Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۵(کتاب السیر)
11 - 150
تصدیق عالم جلیل فاضل نبیل جناب مولانا مولوی سیددیدار علی صاحب الوری مفتی آگرہ
 (۵۵) بسم اللہ الرحمن الرحیم، بلا شبہہ اس نازک وقت میں  بہت سے علماء درویش طلب دنیائے دنٰی میں  اتباع سنت ترک کرکے اتنے دیندار بن گئے کہ کوٹ پتلون والوں  میں  ان کی سی کہہ کر ان سے دنیاحاصل کرتے ہیں  اہل سنت میں لباس سنت پہن کر بزرگان دین مثل حاجی امداد اللہ صاحب قدس سرہ مولٰنا فضل الرحمن صاحب قدس سرہ کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں ، ان میں  مل کر ان کو گمراہ کرتے ہیں  جن کا سبق ہمہ تن دنیا ہی دنیا ہے گواہل دین اور بانی شریعت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے مشابہ مسلمانوں  کی صورت بھی نہ رہے سارے طریق سنت چھوٹ جائیں  فقط برائے نام مسلمان رہ جائیں  مگر تحصیل دنیا میں  غیر قوموں  سے پیچھے نہ رہیں ، ایسی اغراض سے جو انجمنیں  قائم کی گئی ہیں  ایسی انجمنوں  کے جو ممبر وسرگروہ ہیں  ضرور ان سے مسلمانوں  کو بچنا فرض ہے، ان کی میٹھی باتوں  پر کبھی مسلمانوں  کو فریفتہ نہ ہونا چاہئے، خواہ وہ قرآن پڑھیں  خواہ خوش لہجگی سے مثنوی شریف، ان کی مجالس سے بچنا ہر مسلمان کافرض ہے، مسلمانوں ! ان کے شہد میں زہر ملاہواہے، مسلمانوں ! کبھی تم کو بذریعہ شہد ہلاک نہ کردیں ، ان احادیث صحیحہ سے ان کی حالتوں  کو مطابق کرکے دیکھ لو، اگر ان علامتوں  مذکورہ احادیث سے ان میں  کچھ بھی شائبہ پاؤ ان سے کوسوں  جدا رہو،
منتخب کنزالعمال میں  ہے :
عن ابن عباس رضی الﷲ تعالٰی عنہما عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم قال یأتی علی الناس زمان وجوھھم وجوہ الادمیین وقلوبھم قلوبھم الشیاطین سفاکین للدماء لایرعون عن قبیح ان تابعتہم اربوک وان ائتمنتھم خانوک صبیھم عارم وشابھیم شاطر وشیخھم لایامرو بالمعروف ولاینہی عن المنکر، السنۃ فیھم بدعۃ والبدعۃ فیھم سنۃ، وذوالامرء منھم غاوفعندذلک یسلط اﷲ علیھم شرارھم فیدعو خیار ھم فلایستجاب لھم،رواہ الخطیب ۱؎۔
ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے ،فرماتے ہیں کہ فرمایا نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے کہ ایسا زمانہ آئے گا کہ منہ تو اس وقت کے آدمیوں  کے آدمیوں  کے سے منہ ہونگے اور ہوں  گے دل ان کے شیطانوں  کے سے خونریز، لوگ نہ بچیں  گے اور نہ بچائیں گے بری بات سے، اگر پیروی کرے تو ان کی، تباہ کردیں  وہ تجھ کو، اور اگر امانت رکھے تو ان کے پاس خیانت کریں ، بچے ان کے شوخ ہوں  اور جوان ان کے  چلاک اور بیباک ،بڈھے ان کے نہ بھلی بات کا حکم کریں  نہ بری بات سے منع کریں ، سنت ان میں  بدعت ہو اور بدعت ان میں  سنت ۔ اورجو ان میں  سے صاحب حکم ہوں  خواہ وہ عالم ہوں  یا حاکم گمراہ ہوں ، پس ایسے وقت میں  غلبہ دے گا ان پر اللہ شریروں  کو اور مقرر کرے گا ان پر شریر حاکموں  کو، پس نیک لوگو جو ان میں  ہوں  پکاریں گے مگر کوئی ان کی نہ نسے گا۔
 (۱؎ منتخب کنزالعمال علی ہامش مسند احمد بن حنبل   بحوالہ الخطیب عن ابن عباس  کتاب الفتن الباب الثانی دارالفکر بیروت ۵/ ۴۰۶)
