Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۵(کتاب السیر)
2 - 150
رسالہ

الجبل الثانوی علٰی کلیۃ التھانوی (۱۳۳۷ھ)

(تھانوی کے گُردے پر دوسرا پہاڑ)
مسئلہ ۱۰ : 

ماقولکم دام طولکم فی رجل یسمی اشرف علی کتب الیہ بعض مجبیہ انہ رأی فی المنام انہ یقرأ  الکلمۃ الطیبۃ لکن یذکر فیھا اسمکم )ای اسم اشرف علی) مکان محمد (صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم) ثم تذکرانہ اخطأ فاعاد فلم یخرج من لسانہ الا ''اشرف علی'' رسول اﷲ مکان محمد رسول اﷲ (صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم) ھو دار ان ھذا غیر صحیح لکن لاینطلق اللسان الابھذا من غیر اختیار قال فلما تکرر ھذا رأیتکم تجاھی فخررت علی الارض وصحت صیاحا شدید اوخلت ان لم یبق فی باطنی قوۃ ثم استیقظت بیدان الغیبۃ عن الحس واثر عدم الطاقت کما ھو، لکن لم یکن فی المنام ولافی الیقظۃ الاتصورکم تأملت فی الیقظۃ ماوقع من الغلط فی الکلمۃ الطیبۃ فاردت ان ادفع ھذا الخیال عن القلب فجلست ثم اضطجعت علی الجنب الاخر لتدارک الغلط الواقع فی الکملۃ الشریفۃ اردت الصلٰوۃ علی النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فلا اقول الا اللھم صلی علی سیدنا ونبینا ومولانا اشرف علی، مع انی الاٰن یقظان غیر  وسنان ولکن خارج عن الاختیار لیس لی علی اللسان اقتدار حتی بقیت ھکذا طول النہار وبکیت من الغد بالاکثار وسوی ھذہ وجوہ کثیرۃ اوجیت لی 

محبتکم (اھ ماکتب الرجل) فکتبت الیہ اشر علی ان فی ھذہ الواقعۃ تسلیۃً لکم ان الذی ترجعون الیہ ھو متبع السنۃ اھ، وقد طبع ھذا کلہ واشاعہ اشرف علی نفسہ فی جریدۃ شھریۃ تسمی الامداد مبتھجابہ علی رؤس الاشہاد بل داعیا مریدیہ الٰی مثلہ من الغالات فی تعظیمہ وایثار فضلہ فان ھذا ھو مقصد الجریدۃ یحسبوھا فی ارشادھم رشدیۃ فما حکم الشریعۃ الغراء فیھما واشرف علی ھذا ھوالذی کتب فی رسیلۃ لہ لاتزید علی ثلاث وریقات فی ابطال نسبۃ علم الغیب الی محمد صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم انہ ان ارید بہ کل العلوم بحیث لایشذ منہا شیئ فبطلانہ ظاھر عقلا ونقلا وان ارید البعض فای خصوصیۃ فیہ لہ فان مثل ھذا حاصل لزید وعمر وبل لکل صبی و مجنون بل لکل بھیمۃ وحیوان وقد حکم علیہ بقولہ ھذا اکابر علماء الحرمین المکرمین انہ کفر وارتد ومن شک فی کفرہ فقد کفر ۱؎ کما ھوا مفصل فی حسام الحرمین افیدونا اجزل اﷲ تعالٰی ثوابکم اٰمین!
