فتاوٰی ظہیریہ وطریقہ محمدیہ وحدیقہ ندیہ وبرجندی شرح نقایہ وفتاوٰی ہندیہ میں ہے:
ھٰؤلاء القوم خار جون عن ملّۃ الاسلام واحکامھم احکام المرتدین۱؎
یہ لوگ دین اسلام سے خارج ہیں اور انکے احکام بعینہٖ مرتدین کے احکام ہیں۔
(۱؎فتاوٰی ہندیہ الباب التاسع فی احکام المرتدین نورانی کتب خانہ پشاور ۲/ ۲۶۴)
اور شوہر کے کفر کرتے ہی عورت نکاح سے فوراً نکل جاتی ہے، اب اگر بے اسلام لائے اپنے اس قول و مذہب سے بغیر توبہ کئے یا بعد اسلام و توبہ عورت سے بغیر نکاح جدید کئے اس سے قربت کرے زنائے محض ہو جو اولاد ہو یقینا ولدالزنا ہو، یہ احکام سب ظاہر اور تمام کتب میں دائر و سائر ہیں۔
فی الدرالمختار عن غنیۃ ذوی الاحکام مایکون کفرا اتفاقا یبطل العمل والنکاح واولادہ اولادزنا۲؎
درمختار میں غنیۃ ذوی الاحکام سے منقول ہے جو بالاتفاق کفر ہو وہ عمل، نکاح کوباطل کردیتا ہے اسکی اولاد ولد الزنا ہے۔
(۲؎درمختار باب المرتد مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۳۵۹)
اور عورت کا کل مہر اس کے ذمّہ عائد ہونے میں بھی شک نہیں جب کہ خلوت صحیحہ ہوچکی ہو کہ ارتداد کسی دَین کو ساقط نہیں کرتا۔
فی التنویر وارث کسب اسلامہ وارثہ المسلم بعد قضاء دین اسلامہ وکسب ردتہ فی بعد قضاء دین ردتہ۳؎
تنویر میں ہے قرضہ کی ادائیگی کے بعد اس کے اسلامی وقت کی کمائی کا وارث مسلمان ہے اور اس کے ارتدادی دور کی کمائی بیت المال میں جمع ہوگی۔
(۳؎درمختار باب المرتد مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۳۵۹)
اور معجل تو فی الحال آپ ہی واجب الادا ہے، رہا مؤجل، وہ ہنوز اپنی اجل پر رہے گا، مگر یہ کہ مرتد بحال ارتداد ہی مرجائے یا دارالحرب کو چلا جائے اور حاکم شرع حکم فرمادے کہ وہ دارالحرب سے ملحق ہوگیا اس وقت مؤجل بھی فی الحال واجب الادا ہوجائے گا اگرچہ اجل موعود میں دس بیس برس باقی ہوں۔
فی الدر ان حکم القاضی بلحاقہ حل دینہ۴؎ فی ردالمحتار لا نہ باللحاق صار من اھل الحرب وھم اموات فی حق احکام الاسلام فصار کالموت، الا انہ لا یستقر لحاقہ الا بالقضاء لا حتمال العود، واذا تقرر موتہ تثبت الاحکام المتعلقۃ بہ کما ذکرنھر۱؎
(درمختار میں ہے کہ اگر قاضی نے مرتد کو دارالحرب سے ملحق ہونے کا فیصلہ دے دیا تو اس کا دَین لوگوں کو حلال ہے، ردالمحتار میں ہے کیونکہ دارالحرب سے لاحق ہونے پر حربی ہوگیا اور حربی اسلام کے احکام میں مُردوں کی طرح ہوتے ہیں مگر اس کا طوق قاضی کے فیصلہ پر دائمی قرار پائے گا کیونکہ قبل ازیں اس کے واپس دارالاسلام آنے کا احتمال ہے، تو جب اس کی موت ثابت ہوگئی تو موت سے متعلقہ تمام احکام نافذ ہوجائیں گے جیسا کہ نہر نے ذکر کیا۔ ت)
(۴؎ درمختار باب المرتد مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۳۵۹)
(۱؎ ردالمحتار باب المرتد داراحیاء التراث العربی بیروت ۳/ ۳۰۰)
اولاد صغار ضرور اس کے قبضے سے نکال لی جائے گی،
حذرا علی دینھم الاتری انھم صرحوا بنزع الولد من الام الشفیقۃ المسلمۃ ان کانت فاسقۃ والولد یعقل یخشی علیہ التخلق بسیرھا الذمیۃ فما ظنک بالاب المرتد والعیاذ باﷲ تعالٰی قال فی ردالمحتار الفاجرۃ بمنزلۃ الکتابیۃ فان الولد یبقی عندھا الٰی ان یعقل الادیان کما سیاتی خوفا علیہ من تعلمہ منہا ما تفعلہ فکذا الفاجرۃ ۴؎ الخ
نابالغ بچوں کے دین کے خطرے کی وجہ سے، کیا آپ نے نہ دیکھا کہ فقہاء نے مسلمان شفیق ماں اگر فاسقہ ہو تو اس سے بچے کو الگ کرنے کی تصریح کی ہے بچے کے سمجھدار ہونے پر اس کی ماں کے بُرے اخلاق سے متاثر ہونے کے خوف کی وجہ سے، تو مرتد باپ کے بارے میں تیرا کیا گمان ہوگا، والعیاذ باﷲ تعالٰی، ردالمحتار میں فرمایا کہ فاجر عورت اہلِ کتاب عورت کے حکم میں ہے کہ اس کے پاس بچہ صرف اس وقت تک رہے گا جب تک دین سمجھنے نہ پائے جیسا کہ بیان ہوگا، اس خوف سے کہ کہیں بچہ اس کے اعمال سے متاثر نہ ہوجائے، تو فاجرہ عورت کا بھی یہی حکم ہے الخ،