عن عابس الغفاری عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم بادر وابالاعمال ستا امارۃ السفھا وکثرۃ الشرط وبیع الحکم واستخفافابالدم وقطیعۃ الرحم ونشواء یتخذون القرآن مزامیر یقدمون احدھم یغنیھم وان کان اقلھم فقھا ۱؎ رواہ الطبرانی فی الکبیر۔
عابس رضی اللہ تعالٰی عنہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں  کہ چھ باتوں  کے ظہور سےپہلے عمل کرلو یعنی پھر بیک عمل کرنا دشوار ہوجائے گا، حکومت اور امارت بے عقلوں کی ہو، زیادتی چپراسیوں  کی ہو، اور حکم حاکم بکے یعنی جس نے رشوت دے دی اپنے موافق حکم حاکم سے حاصل کرلیا، اور بیع الحکم بالکسر اگر پڑھاجائے یہ معنی ہوں  گے کہ حکمت کی بات کو اہل حکمت بیچیں  اور دین دنیا کے عوض بکے، خون کرنے کو ہلکی بات سمجھیں ، خویش اور اقرباء سے قطع اور جدائی ہو، ایسی پیدائش پیداہوکہ قرآن کو بانسری کی آواز سمجھ کر، ایسے شخص کو اپنا پیشوا بنائیں  کہ وہ گانے کے طور سے ان کو سنائے، خواہ سمجھ قرآن کی یعنی اسے نماز و روزہ حج زکوٰۃ بیع وشراءحلال وحرام میراث وغیرہ مسائل کے بیان کرنے پر ان سب میں  سے بہت ہی کم سمجھ رکھتا ہو، اس سے سنیں  گے اور جاننے والے عالم سے پرہیز کریں  گے۔
 (۱؎ منتخب کنز العمال علی ہامش مسنداحمد بن حنبل بحوالہ طب عن عابس الغفاری      کتاب الفتن    الباب الثانی   دارالفکر بیروت    ۵/ ۳۹۴ و ۳۹۵)
عن عمر وعن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اتانی جبرئل انفا فقال انا ﷲ و انا الیہ رٰجعون قلت اجل انا ﷲ و انا الیہ رٰجعون فمم ذلک جبرئیل فقال ان امتک مفتنۃ بعدک بقلیل من الدھو غیر کثیر قلت فتنۃ کفر اوفتنۃ ضلالۃ قال کل ذلک سیکون قلت ومن این ذاک وانا تارک فیھم کتاب اﷲ قال بکتاب اﷲ یضلون واول ذٰلک من قبل قرائھم وامرائھم یمنع الامراء الناس حقوقھم فلا یطعونھا فیقتتلوا ویتبع القراء اھواء الامراء فیمدون فی الغی ثم لایقصرون، قلت یا جبرئیل فبم سلم منھم قال بالکف والصبر ان اعطم الذی لھم اخذوہ وان منعوا ترکوہ ۱؎ رواہ الحاکم۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ بنی صلی اللہ تعالٰی علیہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابھی میرے پاس جبریل علیہ السلام نے آکر کہا  انا ﷲ وانا الیہ رٰجعون یعنی تحقیق ہم واسطے اللہ کے ہیں  اور اس کی طرف رجوع کرنے والے ہیں  یہ ایک کلمہ ہے جس کو تکلیف اور مصیبت کے وقت کہنا موجب دفع بلا اور ترقی حسنات ہے لہذا میں  نے بھی کہا ہاں  انا  ﷲ وانا الیہ رٰجعون مگراس وقت اس کے کہنے کی کیا وجہ ہے اے جبریل۔ کہا آپ کی امت آپ کے تھوڑے ہی زمانہ بعد فتنہ میں  مبتلا ہوگی، میں  نے کہا فتنہ کفر کا یا گمراہی کا، کہاسبھی کچھ ہوگا یعنی بعض مرتد بھی ہوجائیں گے اور بعض گمراہ بھی، آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں  کہ میں  نے کہا کہ یہ دونوں  فتنے کیونکر ہونگے میں  تو ان میں  اللہ کے کلام کو چھوڑ جاؤں  گا، کہا کلام اللہ ہی سے گمراہ ہوں  گے یعنی اس کے معنی من گھڑے جوڑ کر جماعت اہل اسلام میں  توڑ پھوڑ کرینگے اور اول یہ فتنہ قاریوں  سے یعنی قرآن کے جاننے والوں  دنیادارمولویوں سے اور امیر وں  سے شروع ہوگا، امیر لوگوں کے حق نہ دیں  گے اور بند کرینگے، مولوی بھی انھیں  کی سی کہیں  گے ، حلال حرام کے بیان میں  کرنے میں  ان سے ڈرینگے اور ان کے پیچھے لگیں  گے، پس گمراہی میں بڑھتے چلے جائیں گے پھر کمی نہیں  کریں  گے، میں  نے کہاں  اے جبریلی! اس وقت ان سے بچاؤں  کی کیاصورت ہے۔ کہا صبر ، جو کچھ وہ دیں  لے لیں  اورنہ دیں  تو چپ چاپ صبرکر بیٹھیں ۔
