Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۵(کتاب السیر)
108 - 150
(۱۲) غیر مقلدوں کے جُھوٹے خدا

غیر مقلد کا خدا یہ سب کچھ ہے جو دیوبندی وہابی کا،
قال اﷲ تعالٰی بعضھم من بعض ۱؎
(اور وہ بعض نزاکتیں اور زیادہ رکھتا ہے ایسا کہ جس (عہ۶) کے دین میں کُتّا حلال، سوئر کی چربی حلال، سوئر کے گُرد ے حلال، سوئر کی تِلی حلال، سوئر کی کلیجی حلال، سوئر کی اوجھڑی حلال، سوئر کی کھال کا ڈول بناکر اس سے پانی پینا حلال وضو کرنا حلال ،
 (۱؎ القرآن الکریم ۹/ ۶۷) ( ۲؎ القرآن الکریم ۶/ ۱۴۵)
عہ۶ : آیہ کریمہ قل لا اجد فیما اوحی الی محرما علی طاعم یطعمہ ۲؎میں کھانے کی صرف چار۴ چیزوں میں حرمت کا حصر ہے جن میں کُتّا نہیں، اور سوئر کا گوشت ہے چربی گردے تلی کلیجی کھال نہیں، اور انکی حرمت میں کوئی صحیح صریح حدیث بھی نہیں اور ہو تو آیت کا رد نہیں کر سکتی لٰہذا غیر مقلدی دھرم میں یہ سب چیزیں حلال و شیر مادر ہیں۔
گندی خبیث (عہ۱) شراب سے نہا کر سارے کپڑے اس میں رنگ کر نماز پڑھنا حلال ایک وقت میں ایک عورت(عہ۲) متعدد مردوں پر حلال، وُہ جس نے آپ ہی تو (عہ۳)حکم دیا کہ خود نہ جانو تو جاننے والوں سے پوچھو، اپنے علماء کی اطاعت کرو، اپنے نیکوں کی پیروی کر و،جب پوچھا اور اطاعت و پیروی کی تو شرک کی جڑ دی۔ وُہ جس نے ائمہ دین کی تقلید حرام و شرک ٹھہرائی اور پُوربی (عہ۴)بنگالی پنجابی بھوپالی کی فرض۔ وہ جس نے اپنے اور رسولوں کے سوا کسی کی بات حجت نہ رکھی اور بیچ میں چند محدثوں (عہ۵) اور جارحوں معدلوں کوکھڑا کرکے ان کے قول کو کتاب وسنت کے برابر ٹھہرا کر حجیت دی یعنی یہ شریک الوہیت نہیں تو شریک رسالت ضرور ہیں ، نہیں نہیں بلکہ شریک الوہیت ہی ہیں کہ
اتخذ وا احبارھم ورھبا نھم ارباباً من دون اﷲ ۱؎
 (انھوں نے اپنے پادریوں اور جوگیوں کو اللہ کے سواخدا بنالیا۔ت) نہ کہ رسلا من دون النبی(نبی کے سو ا رسول ۔ت)
 (۱؎ القرآن الکریم ۹ / ۳۱)
عہ۱: روضہ  ندیہ صدیق حسن بھوپالی ص ۱۲۔ عہ۲: دیکھو ضمیمہ النیر الشہابی ص ۳۴ تا ۳۶۔

عہ۳: قال اﷲتعالی فاسئلو اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون۔۲؎

(اللہ تعالٰی نے فرمایا، تو اے لوگو! علم والوں سے پوچھو اگر تم کو علم نہیں(ت)
       (  ۲؎ القرآن الکریم ۱۶ / ۴۳)
وقال تعالٰی اطیعو اﷲ واطیعوالرسول و اولی الامرمنکم ۔ ۳؎

(اللہ تعالٰی نے فرمایا: اطاعت کروا للہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور حکم والوں کی جو تم میں سے ہوں(ت)
 (۳؎  القرآن الکریم     ۴ /۵۹)
وقال تعالٰی واتبع سبیل من اناب الی۔۴؎۱۲

