التماس اینکہ بفضلہ تعالی فدوی بخریت ہے ملازمان سامی کی صحتواری مدام بارگاہ احدیت سے مطلوب، حضور نے جو کارڈ تحریر فرمایا تھا وہ بصد ادب ملازمان حضور کی خدمت میں حاضر کیا جاتاہے اس صحیفہ میں تحریر ہے (کیا یہ مسلمان ہیں یا وہ ان میں کون مسلمان ہے) والسلام مع الکرام۔
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم، نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم،
والا حضرت مولانا المکرم ذوالمجد والکرم مولانا مولوی سید محمد آصف صاحب دامت فضائلہم، السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ، کارڈ میں بعض اعمال گاندھویہ کہ فقہاً کفرہیں جیسے قشقہ لگانا، کافر کی جے پکارنا، کافر کی تعظیم گناکر ان کے فاعلوں کو کہاہے کہ یہ مسلمان یا وہ،ان میں کون مسلمان ہے، بلاشبہ جس طرح کفر فقہی میں مبتلا ہوئے اورا ستحلال کریں تو کفرکلامی میں بعینہٖ یہی حالت فقہاً وکلاماً ان افعال واقوال کے مرتکبین کی ہے۔ والسلام۔
مسئلہ ۲۴: از شہر ۵ رمضان ۱۳۳۹ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید وبکر حدیث کی تکرار کررہے تھے، تکرار کرتے ہوئے اس حدیث تک پہنچے جس میں یہ حکم دیا جو شخص لڑکے لڑکی بالغ کی شادی نہیں کرتا ہے اور لڑکے لڑکی سے کوئی فعل قبیح واقع ہوتو دونوں کے والدین ماخوذ گرفتار عذاب الیم ہوں گے لڑکے لڑکی نہیں، اتفاقا ا س حدیث کے بین السطور میں ''زجر'' کا لفظ لکھا ہواتھا جس کے معنی جھڑکنے کے ہیں، زید نے بکر سے کہا کہ والدین ماخوذ نہیں ہوسکتے خود لڑکی لڑکا ہوں گے، دیکھو بین السطور میں زجر کا لفظ لکھا ہواہے جس سے مفہوم ہوتاہے کہ لڑکی لڑکا ماخوذ ہوگا والدین نہیں۔ بکر نے کہا کہ بین السطور حاشیہ ہے اس حدیث میں اور حدیث کا حاشیہ سب صحیح نہیں ہوتا ہے، زید نے بکر سے بطور سوال کے پوچھا کہ کیا قرآن کی سب باتیں صحیح ہیں، زید کہنا چاہتاتھا کہ کیا تفسیر کی سب باتیں صحیح ہیں، مگر سہوا یہ الفاظ اثنائے تقریر میں نکل پڑے حالانکہ یہ نہ مقصود ہے زید کا، نہ زید اس بات کا مقر ہے کہ معاذاللہ قرآن مجید فرقان حمید کی سب باتیں صحیح نہیں، ایک قابل مفتی صاحب نے زید پر فتوٰی دیاکہ زید کافرہوگیا اور اس کو کافر سمجھ کر توبہ کرائی اور کلمہ شریف پڑھوایا، دونوں کے لئے شرع مطہر سے کیا حکم نافذ کیا جائے گا؟ بینوا تو جروا
الجواب
اول توذکر حدیث میں غلطیاں ہیں، یہ حدیث دو طور پر آئی ایک کلام الہٰی اور دوسری کلام نبوی سے، کلام الہٰی میں تو والدین کا ذکرنہیں بلکہ صرف باپ کا، اور ولدین کاذکر نہیں بلکہ صرف دختر کا،اوربلوغ کاذکر نہیں بلکہ بارہ برس کی عمر کا۔ اور لڑکی پر گناہ نہ ہونے کا ذکر نہیں بلکہ باپ پر ہونے کا ، اور کلام نبوی میں نہ ماں کا ذکرہے نہ اولاد پر گناہ ہونے کا، حدیث اول کے الفاظ یہ ہیں جسے بیہقی نے شعب الایمان میں امیر المومنین عمر وانس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:
مکتوب فی التورٰۃ من بلغت لہ ابنۃ اثنتی عشرۃ سنۃ فلم یزوجھا فاصابت اثما فاثم ذلک علیہ ۱؎۔
توریت میں مرقوم ہے کہ جس کی لڑکی بارہ برس کی عمر کو پہنچ جائے اور وہ اس کانکاح نہ کرے اور لڑکی سے کچھ گناہ صادرہو تو اس کاگناہ باپ پرہے۔حدیث کی سند صحیح ہے۔
