(۲؎ مقدمہ ابن الصلاح النوع الاول الصحیح فاروقی کتب خانہ ملتان ص۹)
فتح القدیر وبحرالرائق ونہر الفائق ومنح الغفار میں فرمایا: علی ھذا لو وجدنا بعض نسخ النوادر فی زماننا لایحل عزوما فیھا الی محمد والا الی ابی یوسف لانھا لم تشتھر فی دیارنا ولم تتداول ۳؎۔
یعنی اگر کتب ستہ کے سوا اورکتب تلامذہ امام کے بعض نسخے پائیں تو حلال نہیں کہ ان کے اقوال کو امام محمد یا امام ا بو یوسف کی طرف نسبت کریں کہ وہ کتابیں ہمارے دیار میں مشہور ومتداول نہ ہوئیں۔
(۳؎ فتح القدیر کتاب الحوالہ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۶/ ۳۶۰)
تداول کے یہ معنی کہ کتاب جب سے اب تک علماء کے درس وتدریس یا نقل وتمسک یا ان کی مطمح نظررہی ہو، جس سے روشن ہو کہ اس کے مقامات ومقالات علماء کے زیر نظر آچکے اور وہ بحالت موجودہ اسے مصنف کا کلام مانا کئے ،زبان علما ء میں صرف وجود کتاب کافی نہیں کہ وجود تداول میں زمین وآسمان کا فرق ہے، پر ظاہر کہ یہاں دونوں باتیں مفقود، تداول درکنار کوئی سند متصل بھی نہیں، نہ کہ تواتر جو ایسی نسبت کے لئے لازم ہے، رہا وجود نسخ، انصافا متعدد بلکہ کثیرووافر قلمی نسخے موجود ہونا بھی ثبوت تواتر کو بس نہیں، جب تک ثا بت نہ ہو کہ یہ سب نسخے جدا جدا اصل مصنف سے نقل کئے گئے یا ان نسخوں سے جو اصل سے نقل ہوئے ورنہ ممکن کہ بعض نسخ محرفہ ان کی اصل ہوں، ان میں الحاق ہوا اور یہ ان سے نقل ونقل درنقل ہوکر کثیر ہوگئے، جیسے آج کل کی محرف بائبل کے ہزار در ہزار نسخے ،فتوحات مکیہ کے تمام مصری نسخے نسخہ محرفہ سے منقول ہوئے او ر اس کی نقلیں مصرمیں چھپیں اور اب وہ گھر گھر موجود ہیں، حالانکہ تواتر درکنار ایک سلسلہ صحیحہ آحادسے بھی ثبوت نہیں،
واﷲ یقول الحق وھو یھدی السبیل ۱؎
(اور اللہ حق فرماتا ہے اور وہی راہ دکھاتا ہے۔ ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۳۳/ ۴)
علامہ شامی کا ظن پر اکتفا صاف باتوں کے لئے وجہ ہے مگر ایسے امور میں اس پر قناعت قطعا حرام، ورنہ معاذاللہ اکا بر ائمہ واعاظم علماء کی طرف نسبت کفر ماننی پڑے، ہماری نظر میں ہیں وہ کلمات جو اکابر اولیاء سے گزر کر اکابر علماء معتمدین مثل امام ابن حجر مکی وملا علی قاری وغیرہما کی کتب مطبوعہ میں پائے جاتے ہیں، اور ہم یقین کرتے ہیں کہ وہ الحاقی ہیں، ایک ہلکی نظیر علی قاری کی شرح فقہ اکبر صفحہ ۴۷ پر ہے:
نا م کہ رب تعالٰی نے اپنے لئے اور مخلوق کے لئے مقرر فرمائے وہ مثل حی، قیوم، علیم، قدیر ہیں۔ (ت)
(۲؎ منح الروض الازھر شرح الفقہ الاکبر اللہ سبحانہ اوجد المخلوقات مصطفی البابی مصر ص۳۹)
