مسئلہ ۲۲: از پور بندر کھاری مسجد مسئولہ محمد اسمعیل خاں ابن محمد اکبر خاں معرفت مولوی غلام محی الدین صاحب راندیری ۲۷ شعبان ۱۳۳۹ھ
بسم اللہ الرحمن الرحیم، نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ کہ زید کہتاہے کہ حضرت سیدنا محمدن المصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو احتلام ہوا ہے اور عمرو کہتاہے کہ یہ کلمہ کہنا بہت ہی بڑی بے ادبی ہے اور نہیں ہوا ہے تو اس بات کو چھوڑ دے، لیکن زید ہروعظ میں اور ہر جلسہ میں بیٹھ کر اس بات کو دہراتاہے اور اس میں فتنہ وفساد بڑھتا چلا جاتاہے ، اس درمیان ایک دین دار سخی بہت ہی بھولا اوربہت عالم دوست لیکن بالکل ہی بے علم وبے عقل بلا خلل ایک نامی واعظ بکر کو اور جگہ سے بلالاتاہے وہ آکر زید سے مل جاتاہے اور رات کو وعظ میں سارے عوام کے آگے حضرت کے احتلام ہوا ہے ہاں ہوا ہے احتلام ہی ہوا ہے حضرت کو احتلام ہواہے، اور زید کی تائید کرتاہے اور صحیح مسلم شریف اور شرح نووی کو دکھلاتاہے ۔ اور زید حق گو اور عمرو کو ناحق جتلاتاہے لہذا اس مسئلہ کاجواب للہ حق عزوجل و علا وحق الرسول صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم حق حق لکھ جتاویں اور فریقین کے فساد کو مٹاویں اور عنداللہ اجر عظیم پاویں۔
الجواب
فی الواقع حضور پر نور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اورتمام انبیائے کرام علیہم الصلٰوۃ والسلام احتلام سے پاک ومنزہ ہیں۔ قال اﷲ تعالٰی : ان عبادی لیس لک علیھم سلطٰن وکفی بربک وکیلا ۱؎۔
اللہ تعالٰی نے فرمایا:بیشک جو میرے بندے ہیں ان پر تیرا کچھ قابو نہیں اور تیرا رب کافی ہے کام بنانے کو۔ (ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۱۷/ ۶۵)
طبرانی معجم کبیر میں بطریق عکرمہ اور دینوری مجالس میں بطریق مجاہد حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی کہ فرمایا:
مااحتلم نبی قط وانما الاحتلام من الشیطان ۲؎۔
کبھی کسی نبی کو احتلام نہ ہوا، احتلام تو نہیں مگر شیطان کی طرف سے۔
کعب احبار رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے جو مروی ہوا کہ یا جوج وماجوج نطفہ احتلام سیدنا آدم علیہ السلام سے بنے ہیں، اول کعب ہی سے اس کا ثبوت صحت کو نہ پہنچا اس کاناقل ثعلبی حاطب لیل ہے کما فی عمدۃ القاری، نووی نے حسب عادت ان کا اتباع کیا۔ پھر کعب صاحب اسرائیلیات ہیں ان کی روایت کہ مقررات دین کے خلاف ہو مقبول نہیں۔ ہاں امام نووی وحافظ عسقلانی نے شروح صحیح مسلم وصحیح بخاری میں اس کی یہ تاویل نقل کی کہ انبیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام پر فیضان زیادت فضلہ بسبب ابتلائے ادعیہ منع نہیں اور اسے مقرر رکھا اقول مگر لفظ شنیع ومکروہ ہے اور حدیث ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما کے حصر کے خلاف کہ احتلام نہیں مگر شیطان کی طرف سے، ولہذا عامہ علمائے کرام نے اسے مقبول نہ رکھا،
فتح الباری بدء الخلق میں ہے : ھو قول منکر جدا لااصل لہ الامن بعض اھل الکتاب ۱؎۔
وہ سخت واجب الانکار بات ہے اس کی اصل نہیں مگر بعض اہل کتاب سے۔
(۱؎ فتح الباری شرح صحیح البخاری باب بدء الخلق مصطفی البابی مصر ۷/ ۱۹۵)
امام علامہ بدر الدین محمود عینی عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں فرماتے ہیں :
