Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۵(کتاب السیر)
115 - 150
کیا مرزا ایسی ہی رسالت پر فخر رکھتا ہے جسے ٹڈی اور مینڈک اور جُوں اور کتے اور سؤر سب کو شامل مانے گا، ہر جانور بلکہ ہر حجر و شجر بہت سے علوم سے خبردار ہے اور ایک دوسرے کو خبر دینا بھی صحاح احادیث سے ثابت،

حضرت مولوی قدس سرہ المعنوی ان کی طرف سے فرماتے ہیں:
ما سمیعیم وبصیریم وخوشیم        باشما نامحرماں ما خامشیم ۱؎
ہم آپس میں سننے،دیکھنے والے اور خوش ہیں، تم نامحرموں کے سامنے ہم خاموش ہیں۔
 (۱ ؎المثنوی المعنوی حکایت مارگیرے کہ اژدہائے افسردہ الخ نورانی کتب خانہ پشاور دفتر سوم ص ۲۷)
اﷲ عزوجل فرماتا ہے:
وان من شیئ الاّ یسبّح بحمدہ ولکن لاتفقھون تسبیحھم۲؂
 (۲؂القرآن الکریم ۱۷/ ۴۴)
کوئی چیز ایسی نہیں جو اﷲ کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کرتی ہو مگر ان کی تسبیح تمہاری سمجھ میں نہیں آتی۔
حدیث میں ہے رسول اﷲ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
ما من شیئ الاّ یعلم انّی رسول اﷲ الاکفرۃ او فسقۃ الجن والانس۳؎ رواہ الطبرانی فی الکبیر عن یعلی بن مرۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ وصححہ خاتم الحفاظ۔
کوئی چیز ایسی نہیں جو مجھے اﷲ کا رسول نہ جانتی ہو سوا کافر جن اور آدمیوں کے۔(طبرانی نے کبیر میں یعلٰی بن مرہ سے روایت کیا اور خاتم الحفاظ نے اسے صحیح کہا۔ت)
 (۳؎ المعجم الکبیر حدیث ۶۷۲ المکتبہ الفیصلیۃ بیروت ۲۲/ ۲۶۲)

(الجامع الصغیر حدیث ۸۰۴۸  دارالکتب العلمیہ بیروت  الجزء الثانی  ص ۴۹۲)
حق سبحانہ تعالٰی فرماتا ہے:
فمکث غیر بعید فقال احطت بمالم تحط بہ وجئتک من سبأ بنبأ یقین۴؂
کچھ دیر ٹھہر کر ہد ہد بارگاہ سلیمانی میں حاضر ہوا اور عرض کی مجھے ایک بات وہ معلوم ہوئی ہے جس پر حضورکو اطلاع نہیں اور میں خدمت عالی میں ملک سبا سے ایک یقینی خبر لے کر حاضر ہوا ہوں۔
 (۴؂القرآن الکریم ۲۷/ ۲۲)
حدیث میں رسول اﷲ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
ما من صباح ولا رواح الاوبقاع الارض ینادی بعضہا بعضا، یا جارۃ ھل مربک الیوم عبد صالح صلّی علیک او ذکر اﷲ ؟فان قالت نعم رأت ان لھا بذٰلک فضلا ۱؎ ۔رواہ الطبرانی فی الاوسط وابونعیم فی الحلیۃ عن انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
کوئی صبح اور شام ایسی نہیں ہوتی کہ زمین کے ٹکڑے ایک دوسرے کو پکار کر نہ کہتے ہوں کہ اے ہمسائے! آج تجھ پر کوئی نیک بندہ گزرا جس نے تجھ پر نماز پڑھی یا ذکر الہٰی کیا، اگر وہ ٹکڑا جواب دیتا ہے کہ ہاں تو وہ پوچھنے والا ٹکڑا اعتقاد کرتا ہے کہ اسے مجھ پر فضیلت ہے۔ (اسے طبرانی نے اوسط میں اور ابونعیم نے حلیہ میں حضرت انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ت)
 (۱؎ المعجم الاوسط حدیث ۵۶۶ مکتبہ المعارف الریاض ۱/ ۳۳۶)
تو خبر رکھنا، خبر دینا سب کچھ ثابت ہے۔ کیا مرزا ہر اینٹ پتھر،ہر بت پرست کافر، ہر ریچھ بندر، ہر کتے سؤر کو بھی اپنی طرح نبی و رسول کہے گا؟ ہرگز نہیں، تو صاف روشن ہوا کہ معنی لغوی ہر گز مراد نہیں بلکہ یقینا وہی شرعی و عرفی رسالت ونبوت مقصود اور کفر وارتداد یقینی قطعی موجود۔

