Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۵(کتاب السیر)
109 - 150
رسالہ

حجب العوار عن مخدوم بھار (۱۳۳۹ھ)

(مخدوم بہار سے عیب کو روکنا)
مسئلہ ۷۷: از دانا پور مرسلہ محمد حنیف خان ۸ شعبان ۱۳۳۹ھ

بخدمت فیضدرجت جناب اعلٰیحضرت مولانا مولوی احمد رضاخاں صاحب مدظلہ العالی، گزرارش ہے کہ اسمعٰیل نے چمار سے مثال دی، یہاں کے غیر مقلد کہتے ہیں کہ مخدوم صاحب نے مینگنی سے مثال دی ہے اس کا کیا جواب ہے حضور کا کوئی رسالہ یا فتوٰی ہے اس بارے میں ہے یا نہیں؟
الجواب

بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم

اولا کوئی کتاب یا رسالہ کسی بزرگ کے نام سے منسوب ہونا اس سے ثبوت قطعی کو مستلزم نہیں، بہت رسالے خصوصا اکابر چشت کے نام منسوب ہیں جس کا اصلا ثبوت نہیں۔

ثانیاکسی کتاب کا ثابت ہونا اس کے ہر فقرے کا ثابت ہونا نہیں، بہت اکابر کی کتابوں میں الحاقات ہیں جن کا مفصل بیان کتاب الیواقیت والجواھر امام عارف باللہ عبدالوہاب شعرانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ہے خصوصا حضرت شیخ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے کلام میں توالحاقات کی گنتی نہیں، کھلے ہوئے صریح کفر بھردئے ہیں، جس پر درمختار ابوالسعود سے نقل کیا:تیقنا ان بعض الیھود افترٰھا علی الشیخ قدس اﷲ سرّہ ۱؎۔

ہم کو یقین ہے کہ شیخ قدس سرہ پر یہ عبارتیں بعض یہودیوں نے گھڑدی ہیں۔
 (۱؎ درمختار    باب المرتد    مطبع مجتبائی دہلی    ۱/ ۳۵۸)
حضرت مخدوم صاحب ہی کی کتاب عقائد ترجمہ عمدۃ الکلام میں ہے:
قریش اعلٰی جد مصطفی بود واودوپسر داشت یکے را نام ہاشم بود ودوم رانام تیم پیغامبر از نسل ہاشم است وابوبکر از نسل تیم است ۲؎۔
ہاشم کے باپ کا نام قریش اور ان کے دو بیٹے تھے، ایک ہاشم دوسرا تیم، پیغامبر ہاشم کی نسل سے اور ابوبکر تیم کی نسل سے ہیں۔
 (۲؎ کتاب عقائد ترجمہ عمدۃ الکلام)
کوئی جاہل سے جاہل ایسی بات کہہ سکتاہے کہ ہاشم کے باپ کا نام قریش تھا، اور انکے دو بیٹے تھے، ایک ہاشم دوسرا تیم۔ ہم ہرگز ایسی نسبت بھی مخدوم صاحب کی طرف نہیں مان سکتے ضرور کسی جاہل کا الحاق ہے نہ کہ معاذاللہ توہین شان رسالت یہ وہابیہ ہی میں سے کسی کا الحاق ہے۔