حکاہ الثعلبی عن کعب الاحبار وحکاہ النووی ایضا فی شرح مسلم وغیرہ ولکن العلماء ضعفوہ وقال ابن کثیر وھو جدیر بذلک اذلا دلیل علیہ بل ھو مخالف لما ذکر وامن ان جمیع الناس الیوم من ذریۃ نوح علیہ الصلوۃ والسلام بنص القراٰن (قلت) جاء فی الحدیث ایضا امتناع الاحتلام علی الانبیاء علیھم الصلٰوۃ والسلام ۲؎۔
یعنی اسے ثعلبی نے کعب احبار سے حکایت کیا نیز نووی نے شرح مسلم وغیرہ میں، مگر علماء نے اسے ضعیف بتایا، اور امام ابن کثیر نے کہا وہ تضعیف ہی کے لائق ہے کہ بے دلیل محض ہے بلکہ اس ارشاد علماء کے مخالف ہے کہ آج بنص قطعی قرآن مجید تمام آدمی ذریت نوح علیہ الصلٰوۃ والسلام سے ہیں، امام عینی نے فرمایا میں کہتاہوں نیز حدیث وارد ہے کہ انبیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام پر احتلام محال ہے۔
(۲؎ عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری باب بدء الخلق ادارۃ الطباعۃ المنیریہ بیروت ۱۵ /۲۳۲)
قال اﷲ تعالٰی وجعلنا ذریتہ ھم الباقین ۱؎۔
اللہ تعالٰی کا مبارک فرمان ہے: ہم نے نوح ہی کی اولاد باقی رکھی۔
(۱؎ القرآن الکریم ۳۷ /۷۷)
فتح الباری کتاب الفتن میں ہے :
الاول المعتمد والا فاین کانوا حین الطوفان ۲؎۔اقول وقد اجبنا عن ھذا بجوابین فی کتابنا الفیوضات الملکیۃ احدھما مایدرینا لعل اﷲ خمرھا مددا متطا ولۃ حتی خلقھم منہا بعد الطوفان ۳؎۔
یاجوج وماجوج کا ذریت نوح علیہ الصلٰوۃ والسلام ہی سے ہونا معتمد ہے ورنہ طوفان کے وقت وہ کہاں رہے۔
ہم نے اپنی کتاب ''الفیوضات الملکیۃ'' میں اس کے دو جواب دئے ایک یہ ہے ہمیں کیا علم شاید اللہ تعالٰی نےاس نطفہ کو طویل مدت تک محفوظ رکھا ہو اور پھر ا س سے ان کی تخلیق طوفان کے بعد فرمائی ہو (ت)
(۲؎فتح الباری شرح صحیح بخاری کتاب الفتن باب یاجوج وماجوج مصطفی البابی مصر ۱۶/ ۲۲۱)
(۳؎ الفیوضات الملکیۃ حاشیہ الدولۃ المکیۃ مطبع اہل السنۃ والجماعۃ بریلی ص۷۸)
ارشاد الساری شرح صحیح بخاری دونوں محل میں ہے:
وھذالفظہ فی بدء الخلق قال ابن کثیر وھذا القول غریب جد اثم لادلیل علیہ لامن عقل ولامن نقل، ولایجوز الاعتماد ھٰھنا علی مایحکیہ بعض اھل الکتاب لماعندھم من الاحادیث المفتعلۃ ۴؎۔ اماماعزاہ الامام النووی فی فتاواہ لجماھیر العلماء انھم من ماء آدم لا من حواء، فاقول لا یثبت الاحتلام، فاولا قد تحصل النطفۃ بنحو التبطین فی المحیض وثانیا ماکل نطفۃ تقبلھا الرحم وثالثا ماکل النطفۃ تقبلھا الرحم بل اذا قبلت ربما قبلت جزء منھا ورمت بالباقی وقد ثبت الجواب عن حدیث الطوفان وقد یکون جوابا ایضا عن الذی ذکر ابن کثیر فان الکلام فی الموجودین اذذٰلک لان البقاء فرع الوجود علی ان الکلام فی ولداٰدم قطعا ،وھم لیسوا من ولدہ علی الاطلاق وان کانوا من ولدہ لانھم من مائہ وذلک لان الولدما عن صاحبتہ
قال تعالٰی انی یکون لہ ولدولم تکن لہ صاحبۃ ۱؎۔