(اللہ تعالٰی نے فرمایا: اور اس کی راہ چل جو میر ی طرف رجوع لایا (ت)
 (۴؎  القرآن الکریم     ۳۱ /۱۵)
عہ۴: کہ جو کچھ یہ کہہ دیں کہ قرآن حدیث سے ثابت ہے ان کے جاہلوں پر اس کا ماننا فرض۱۲



عہ۵: بخار ی و مسلم فلا ں فلاں نے حدیث، روایت کر دی صحیح ہو گئی، یحیی، نسائی ، دارقطنی فلا ں فلاں نے راوی کو ثقہ کہہ دیا ، ضعیف کہہ دیا ضعیف ہے۔ اگر چہ یحیٰی وغیرہ تک سند خود مقطوع ہو،ذہبی وابن حجر نے قال کہہ دیاسند صحیح ہے رُوی کہا ضیعف ہے، یہ سب نری تقلید جامد ہے جس پراللہ نے کوئی سند نہ اتاری، قرآن وحدیث سے اسکا کہیں ثبوت نہیں ۱۲
ہاں وہ جس نے آپ ہی تو (عہ۱) اتباع ظن حرام اور افادہ حق میں محض ناکام کیاپھر ان چند کی ظنی روایات ظنی جرح و تعدیلات کا اتباع عین دین کر دیا، تو بات کیاوہی کہ یہ مثل انبیاء معصوم ہیں، نہیں نہیں بلکہ دین غیر مقلدی کے اربابا من دون اﷲجُھوٹے خدا ہیں، وُہ جس نے چند جاہلان عالم نما کے سواجوابو حنیفہ و شافعی پر منہ آتے اور اُن کے احکام پررکھنے کی اپنے میں طاقت بتا تے ہیں تمام عالم کو بے نتھا بیل کیا ہے کیونکہ وُہ آپ دلیل نہیں سمجھ سکتے اور دُوسرے کی کہی ہُوئی اگر چہ بنگالی بھوپالی دہلوی امر تسری کی مان لیں کہ دلیل سے یہ ثابت ہے، یہ تو وہی تقلید ہُوئی جو شرک ہے لہذا ضرور بے نتھے بیل ہیں، وُہ کہ عام جہاں پر جس کے لئے کوئی حجت قائم نہیں ہوسکتی کہ حجت قائم ہو دلیل سے، دلیل وُہ خود سمجھ نہیں سکتے اور دُوسرے کی سمجھ پر اعتماد شرک۔
عہ۱: قال اﷲتعالٰی وما یتبع اکثرھم الاظنا ان الظن لا یغنی من الحق شیئا ۔ ۱؎

(اللہ تعالٰی نے فرمایا اور ان میں اکثر تو نہیں چلتے مگر گمان پر ، بیشک گمان حق کا کچھ کا نہیں دیتا(ت)
 (۱؎ القرآن الکریم    ۱۶/ ۴۳)
قال تعالٰی ان یتبعون الا الظن وان الظن لایغنی من الحق شیئا۔۲؎

(اللہ تعالٰی نے فرمایا: وہ تو نرے گمان کے پیچھے ہیں اور بیشک گمان یقین کی جگہ کُچھ کام نہیں دیتا(ت)
(۲؎  القرآن الکریم    ۴/ ۵۹)
وقال تعالٰی لا تقف مالیس لک بہ علم ۳؎۔ ۱۲

