مسئلہ ۱۶: مسئولہ اختر حسین طالب علم مدرسہ منظر الاسلام محلہ سوداگران بریلی ۲۲ صفر ۱۳۳۹ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص سامنے سے گزرا دوسرے سے کہا صلٰوۃ ہوگئی اور جماعت تیار ہے، اس نے کہا نماز پڑھنے والے پر لعنت بھیجتاہوں، جب یہ ذکر ایک تیسرے شخص کے سامنے ہوا اور لوگوں نے کہا یہ کلمہ کفرہے،تو اس نے کہا ایسی باتوں سے کفر نہیں عائد ہوا کرتاحالانکہ یہ شخص عاقل بالغ ہے اس شخص کا کیا حکم ہے؟ بینوا تو جروا
الجواب
اس کہنے سے وہ شخص کافر ہوگیا، اس کی عورت نکاح سے نکل گئی، اوریہ تیسرا بھی نئے سرے سے کلمہ اسلام پڑھے اور اپنی عورت سے اس کے بعد نکاح کرے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۱۷: از شہر محلہ سوداگران مسئولہ سید عزیز احمد صاحب ۷ ربیع الاول ۱۳۳۹ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین وحامی شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید نے ایک مکان درحقیقت دو سو روپیہ کو بیع کیا مگر بیعنامہ ڈھائی سو روپیہ کالکھا اور رجسٹری کے وقت حاکم کے سامنے دو سو روپیہ وصول پائے، باقی پچاس روپیہ اس سے قبل وصول پانے کا جھوٹا اقبال کیا اور اس بارے میں عمرو کی شہادت پیش کی، عمرو نے باوجود اس کے کہ اس کو اس امرکا اچھی طرح علم تھاکہ مکان حقیقت میں دوسو روپیہ کو بیع کیا گیا ہے اور کوئی رقم پچاس روپے کی اس سے قبل زید کو وصول نہیں ہوئی ہے اس امر کی شہادت دی کہ مکان واقعی ڈھائی سو روپے کو بیع کیا گیا ہے اور پچاس روپے زید کو اس سے قبل وصول ہوچکے ہیں، جب لوگوں نے عمرو سے کہا کہ تم نے جھوٹی شہادت دی، عمرونے اس کا جواب دیا کہ کچہری میں کون سا سچ کہا کرتاہے جتنے جاتے ہیں سب جھوٹ ہی کہا کرتے ہیں اگر میں نے جھوٹ کہا تو کیا برا کیا، اب سوال یہ ہے کہ عمرو اکثر اوقات نماز میں امامت بھی کرتاہے تو ایسی حالت میں عمرو کی امامت نماز میں جائز ہے یا ناجائز؟
الجواب
صورت مستفسرہ میں اس کی امامت ناجائز ہے، ایک تو اس نے جھوٹی گواہی دی اور حدیث میں فرمایا:
''سن لو سن لو جھوٹی گواہی بتوں کے پوجنے کے برابر رکھی گئی، سن لو سن لو جھوٹی گواہی بتوں کے پوجنے کے برابر رکھی گئی، سن لو سن لو جھوٹی گواہی بتوں کے پوجنے کے برابر رکھی گئی۱؎۔''
(۱؎ سنن ابوداؤد کتاب القضاء با ب فی شہادت الزور آفتاب عالم پریس لاہور ۲/ ۱۵۰
سنن ابن ماجہ ابواب الشہادات باب شہادت الزور ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۱۷۳)
دوسری حدیث میں فرمایا:
لن تزول قد ماشاھدالزور حتی یوجب اﷲ لہ النار ۲؎۔
جھوٹی گواہی دینے والا وہا ں سے قدم ہٹانے نہیں پاتا کہ اللہ تعالٰی اس کے لئے نار جہنم واجب فرماتاہے۔
(۲؎ سنن ابن ماجہ ابواب الشہادات باب شہادۃ الزور ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۱۷۳)