ثالثا امام حجۃ الاسلام غزالی قدس سرہ العالی احیاء العلوم میں فرماتے ہیں:
لاتجوز نسبۃ مسلم الی کبیرۃ من غیر تحقیق نعم یجوز ان یقال قتل ابن ملجم علیا وقتل ابو لؤلوء عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہما فان ذلک ثبت متواتراً فلا یجوزان یری المسلم بفسق او کفر من غیر تحقیق ۳؎۔
یعنی کسی مسلمان کی طرف کسی کبیرہ کی نسبت بلا تحقیق حرام ہے۔ ہاں یہ کہنا جائز ہے کہ ابو ملجم نے مولا علی اور ابو لولؤ نے امیر المومنین عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کو شہید کیا کہ یہ تواتر سے ثابت ہے، تو کسی مسلمان کی طرف بلاتحقیق کفر یا فسق کی نسبت اصلا جائز نہیں۔
 (۳؎ احیاء العلوم والدین    کتاب آفات اللسان الآفۃ الثامنۃ اللعن مطبعۃ المشہد الحسینی القاہرہ    ۳/ ۱۲۵)
اس کے بعد وہ احادیث ذکر فرمائیں جن سے ثابت ہے کہ کسی کو کافر کہنے والا خود کافر ہوجاتاہے اگر وہ کافر نہ تھا۔ یوں ہی فسق کی طرف نسبت کرنے والا فاسق ہوجاتاہے اگر وہ فاسق نہ تھا۔ کتاب کا چھپ جانا اسے متواتر نہیں کردیتا کہ چھاپے کا اصل وہ نسخہ ہے جو کسی الماری میں ملا اس سے نقل کرکے کاپی ہوئی سیدھی صاف باتوں میں کسی کتاب سے کہ ظنی  طور پر کسی بزرگ کی طرف منسوب ہو۔ اسناد اور بات ہے، اور ایسے امر میں جسے مسند کلمہ کفر بنایا اور اس سے توہین شانِ رسالت کے جواز پر سند لانا ہے، اس پر اعتماد اور بات، علما کے نزدیک ادنٰی درجہ ثبوت یہ تھاکہ ناقل کے لئے مصنف تک سند مسلسل متصل بذریعہ ثقات ہو،
خطیب بغدادی بطریق الرحمان سلمی امیر المومنین عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی کہ فرمایا:
اذا وجد احد کم کتابا فیہ علم لم یسمعہ عن عالم فلیدع باناء وماء فلینقعہ فیہ حتی یختلط سوادہ فی بیاضہ ۱؎۔
جب تک تم میں کوئی ایک کتاب پائے جس میں علم کی بات ہے اور اسے کسی عالم سے نہ سنا تو برتن میں پانی منگاکر وہ کتاب اس میں ڈبو دے کہ سیاہی سپیدی سب ایک ہو جائے۔
 (۱؎ الفتاوٰی الحدیثیہ بحوالہ الخطیب    مطلب فی ان الانسان لایصح لہ الخ    المطبعۃ الجمالیہ مصر    ص۶۵)
فتاوٰی حدیثیہ امام زین الدین عراقی سے ہے:
نقل الانسان مالیس لہ بہ روایۃ غیر سائغ بالاجماع عند اھل الدرایۃ ۲؎۔
یعنی علمائے کرا م کا اجماع ہے کہ آدمی جس بات کی سند متصل نہ رکھتا ہو اس کا نقل اسے حلال نہیں۔
 (۲؎الفتاوٰی الحدیثیہ بحوالہ الخطیب    مطلب فی ان الانسان لایصح لہ الخ    المطبعۃ الجمالیہ مصر     ص۶۴)
ہاں اگر اس کے پاس نسخہ صحیحہ معتمدہ ہو کہ خود اس نے یا کسی ثقہ معتمد نے خود اصل نسخہ مصنف سے مقابلہ کیا یا اس نسخہ صحیحہ معتمدہ سے جس کا مقا بلہ اصل نسخہ مصنف یا اور ثقہ نے کیا وسائط زیادہ ہوں تو سب کا اسی طرح کے متعمدات ہونا معلوم ہو تو یہ بھی ایک طریقہ روایت ہے اور ایسے نسخہ کی عبارت کو مصنف کا قول بتانا جائز،
فتاوٰی حدیثیہ میں ہے:
قالوا ماوجد فی نسخۃ من تصنیف فان وثق بصحۃ النسخۃ بان قابلھا المصنف اوثقہ غیرہ بالاصل او بفرع مقابل بالاصل وھکذا جاز الجزم بنسبتھا الی صاحب ذلک الکتاب وان لم یوثق لم یجزم ۳؎۔
یعنی علماء نے فرمایا جو عبارت کسی تصنیف کے کسی نسخہ میں ملے اگر صحت نسخہ پر اعتماد ہے یوں کہ اس نسخہ کو خود مصنف یا کسی اور ثقہ نے خاص اصل مصنف سے مقابلہ کیا ہے یا اس نسخہ سے جسے اصل پر مقابلہ کیا تھا، یوں ہی اس ناقل تک، جب تو یہ کہنا جائز ہے کہ مصنف نے فلاں کتاب میں یہ لکھا ورنہ جائز نہیں۔
 (۳؎الفتاوٰی الحدیثیہ بحوالہ الخطیب    مطلب فی ان الانسان لایصح لہ الخ    المطبعۃ الجمالیہ مصر     ص۶۵)
مقدمہ امام ابوعمر وبن الصلاح میں عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے ہے کہ انھوں نے اپنے صاحبزادے ہشام 