وبعبارۃ اخری معنی کے چار ہی قسم ہیں ، لغوی، شرعی، عرفی، عام یا خاص، یہاں عرف عام تو بعینہ وہی معنی شرعی ہے جس پر کفر قطعاً حاصل، اور ارادہ لغوی کا ادعاء یقیناً باطل، اب یہی رہا کہ فریب دہی عوام کو یوں کہہ دے کہ میں نے اپنی خاص اصطلاح میں نبی و رسول کے معنی اور رکھے ہیں جن میں مجھے سگ و خوک سے امتیاز بھی ہے اور حضرات انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کے وصفِ نبوت میں اشتراک بھی نہیں، مگر حاش ﷲ! ایسا باطل ادعاء اصلاً شرعاً عقلاً عرفاً کسی طرح بادشتر سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا، ایسی جگہ لغت وشرع وعرف عام سب سے الگ اپنی نئی اصطلاح کا مدعی ہونا قابل قبول ہو تو کبھی کسی کافر کی کسی سخت سے سخت بات پر گرفت نہ ہوسکے کوئی مجر م کسی معظم کی کیسی ہی شدید توہین کر کے مجرم نہ ٹھہرسکے کہ ہر ایک کو اختیار ہے اپنی کسی اصطلاح خاص کا دعوٰی کردے جس میں کفرو توہین کچھ نہ ہو، کیا زید کہہ سکتا ہے خدا دو ہیں جب اس پر اعتراض ہو کہہ دے میری اصطلاح میں ایک کو دو کہتے ہیں، کیا عمرو جنگل میں سؤر کو بھاگتا دیکھ کر کہہ سکتا ہے وہ قادیانی بھاگا جاتا ہے، جب کوئی مرزائی گرفت چاہے کہہ دے میری مراد وہ نہیں جو آپ سمجھے میری اصطلاح میں ہر بھگوڑے یا جنگلی کو قادیانی کہتے ہیں، اگر کہئے کوئی مناسبت بھی ہے تو جواب دے کہ اصطلاح میں مناسبت شرط نہیں لا مشاحۃ فی الاصطلاح (اصطلاح میں کوئی اعتراض نہیں) آخر سب جگہ منقول ہی ہونا کیا ضرور، لفظ مرتجل بھی ہوتا ہے جس میں معنی اوّل سے مناسبت اصلاً منظور نہیں، معہذا قادی بمعنی جلدی کنندہ ہے یا جنگل سے آنے والا۔
قاموس میں ہے:
قدت قادیۃ جاء قوم قدا قحموامن البادیۃ والفرس قدیانا اسرع ۱؎
قوم جلدی میں آئی، قدت قادیۃ کا ایک معنی قدت من البادیۃ یا قدت الفرس جنگل سے آیا، یا گھوڑے کو تیز کیا۔
 (۱ ؎ القاموس المحیط باب الواؤ فصل القاف مصطفی البابی مصر ۴/ ۳۷۹)
قادیان اس کی جمع اور قادیانی اس کی طرف منسوب یعنی جلدی کرنے والوں یا جنگل سے آنے والوں کا ایک، اس مناسبت سے میری اصطلاح میں ہر بھگوڑے جنگلی کا نام قادیانی ہوا، کیا زید کی وہ تقریر کسی مسلمان یا عمرو کی یہ توجیہ کسی مرزائی کو مقبول ہوسکتی ہے، حاشا وکلّا کوئی عاقل ایسی بناوٹوں کو نہ مانے گا بلکہ اسی پر کیا موقوف، یوں اصطلاح خاص کا ادعاء مسموع ہوجائے تو دین و دنیا کے تمام کارخانے درہم برہم ہوں، عورتیں شوہروں کے پاس سے نکل کر جس سے چاہیں نکاح کرلیں کہ ہم نے تو ایجاب وقبول نہ کیا تھا، اجازت لیتے وقت ہاں کہاتھا، ہماری اصطلاح (ہاں) بمعنی (ہوں) یعنی کلمہ جزر وانکار ہے، لوگ بیع نامے لکھ کر رجسٹری کر اکر جائدادیں چھین لیں کہ ہم نے تو بیع نہ کی تھی بیچنا لکھا تھا، ہماری اصطلاح میں عاریت یا اجارے کو بیچنا کہتے ہیں الٰی غیر ذٰلک من فسادات لا تحصٰی (ایسے بہت سے فسادات ہوں گے۔ت) تو ایسی جھوٹی تاویل والا خود اپنے معاملات میں اسے نہ مانے گا، کیا مسلمانوں کو زن ومال اﷲ ورسول (جل جلالہ و صلی اللہ تعالی علیہ وسلم) سے زیادہ پیارے ہیں کہ جو رو اور جائداد کے باب میں تاویل سنیں اور اﷲ و رسول کے معاملے میں ایسی ناپاک بناوٹیں قبول کرلیں لا الٰہ الا اﷲ مسلمان ہر گز ایسے مردود بہانوں پر التفات بھی نہ کریں گے انہیں اﷲ و رسول اپنی جان اور تمام جہان سے زیادہ عزیز ہیں و ﷲ الحمد جل جلالہ و صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم خود ان کا رب جل وعلا قرآن عظیم میں ایسے بیہودہ عذروں کا دربار جلا چکا ہے،
فرماتا ہے:
قل لا تعتذروا قد کفرتم بعد ایمانکم۲؂
(۲؂القرآن الکریم ۹/ ۶۶)
ان سے کہہ دو بہانے نہ بناؤ بیشک تم کافر ہوچکے ایمان کے بعد۔ والعیاذ باﷲ تعالٰی رب العالمین۔