(۴؎ ردالمحتار باب الحضانۃ دار احیاء التراث العربی بیروت ۲/ ۶۳۴)
وانت تعلم الولد لا یحضنہ الاب الا بعد ما بلغ سبعا او تسعا وذلک عمر العقل قطعا فیحرم الدفع الیہ ویجب النزع منہ وانما احوجنا الٰی ھذا لان الملک لیس بید الاسلام والا(عہ) فالسلطان این یبقی المرتد حتی یبحث عن حضانتہ الاتری الٰی قولھم لا حضانۃ لمرتدۃ لا نھا تضرب وتحبس کالیوم فانی تتفرغ للحضانۃ فاذا کان ھذا فی المحبوس فما ظنک بالمقتول ولکن انا ﷲ وانا الیہ راجعون ولا حول ولا قوۃ الا باﷲ العلی العظیم۔
اور تجھے علم ہے کہ والد بچے کو سات یا نو سال کے بعد ہی اپنی پرورش میں لیتا ہے اور یہ سمجھ کی عمر ہے لہٰذا بچے کو اس کے سپرد کرنا حرام ہے اور اس سے الگ کرلینا ضروری ہے اور ہم نے یہ ضرورت اس لئے محسوس کی کہ یہ ملک مسلمان کے اختیار میں نہیں ورنہ اسلامی حکمران مرتد کو کب چھوڑے گا کہ مرتد کی پرورش کا مسئلہ زیر بحث آئے، آپ نے غور نہیں کیا کہ فقہاء کا ارشاد ہے کہ مرتدہ کو حق پرورش نہیں ہے کیونکہ وہ قید میں سزا یافتہ ہوگی جیسا کہ آج ہے لہٰذا وہ پرورش کرنے کی فرصت کہاں پاسکتی ہے تو یہ حکم قیدی کے متعلق ہے تو مقتول مرتد کے متعلق تیرا کیا گمان ہوسکتا ہے، لیکن ہم اﷲ تعالٰی کا مال اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ ولا حول ولا قوۃ الاّ باﷲ العلی العظیم۔ت
(عہ) فان سلطان الاسلام مامور بقتلہ لایجوز لہ ابقاؤہ بعد ثلثۃ ایام ۱۲ منہ
کیونکہ اسلامی حکمران کو مرتد کے قتل کا حکم ہے تو اسے جائز نہیں کہ مرتد کو تین دن کے بعد باقی رکھے۔ ۱۲ منہ
مگران کے نفس یا مال میں بدعوے ولایت اس کے تصرفات موقوف رہیں گے اگر پھر اسلام لے آیا اور اس مذہب ملعون سے توبہ کی تووہ تصرف سب صحیح ہوجائیں گے اور اگر مرتد ہی مرگیا یا دارالحرب کو چلا گیا تو باطل ہوجائیں گے،
فی الدرالمختار یبطل منہ اتفاقا ما یعتمد الملۃ وھی خمس النکاح والذبیحۃ والصید والشھادۃ والارث ویتوقف منہ اتفاقا ما یعتمد المساواۃ وھو المفاوضۃ، اوولایۃ متعد یۃ وھوالتصرف علی ولدہ الصغیر، ان اسلم نفذ وان ھلک اولحق بدارالحرب وحکم بلحاقہ بطل۱؎ اھ مختصرا،
(درمختار میں ہے مرتد کے وہ تمام امور بالاتفاق باطل ہیں جن کا تعلق دین سے ہو اور وہ پانچ امور ہیں: نکاح، ذبیحہ،شکار، گواہی اور وراثت، اور وہ امور بالاتفاق موقوف قرار پائیں گے جو مساوات عمل مثلاً لین دین اور کسی پر ولایت اور یہ نابالغ اولاد کے بارے میں تصرفات ہیں، اگر وہ دوبارہ مسلمان ہوگیا تو موقوف امور نافذ ہوجائیں گے، اور اگر وہ ارتداد میں مرگیا یا دارالحرب پہنچ گیا اور قاضی نے اس کے طوق کا فیصلہ دے دیا تو وہ امور باطل ہوجائیں گے، اھ مختصراً،
(۱؎ درمختار، باب المرتد، مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۳۵۹)
نسأل اﷲ الثبات علی الایمان وحسبنا اﷲ ونعم الوکیل وعلیہ التکلان ولاحول ولا قوۃ الاّ باﷲ العلی العظیم وصلی اﷲ تعالٰی علی سیدنا ومولانا محمد واٰلہ وصحبہ اجمعین، اٰمین واﷲ تعالٰی اعلم۔
ہم اﷲ تعالٰی سے ایمان پر ثابت قدمی کے لئے دعا گو ہیں، ہمیں اﷲ تعالٰی کافی ہے اور وہ اچھا وکیل ہے اور اس پر ہی بھروسا ہے،
لاحول ولا قوۃ الا باﷲ العلی العظیم، وصلی اﷲتعالٰی علٰی سیدنا ومولانا محمد وآلہٖ وصحبہٖ اجمعین، آمین۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔ت)
محمد وصی احمد عبدہ المذنب احمد رضا البریلوی عبدالمصطفٰی احمدرضاخاں
ناصر دین عفی عنہ بمحمدن المصطفٰی النبی الامیّ محمدی سُنّی حنفی قادری
صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلّم