رسالہ
تدبیر فلاح ونجات واصلاح(۱۳۳۱ھ)
(نجات،اصلاح معاشرہ اور کامیابی کی بہترین تدبیریں)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسول الکریم
مسئلہ ۱۵: از کلکتہ کو لوٹولہ اسٹریٹ نمبر ۶۵ مسئولہ جناب حاجی منشی لعل خاں صاحب ۱۹ ربیع الاول ۱۳۳۱ھ
قبلہ وکعبہ حضرت مرشدی ومولائی دام ظلکم العالی، تمنائے قدمبوسی کے بعد مؤدبانہ گزارش ، المؤید کے پرچے برائے ملاحظہ مرسل ہیں۔ ارشاد ہو کہ آج کل مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے اور امداد ترک کا کیا طریقہ ہے؟
الجواب
بملاحظہ مکرمی حامی سنت ماحی بدعت برادر طریقت حاجی لعل خاں صاحب دام مجدہم وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، الموید کے چھ پرچے آئے انھیں بالاستیعاب دیکھا گمان یہ تھاکہ شاید کوئی خبر خوشی کی ہو مگر اس کے برعکس اس میں رنج وملال کی خبریں تھیں، بے گناہ مسلمانوں پر جو مظالم گزررہے ہیں اور سلطنت ان کی حمایت نہیں کرسکتی صدمہ کے لئے کیا کم تھے کہ اس سے بھی بڑھ کر ترکوں کی اس تازہ تبدیل روشن کا ذکر تھا جس نے میرے خیال کی تصدیق کردی۔
ان اﷲ لا یغیر مابقوم حتی یغیروا مابانفسہم ۱؎۔
بیشک اللہ تعالٰی کسی قوم کو گردش میں نہیں ڈالتا جب تک وہ اپنی حالت خود نہ بدل ڈالیں۔
(۱؎ القرآن الکریم ۱۳/۱۱)
اللہ اکرم الاکرمین اپنے حبیب کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے طفیل سے ہماری اور ہمارے اسلامی بھائیوں کی آنکھیں کھولے، اصلاح قلوب واحوال فرمائے، خطاؤں سے در گزر کرے، غیب سے اپنی مددا تارے، اسلام ومسلمین کو غلبہ قاہرہ دے، آمین الہ الحق آمین،
وحسبنا اللہ ونعم الوکیل، ولاحول ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم ۔
مگر بے دل نہ چاہئے ،
لاتایئسوا من روح اﷲ انہ لایایئس من روح اﷲ الاالقوم الکفرون ۲؎۔
اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو، بیشک اللہ کی رحمت سے ناامید نہیں ہوتے مگر کافر لوگ۔ (ت)
(۲؎ القرآن الکریم ۱۲ /۸۷)
اللہ واحد قہار غالب علی کل اس دین کا حافظ وناصر ہے،
وکان حقا علینا نصر المومنین ۳؎ o وانتم الاعلون ان کنتم مؤمنین ۴؎ o
اور ہمارے ذمہ کریم پر ہے مسلمانوں کی مدد فرمانا، تمھیں غالب آؤگے اگر ایمان رکھتے ہو۔ (ت)
(۳؎ ؎ القرآن الکریم ۳۰/ ۴۷) (۴؎؎ القرآن الکریم ۳ /۱۳۹)
حضور سیدنا سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :
لاتزال طائفۃ من امتی ظاھرین علی الحق لایضرھم من خذلھم ولا من خالفھم حتی یاتی امراﷲ وھم علی ذلک غالباً ۵؎۔
میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر غالب رہے گا ان کی مخالفت اور رسوائی کرنے والا ان کو ضرر نہ پہنچاسکے گا کہ وہ گروہ اس کا حکم آنے تک اس پر غالب رہے گا۔ (ت)
(۵؎ صحیح البخاری کتاب المناقب قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/۵۱۴
صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب قولہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لا تزال امتی الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۱۴۳
سنن ابود اوؤد کتاب الفتن آفتاب عالم پریس لاہور ۲ ۲۲۸)
یہاں امر اللہ وہ وعدہ صادقہ ہے جس میں سلطان شہید ہوں گے اور روئے زمین پر اسلامی سلطنت کا نام نہ رہے گا۔ تمام دنیا میں نصارٰی کی سلطنت ہوگی، اگر معاذاللہ وہ وقت آگیا ہے جب تو کوئی چارہ کارنہیں۔ شدنی ہوکر رہے گی، مگر وہ چند ہی روز کے واسطے ہے، اس کے متصل ہی حضرت امام کا ظہور ہوگا۔ پھر سیدنا روح اللہ عیسٰی مسیح علیہ الصلٰوۃ والسلام نزول اجلال فرمائیں گے اور کفر تمام دینا سے کافور ہوگا۔ تمام روئے زمین پر ملت ایک ملت اسلامی ہوگی، اور مذہب ایک مذہب اہلسنت ، غیب کا علم اللہ عزوجل کوہے، پھر اس کی عطا سے اس کے حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو، مگر فقیر جہاں تک نظر کرتاہے ابھی ان شاء اللہ وہ وقت نہیں آیا اگر ایسا ہے تو ضرور نصرت الہیہ نزول فرمائے گی اور کفار ملا عنہ اپنے کیفر کردار کو پہنچیں گے، بہر حال بندگی بیچارگی دعا کے سوا کیا چارہ ہے، وہی جو ہمارا رب ہے ہماری حالت زارپر رحم فرمائے گا اور اپنی نصرت اتارے یعنی جھٹکے جو پہنچ گئے ہیں انھیں پر
" زلزلوازلزالا شدید" ۱؎
(خوب سختی سے جھنجھوڑے گئے۔ ت) کو ختم فرمادے اور الا ان نصر اﷲ قریب ۲؎ (سن لو بیشک اللہ کی مدد قریب ہے۔ ت) کی بشارت سنادے،
حسبنا اللہ ونعم الوکیل۔
(۱؎ القرآن الکریم ۳۳ /۱۱) (۲؎القرآن الکریم ۲ /۲۱۴)
آپ پوچھتے ہیں مسلمانوں کو کیاکرنا چاہئے، اس کا جواب میں کیا دے سکتاہوں، اللہ عزوجل نے تو مسلمانوں کے جان ومال جنت کے عوض خریدے ہیں،
ان اﷲ اشتری من المؤمنین انفسھم واموالھم بان لھم الجنۃ ۳؎۔
بیشک اللہ نے مسلمانوں کے جان ومال خرید لئے ہیں اس بدلے پر کہ ان کے لئے جنت ہے۔(ت)
(۳؎القرآن الکریم ۹/ ۱۱۱)
مگرہم ہیں کہ مبیع دینے سے انکار اور ثمن کے خواستگار ہندی مسلمانوں میں یہ طاقت کہاں کہ وطن ومال واہل و عیال چھوڑ کر ہزاروں کوس دور جائیں اور میدان جنگ میں مسلمانوں کا ساتھ دیں مگر مال تو دے سکتے ہیں، اس کی حالت بھی سب آنکھوں دیکھ رہے ہیں وہاں مسلمانوں پر یہ کچھ گرزرہی ہے یہاں وہی جلسے وہی وہی رنگ، وہی تھیٹروہی امنگ، وہی تماشے وہ بازیاں، وہی غفلتیں وہی فضول خرچیاں، ایک بات کی بھی کمی نہیں، ابھی ایک شخص نے ایک دنیاوی خوشی کے نام سے پچاس ہزار دئے ایک عورت نے ایک چین وچنان جرگہ کو پچاس ہزار دئے، ایک رئیس نے ایک کالج کو ڈیڑھ لاکھ دئے، اور یونیورسٹی کے لئے تو تیس لاکھ سے زائد جمع ہوگیا، ایک رات میں ہمارے اس مفلس شہر سے اس کے لئے چھبیس ہزا ر کا چندہ ہوا، بمبئی میں ایک کم درجےکے شخص نے صرف ایک کوٹھری چھبیس ہزار روپے کو خریدی فقط اس لئے کہ اس کے وسیع مکان سکونت سے ملحق تھی، جسے میں بھی دیکھ آیا ہوں، اور مظلوم اسلام کی مدد کے لئے جو کچھ جوش دکھائے جارہے ہیں آسمان سے بھی اونچے ہیں، اور جو اصلی کا روائی ہورہی ہے زمین کی تہہ میں ہے پھر کس بات کی امید کی جائے، بڑی ہمدردی یہ نکالی ہے کہ یورپ کے مال کا بائیکاٹ ہو، میں اسے پسند نہیں کرتا۔ ہرگز مسلمانوں کے حق میں کچھ نافع پاتاہوں، اول تویہ بھی کہنے کے الفاظ ہیں نہ اس پر اتفاق کریں گے نہ ہرگز اس کو نباہیں گے، اس عہد کے پہلے توڑنے والے جنٹل مین حضرات ہی ہوں گے جن کی گزر بغیر یورپین اشیاء کے نہیں۔ تو سارا یورپ ہے پہلے صرف اٹلی کا بائیکاٹ ہواتھا، اس پر کتنوں نے عمل کیا اور کتنے دن نباہا، پھر اس سے یورپ کو ضرر بھی کتنا، اور ہو بھی تو کیا فائدہ کہ وہ ہو سو ترکیوں سے اس سے دہ گنا ضرر پہنچاسکتے ہیں، لہذا ضرر رسانی کا ارادہ صرف وہی مثل ہے کہ کمزور اور پٹنے کی نشانی، بہترہے کہ مسلمان اپنی سلامت روی پر قائم رہیں، کسی شریرقوم کی چال نہ سیکھیں، اپنے اوپر مفت کی بدگمانی کا موقع نہ دیں، ہاں اپنی حالت سنبھلالنا چاہتے ہیں تو ان لڑائیوں ہی پر کیا موقوف تھا، ویسے ہی چاہئے تھا کہ:
اولاً:باستثناء ان معدود باتوں کے جن میں حکومت کی دست اندازی ہو اپنے تمام معاملات اپنے ہاتھ میں لیتے ،
اپنے سب مقامات اپنے آپ فیصل کرتے، یہ کروڑوں روپے جو اسٹامپ ووکالت میں گھسے جاتے ہیں گھر کے گھرتباہ ہوگئے اور ہوئے جاتے ہیں محفوظ رہتے۔
ثانیاً : اپنی قوم کےسوا کسی سے کچھ نہ خرید تے کہ گھر کا نفع ہی میں رہتا، اپنی حرفت وتجارت کو ترقی دیتے کہ کسی چیز میں کسی دوسری قوم کے محتاج نہ رہتے، یہ نہ ہوتا کہ یورپ و امریکہ والے چھٹانک بھر تانبا کچھ صناعی کی گھڑنت کرکے گھڑی وغیرہ نام رکھ کر کہ آپ کو دے جائیں اوراس کے بدلے پاؤ بھر چاندی آپ سے لےجائیں۔
ثالثاً: بمبئی، کلکتہ، رنگون، مدراس، حیدرآباد وغیرہ کے تو نگر مسلمان اپنے بھائی مسلمانوں کیلئے بنک کھولتے، سود شرع نے قطعی حرام فرمایاہے، مگرا ور سو طریقے نفع لینے کے حلال فرمائے ہیں جن کا بیان کتب فقہ میں مفصل ہے اور اس کا ایک نہایت آسان طریقہ "کتاب کفل افتیہ الفاہم" میں چھپ چکاہے، ان جائز طریقوں پر بھی نفع لینے کہ انھیں بھی فائدہ پہنچتا اور ان کے بھائیوں کی بھی حاجت برآتی اورآئے دن جو مسلمانوں کی جائدادیں بنیوں کی نذر کوہوئی چلی جاتی ہے ان سے بھی محفوظ رہتے، اگر بنیوں کی جائداد ہی لی جاتی مسلمان ہی کے پاس رہتی یہ تو نہ ہوتا کہ مسلمان ننگے اور بنئے تنگے۔
رابعاً سب سے زیادہ اہم، سب کی جان، سب کی اصل اعظم وہ دین متین تھا جس کی رسی مضبوط تھامنے نے اگلوں کو ان مدارج عالیہ پر پہنچایا، چار دانگ عالم میں انکی ہیبت کا سکہ بٹھایا، نان شبینہ کے محتاجوں کوبلند تاجوں کا مالک بنایا۔ اور اسی کے چھوڑنے نے پچھلوں کویوں چاہ ذلت میں گرایا
دین متین علم دین کے دامن سے وابستہ ہے، علم دین سیکھنا پھراسی پر عمل کرنا اپنی دونوں جہاں کی زندگی چاہتے وہ انھیں بتادیتا، اندھو! جسے ترقی سمجھ رہے ہو سخت تنزل ہے، جسے عزت جانتے ہو اشد ذلت ہے،
مسلمان اگریہ چار باتیں اختیار کریں تو ان شاء اللہ العزیز آج کی حالت سنبھل جاتی ہے، آپ کے سوال کا جواب تویہ ہے، مگر یہ توفرمائے کہ سوال وجواب سے حاصل کیا جب کوئی اس پر عمل کرنے والا نہ ہو، عمل کی حالت ملاحظہ ہوـ:
اول پریہ عمل ہے کہ گھر کے فیصلہ میں اپنے دعوے سے کچھ بھی کمی ہوتو منظور نہیں۔ اور کچہری جاکر اگرچہ گھرکی بھی جائے ٹھنڈے دل سے پسند گرہ گرہ بھر زمین پر طرفین سے دو دو ہزار بگڑ جاتے ہیں کیا آپ ان حالتوں کو بدل سکتے ہیں، فھل انتم منتھون ۱؎ (تو کیا تم بازآئے۔ ت)
(۱؎القرآن الکریم ۵/ ۹۱)
دوم کی یہ کیفیت کہ اول تو خاندانی لوگ حرفت وتجارت کو عیب سمجھتے ہیں اور ذلت کی نوکریاں کرنے، ٹھوکریں کھانے، حرام کام کرنے، حرام مال کھانے کو فخر وعزت، اور جو تجارت کریں بھی تو خریدار کو اتنا حس نہیں کہ اپنی ہی قوم سے خریدیں اگرچہ پیسہ زائد سہی کہ نفع ہے تو اپنی بھائی کا ہے، اہل یورپ کو دیکھا ہےکہ دیسی مال اگرچہ ولایتی کی مثل اور اس سے ارزاں بھی ہو ہرگز لیں گے اور ولایتی گراں خریدلیں گے۔ ادھر بیچنے والوں کی یہ حالت کہ ہندوآنہ روپیہ نفع لے، مسلمان صاحب چونی سے کم پر راضی نہیں اورپھر لطف یہ کہ مال بھی اس سے ہلکہ بلکہ خراب، ہندو تجارت کے اصول جانتاہے کہ جتنا تھوڑا نفع رکھے اتنا ہی زیادہ ملتا ہے اور مسلمان صاحب چاہتے ہیں کہ سارا نفع ایک ہی خریدار سے وصول کرلیں۔ ناچار خرید نے والے مجبور ہوکر ہندو سے خرید تے ہیں۔ کیا تم یہ عادتیں چھوڑ سکتے ہو فھل انتم منتھون ۲؎ (تو کیا تم با ز آئے۔ ت)
(۲؎ القرآن الکریم ۵/ ۹۱)
سوم کی یہ حالت کہ اکثر امراء کو اپنے ناجائز عیش سے کام ہے، ناچ رنگ وغیرہ بے حیائی یا بیہودگی کے کاموں میں ہزاروں لاکھوں اڑادیں وہ ناموری ہے ریاست ہے، اور مرتے بھائی کی جان بچانے کو ایک خفیف رقم دینا ناگوار، جنھوں نے بنیوں سے سیکھ کرلین دین شروع کیا وہ جائز نفع کی طرف توجہ کیوں کریں، دین سے کیاکام، اللہ ورسول کے احکام سے کیا غرض، ختنہ نے انھیں مسلمان کیا اور گائے کے گوشت نے مسلمانی قائم رکھی اس سے زائد کیا ضرورت ہے، نہ انھیں مرناہے، نہ اللہ وحدہ قہار کے حضو ر جانا، نہ اعمال کاحساب دینا،
انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔
پھر سود بھی لیں تو نبیا اگر بارہ آنے مانگے یہ ڈیڑھ دو سے کم پر راضی نہ ہوں، ناچار حاجتمند بنیوں کے ہتھے چڑھتے ہیں اور جائدادیں ان کی نذر کربیٹھتے ہیں۔
چہارم کا حال ناگفتہ بہ ہے کہ انٹر پاس کو رزاق مطلق سمجھا ہے وہاں نوکری میں عمر کی شرط، پاس کی شرط، پھر پڑھائی وہ مفید کہ عمر بھر کام نہ آئے، نہ اس کی نوکری میں اس کی حاجت پڑے، اپنی ابتدائی عمر کہ وہی تعلیم کا زمانہ ہے یوں گنوائی، اب پاس ہونے میں جھگڑا ہے، تین تین بار فیل ہوتے ہیں اور پھر لپٹے چلے جاتے ہیں،ا ور قسمت کی خوبی کہ مسلمان ہی اکثر فیل کئے جاتے ہیں، پھر تقدیر سے پاس بھی مل گیا تو اب نوکری کا پتا نہیں ا ورملی بھی تو صریح ذلت کی، اور رفتہ رفتہ دنیوی عزت کی بھی پائی تو وہ کہ عندالشرع ہزار ذلت، کہئے پھر علم دین سکھنے اور دین حاصل کرنے اور نیک وبد میں تمیز کرنے کا کون سا وقت آئے گا۔ لاجرم نتیجہ یہ ہوتاہے کہ دین کو مضحکہ سمجھتے ہیں، اپنے باپ دادا کو جنگلی، وحشی، بے تمیز، گنوار، نالائق، بیہودہ، احمق، بے خردجاننے لگتے ہیں، بفرض غلط اگریہ ترقی بھی ہوئی تو نہ ہونے سے کروڑ درجے بد تر ہوئی، کیا تم علم دین کی برکتیں ترک کرو گے،
فھل انتم منتھون ۱؎
(تو کیا تم باز آئے۔ ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۵ /۹۱)
یہ وجوہ ہیں یہ اسباب ہیں، مرض کا علاج چاہنا اور سبب کا قائم رکھنا حماقت نہیں تو کیاہے، اس نے تمھیں ذلیل کردیا اس نے غیر قوموں کو تم پر ہنسوایا، اس نے اس نے اس نے جو کچھ کیا وہ اس نے، اور آنکھوں کے اندھے اب تک اس اوندھی ترقی کا رونا روئے جاتے ہیں، ''ہائے قوم وائے قوم یعنی ہم تواسلام کی رسی گردن سے نکال کر آزاد ہوگئے، تم کیوں قلی بنے ہو'' حالانکہ حقیقۃ یہ آزادی ہی سخت ذلت کی قیدہے جس کی زندہ مثال یہ ترکوں کا تازہ واقعہ
ولا حول ولاقوۃ الا باﷲ العلی العظیم۔