یہاں تک تو گناہ کبیرہ ہی تھا جو آدمی کی ہلاکت وبربادی کوبس ہے آگے اس کا کہنا کہ ''میں نے جھوٹ بولا تو کیا بر ا کیا'' صریح کلمہ کفرہے، اس پر لازم ہے کہ تجدید اسلام کرے اور اگر عورت رکھتاہے تو از سر نو اسلام لانے کےبعد اس سے تجدید نکاح ضرور ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۱۸: از موضع شمس آباد ضلع کیمل پور پنجاب مسئولہ مولوی غلام ربانی صاحب ۱۰ جمادی الآخر ۱۳۳۹ھ
ایک عالم سنی حنفی المذہب نے اپنے وعظ میں کہا کہ اللہ عزوجل نے ایک سو چار (۱۰۴) کتاب نازل فرمائی، اس کی تفصیل یہ ہے کہ سب میں پرودگار نے فرمایا:
واطیعوا اﷲ واطیعوا الرسول ۱؎ الخ
(اور اطاعت کرو اللہ تعالٰی کی اور اطاعت کرو رسول کی۔ ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۴/ ۵۹)
اے مسلمانو! آپ لوگوں کو سمجھانے کے لئے ایک مثال دیتاہوں اس کے بعد آپ لوگ خیال کریں کہ قوت ایمانی میں کہاں تک ضعف ہوگیاہے، دیکھو کسی حاکم کاچپراسی ثمن لے کر آتاہے تو اس کا کس قدر خوف ہوتا ہے حالانکہ حاکم ایک بندہ مثل ماو شما، ثمن پیسہ آدھے پیسہ کا کاغذ جس میں معمولی مضمون ہوتاہے، چپراسی پانچ چھ روپے کا ملازم ہوتاہے، مگریہ حالت ہوتی ہے کہ اس کے خوف کے مارے لوگ روپوش ہوجاتے ہیں، لاچاری سے لینا ہی پڑتاہے بعدہ وکیل کی تلاش اور روپے کا صرف کرنا وکذا وکذا، اور اللہ تعالٰی احکم الحاکمین کہ دم بھر میں تہہ وبالا کرسکتا ہے اس کا حکمنامہ یعنی قرآن پاک ومقدس کہ جس کے ایک ایک حرف پر دس بیس تیس نیکی کاوعدہ ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لائے کہ جن کی خاطر زمین وآسمان پیدا ہوا، اب بتاؤ کہ اس احکم الحاکمین اور اس قرآن مجید اور اس کے رسول کا فرمان ہم سب مسلمان لوگ کہاں تک بجا لاتے ہیں ہمیشہ وعظ سنتے ہیں عمل نہیں کرتے الخ، اس پر دوسرے ایک عالم نے کہا کہ حضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو چپراسی کہنا دین کا ، یا اس سے مثال دینا، یا اس سے تشبیہ ، تینوں صورتوں میں کفرہے، اور کہنے والا سابی ہے اس کی توبہ قبول نہ ہوگی اب عرض ہے کہ یہ تشبیہ ہے یا تمثیل، اورمثال کافرق پورے طور سے بیان فرمائیے یہ سوال اگرچہ کوتاہ ہے مگر بڑا اہم اور ضروری ہے جس کے سبب سے ایک بڑا فتنہ وفسادبرپا ہورہاہے، بینواتو جروا
الجواب
حاش للہ اس میں نہ تشبیہ ہے نہ تمثیل، نہ اصلا معاذ اللہ توہین کی بو، یہ تو لوگوں کی زجر وتوبیخ ہے
کہ ایک ذلیل حاکم کا ذلیل فرمان ذلیل چپراسی لائے اس پرتو تمھاری یہ حالت ہوتی ہے اور ملک الملوک واحد قہار جل وعلا کاعزیز وعظیم وجلیل وکریم فرمان اعزالمسلمین اکرم المحبوبین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لے کر تشریف لائے اس کی پر وا نہیں کرتے، اس سے اپنی قوت ایمانی کے حال کا اندازہ کرسکتے ہو، ا س کی نظیر حضور بشیر و نذیر صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشادہے کہ صحیح بخاری میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے:
قسم ہے اس کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر ان میں کسی کویہ معلوم ہوتاکہ کوئی فربہ ہڈی جس پر گوشت کا خفیف حصہ لپٹا رہ گیا ہو یا بکری کے اچھے دو کھُر ملیں گے (جن کے شگاف میں گوشت کا لگاؤ ہوتاہے) تو ضرور نماز عشاء میں حاضر ہوتا۔
(۱؎ صحیح البخاری کتاب الاحکام باب اخراج الخصوم واہل الریب قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۱۰۷۲)
اور طبرانی نے معجم اوسط میں بسند صحیح انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی کہ حضو راقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:
لوان رجلا دعا الناس الی عرق اومرماتین لاجابوہ وھم یدعون الٰی ھذہ الصلوۃ فی جماعۃ فلا یاتونھا ۲؎۔
اگر کوئی شخص لوگوں کو پتلا گوشت لپٹی ہوئی ہڈی یا دوکھروں کی دعوت دے تو ضرور جائیں گے اور اس نماز کی جماعت کو بلائے جاتے ہیں تو نہیں آتے۔
کیامعاذاللہ یہ ثواب ورضائے الہٰی کو دو کوڑی کی ہڈی یا دو کھروں سے تشبیہ ہے، حاشابلکہ ان کے حال کی تقبیح اور ان پر زجر وتوبیخ ہے کہ ایسی حقیر چیز کے لئے تو دوڑتے ہیں اور ایسی عظیم شئے کی پروانہیں کرتے، امام بدرالدین محمود عینی عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں اسی حدیث کے نیچے فرماتے ہیں:
المعنی لو علم انہ لو حضر صلوۃ العشاء لوجد نفعا دنیویا وان کان خسیسا حقیرا لحضرھا لقصور ھمتہ و لایحضرھا لما لھا من الاجوراوالمثوبات (ای العقبی ونعیمھا ۳؎)
مفہوم یہ ہے کہ اگر انھیں یہ علم ہوکہ نماز پر آنے سے دنیوی نفع ہو اگرچہ وہ حقیر وخسیس ہو وہ تب بھی آئیں کیونکہ ان کی منزل دنیاہے اور اس کے لئے نہ حاضر ہوں گے جس میں ان کے لئے عقبٰی اور اس کے انعامات ہیں۔ (ت)
(۳؎ عمدۃ القاری شرح البخاری کتاب الاحکام باب اخراج الخصوم الخ ادارۃالطباعۃ المنیریہ بیروت ۲۴ /۲۸۳)
اور اگر یوں ہوتا کہ خدا ناترسو! اللہ ورسول سے اتنا ڈرو جتنا دنیوی حاکم اور اس کے سمن اور چپراسی سے ڈرتے ہو جب بھی اسے تمثیل وتشبیہ وتوہین سے علاقہ نہیں تو اب اس کی نظیر یہ حدیث ہوتی کہ ابن عدی نے ابوامامہ باہلی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:
0
استحیی اﷲ استحیائک من رجلین من صالحی عشیرتک ۱؎۔
اللہ تعالٰی سے ایسی شرم کر جیسی اپنے کنبے کے دونیک مردوں سے کرتاہے۔
(۱؎ الکامل فی ضعفاء الرجال ترجمہ جعفر بن زبیر الشامی دمشق دارالفکر بیروت ۲/ ۵۶۰)
یہاں معاذاللہ، اللہ تعالٰی کو کنبے کے دو مردوں سے تشبیہ نہیں،نہ یہ کہ اللہ تعالٰی سے اتنی ہی حیا چاہئے جتنی دو مردوں سے بلکہ اس مقدار حیا کی طرف ہدایت ہے کہ اللہ سے کرے تو معاصی سے روکنے کو کافی ہو، یو ہیں نہ یہاں معاذاللہ دنیوی حاکم اور سمن اور چپراسی سے تشبیہ ہے نہ یہ کہ اللہ ورسول وقرآن سے اتناہی ڈرو جتنا ان سے بلکہ اس مقدار خوف کی طر ف ہدایت ہے کہ اللہ ورسول وقرآن سے ہو تو اتقاواجتناب معاصی کے لئے بس ہو، ہمارے ائمہ مذہب رضی اللہ تعالٰی عنہم کے نزدیک ساب مرتد ہے اور اس کے سب احکام مثل مرتد، مرتداگر توبہ کرے تقبل ولا یقتل (قبول کریں گے اور قتل نہ کریں گے) کما حققناہ بتوفیق اﷲ تعالٰی فی فتاوٰنا (جیسا کہ ہم نے اللہ تعالٰی کی توفیق سے اپنے فتاوٰی میں اس کی تحقیق کی ہے۔ ت) تشبیہ میں اگر وجہ شبہ امور متعددہ سے منتزع ہو تمثیل ہے جیسے کریمہ کمثل الحمار یحمل اسفار ۱؎ (گدھے کی مثال ہے جو پیٹھ پر کتابیں اٹھائے۔ ت) ورنہ نہیں، اور کبھی تشبیہ مرکب کو تمثیل کہتے ہیں جس کے معنی میں مفرد کی مفرد سے تشبیہ ملحوظ نہیں بلکہ ہیأت مجموعی سے کریمہ وھی تجری بھم فی موج کالجبال ۳؎ (اور وہی انھیں لئے جارہی ہے ایسی موجوں میں جیسے پہاڑ۔ ت) میں تشبیہ ہے۔ اور کریمہ مثلھم کمثل الذی استوقد نارا ۴؎ ۔ الایۃ (ان کی کہاوت اس کی طرح ہے جس نے آگ روشن کی، الایۃ۔ ت) میں تمثیل ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
(۲؎ القرآن الکریم ۶۲ /۵) (۳؎ القرآن الکریم ۱۱/ ۴۲) (۴؎القرآن الکریم ۲ /۱۷)
مسئلہ ۱۹: ۲ ۱جمادی الآخرہ ۱۳۳۹ھ
وقایہ اہل السنہ میں موذن کو مثل چپراسی دربار حاکم کے کہا ہے، اور ترمذی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے بھی مباشرت اذان فرمائی ہے، غرض کہ حضور بھی علمی تقریر سے ثابت فرمائیں کہ تمثیلا اس لفظ سے کوئی خرابی نہیں ہوتی۔
الجواب
وقایہ اہل السنہ میں حاضری پکارنے کا ذکر ہے جومسجد میں مؤذن کا کام ہے اورشاہی دربار میں چوبدار اور کچہریوں میں چپراسی کا، اس سے مؤذن چپراسی یا چوبدار کے مثل نہیں ہوسکتا، جس عالی شان کا دربار ویساہی اس کا خادم، نہ دربار عزت سے کسی دربارکو نسبت ہوسکتی ہے نہ مؤذن سے چوبدار و چپراسی کو، وقایہ میں مؤذن کو چپراسی نہ کہا اورکہا بھی جائے تو اسے یہاں سے علاقہ نہیں، اس خیال کو فوراً فوراً سر سے نکال دیجئے تعظیم شان اقدس کے تصور میں ڈوب جائیے آیہ مبارکہ
تحسبونہ ھینا وھو عند اﷲ عظیم ۱؎
(تم اسے سہل سمجھتے تھے، اور وہ اللہ کے نزدیک بڑی بات ہے۔ ت) چپراسی تو اسی حاضری پکارنے پر نوکر ہوتاہے یونہی موذن اس پر مقرر ہوتا ہے اتفاقا اگر کسی گواہ یا فریق کوایک بار حاکم خود آواز دے لے چپراسی نہ ہوجائے گا اور اسے چپراسی کہنا ضرور اس کی توہین ہوگا____
ولایغرنکم باﷲ الغرور ۲؎
(اور ہر گز تمھیں اللہ کے حکم پر فریب نہ دے وہ بڑا فریبی ۔ ت ) واللہ تعالٰی اعلم۔
(۱؎ القرآن الکریم ۲۴ /۱۵) (۲؎القرآن الکریم ۳۱/ ۳۳ و ۳۵ /۵)
