Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۵(کتاب السیر)
114 - 150
کفر چہارم : مجیب پنجم نے نقل کیا، ونیز میگو ید کہ خدائے تعالٰی نے براہین احمدیہ میں اس عاجز کا نام امتی بھی رکھا ہے اور نبی بھی، ان اقوال خبیثہ میں اوّلاً کلامِ الٰہی کے معنی میں صریح تحریف کی کہ معاذ اﷲ آیہ کریمہ میں یہ شخص مراد ہے نہ کہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم۔
ثانیا:  نبی اﷲ و رسول اﷲ و کلمۃ اﷲ عیسٰی روح اﷲ علیہ الصلوٰۃ والسلام پر افتراء کیا وہ اس کی بشارت دینے کو اپنا تشریف لانا بیان فرماتے تھے۔
ثالثاً  : اﷲ عزوجل پر افتراء کیا کہ اس نے عیسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام کواس شخص کی بشارت دینے کے لئے بھیجا، اور اﷲ عزوجل فرماتا ہے :
ان الذین یفترون علی اﷲ الکذب لا یفلحون۔۱؂
بیشک جو لوگ اﷲ عزوجل پر جھوٹ بہتان اٹھاتے ہیں فلاح نہ پائیں گے۔
 (۱؂ القرآن الکریم ۱۶/ ۱۱۶)
اور فرماتا ہے :
انما یفتری الکذب الذین لا یؤمنون۲؂۔
ایسے افتراء وہی باندھتے ہیں جو بے ایمان کافر ہیں۔
 (۲؂ القرآن الکریم ۱۶/ ۱۰۵)
رابعاً : اپنی گھڑی ہوئی کتاب براہین غلامیہ کو اﷲ عزوجل کا کلام ٹھہرایا کہ خدائے تعالٰی نے براہین احمدیہ میں یوں فرمایا، اور اﷲ عزوجل فرماتا ہے :
فویل للذین یکتبون الکتٰب بایدیھم ثم یقولون ھذا من عنداﷲ لیشتروا بہ ثمنًا قلیلا ط فویل لھم مما کتبت ایدیھم وویل لھم مما یکسبون۳؂۔
خرابی ہے ان کے لئے جو اپنے ہاتھوں کتاب لکھیں پھر کہہ دیں یہ اﷲ کے پاس سے ہے تاکہ اس کے بدلے کچھ ذلیل قیمت حاصل کریں، سو خرابی ہے ان کے لئے ان کے لکھے ہاتھوں سے اور خرابی ہے ان کے لئے اس کمائی سے۔
(۳؂القرآن الکریم ۲/ ۷۹)
ان سب سے قطع نظر ان کلمات ملعونہ میں صراحۃً اپنے لئے نبوت و رسالت کا ادعائے قبیحہ ہے اور وہ باجماعِ قطعی کفر صریح ہے، فقیر نے "رسالہ جزاء اﷲ عدوہ بابائہ ختم النبوۃ ۱۳۱۷ھ" خاص اسی مسئلے میں لکھا اور اس میں آیت قرآن عظیم اور ایک سو دس (۱۱۰) حدیثوں اور تیس (۳۰) نصوں کو جلوہ دیا، اور ثابت کیا کہ محمد رسول اﷲ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو خاتم النبیین ماننا، ان کے زمانہ میں خواہ ان کے بعد کسی نبی جدید کی بعثت کو یقینا قطعاًمحال و باطل جاننا فرض اجل وجزءِ ایقان ہے
ولٰکن رسول اﷲ وخاتم النبیین۱؂
(ہاں اﷲ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے۔ت)
 (۱؂القرآن الکریم ۳۳/ ۴۰)
نص قطعی قرآن ہے اس کا منکر، نہ منکر بلکہ شک کرنے والا، نہ شاک کہ ادنٰی ضعیف احتمال خفیف سے تو ہم خلاف رکھنے والا قطعاً اجماعاً کافر ملعون مخلد فی النیران ہے، نہ ایسا کہ وہی کافر ہو بلکہ جو اس کے اس عقیدہ ملعونہ پر مطلع ہو کر اسے کافر نہ جانے وہ بھی، کافر ہونے میں شک و تردّد کو راہ دے وہ بھی کافر ہیں،
الکفر جلی الکفران
ہے،
قول دوم وسوم میں شائد وہ یااس کے اذناب آج کل کے بعض شیاطین سے سیکھ کر تاویل کی آڑلیں کہ یہاں نبی ورسول سے معنی لغوی مراد ہیں یعنی خبردار یا خبر دہندہ اور فرستادہ مگر یہ محض ہوس ہے۔
اوّلاً: صریح لفظ میں تاویل نہیں سنی جاتی، فتاوٰی خلاصہ و فصول عمادیہ و جامع الفصولین وفتاوٰی ہندیہ وغیرہا میں ہے:
واللفظ للعمادی لو قال انا رسول اﷲ او قال بالفارسیۃ من پیغمبرم یرید بہ من پیغام می برم یکفر۲؎
یعنی اگر کوئی اپنے آپ کو اﷲ کا رسول کہے یا بزبان فارسی کہے میں پیغمبر ہوں اور مراد یہ لے کہ میں کسی کا پیغام پہنچانے والا ایلچی ہوں کافر ہوجائے گا۔
(۲؎فتاوٰی ہندیۃ الباب التاسع فی احکام المرتدین نورانی کتب خانہ  پشاور  ۲/ ۲۶۳)
امام قاضی عیاض کتاب الشفاء فی تعریف حقوق المصطفٰی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم  میں فرماتے ہیں:
قال احمد بن ابی سلیمٰن صاحب سحنون رحمھما اﷲ تعالٰی فی رجل قیل لہ لا وحق رسول اﷲ فقال فعل اﷲ برسول اﷲ کذاوذکر کلا ما قبیحا، فقیل لہ ما تقول یا عدو اﷲ فی حق رسول اﷲ فقال لہ اشد من کلامہ الاول ثم قال انما اردت برسول اﷲ العقرب فقال ابن ابی سلیمٰن للذی سألہ اشھد علیہ وانا شریکک یرید فی قتلہ و ثواب ذٰلک، قال حبیب بن الربیع لان ادعاء التاویل فی لفظ صراح لا یقبل۱؎۔
یعنی امام احمد بن ابی سلیمان تلمیذ و رفیق امام سحنون رحمہما اﷲ تعالٰی سے ایک مردک  کی نسبت کسی نے پوچھا کہ اس سے کہا گیا تھا رسول کے حق کی قسم اس نے کہا اﷲ رسول اﷲ کے ساتھ ایسا ایسا کرے اور ایک بدکلام ذکر کیا کہا گیا اے دشمن خدا! تو رسول اﷲ کے بارے میں کیا بکتا ہے تو اس سے بھی سخت تر لفظ بکا پھر بولا میں نے تورسول اﷲ سے بِچّھو مراد لیا تھا۔ امام احمد بن ابی سلیمان نے مستفتی سے فرمایا تم اس پر گواہ ہو جاؤ اور اسے سزائے موت دلانے اور اس پر جو ثواب ملے گا اس میں میں تمہارا شریک ہوں، (یعنی تم حاکم شرع کے حضور اس پر شہادت دو اور میں بھی سعی کروں گا کہ ہم تم دونوں بحکم حاکم اسے سزائے موت دلانے کا ثوابِ عظیم پائیں) امام حبیب بن ربیع نے فرمایا یہ اس لئے کہ کھلے لفظ میں تاویل کا دعوٰی مسموع نہیں ہوتا۔
(۱؎ الشفاء فی تعریف حقوق المصطفٰی القسم الرابع الباب الاول  مطبع شرکۃ صحافیۃ فی البلاد  العثمانیہ ۲/ ۲۰۹)
مولانا علی قاری شرح شفاء میں فرماتے ہیں:
ثم قال انما اردت برسول اﷲ العقرب فانہ ارسل من عندا لحق وسلط علی الخلق تاویلا للرسالۃ العرفیۃ بالارادۃ اللغویۃ وھو مردود عندالقواعد الشرعیۃ۲؎
یعنی وہ جو اس مردک نے کہا کہ میں نے بچّھو مراد لیا، اس طر ح اس نے رسالت عرفی کو معنی لغوی کی طرف ڈھالا کہ بچّھو کو بھی خدا ہی نے بھیجا اور خلق پر مسلّط کیا ہے، اور ایسی تاویل قواعدِ شرع کے نزدیک مردود ہے۔
(۲؎ شرح الشفاء لملّا علی قاری مع نسیم الریاض الباب الاول دارالفکر بیروت ۴/ ۳۴۳)
علامہ شہاب خفاجی نسیم الریاض میں فرماتے ہیں:
ھذا حقیقۃ معنی الارسال وھذا مما لا شک فی معنا ہ وانکارہ مکابرۃ لکنہ لا یقبل من قائلہ وادعاؤہ انہ مرادہ لبعدہ غایۃ البعد، وصرف اللفظ عن ظاھرہ لا یقبل کما لو قال انت طالق قال اردت محلولۃ غیر مربوطۃ لا یلتفت لمثلہ و یعد ھذیانا ۱ ھ ملتقطا۔۳؎
یعنی یہ لغوی معنی جن کی طرف اس نے ڈھالا ضرور بلا شک حقیقی معنی ہیں اس کا انکار ہٹ دھرمی ہے بایں ہمہ قائل کا ادعا مقبول نہیں کہ اس نے یہ معنی لغوی مراد لئے تھے، اس لئے کہ یہ تاویل نہایت دور ازکار ہے اور لفظ کا اس کے معنی ظاہر سے پھیرنا مسموع نہیں ہوتا جیسے کوئی اپنی عورت کو کہے تو طالق ہے اور کہے میں نے تو یہ مراد لیا تھا کہ تو کھلی ہوئی ہے بندھی نہیں ہے ( کہ لغت میں طالق کشادہ کو کہتے ہیں) تو ایسی تاویل کی طرف التفات نہ ہوگا اور اسے ہذیان سمجھا جائے گا۔
(۳؎نسیم الریاض شرح الشفاء للقاضی عیاض الباب الاول دارالفکربیروت، ۴/ ۳۴۳)
ثانیا: وہ بالیقین ان الفاظ کو اپنے لئے مدح و فضل جانتا ہے ، نہ ایک ایسی بات کہ
دندان تو جملہ در دہانند        چشمان تو زیر ابرو انند
 (تیرے تمام دانت منہ میں ہیں، تیری آنکھیں ابرو کے نیچے ہیں۔ت)
کوئی عاقل بلکہ نیم پاگل بھی ایسی بات کو جو ہر انسان ہر بھنگی چمار بلکہ ہر جانور بلکہ ہر کافر مرتد میں موجود ہو محلِ مدح میں ذکر نہ کریگا نہ اس میں اپنے لئے فضل وشرف جانے گا بھلا کہیں براہین غلامیہ میں یہ بھی لکھا کہ سچا خدا وہی ہے جس نے مرزا کی ناک میں دو (۲) نتھنے رکھے، مرزا کے کان میں دو(۲) گھونگے بنائے، یا خدا نے براہین احمدیہ میں لکھا ہے کہ اس عاجز کی ناک ہونٹوں سے اوپر اور بھوؤں کے نیچے ہے، کیا ایسی بات لکھنے والا پورا مجنون پکّا پاگل نہ کہلایا جائے گا۔ اور شک نہیں کہ وہ معنی لغوی یعنی کسی چیز کی خبر رکھنا یا دینا یا بھیجا ہوا ہونا، ان مثالوں سے بھی زیادہ عام ہیں بہت جانوروں کے ناک کان بھویں اصلاً نہیں ہوتیں مگر خدا کے بھیجے ہوئے وہ بھی ہیں ، اﷲ نے انہیں عدم سے وجود نر کی پیٹھ سے مادہ کے پیٹ سے دنیا کے میدان میں بھیجا جس طرح اس مرد ک خبیث نے بچّھو کو رسول بمعنی لغوی بنایا۔
مولوی معنوی قدس سرہ القوی مثنوی شریف میں فرماتے ہیں:
۱۔    کل یوم ھو فی شان بخواں            مرورابیکار و بے فعلے مداں
 (روزانہ اﷲ تعالٰی اپنی شان میں، پڑھ اس کو بیکار اور بے عمل ذات نہ سمجھ۔ت)
۲۔    کمتریں کارش کہ ہر روز ست آں        کُوسہ لشکر روانہ میکند
 (اس کا معمولی کام ہر روز یہ ہوتا ہے کہ روزانہ تین لشکر روانہ فرماتا ہے۔ت)
۳۔    لشکر ے زاصلاب سوئے امہات         بہرآں تا دررحم روید نبات
 (ایک لشکر پشتوں سے امہات کی طرف،تاکہ عورتوں کے رحموں میں پیدائش ظاہر فرمائے۔ت)
۴۔    لشکرے زار حام سوئے خاکدان        تاز نر ومادہ پر گرددجہاں
 (ایک لشکر ماؤں کے رحموں سے زمین کی طرف، تاکہ نر و مادہ سے جہان کو پُر فرمائے۔ت)
۵۔    لشکرے از خاکداں سوئے اجل        تابہ بیند ہر کسے حسنِ عمل ۱؎
 (ایک لشکر دنیا سے موت کی جانب تاکہ ہر ایک اپنے عمل کی جزا کو دیکھے۔ت)
 (۱ ؎ المثنوی المعنوی قصہ آنکس کہ دریا رے بکوفت گفت الخ نورانی کتب خانہ پشاور، دفتر اول ص ۷۹)
حق عزوجل فرماتا ہے:
فارسلنا علیھم الطوفان والجراد و القمل والضفادع والدم۲؂۔
ہم نے فرعونیوں پر بھیجے طوفان اور ٹڈیاں اور جُوئیں اور مینڈکیں اور خون۔
 (۲؂القرآن الکریم ۷۰/ ۱۳۳)
Flag Counter