اس میں مخلوقات پر قیوم کے اطلاق کا جواز ہے حالانکہ ائمہ فرماتے ہیں کہ غیر خدا کو قیوم کہنا کفر ہے۔
مجمع الانہر میں ہے:
اذا اطلق علی المخلوق من الاسماء المختصۃ بالخالق نحو القدوس والقیوم والرحمٰن وغیرھا یکفر ۳؎۔
جو اللہ تعالٰی کے مخصوص ناموں میں سے کسی نام کا اطلاق مخلوق پر کرے، جیسے قدوس، قیوم اور رحمن وغیرہ تو وہ کافر ہوجائے گا۔ (ت)
(۳؎ مجمع الانھر شرح ملتقی الابحرثم ان الفاظ الکفر انواع دار احیا التراث العربی بیروت۱/ ۶۹۰)
اسی طرح او رکتابوں میں ہے۔حتی کہ خود اسی شرح فقہ اکبر صفحہ ۲۴۵ میں ہے:
من قال لمخلوق یا قدوس اوالقیوم او الرحمٰن کفر ۴؎۔
جو کسی مخلوق کو قدوس یا قیوم یا رحمٰن کہے کافر ہوجائے۔
(۴؎ منح الروض الازھر شرح الفقہ الاکبر فصل فی الکفر صریحا وکنایۃ مصطفی البابی مصر ص۱۹۳)
پھر کیونکر مان سکتے ہیں کہ وہ صفحہ ۴۷ کی عبارت علی قاری کی ہے ضرور الحاق ہے اگر چہ کتاب اجمالا مشہور ومعروف ہے، بخلاف کلمات اسمعیل کہ موافق ومخالف کے نزدیک اس سے متواتر ہیں، مخالفین رد کرتے ہیں۔
موافقین تاویلیں کرتے ہیں، اب یہیں دیکھئے اس چمار والے کلام پر سے دفع ایراد کہ یہ عبارت پیش کی، خود اسمعیل کی زندگی میں اس پر مواخذے ہوئے، جامع مسجد دہلی میں شاہ عبدالعزیز کے اعزہ واخص تلامذہ مثل مفتی رشید الدین خاں صاحب وشاہ موسٰی صاحب نے مناظرے کئے الزام دئے، نہ اس نے کہا کہ یہ کلمات میرے نہیں، نہ اس کے ہوا خواہوں نے، جب سے آج تک، تو اس سے ثبوت یقینی ہے اور وہابیہ کہ بحالت موجودہ اسے مثل قرآن وعین ایمان مان رہے ہیں ان پر رد تو کسی ثبوت کی بھی حاجت نہیں کمالایخفی (جیسا کہ پوشیدہ نہیں ۔ت)
رابعاً ایسی جگہ خلق سے مراد وہ ہوتے ہیں جو عظمت دینی سے اصلا حصہ نہیں رکھتے شیخ سعدی قدس سرہ فرماتے ہیں: ؎
نگہدارد آں شوخ درکیسہ در کہ داند ہمہ خلق راکیسہ بر ۱؎۔
ۤ(موتیوں کی بات ایسے شوخ سے ہوشیار رہو جو تمام لوگوں کو جیب کترا سمجھتا ہے۔ ت)
(۱؎ بوستان سعدی باب اول منشی گلاب سنگھ لکھنؤ ص۱۲۸)
ابلیس ہوگا وہ جو کہے کہ اس سے عام مراد ہے کہ انبیاء واولیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام کو بھی معاذاللہ گرہ کاٹ جانے، حقیقت امر یہ ہے کہ مخلوق دو قسم ہے:
اول وہ کہ عظمت دینی رکھتے ہیں جن کے سروسر ورمطلق حضور سید المرسلین ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وعلیہم وبارک وسلم ، پھر باقی حضرات انبیاء وملائکہ واولیاء واہلبیت وصحابہ، پھر دیگر علماء وصلحاء واتقیاء، پھر سلاطین اسلام، پھر عام مومنین، نیز صحائف دینیہ مثل مصحف شریف وکتب فقہ وحدیث، صفات جمیلہ مثل ایمان وعمل، اعمال صالحہ مثل نماز وحج، اخلاق فاضلہ مثل زہد وتواضع، اماکن مقدسہ مثل کعبہ مکرمہ وروضہ منورہ، غرض جملہ اشخاص واشیاء جن کو مولٰی عزوجل سے علاقہ قرب ہے۔ اس علاقہ کے سبب ان کی تعظیم اللہ عزوجل ہی کی تعظیم ہے اور ان کی عزت اس کی عزت ہے،
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: ان من اجلال اﷲ اکرام ذی الشیبۃ المسلم وحامل القراٰن غیر الغالی فیہ والجافی عنہ واکرام ذی السلطان المقسط ۲؎۔ رواہ ابوداؤد بسند حسن عن ابی موسٰی الاشعری رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
بیشک اللہ کی تعظیم سے ہے بوڑھے مسلمان کی عزت کرنی، اور حافظ قرآن کی کہ نہ اس میں حد سے بڑھے نہ اس سے دوری کرے، اور حاکم عادل کی۔(اسے ابوداؤد نے سندحسن کے ساتھ ابو موسٰی اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے۔ ت)
(۲؎ سنن ابوداؤد کتاب الادب باب فی تنزیل الناس منازلہم آفتاب عالم پریس لاہور ۲ /۳۰۹)
عزت اللہ اوراس کے رسول اور مسلمانوں کے لئے ہے مگر منافقوں کو خبر نہیں۔
(۲؎ القرآن الکریم ۶۳ /۸)
رسول اور مسلمانوں کی عزت اگر عزت الٰہی سے جدا ہوتی تو عزت کے حصے ہوجاتے۔ ایک حصہ اللہ کے لئے، ایک رسول کا، ایک مومنین کا، حالانکہ رب عزوجل فرماچکا کہ عزت ساری اللہ ہی کے لئے ہے، تو قطعاً ان کی عزت اللہ ہی کی عزت سے ہے اور ان کی تعظیم اللہ ہی کی تعظیم ۔ اللہ اوراس کے رسولوں میں تفرقہ کرنے والوں کو قرآن عظیم کافر فرماتاہے، ایک قوم کا حال ارشاد فرمایا:
یریدون ان یفرقوا بین اﷲ ورسولہ ۳؎۔
اللہ اور اس کے رسولوں میں جدائی ڈالنی چاہتے ہیں۔
(۳؎ القرآن الکریم ۴ /۱۵۰)
پھر فرمایا:
اولئٰک ھم الکفرون حقا ۴؎
یہی پکے کافر ہیں۔
(۴؎ القرآن الکریم ۴ /۱۵۱)
رسولوں کی عزت رسولوں کی عظمت اللہ عزوجل کی عزت وعظمت سے جدا ماننی، اللہ اور اس کے رسولوں میں جدائی ڈالنی ہے ؎
خاصان خدا خدا نبا شند لیکن زخدا جدا نبا شند
اللہ تعالٰی کے خاص بندے خدا نہیں لیکن خدا سے جدا بھی نہیں۔ ت)
ولہٰذا ان کی تعظیم مدار ایمان ہوئی، اور ان کی ادنٰی توہین کفر، ارسال رسول کا ایک مقصد اعلٰی تعظیم و توقیر رسول ہے، قال اﷲ تعالٰی انا ارسلناک شاھداً و مبشراً ونذیراً o لتؤمنوا باﷲ ورسولہ وتعزروہ وتوقروہ ۵؎۔
اللہ تعالٰی نے فرمایا: اے نبی! ہم نے تمہیں بھیجا حاضروناظر اور خوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والا تاکہ اے لوگو! تم اللہ اور رسول پر ایمان لاؤ، اور رسول کی تعظیم وتوقیر کرو۔