سے فرمایا:تم نے لکھ لیا؟ کہا: ہاں۔ مقابلہ کرلیا؟ کہا: نہ۔ فرمایا: لم تکتب ۱؎ تم نےلکھا ہی نہیں۔
 (۱؎ مقدمہ ابن الصلاح    النوع الخامس والعشرون            فاروقی کتب خانہ ملتان    ص۹۲)
اسی میں امام شافعی ویحیٰی بن ابی کثیر سے ہے کہ دونوں صاحبوں نے فرمایا:
من کتب ولم یعارض کمن دخل الماء ولم یستنج ۲؎۔
جس نے لکھا اور مقابلہ نہ کیا وہ ایسا ہے کہ پانی میں داخل ہے اور استنجا نہ کیا۔
 (۲؎مقدمہ ابن الصلاح    النوع الخامس والعشرون            فاروقی کتب خانہ ملتان    ص۹۲)
اسی میں ہے:
اذا اراد ان ینقل من کتاب منسوب الی مصنف فلا یقل ''قال فلان کذا وکذا'' الا اذا وثق بصحۃ النسخۃ بان قابلھا ھواوثقۃ غیرہ باصول متعددۃ ۳؎۔
جب کسی کتاب سے کہ کسی مصنف کی طرف منسوب ہے کچھ نقل کرنا چاہے تو یوں نہ کہے کہ مصنف نے ایسا کہا جب تک کہ صحت عامہ نسخہ پر اعتماد نہ ہو یوں کہ اس نے خواہ اور ثقہ نے اس متعدد صحیح نسخوں سے مقابلہ کیا ہو۔
 (۳؎مقدمہ ابن الصلاح     النوع الرابع والعشرون          فاروقی کتب خانہ ملتان    ص۸۷)
اسی میں ہے:
یطالع احدھم کتابا منسوبا الی مصنف معین وینقل منہ عنہ من غیر ان یثق بصحۃ النسخۃ قائلا ''قال فلان کذاوکذا او ذکر فلان کذا وکذا'' والصواب ماقدمناہ اھ ۴؎ و لفظ الفتاوی الحدیثیۃ عنہ والصواب ان ذلک لایجوز ۵؎۔
کسی معین مصنف کی طرف منسوب کتاب میں ایک عبارت دیکھ کر آدمی نقل کردیتاہے کہ مصنف نے ایسا کہا حالانکہ صحت نسخہ پر وثوق (بروجہ مذکور کہ اصل نسخہ مصنف سے بلا واسطہ یا بوساطت ثقات اس نے یا اورثقہ نے مقابلہ کیا ہو) حاصل نہیں مثلا یوں کہے کہ فلاں نے یوں یوں کہا یا فلاں نے یوں یوں ذکر کیا، حق یہ ہے کہ یہ ناجائز ہے۔
 (۴؎مقدمہ ابن الصلاح     النوع الرابع والعشرون          فاروقی کتب خانہ ملتان    ص۸۷)

(۵؎ الفتاوٰی الحدیثیہ    مطلب ان الانسان لایصح لہ ان یقول الخ        المطبعۃ الجمالیۃ مصر     ص۶۵)
امام نووی نے تقریب میں فرمایا:
فان قابلھا باصل محقق معتمداجزاہ ۱؎۔
اگر ایک اصل تحقیق معتمد سے اس نے مقابلہ کیا ہے تو یہ بھی کافی ہے۔
 (۱؎ تقریب النووی مع تدریب الراوی    النوع الاول الصحیح    دارالکتب الاسلامیہ لاہور    ۱/ ۱۵۰)
یعنی اصول معتمدہ متعدد سے مقابلہ زیادت احتیاط ہے، یہ اتصال سند اصل وہ شیئ ہے جس پر اعتماد کرکے مصنف کی طرف نسبت جائز ہوسکے، اور متاخرین نے کتاب کا علماء میں ایسا مشہور ہونا جس سے اطمینان کہ اس میں تغییر وتحریف نہ ہوئی، اسے بھی مثل اتصال سند جانا اور وہ ایسا ہی ہے مقدمہ امام ابوعمرو نوع اول میں ہے :
اٰل الامران الاعتماد علی مانص علیہ فی تصانیفھم المعتمدۃ المشہورۃ التی یؤمن فیھا لشھرتھا من التغییر والتحریف ۲؎ (ملخصا)
یعنی آخر قرار داد اس پر ہوا کہ اعتماد اس پر ہے جو ایسی مشہور ومعتمد کتابوں میں ہو جن کی شہرت کے سبب ان میں تغییر وتحریف سے امان ہو۔ (ملخصا)
Flag Counter