(۱؎ شعب الایمان حدیث ۸۶۶۹ دارالکتب العلمیہ بیروت ۶ /۴۰۲
کنز العمال ترجمہ ۴۵۴۱۲ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت ۱۶ /۵۷۔ ۴۵۶)
اور حدیث دوم کے الفاظ یہ ہیں جسے انھیں بیہقی نے شعب الایمان میں ابوسعید وابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہم سے روایت کیا کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:
من ولد لہ ولد فلیحسن اسمہ وادبہ فاذابلغ فلیزوجہ فان بلغ ولم یزوجہ فاصاب اثمافانما اثمہ علی ابیہ ۲؎۔
جس کے کوئی بچہ پیدا ہو وہ اس کا نام اچھا رکھے اور اسے اچھا ادب دے، پھر جب وہ بالغ ہو اس کا نکاح کردے، اور اگر وہ بالغ ہو اور یہ ا س کانکاح نہ کرے اور اس سے کوئی گناہ صادر ہو تو بات یونہی ہے کہ اس کا گناہ اس کے باپ پرہے۔
(۲؎ شعب الایمان حدیث ۸۶۶۶ دارالکتاب العلمیہ بیروت ۶ /۴۰۱)
اور باپ پر گناہ ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اولاد پر نہ ہو جب کہ وہ مکلف ہو، خود حدیثوں میں موجود ہے، فاصابت اثما اور فاصاب اثما، اس کی نظیر دوسری حدیث صحیح ہے:
من سن فی الاسلام سنۃ سیئۃ فعلیہ وزرھا ووزر من عمل بھا الی یوم القٰیمۃ و لاینقص ذلک من اوزارھم شیئا ۳؎ ۔
جو اسلام میں کوئی بری راہ نکالے اس پر اس کاوبال ہے اور قیامت تک جو اس راہ پر چلیں گے سب کا وبال ہے بغیر اس کے کہ ان کے وبالوں میں سے کچھ کم کرے۔
(۳؎ صحیح مسلم کتاب الزکوٰۃ باب الحث علی الصدقۃ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۳۲۷)
صحیح مسلم کتاب العلم قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۳۴۱
مسند امام احمد حدیث جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ دارالفکر بیروت ۴/ ۳۵۷ تا ۳۶۱)
زید کی زبان سے جولفظ نکلا بلا شبہ کلمہ کفرہے اوراس پر تجدید اسلام لازم، اور مفتی کا حکم صحیح ہے
المفتی انما یفتی بالظاھر واﷲ یعلم السرائر
(فتوٰی دینے والا ظاہر کا پابند ہوتاہے دلوں کے رازوں سے تو اللہ تعالٰی ہی آگاہ ہے۔ ت) واقع میں اگر ا س کی زبان بہکی تو عند اللہ کفر نہ ہوا،مگر مفتی بلادلیل ا س دعوٰی کو قبول نہ کرے گا۔
شفا شریف میں ہے: لا یعذر بدعوی زلل اللسان ۱؎، واﷲ تعالٰی اعلم۔
زبان کے بہکنے کا دعوٰی عذرنہیں قرار دیا جاتا۔ واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)
(۱؎ الشفاء بتعریف حقوق المصطفی فصل قال القاضی تقدم الکلام المطبعۃ الشرکۃ الصحافیۃ ترکی ۲/ ۲۲۳)
مسئلہ ۲۵ تا ۲۶: از ریاست فرید کوٹ مسئولہ علیم الدین فراش کوٹھی بلیسر گنج ۷ رمضان ۱۳۳۹ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین کہ:
(۱) حنفی نماز مدلل ص۷ اور حواشی اور فتاوی بدیع الدین میں لکھاہے کہ اگر کوئی شخص کسی عالم باعمل سے بدزبانی اور فحش کلامی کرے تو کافر ہوجاتاہے اور اس کی عورت نزدیک امام محمد کے مطلقہ بطلاق بائن ہوجاتی ہے، تو ایسے شخص کو پھر اپنی عورت سے کس طرح نکاح کرنا چاہئے؟
(۲) حدیث میں ہے کہ ''بڑھاؤ داڑھی کو اور کترواؤ مونچھوں کو'' روایت کیا اس کو بخاری نے، حضور نے صیغہ امر سے دونوں حکم فرمائے اور امر حقیقۃً وجوب کے لئے ہوتاہے، پس معلوم ہوا کہ یہ دونوں حکم واجب ہیں، اور واجب کا ترک کرنا حرام، پس داڑھی کٹانا اور مونچھیں بڑھانا دونوں حرام فعل ہیں، اس سے زیادہ دوسری حدیث میں ہے کہ ارشاد فرمایا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے : ''جوشخص لبیں نہ لے وہ ہم سے نہیں'' روایت کیا اس کو احمد وترمذی ونسائی نے۔ جب اس کا گناہ ہونا ثابت ہوگیا تو جو لوگ اس پر اصرا کرتے ہیں اور اس کو پسند کرتے ہیں اور داڑھی بڑھانے کو عیب مانتے ہیں بلکہ داڑھی والوں پر ہنستے ہیں اور اس کی ہجو کرتے ہیں، ان سب مجموع امور سے ایمان کا سالم رہنا دشوار ہے، ان لوگوں کو واجب ہے کہ اپنی اس حرکت سے توبہ کریں اور ایمان ونکاح کی تجدید کریں اور اپنی صورت موافق حکم اللہ ورسول بنائیں، ایک کتاب میں یہ مضمون دیکھا گیا کہ یہ واقعی درست ہے کہ ایسے شخص کو دوبارہ تجدید نکاح کا حکم دیا جائے۔ بینوا تو جروا
الجواب
(۱) عالم کی توہین اگر بوجہ علم دین ہے بلا شبہ کفرہے کما فی مجمع الانھر (جیسا کہ مجمع الانہر میں ہے ۔ ت) وگرنہ اگر بے سبب ظاہرکے ہے تو اس پر خوف کفرہے کما فی الخلاصۃ ومنح الروض (جیسا کہ خلاصہ اور منح الروض میں ہے۔ ت) ورنہ اشد کبیرہ ہونے میں شک نہیں۔
حدیث میں ہے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
ثلاثۃ لایستخف بحقہم الامنافق بین النفاق ذوالشیبۃ فی الاسلام وذوالعلم والامام المقسط ۱؎۔ رواہ ابوالشیخ فی کتاب التوبیخ عن جابر بن عبداﷲ والطبرانی فی الکبیر عن ابی امامۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہم۔
تین آدمیوں کی توہین منافق ہی کرے گا: مسلمان بوڑھا، صاحب علم اور عادل حاکم۔ اسے امام ابوالشیخ نے کتاب التوبیخ میں جابر بن عبداللہ سے اور امام طبرانی نے المعجم الکبیر میں حضرت ابوامامہ رضی اللہ تعالٰی عنہم سے روایت کیاہے۔ (ت)
جس سے صدور کفر ہو وہ توبہ کرے از سر نو اسلام لائے، اس کے بعد اگر عورت راضی ہو اس سے نکاح جدید بمہر جدید کرے۔
(۲) بلا شبہ داڑھی ایک قبضہ تک رکھناہے اور منڈوانا حرام، اور لبیں اتنی ترشوانا کہ لب بالاسے آگے نہ بڑھیں یہ بھی خصال فطرت وسنن موکدہ سے ہے۔ اور داڑھی پر ہنسنا ضرور کفر ہے کہ توہین سنت متوارثہ جمیع انبیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام ہے
(اور اس مسئلہ کی تفصیل ہماری کتاب لمعۃ الضحٰی فی اعفاء اللحی میں ہے۔ ت) بلا شبہ استہزا کرنیوالے پر تجدید اسلام لازم ہے اور اس کے بعد اگر عورت کو رکھنا چاہے تو تجدید نکاح ضرور۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۲۷: از فیروز پور محلہ پیراں والا مسئولہ عنایت اللہ شاہ دبیر انجمن تعلیم الدین والقرآن ۷ رمضان ۱۳۳۹ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی نبیوں میں شمار ہیں یا نہیں، بصورت اول قسم کی توہین کی یاکلمہ بے ادبانہ ان کے حق میں کہنا ناجائز اور بصورت ثانیہ جب ان کی خطا معاف کی جاچکی ہے تو ان کی نسبت کلمات بے ادبانہ اور ناشائستہ زبان پر لانا درست ہے یا نہیں؟ بینوا تو جروا
الجواب
ان کی نسبت کلمات ناشائستہ لانا بہر حال حرام ہے، ایک قول ان کی نبوت کا ہے
