب کا ہے، اللہ کو کون ایذا دے سکتا ہے، مگر وہاں تو جو معاملہ رسول کے ساتھ برتا جائے اپنے ہی ساتھ قرار پایا ہے۔
اتجعلون الحصی(عہ۳) کالدر اوالدم کالمسک ام تجعلون العصف کریحانکم ÷ فقد ھداکم ربکم ان لا تجعلوا(عہ۴)دعاء الرسول بینکم کدعاء بعضکم بعضا ۱؎ من اب اومولی اوسلطانکم ÷
 (۱؎ القرآن الکریم      ۲۴/ ۶۳)
عہ۳: یعنی جب تم خود کنکر کو موتی، خون کو مشک، بھس کوپھول کی طرح سمجھتے تو رسول کے معاملہ کا اوروں پر کیا قیاس کرتے ہو، یہاں تو کوئی نسبت ہی نہیں ہوسکتی جب ان کے ابن مکرم حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں:
لا تقیسونی باحد ولا تقیسوا علی احدا ۴؎۔
مجھے کسی پر قیاس نہ کرو نہ کسی کو مجھ سے نسبت دو۔
 (۴؎زبدۃ الآثار تلخیص بہجہ الاسرار (اردو)         مکتبہ نبویہ لاہور    ص۷۷)
توخود حضور اقدس سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ذکر کیا ہے واللہ اکبر ۱۲۔
عہ۴: یہ آیت ۱۴ ہے کہ رسول کا پکارنا اپنے میں ایسا نہ ٹھہرالو جیسے ایک دوسرے کو پکارتے ہو، اب ایک دوسرےمیں باپ اور مولا اور بادشاہ سب آگئے، اسی لئے علماء فرماتے ہیں نام پاک لے کر ندا کرنا حرام ہے، اگرروایت میں مثلا یا محمد آیا ہو تو اس کی جگہ بھی یا رسول اللہ کہے، ا س مسئلہ کا بیان عظیم الشان فقیر کے رسالہ تجلی الیقین بان نبینا سید المرسلین میں دیکھئے ۱۲منہ
وقال الذین ارسلوا السنتہم فی شانہ العظیم اباﷲ ۱؂ واٰیتہ ورسولہ کنتم تستھزؤن (عہ۱)o لا تعتذرواقد کفرتم بعد ایمانکم ۲؎÷
عہ۱:  یہ آیت ۱۵ ہے غزوہ تبوک کو جاتے وقت منافقوں نے تخلیہ میں نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے خلاف شان کچھ کہا، جب سوال ہوا تو عذر کرنے لگے اور بولے ہم تو یونہی آپس میں ہنستے تھے، اللہ تعالٰی نے فرمایا: قل اباﷲ وایتہ ورسولہٖ ۳؂ الآیۃ اے نبی! ان سے فرمادے کیااللہ تعالٰی اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول کے معاملہ میں ٹھٹھاکرتے تھے بہانے نہ بناؤ تم کافر ہوچکے ایمان لاکر۔
 (۱؎ القرآن الکریم        ۹ /۶۵)		 (۲؎القرآن الکریم        ۹/ ۶۶)		 (۳؎القرآن الکریم       ۶/ ۶۵)
اقول اس آیت کے تین فائدے حاصل ہوئے:
اول : یہ کہ جو رسول کی شان میں گستاخی کرے وہ کافر ہوجاتاہے اگر چہ کیسا ہی کلمہ پڑھتا اور ایمان کا دعوٰی رکھتاہو، کلمہ گوئی اسے ہرگز کفرسے نہ بچائے گی۔
دوم : یہ جو بعض جاہل کہنے لگتے ہیں کہ کفر کا تودل سے تعلق ہے نہ کہ زبان سے،جب وہ کلمہ پڑھتا ہے اور اس کے دل میں کفر ہونا معلوم نہیں توہم کسی بات کے سبب اسے کیونکر کافر کہیں، محض خبط اور نری جھوٹی بات ہے، جس طرح کفر دل سے متعلق ہے یونہی ایمان بھی، زبان سے کلمہ پڑھنے پر مسلمان کیسے کہا یونہی زبان سے گستاخی کرنے پر کافر کہا جائے گا، اور جب بغیر اکراہ شرعی کے ہے تو اللہ کے نزدیک بھی کافر ہوجائے گا اگر چہ دل میں اس گستاخی کا معتقد نہ ہو کہ بے اعتقاد کہنا ہزل وسخریہ ہے، اور اسی پر رب العزت فرماچکا کہ تم کافر ہوگئے اپنے ایمان کے بعد، اس کی تحقیق ہمارے
رسالہ البارقۃ اللمعا علی سامد نطق بالکفر طوعا (۱۳۰۴ھ) میں ہے۔
سوم : کھلے ہوئے لفظوں میں عذر تاویل مسموع نہیں، آیت فرماچکی کہ حیلہ نہ گھڑوتم کافر ہوگئے۔
تنبیہ: یہاں اللہ عزوجل نے انھیں کلمات گستاخی کو وجہ کفربتایا اور ان کے مقابل کلمہ گوئی وعذر جوئی کو مردود ٹھہرایا یہاں ان کے کفر سابق  مخفی کی بحث نہیں کہ "قدکفرتم بعد ایمانکم" فرمایا ہے تم مسلمان ہوکر کافر ہوگئے۔ نہ کہ "قد کنتم کافرین" تم پہلے سے کافر تھے، یہ فائدے خوب یاد رکھنے کے ہیں وباللہ التوفیق ۱۲منہ مدظلہ
Flag Counter