مسئلہ ۲۰: از ڈاک خانہ جہت لور تحصیل مکودر ضلع جالندھر مسئولہ مولوی چراغ علی شاہ صاحب قادری ۱۳ جمادی الآخر ۱۳۳۹ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص بلااعتقاد فاعلیۃ بالذات حضرات صوفیہ کرام ومشائخ عظام سے استمداد طلب کرتاہے مثلا یا شیخ عبدالقادر شیئا ﷲ اور یاعلی مدد یا اغثنی یا رسول اللہ اور سماع بالمزا میر سنتاہے اور پیر کو تعظیما سجدہ کرتا ہے، ایسے شخص نے اپنی عورت کو تین طلاقیں دے دیں، ایک مولوی وہابی نجدی نے اس کا نکاح بغیر حلالہ درست کرکے نکاح کردیا، کہتاہے کہ وہ شخص کافر اور مرتد ہوگیا ہے تین طلاقیں اس پر نہیں پڑتیں، اب آیا اس کا نکاح بغیر حلالہ درست ہے یا نہیں اس کا کیا حکم ہےـ؟ اس کی امامت وغیرہ جائز ہے یا نہیں؟ بینوا تو جروا
الجواب
انبیاء واولیاء علیہم الصلٰوۃ والثناء سے استمداد جائزہے اور مزامیر سننا گناہ، اور سجدہ تعظیمی حرام مگر کفر نہیں جب تک نیت عبادت نہ ہو، عالمگیری میں ہے :
من سجد للسلطان علی وجہ التحیۃ لایکفر ولکن یأثم لارتکابہ الکبیرۃ، وان سجدبنیۃ العبادۃ فقد کفر کذا فی جواھر الاخلاطی ۱؎۔ ملخصا۔
جس نے کسی حاکم کو بطور تعظیم سجدہ کیا وہ کافر نہ ہوگا ہاں گناہگار ہے کیونکہ ا س نے کبیرہ گناہ کا ارتکاب کیا ہے، اگر اس نے سجدہ بطور عبادت کیا تو کافر ہوگا۔ جیساکہ جواہر الاخلاطی میں ہے ملخصاً (ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب الکراہیۃ الباب الثامن والعشرون نورانی کتب خانہ پشاور ۵/ ۶۹۔ ۳۶۸)
تین طلاقیں بیشک ہوگئیں اور بغیر حلالہ نکاح ہرگز نہیں کرسکتا اگر کرے گا زناہوگا، وہابی کا فتوٰی جنون ہے، اگر وہ شخص کافر نہیں توتین طلاقوں میں کیا شک اور بے حلالہ نکاح کیونکر حلال۔ اور اگر کافر ہے تو مسلمان عورت کا اس سے نکاح کیونکر جائز، نہ بے حلالہ ہوسکے گا نہ بعد حلالہ، مگر ہے یہ کہ وہ کافر نہیں۔ وہابیہ خود کفارہیں، جیساکہ حسام الحرمین فتاوائے علمائے کرام حرمین شریفین سے ظاہر ۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۲۱: از شہر محلہ ذخیرہ مسئولہ سید مشتاق علی صاحب ۱۹ جمادی الآخر ۱۳۳۹ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک پرہیزگار متقی اہلسنت سے کہ اس کی وہابی سے مذہبا کچھ حجت ہوئی وہابی نے کچھ اعتراض کیا اہل سنت نے جواب دیا کہ تمھارا جنازہ کے ساتھ کلمہ پڑھتے جانا بہتر نہیں ہے اس سے تو ڈھولکی اگر ہو تو بہتر ہے؟ ا س می اہل سنت مرتکب گناہ تو نہیں؟
الجواب
بہت برا کیا، بہت بیجا کہا، تو بہ لازم ہے، وہابی کاکلمہ پڑھنا اگرچہ بیکار ہے جب تک اسلام نہ لائے مگر ڈھولکی کلمہ سے بہتر نہیں ہوسکتی پھر بھی یہ تاویل ہے کہ ڈھولکی بجانے والا فاسق ہے اوروہابی مرتد ، اور مرتد مورد لعنت، جنازہ کے ساتھ فاسق کے ہونے سے مرتد کا ہونا لاکھ درجے بد تر ہے، واللہ تعالٰی اعلم۔