تمھاری (اللہ تعالٰی تمھیں  طویل عمر عطا فرمائے) اشرف علی نامی شخص کے بارے میں  کیا رائے ہے

جس کی طرف اس کے کسی چاہنے والے نے لکھا کہ ا س نے خواب میں  کلمہ طیبہ پڑھا لیکن حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے اسم گرامی محمد کی جگہ تیرانام (اشرف علی) پڑھا تو زبان اس کے بعد خیال آیا یہ تو غلط ہے دوبارہ کلمہ پڑھا تو زبان سے محمد رسول اللہ (صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم) کی جگہ ''اشرف علی رسول اللہ'' نکلتا ہے میں  نے غور کیا یہ تو صحیح نہیں  لیکن زبان سے بے اختیار یہی نکلتاہے جب بار بار ایسا ہوا تو میں  نے تمھیں  سامنے دیکھا میں  زمین پر گر پڑا اور سخت چیخ وپکار کی، اور مجھے خیال آتا ہے کہ میرے اندر باطنی قوت ختم ہوگئی ہے پھر میں  جاگا مگر حس کا غائب ہونا اور ناطاقتی پہلے کی طرح ہی تھی مگر نیند اور بیداری میں  صرف تمھاراہی تصور تھا، بیداری کی حالت میں  میں  نے غور کیا کہ کلمہ طیبہ غلطی ہوگئی تو میں  نے اس خیال کو دل سے نکالنے کی کوشش کی میں  بیٹھ گیا پھر میں  دوسری کروٹ لیٹ گیا، کلمہ طیبہ میں  واقعی غلطی کے تدارک کے لئے میں  حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی ذات اقدس پر درود شریف پڑھتا ہوں  لیکن پھر بھی یہ کہتا ہوں  ______
''اللھم صلی علی سیدنا ونبینا ومولانا اشرف علی''
حالانکہ میں  اب بیداری میں  تھا نہ کہ حالت غفلت میں  ونیند میں ، لیکن یہ معاملہ بے اختیاری میں  تھا، زبان پر میرا کنٹرول ختم ہوچکا تھاحتی کہ یہی عمل سارا دن رہا، دوسرے روز بہت رویا ہوں ۔ ان وجوہ کے علاوہ دیگر کئی وجوہ نے بھی مجھے آپ کی محبت عطا کی ہے کہاں  تک عرض کرو، اس شخص کا مکتوب ختم ہوا، اشرفعلی نے اسکے جواب میں  لکھا اس واقعہ میں  تمھارے لئے اس بات کی تسلی ہے کہ جس کی طرف تم رجوع کررہے ہو وہ سنت کا متبع ہے اھ  اور یہ تمام واقعہ اشرف علی نے خود اپنے ماہنامہ رسالہ الامداد میں  اعلانیہ شائع کیا خوشیاں  مناتے ہوئے بلکہ مریدین کو اپنی تعلیم اور بزرگی کی ترجیح میں  غلو کی طرف بلاتے ہوئے، اس لئے کہ رسالہ کا مقصود ہی یہ ہے کہ مریدین سے انہی کی ہدایت میں  راہ راست پر جانیں  تو شریعت مبارکہ کا ان دونوں  اشخاص کے بارے میں  کیا حکم ہے؟ اور یہ وہی اشرف علی ہے جس نے اپنے ایک رسالہ (جو تین چھوٹے چھوٹے اوراق پر مشتمل ہے) میں  نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف علم غیب کی نسبت کو باطل قرار دیتے ہوئے کہا ہے اگر اس علم غیب سے مراد اس طرح کے تمام علوم ہیں  کہ اس سے کوئی شیئ خارج نہیں  تو اس کا باطل ہونا عقلاً ونقلاً باطل ہے۔ اور اگر مراد بعض علوم غیبیہ ہیں  تو اس میں  آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی کیا خصوصیت ہے کیونکہ یہ تو زید، عمرو بلکہ ہر بچے، پاگل بلکہ ہر چوپائے اور حیوان کو حاصل ہے۔ اس کی اس عبارت پر علماء حرمین شریفین نے یہ حکم جاری کیا کہ یہ شخص کافر مرتد ہے اور جو اس کے کفر میں  شک کرے وہ بھی کافر ہے۔ جیسا کہ حسام الحرمین میں  تفصیلاً موجودہے ہمیں  اس کے جواب میں  سے مطلع فرمائیں  اللہ تعالٰی آپ کو اجر جزیل عطافرمائیں ، آمین!