کما فی شرح الھمزیۃ للامام ابن حجر المکی رحمہ اﷲ تعالٰی
(جیساکہ امام ابن حجر مکی کی شرح ہمزیہ میں ہے ۔ ت) اور ظاہر قرآن عظیم سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے:
قال تعالٰی قولوا امنا باﷲ وما انزل الینا وماانزل الی ابراھیم واسمعیل واسحٰق ویعقوب والاسباط وما اوتی موسی وعیسی ومااوتی النبیون من ربھم لانفرق بین احد منہم ونحن لہ مسلمون ۱؎۔
اللہ تعالٰی کا ارشاد گرامی ہے: یوں کہو کہ ہم ایمان لائے اللہ پر جو ہماری طرف اترا اور جو اتاراگیا ابراہیم واسمعیل واسحق ویعقوب اور ان کی اولاد پر، اور جو عطا کئے گئے موسٰی وعیسٰی اورجو عطا کئے گئے باقی انبیاء اپنے رب کے پاس ہم ان میں کسی پر ایمان میں فرق نہیں کرتے اور ہم اللہ کے حضور گردن رکھے ہیں۔ (ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۲/ ۱۳۶)
اسباط یہی ابنائے یعقوب علیہ الصلٰوۃ والسلام ہیں۔ اس تقدیر پر تو ان کی توہین کفر ہوگی ورنہ اس قدر میں شک نہیں کہ وہ اولیائے کرام سے ہیں اور جو کچھ ان سے واقع ہو ا اپنے باپ نبی اللہ کے ساتھ محبت شدیدہ کی غیرت سے تھا پھر وہ بھی رب العزت نے معاف کردیا۔ اور یوسف علیہ الصلٰوۃ والسلام نے خود عفو فرمایا:
کہا آج تم پرکچھ ملامت نہیں اللہ تمھیں معاف کرے اور وہ سب مہربانوں سے بڑھ کر مہربان ہے۔ (ت)
(۲؎القرآن الکریم ۱۲/ ۹۲)
اور یعقوب علیہ الصلٰوۃ والسلام نے فرمایا: سوف استغفرلکم ربی انہ ھو الغفور الرحیم ۳؎۔
جلد میں تمھاری بخشش اپنے رب سے چاہوں گا بیشک وہی بخشنے والا مہربان ہے۔ (ت)
(۳؎القرآن الکریم ۱۲/ ۹۸)
بہر حال ان کی توہین سخت حرام ہے اور باعث غضب ذوالجلال والاکرام ہے، رب عزوجل نے کوئی کلمہ ان کی مذمت کا نہ فرمایا دوسرے کو کیا حق ہے، مناسب ہے کہ توہین کرنے والا تجدید اسلام وتجدید نکاح کرے کہ جب ان کی نبوت میں اختلاف ہے اس کے کفر میں اختلاف ہوگا اورکفر اختلافی کا یہی حکم ہے،
کما فی الدرالمختار وردالمحتار وغیرھما
(جیساکہ درمختار اور ردالمحتاروغیرہ میں ہے۔ ت) واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۲۸: از بغداد شریف ۶ آمرڈ کاٹینک کور نمبر ۱۹۳۰ مسئولہ علی رضاخاں فٹر مستری ۸ رمضان ۱۳۳۹ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین کہ ''تقویۃ الایمان'' کا پڑھنا بعض لوگ برا بتاتے ہیں اور بعض اچھا کہتے ہیں، برا بتانے والے حضور کا حوالہ دیتے ہیں، ہم مشکوک ہیں جواب سے مطلع فرمائے، بینوا تو جروا
الجواب
یہ ناپاک کتاب سخت ضلالت وبے دینی اور کلمات کفرپر مشتمل ہے اس کاپڑھنا زنا اور شراب خوری سے بدتر حرام ہے کہ ان سے ایمان نہیں جاتا۔ اور یہ ایمان زائل کرنے والی ہے والعیاذ باللہ تعالٰی، وہ جو اس کا پڑھنا اچھا بتاتے ہیں گمراہ بددین بلکہ کفار مرتدین ہیں۔ اس کی تفصیل دیکھنی ہو تو فقیر کی کتاب سل السیوف الھندیۃ اور الکوکبۃ الشہابیۃ اور الاستمداد علی اجیال الارتداد اور کشف ضلال دیوبند وغیرہا انصاف وایمان کی نگاہ سے دیکھی جائیں مسلمان کا ایمان خود گواہی دے گاکہ وہ مردود کتاب تقویۃ الایمان نہیں تفویت الایمان ہے یعنی ایمان فوت کرنے والی، والعیاذ باللہ تعالٰی۔ واللہ تعالٰی اعلم۔