کتاب بدء الخلق میں ہے ان کے الفاظ یہ ہیں امام عماد نے فرمایا یہ قول سخت غریب ہے، پھر اس پر نہ عقل سے دلیل نہ نقل سے، اور یہاں بعض اہل کتاب کی حکایت پر اعتماد حلال نہیں کہ ان کے پاس بہتیری باتیں گھڑی ہوئی ہیں۔امام نووی نے فتاوٰی میں جماہیر علماء کی طرف منسوب کیا کہ یہ نطفہ حضرت آدم کا تھا نہ کہ حضرت حواءکا، تو میں کہتاہوں ا س سے احتلام کہاں ثابت ہوتاہے اولاً کبھی کبھی نطفہ حالت حیض میں شرمگاہ سے باہرپیٹ وغیرہ پر استعمال سے حاصل ہوتاہے ثانیا ہر نطفہ کو رحم قبول نہیں کرتا ثالثاً رحم ہر نطفہ کے تمام کو قبول نہیں کرتا بلکہ جزء کو قبول کرکے بقیہ کو پھینک دیتا ہے، اور یہ تین جواب حدیث طوفان سے ہیں اور یہ اس کا جواب بھی ہے جو حافظ ابن کثیر نے نقل کیا کیونکہ کلام ان میں ہے جو وہاں موجود تھے کیونکہ بقا وجود کی فرع ہے، علاوہ ازیں گفتگو ا ن میں ہے جو یقینی طور پر حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہوں، اور یہ کامل طورپر ان کی اولاد نہیں اگرچہ ایک لحاظ سے اولاد ہیں کیونکہ ان کے نطفہ سے ہیں اور وہ اس لئے کہ ولد کے لئے بیوی کا ہونا ضروری ہے ، اللہ تعالٰی کا فرمان ہے کہاں ہے اس کے لئے اولاد حالانکہ اس کے لئے بیوی ہی نہیں۔ (ت)
(۴؎ ارشاد الساری شرح صحیح بخاری کتاب بدء الخلق باب قصہ یاجوج وماجوج دارالکتاب العربی بیروت ۵ /۳۳۶)
(۱؎ القرآن الکریم ۶ /۱۰۱)
بالجملہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام پر احتلام منع ہے اور خود حضور اقدس انور اطیب اطہر صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف اس کی نسبت اور اس کی تکرار اور اس پر اصرار کہ ہاں ہوا ہاں ہوا،یقینا حضور پرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر صریح افتراء ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر افتراء جہنم کا سیدھا راستہ، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی متواتر حدیث میں ہے :
من کذب علی متعمد افلیتبوا مقعدہ من النار ۲؎۔
جو مجھ پر دانستہ جھوٹ باندھےوہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے،
(۲؎ صحیح مسلم باب تغلیظ الکذب علی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۷)
اہل سنت کسی کبیرہ کا ارتکاب کو کفر نہیں کہتے جب تک استحلال وغیرہ مکفرات کے ساتھ نہ ہو، مگر رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر افتراء کو امام ابو محمد جوینی والد امام الحرمین نے کفر بتایا _____
خصائص کبرٰی میں ہے :
قال النووی وغیرہ الکذب علیہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم من الکبائر ولایکفر فاعلہ علی الصحیح وقول الجمہور وقال الجوینی ھو کفر ۱؎۔
امام نووی وغیرہ نے فرمایا: حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی نسبت جھوٹ بولنا کبیرہ گناہ ہے البتہ کفر نہیں صحیح اور جمہور کے قول پر، اور امام جوینی نے کہا کہ یہ کفر ہے۔ (ت)
(۱؎ خصائص الکبرٰی باب اختصاصہ بان الکذب علیہ لیس کالکذب علی غیرہ دارالکتب الحدیثیہ مصر ۳/ ۳۲۶)
جہاں باتفاق کفر ہو وہاں عمل ونکاح باطل اور اولاد اولاد زنا قرار پائے گی، اور جس میں اختلاف ہو وہاں تو بہ استغفار کا حکم کیا جا ئے گا (یعنی تجدید اسلام کرنا ہوگی اھ شامی) اور تجدید نکاح بھی۔ (ت)
(۲؎ درمختار باب المرتد مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۳۵۹
ردالمحتار باب المرتد داراحیاء التراث العربی بیروت ۳/ ۲۹۹)
زید وبکر پر فرض ہے کہ توبہ کریں مناسب ہے کہ تجدید اسلام کریں پھر اپنی عورتوں سے نکاح تازہ کریں خصوصا اس کلمہ خبیث میں کہ معاذاللہ پہلوئے توہین وتنقیص شان رکھتاہے، والعیاذباﷲ تعالٰی۔ واللہ تعالٰی اعلم۔