(۱؎ حسام الحرمین     المقدمہ        مکتبہ نبویہ گنج بخش روڈ لاہور        ص۱۳)
الجواب

اللھم لک الحمد صلی علی نبیک نبی الحمد واٰلہ وصحبہ العمد، رب انی اعوذبک من ھمزات الشیطٰین واعوذبک رب ان یحضرون، ائمۃ الدین لم یقبلوازلل اللسان فی الکفر والالاجتراء کل خبیث القلب ان یجاھر بسب اﷲ وسب رسولہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ویقول زلت لسانی قال الامام القاضی عیاض فی الشقاء الشریف ''لایعذر احد فی الکفر بدعوی زلل اللسان ۱؎'' اھ، وفیہ ایضا ''عن ابی محمد بن ابی زید لایعذر احدبد عوی زلل اللسان فی مثل ھذا۲؎ اھ'' وفیہ ایضا ''افتی ابوالحسن القابسی فیمن شتم النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فی سکرہ یقتل لانہ یظن بہ انہ یعتقد ھذا ویفعلہ فی صحوہ ۳؎'' اھ ثم الزلل ان کان انما یکون بحرف اوحرفین لا ان تزل اللسان طول النھار وھذا غیر مقبول ومعقول،
اے اللہ! حمد تیرے لئے ہے۔ا پنے بنی محمد پر، ان کی آل واصحاب جودین کی ستون ہیں  پر رحمتوں  کا نزول فرما، اے میرے رب! میں  شیطان کے حملوں  سے تیری پناہ میں آتا ہوں  اور میں  تیری پناہ لیتاہوں  اس سے کہ مجھ پر وہ حملہ آور ہو۔ائمہ دین کسی کفو میں  زبان کا پھسل جانا قبول نہیں کرتے، ورنہ یہ ہوتا کہ جو خبیث القلب ہو وہ اعلانیہ اللہ تعالٰی اور اس کے حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو سب وشتم کرکے کہہ دے میری زبان پھسل گئی، امام قاضی عیاض شفاء شریف میں فرماتے ہیں  کسی آدمی کے کفرکے ارتکاب پر اس کایہ عذر مقبول نہ ہوگاکہ میری زبان پھسل گئی اھ ،اس میں  یہ بھی ہے امام ابو محمد بن ابی زید نے فرمایا ایسی صورت میں  کسی کایہ عذر قبول نہیں کہ زبان قابوں  میں  نہ رہی اھ، اس میں  یہ بھی ہے امام ابوالحسن القابسی نے اس شخص کے قتل کا فتوٰی جاری فرمایا جس نے نشہ کی حالت میں  رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کوسب وشتم کیا، کیونکہ اس سے متعلق خیال یہی ہے کہ وہ یہ اعتقاد رکھتاہے اور وہ حالت ہوش میں  بھی ایسا کہاکرتا ہے اھ ،پھر زبان کا پھسلنا ہو تو ایک یادو حرفوں  میں  ہو، یہ تو نہیں  ہوگا کہ سارادن زبان کنٹرول میں  نہ رہے، ایساہونا غیر مقبول وغیر معقول ہے،
 (۱؎ شفا بتعریف حقوق المصطفی  فصل قال القاضی تقدم لکلام    المطبعۃ الشرکۃ الصحافیہ ترکی     ۲ /۲۲۳)

(۲؎شفا بتعریف حقوق المصطفی   فصل قال القاضی تقدم لکلام  المطبعۃ الشرکۃ الصحافیہ ترکی     ۲/ ۲۲۳)

(۳؎شفا بتعریف حقوق المصطفی   فصل قال القاضی تقدم لکلام   المطبعۃ الشرکۃ الصحافیہ ترکی    ۲ /۲۲۳)
قال فی جامع الفصولین الفصل لثامن والثلثین ''ابتلی بمصیبات متنوعۃ فقال اخذت مالی وولدی واخذت کذا وکذا فماذا تفعل ایضا وماذا بقی لم تفعلہ وما اشبھہ من الالفاظ کفر کذا حکی عن عبدالکریم فقیل لہ ارأیت لوان المریض قالہ وجری علی لسانہ بلا قصد شدۃ مرضہ، قال الحرف الواحد یجری ونحوہ قدیجری علی اللسان بلاقصد اشارہ الی انہ یحکم بکفرہ ولایصدق ۱؎'' اھ