ثالثاً:کفر چہارم میں امتی و نبی کا مقابلہ صاف اسی معنی شرعی وعرفی کی تعیین کررہا ہے۔

رابعاً:کفر اول میں تو کسی جھوٹے ادعائے تاویل کی بھی گنجائش نہیں، آیت میں قطعاً معنی شرعی ہی مراد ہیں نہ کہ لغوی، نہ اس شخص کی کوئی اصطلاح خاص، اور اسی کو اس نے اپنے نفس کے لئے مانا تو قطعاً یقینا بمعنی شرعی ہی اپنے نبی اﷲ ورسول اﷲ ہونے کا مدعی اور
ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین
 (القرآن الکریم ۳۳/ ۴۰)
 (ہاں اﷲ کے رسول ہیں اور سب نبیو ں میں پچھلے۔ت) کا منکر اور باجماع قطعی جمیع امت مرحومہ مرتدو کافر ہوا، سچ فرمایا سچے خدا کے سچے رسول سچے خاتم النّبیین محمد مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے کہ عنقریب میرے بعد آئیں گے ثلٰثون دجّالون کذّابون کلھم یزعم انہ نبی تیس (۳۰) دجال کذاب کہ ہر ایک اپنے کو نبی کہے گا وانا خاتم النبیین لا نبی بعدی ۱؎حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں، اٰمنت اٰمنت صلی اﷲ تعالٰی علیک وسلم ۔ میں ایمان لایا میں ایمان لایا، اﷲ تعالٰی آپ پر صلوٰۃ و سلام نازل فرمائے۔ت) اسی لئے فقیر نے عرض کیا تھا کہ مرزا ضرور مثیل مسیح ہے صَدَق بلکہ مسیح دجّال کا کہ ایسے مدعیوں کو یہ لقب خود بارگاہ رسالت سے عطا ہوا والعیاذ باﷲ رب العٰلمین۔
 (۱؎ جامع ترمذی ابواب الفتن  باب لاتقوم الساعۃ الخ امین کمپنی کتب خانہ رشیدیہ دہلی ۲/ ۴۵مسند احمد بن حنبل دارالفکر بیروت ۵/ ۳۹۶)
کفر پنجم:دافع البلاء ص ۱۰ پر حضرت مسیح علیہ السلام سے اپنی برتری کا اظہار کیا ہے ۲؎
 (۱؎دافع البلاء    ضیاء الاسلام قادیان    ص ۳۰)
کفر ششم: اسی رسالے کے صفحہ ۱۷ پر لکھا ہے:
ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو

اس سے بہتر غلام احمد ہے ۳؎
(۲؎ دافع البلاء ضیاء الاسلام قادیان    ص۳۰)
Flag Counter