اہل الرائے ان وجوہ پر نظر فرمائیں، اگر میرا خیال صحیح ہو توہر شہر وقصبہ میں جلسے کریں اور مسلمانوں کو ان چار باتوں پر قائم کردیں پھر آپ کی حالت خوبی کی طرف نہ بدلے تو شکایت کیجئے، یہ خیال نہ کیجئے کہ ایک ہمارے کئے کیا ہوتاہے ہر ایک نے یونہی سمجھا توکوئی کچھ نہ کرے گا، بلکہ ہر شخص یہی تصو رکرے کہ مجھی کو کرنا ہے، یوں ان شاء اللہ تعالٰی سب کرلیں گے، چند جگہ جاری تو کیجئے پھر خربوزہ کودیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتاہے، خدانے چاہا تو عام بھی ہوجائے گا، ا س وقت آپ کو ا س کی برکات نظر آئیں گی، وہی آیہ کریمہ کہ ابتداء سخن میں تلاوت ہوئی ان اﷲ لایغیر۲؎ الایۃ جس طرح برے رویہ کی طرف اپنی حالت بدلنے پر تازیانے ہے یوں ہی نیک روش کی طرف تبدیلی پر بشارت ہے کہ اپنے کرتب چھوڑوگے تو ہم تمھاری اس ردی حالت کو بدل دیں گے، ذلت کے بدلے عزت دینگے، اے رب ہمارے! ہماری انکھیں کھول اور اپنے پسندیدہ راستہ پر چلا صدقہ رسولوں کے سورج مدینہ کے چاند کا، صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وعلی آلہ وصحبہ وبارک وکرم آمین!
(۲؎القرآن الکریم ۱۳/ ۱۱)
خیر یہ مرتبہ تو عمر کاہے، مسلمانوں چار باتوں میں سے ایک کو بھی اخیتار کرتے نہیں معلوم ہوتے، مگر ضروریات امداد ترک کی نسبت کہئے مرثیے ہزاروں پڑھے گئے مگر سوابعض غرباء کے امراء ورؤسا بلکہ دنیا بھر کے والیان ملک نے بھی کوئی قابل قادر حصہ لیا وہ جو فوجی مدد دے سکتے تھے وہ جولاکھ پونڈ بھیج سکتے تھے وہ ہیں اور بے پروائی، گویا انھوں نے کچھ سنا ہی نہیں۔ انھیں جانے دیجئے، وہ جانیں اور ان کی مصلحت،آپ بیتی کہئے، کتنا چندہ ہو اہے جس پر ہمدردی اسلام کا دعوٰی ہے، مصارف جنگ کچھ ایسے ہلکے ہیں، جتنا چندہ جا چکا ہے ایک دن کی لڑائی میں اس سے زیادہ اڑجاتا ہے، اب بھی اگر تمام ہندوستان کے جملہ مسلمان امیر فقیر غریب رئیس اپنے سچے ایمان سے ہر شخص اپنے ایک مہینہ کی آمدنی دے دے تو گیارہ مہینہ کی آمدنی میں بارہ مہینہ گزرکرلینا کچھ دشوار نہ ہو۔ اور اللہ عزوجل چاہے تو لاکھوں پونڈ جمع ہوجائیں، یو نیورسٹی کے لئے جو غریبوں کے پیٹ کاٹ کر تیس لاکھ سے زیادہ جوڑلیا اور اس پر سود مل رہاہے کہ اس کی مقدار بھی چالیس ہزار سے زائد سے زائد ہوچکی ہے، اور وہ بنی بھی نہیں یہ روپے تو گھر سے دینا نہیں اس کو اللہ وحدہ قہار کی راہ بھیج دیجئے، اسلام باقی ہے تو یونیورسٹی نہ بننا ضرر نہ دے گا۔ اور اسلام نہ رہا تو یونیورسٹی کیا بخشوالے گا، بلکہ ہم کہہ دیتے ہیں کہ وہ اس وقت ہرگز ہرگز بن بھی نہ سکے گی اس وقت جوگت ہوگی اس کا بیان پیش از وقت ہے اور بالفرض تنگ دل اور بخیل ہاتھ پرایا مال بھی یوں دینے کو نہ ہو تویہ تمام وکمال روپے سلطنت اسلام کو بقائے اسلام کے لئے بطور قرض حسن ہی دیجئے، اور زیادہ کیا کہوں،