جامع الفصولین کی اڑتیسیویں  فصل میں  ہے ایک شخص مختلف مصائب میں  مبتلا ہوا اور وہ کہتاہے (اے اللہ!) تو نے میرا مال، میری اولاد اور یہ یہ چھین لیا اس کے بعد اور کیا کرے گا، اور باقی رہ ہی کیا گیا جو تونے نہیں  کیا، اور اس کی مثال دیگر الفاظ کہے تویہ کفر ہے۔ اسی طرح شیخ عبدالکریم سے منقول ہے کہ ان سے سوال ہواکہ ایک مریض کی زبان سے شدت مرض کی وجہ سے بلاقصد ایسا کوئی کلمہ جاری ہوجائے وتو اس کا کیا حکم ہے؟ فرمایا ایسا اگر کوئی حرف بھی جاری ہوجائے خواہ بلاقصد ہو تو اس پر کفر کا حکم ہی جاری کیا جائے گا اور زبان بہکنے کا عذر سچا نہ سمجھا جائے گا اھ
(۱؎ جامع الفصولین   فصل ۳۸ فی مسائل کلمات الکفر  اسلامی کتب خانہ کراچی ۲/ ۳۱۰)
فاذا لم یصدق فی نصف سطر کیف یصدق فیما کر رہ مناما ویقظۃ طول النھار بل ھو قطعا مسرف کذاب الم تران ا ﷲ تعالٰی جعل الجسد تحت ارادۃ القلب قال نبینا الحق المبین صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ''الا ان فی الجسد مضغۃ اذاصلحت صلح الجسد کلہ واذا فسدت فسد الجسد کلہ الا وھی القلب ۱؎'' فمافسد قولہ ولسانہ  والا وقد فسد قبلہ قلبہ وجنانہ وھذا یدعی ان لسانہ فی  فیہ حیوان مستقل بارادتہ غیرتابع للقلب کفرس جموح شدیدۃ الجموح تحت راکب ضعیف قوی الضعف یرید الیمین والفرس لاتنعطف الاللشمال حتی کلما اراد  ردھا للیمین لم تاخذ  الا ذات الشمال حتی تنازع القلب واللسان طول النھار فلم یک الغلبۃ الاللسان ھذا غیر معقول ولا مسموع فلا شک انہ محکوم علیہ بالکفر حکماغیر مدفوع وھل سمعتم باحد یدعی الاسلام ویقول طول النھار فلان رسول اﷲ مکان محمد رسول اﷲ اویقول لابیہ یاکلب ابن الکلب یاخنزیرا بن الخنزیر ویکررہ من الصباح الی المساء ثم یقول انما کنت اقول یا ابت یا سیدی فینازعنی اللسان ویذھب من الاب السید الی الکلب والخنزیر حاش ﷲ ماکان ھذا ولایکون ولن یقبلہ احد الا مجنون ھذا حکم ذلک القائل اما ماکتب الیہ اشرفعلی فی الجواب، فاستحسان منہ لذلک الکفر واستحسان الکفر کفر بلا ارتیاب وما ھوا الالمارأی فیہ من تعظیم نفسہ ووصفہ بانہ رسول اﷲ ذی القوۃ والصلوۃ علیہ استقلالا   بدل النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ومدحہ بالنبوۃ فابتھج  واجاز کل ذلک وجعلہ تسلیۃ لذلک الھالک ارأیت لوسبہ وامہ اواباہ احد طول النھا ثم قال انما کنت ارید مدحک فلم یطع اللسان فی الخطاب وبقیت تسبک واباک وامک من الصباح حتی توارت بالحجاب ھل کان اشرف علی او حد من اراذل الناس ولوخصافا او زبالا، اوارذل منھم یقبل ھذہ المعاذیر، ویقول لہ ان فی ھذہ  تسلیۃ لکم ان الذی تحبونہ وتسبونہ انہ لمن ضئضئ الخنازیر کلابل یحرق غیظا ویموت غنظا اویفعل بہ ماقدر علیہ حتی القتل ان وجد سبیلا الیہ فالتسلیۃ ھٰھنا لیس الا لاستخفافہ بمحمد صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم وبمرتبۃ النبوۃ والرسالۃ وختم النبوۃ الاعظم واستحسان نسبتھا الی نفسہ الامارۃ بالسوء کثیرا لقد استکبر وافی انفسھم وعتوعتوا کبیرا ۱؎ فلا ریب ان اشرف علی ومریدہ المذکور کلاھما کافر بالرب الغیور غرتھما الامانی وغرھما باﷲ الغرور، بل اشرف علی اشد کفرا واعظم وزرافان المرید زعم ان مایقول غلط صریح وباطل قبیح، وھذا لم یقبح القول ولاوبخ قائلہ بل استحسنہ وجعلہ تسلیۃ لہ ولکن لاغروفان من سب رسول اﷲ محمدا صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم بتلک السبۃ الفاحشۃ الماثورۃ فی السوال عنہ المحکوم علیہ لاجلھا بالکفر  والارتدادمن اسیادنا علماء الحرمین الکریمین فبأی کفر یتعجب منہ واذاکان عندہ مثل علم محمد صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم بالغیب حاصل لکل صبی ومجنون وبھیمۃ، ولاشک انہ اعلم عنہ من ھٰؤلاء الاخساء الذمیمۃ فکان بزعمہ اعلم واکرام من محمد صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فحق لہ ان یدعی النبوۃ والرسالۃ لنفسہ لالمحمد صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کذلک یطبع اﷲ علٰی کل قلب متکبر جبار ولکن واﷲ ان رب محمد لبالمر صادر لمن شاقہ عذاب النار
واﷲ اعلم بمایوعون o وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون۔
واﷲ تعالٰی اعلم۔
جب نصف سطر میں  اس کی بات نہیں  مانی جائے گی تو وہاں  کیسے تصدیق جائز ہوگی جب جواب میں  اور سارادن بیداری میں  ایسا بکتا رہابلکہ یہ شخص تو یقینا ظالم، زیاتی کرنے والا اور کذاب وجھوٹا ہے، کیا تمھارے علم میں  نہیں اللہ تعالٰی نے جسم کو ارادہ بدل کے تابع بنا رکھاہے حق واضح فرمانے والے ہمارے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: سنو جسم میں  ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جب وہ درست رہے تو تمام جس درست رہتاہے اگروہ بگڑ جائے تو تمام جسم بگڑجاتاہے سن لو وہ دل ہے۔ زبان کا قول اس وقت ہی فاسد ہوگا جب اس سے پہلے دل فاسد ہوگا، مذکور شخص کادعوی یہ ہے کہ اس کے منہ میں  زبان ایسا حیوان ہے جو اپنے ارادہ میں  مستقل ہے دل کے تابع نہیں جیسے کوئی سخت سرکش گھوڑا نہایت ہی کمزور سوا ر کے تحت ہووہ اس گھوڑے کو دائیں  طرف لے جانا چاہے مگر وہ بے پروا ہوکر بائیں  طرف چل پڑے جب بھی اسے وہ دائیں  جانب لانے کی کوشش کرے وہ بائیں ہی کو جائے۔ حتی کہ سارا دن دل اور زبان میں  جھگڑا رہا اور زبان کو غلبہ حاصل ہوگیا یہ بات و دعوی نہایت غیر معقول ہے اورہر گز قابل سماعت و توجہ نہیں ، اس پر بلاشبہ کفر کا ایسا حکم ہی صادر ہوگا جو ٹل نہیں  سکتا کیا تم نے کبھی یہ سناکوئی شخص اسلام کا دعوٰی کرتاہے اور سارا د ن محمد رسول اللہ کی بجائے فلاں رسول اللہ کہتارہے یا اپنے والد کو اے کتے، کتے کے بیٹے یا خنزیربن خنزیر کہتارہے اور صبح تا شام اسکی زبان پر یہی جاری رہے پھر کہے میں  تویہ کہنا چاہتاتھا اے میرے اباجان، اے میرے سرادر، مجھ سے میری زبان جھگڑ پڑی اور اس نے اب اور سردار کی جگہ کلب اور خنزیر کہہ دیا، اللہ کی قسم یہ بات ہی غلط ہے،ایسی بات کو دیوانے کے علاوہ کوئی قبول نہیں  کرے گا۔ یہ تو اس قائل کا حکم ہے۔ رہا معاملہ اشرفعلی کا جو اس نے جواب میں لکھا تو اس میں  اس کے کفر کی تعریف کی ہے اور بلاشبہہ کفر کواچھا کہنااور سمجھنا بھی کفرہوتاہے کیونکہ مجیب نے اس میں اپنی ذات کی تعظیم ووصف کو سمجھاہے کہ وہ اللہ کا رسول صاحب قوت ہے اور حضورصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے بجائے ان پر درود وسلام اورنبوت کے ساتھ مدح کی گئی ہے وہ اس پر خوش ہواہے اور ہر یاک کو اس نے اس کی اجازت دی ہے اور اس تباہ و برباد ہونے والے کے لئے اسے تسلی قرار دیا، تم ہی بتاؤاگر اس تھانوی کو یا اس کی ماں کو یا اس کے والد کو ساراد ن گالی دیتا اور پھر کہتا میں  تو تمھاری مدح وتعریف کرنا چاہ رہاتھا لیکن زبان نہ مانی وہ صبح سے تجھے، تیرے والد اور تیری ماں  کو گالی دیتی رہی تھی حتی کہ شام ہوگئی، کیا اشرف علی یاکوئی سب سے کمینہ اگرچہ وہ موچی، ماشکی یا کوئی اور گھٹیا آدمی ہو  ان عذروں کو قبول کر لے گا اور اسے کہے گا تمھارے لئے اس میں  تسلی ہے کہ جس سے محبت کرتے ہو اور تم اسے گالی دیتے ہووہ اصل خنزیر ہے وہ ہر گز نہیں  قبول کرے گا بلکہ وہ غیظ میں  جل جائے گا غیرت سے مرجائے گا وہ کچھ کرگزرے گا جو اس کے بس میں  ہو حتی کہ اگر اسے طاقت ہو تو وہ اسے قتل کردے گا تو یہاں  تسلی دینا فقط رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی توہین اور مرتبہ نبوت ورسالت اور خاتم الانبیاء صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی بے ادبی اور تحقیر پرہے اور اپنے نفس امارہ جو بکثرت اسے برائی کا حکم دیتاہے کی طرف نبوت ورسالت کی نسبت کرنے کو پسند کیا ____ بیشک ان لوگوں  نے تکبّر کیا اور اللہ کے بہت بڑے باغی قرار پائے، بلا شبہہ اشرف علی اور اس کا مذکور مرید دونوں رب غیور کے ساتھ کفرکرنیوالے ہیں  انھیں  ان کی خواہاشات نے فریب دیا اور شیطان ان کی خواہشات نے فریب دیا اور شیطان دھوکہ باز نے انھیں  اللہ سے دھوکے میں  ڈالا، بلکہ اشرفعلی کفر اور جھوٹ کے اعتبار سے اشد واعظم ہے کیونکہ مرید نے خیال کیا جو کچھ وہ کہہ رہاہے وہ واضح طورپر غلط اور نہایت ہی قبیح وبدترہے لیکن یہ اشرفعلی نہ تو اس قول کو براکہہ رہاہے اور نہ اس کے قائل کو جھڑک رہاہے بلکہ اسے اچھا جان رہاہے اور اس کو اس کے لئے تسلی قراردے رہاہے مگر اس پر کچھ تعجب نہیں  جس نے واضح طورپر نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کہ وہ سب وشتم کیا ہے جس کا تذکرہ سوال میں  ہے جس پر علماء حرمین کریمین نے اسے کافر اور مرتد قرار دیا تو اس سے کس کفر کا تعجب کیا جائے جبکہ اس کے نزدیک تو حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرح علمِ غیب ہر بچے، مجنون اور چارپائے کو حاصل ہے حالانکہ بلاشبہ اس کا اپنا علم ان برے خسیسوں  سے زیادہ ہوا، توگویا اس کا گمان یہ ہے کہ وہ حضرت محمدصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سےاعلم واکرم ہے لہذا اس نےحضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے بجائے اپنے لئے نبوت ورسالت کادعوٰی حق جانا، اللہ تعالٰی ایسے متکبر سرکش لوگوں  کے دلوں پر مہر لگادیتاہے، اللہ کی قسم رب محمد بھی ان کی گھات میں  ہے اور جس نے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی مخالفت کی اس کے لئے دوزخ کا عذاب ہے، اللہ تعالٰی جانتاہے جویہ ذہن میں  رکھتے ہیں  ، عنقریب جان لیں  گے ظالم یہ کہا ں پہنچ جانے والے ہیں ۔ واللہ تعالٰی اعلم (ت)
 (۱؎ صحیح البخاری    کتاب الایمان    باب فضل من استبرائہ الخ    قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/ ۱۳)

(۱؎ القرآن الکریم        ۲۵/ ۲۱)
Flag Counter