 (۱؎ منتخب کنزالعمال علی ہامش    مسند احمد بن حنبل بحوالہ الحکیم عن عمرو    کتاب الفتن الباب الثانی دارالفکر بیروت    ۵/ ۳۹۹)
ا ور اس سے زیادہ تصریح اس مضمون کی مشکوٰۃ شریف کی اس حدیث میں  ہے:
عن ابن عباس قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ان  انا سامن امتی سیفقھون فی الدین ویقرءون القراٰن ویقولون نأتی الامراء فنصیب من دینا ھم ونعتزلھم بدیننا ولایکون ذلک کما لایجتنی من القتاد الاالشوک کذلک لا یجتنی من قربھم الایعنی الخطایا ۲؎ ۔ رواہ ابن ماجہ۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے بیشک بہت لوگ امت میری سے سمجھ حاصل کریں گے دین اور پڑھیں  گے قرآن کو ، اور مولوی بن کر کہیں  گے کہ امیروں  کے پاس آکر ان کی دنیا سے کچھ لیں اور اپنے دین کو ان سے بچالیں  اور یہ ہونہیں  سکتا جس طرح کانٹے دار درخت سے نہیں  چنے جاتے مگر کانٹے، ان کے قرب سے بھی نہیں حاصل ہوسکتا مگریعنی خطائیں ۔
 (۲؎منتخب کنزالعمال علی ہامش  مسند احمد بن حنبل بحوالہ ابن ماجہ عن ابن عباس  کتاب العلم   الباب الثانی دارالفکر بیروت     ۴/ ۴۱)
عن علی کرم اﷲ وجہہ عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یأتی علی الناس زمان ھمتھم بطونہم وشرفھم متاعھم قبلتھم نسائھم ودینھم دراھمھم  ودینار ھم اولٰئک شرر الخلق لاخلاق لھم عنداﷲ۱؎۔ راوہ الدیلمی
حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں  کہ فرمایا آپ نے ، ایسا زمانہ آئے گا کہ لوگوں  کی تمام ہمت اپنے پیٹ بھرنے کی ہوگی جس کے پاس مال ومتاع دنیا زیادہ وہی سب میں  بزرگ ہے، جورویں  ان کا قبلہ اور درہم ودینا ران کا دین، یہ لوگ بری مخلوقات کے ہیں ، ان کے واسطے اللہ تعالٰی کے پاس آخرت میں کوئی حصہ نہیں  ہے۔
 (۱؎ منتخب کنز العمال علٰی ہامش مسند احمد بن حنبل     بحوالہ الدیلمی   کتاب الفتن     الباب الثانی     دارالکفر بیروت    ۵/ ۴۰۷)
اور اگر اس سے زیادہ تصریح منظور ہو، میرا رسالہ مختصرالمیزان جس میں  تقریبا چالیس حدیثیں  مضمون کی ہیں  کہ حضور نے فرمایابڑی جماعت کی پیروی کرنا اورجو بڑی جماعت سے جد اہو جہنم میں  پڑے گا۔ اور چالیس کے قریب اس مضمون کی حدیثیں ہیں  کہ میری سنت اورمیرے اصحاب کی سنت پر عمل کرنے والا ناجی فرقہ وہی ہوگا جو سواد اعظم مومنین کا پیروہوگا، او جو بڑی جماعت سے جدا ہوا، جہنمی ہوگا، اور چند حدیثیں  اس مضمون کی ہیں  کہ ہراخیر زمانہ میں  ایسے لو گ ہوں  گے کہ نماز تمھاری نماز سے اچھی پڑھیں  گے اور قرآن بہت پڑھیں  گے مگردین سے بالکل خارج ہوں گے۔پھر حدیثیں  بدمذہب مولویوں  کی علامات میں  نقل کی گئی ہیں  جن کو اگر ملاحظہ  فرمائیں  اور لوگوں  کو دکھلائیں  ان شاء اللہ تعالٰی مفید ہوگا۔
حررہ العبدالراجی رحمۃ ربہ ابو محمد دیددار علی الرضوی الحنفی المفتی فی جامع الاکبرآباد۔
Flag Counter