(اور اللہ تعالٰی نے فرمایا: اور اس بات کے پیچھے نہ پڑجس کا تجھے علم نہیں(ت)
(۳؎  القرآن الکریم    ۳۱/ ۱۵)
وہ جس نے (خاک بد ہن خبثا)کُھلے مشرکوں کو خیرامۃ کہا اور ان کے تین قرنوں کو خیر القرون (کہلوایا جن کا روز اول سے آج تک یہی معمول کہ عامی کو جو مسئلہ پُوچھنا ہوا عالم سے پُوچھا،عالم نے حکم بتا دیا سائل نے مانا اور کار بند ہُوا صحابہ سے آج تک کبھی دلیل بتانے اور اُسے عامی کے اس قدر ذہن نشین کرنے کا کہ وُہ خود سمجھ لے کہ واقعی یہ حکم قرآن و حدیث سے ثابت بروجہ صحیح غیر معارض و غیر منسوخ ہے، ہر گز نہ دستور تھا نہ ہُوا نہ ہے، تو پوچھنے والے بے علم دلیل تفصیلی اُن کا فتوٰی مانا کئے اور یہی تقلید ہے، اور تقلید شرک تو عہد صحابہ سے آج تک سب عامی مشرک ہُوئے اور وُہ مفتی بے القائے دلیل اس لئے فتوے دیتے رہے کہ یہ مانیں اور عمل کریں، تو صحابہ سے آج تک سب مفتیان وعلما ء مشرک گرو شرک دوست ہُوئے اور ہر مشرک گرخود مشرک اور مشرکوں سے بد تر ، تو غیر مقلد کے دھرم میں صحابہ سے اب تک تمام اُمت مشرک، لیکن غیرمقلد کا خدا انھیں کو خیر الامۃاور
"وکانواشیعا"۱؎
تھے  جنھوں نے اپنا دین ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور جُدا جدا گروہ ہو گئے۔
 (۱؎ القرآن الکریم     ۶/ ۱۵۹)
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہما کے اتباع اُن سے فتوٰی لیتے اور اس پر چلتے۔
 عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کے اتباع اُن کی طرف تھے ،
عبداللہ بن عبا س رضی اللہ تعالٰی عنہما کے اتباع اُن کے ساتھ تھے اور وُہ اختلاف آج تک برابر قائم رہے ،
سب فریق مشورہ کرکے ایک بات پر عامل نہ ہونے تھے نہ ہوئے ،
قرآن عظیم میں ہمیشہ پڑھا کئے:
فان تنا زعتم فی شیئ فردوہ الی اﷲ والرسول۔ ۲؎
 (جب تم میں کسی بات میں اختلاف ہو تو اُسے اللہ و رسول کی طرف رجوع کرو۔
 (۲؎  القرآن الکریم    ۴/ ۵۹)
اس پر نہ عمل کرنا تھا نہ کیا، اس پر عمل کرتے تو سب ایک نہ ہو جاتے کہ اللہ ورسول کا حکم ایک ہی تھا، مگر وُہ اپنے ہی عالموں کے قول پر اڑے رہے مسعودی عمری عباسی نام نہ کہلانا کوئی چیز نہیں کام وہی رہا جو حنفی شافعی مالکی حنبلی نے کیاکام کام سے ہے نہ کہ نام سے ۔ دین کے ایسے ٹکڑے کرنے والوں کو
 "خیرامۃ و خیرالقرون"
ٹھہرایا وغیرہ وغیرہ خرافات ملعونہ،کیا انھوں نے خدا کو جانا،
حاش للہ مالھم بذٰلک من علم ان ھم الا یخرصونo۳؎سبحٰن رب العرش عمّا یصفون o ۴؎
 (انھیں اس کی حقیقت کچھ معلوم نہیں یُونہی اٹکلیں دوڑاتے ہیں۔ پاکی ہے عرش کے ر ب کو ان باتوں سے جو یہ بناتے ہیں۔ت)
 (۳؎  القرآن الکریم    ۴۳/ ۲۰ )	(۴؎  القرآن الکریم    ۴۳/ ۸۲)
تنبیہ:مسلمانو! تم نے دیکھا یہ ہیں گمراہ فرقے، اور یہ ہیں ان کے ساختہ خدا
ما قدروا اﷲ حق قدرہ ۵؎
 (اور یہود نے اللہ کی قدر نہ جانی جیسی چاہئے تھی۔ت)
(۵؎ القرآن الکریم    ۶/ ۹۱)
اور ایک عام بات یہ ہے کہ کفر کیا ہے اُس بات کی تکذیب جو بالقطع والیقین ارشاد الٰہی عزوجل ہے اب یہ تکذیب کرنے والا اگر اُسے ارشاد الٰہی عزوجل نہیں مانتا تو ایسے کو خدا سمجھا ہے جس کا یہ ارشاد نہیں حالانکہ خدا وُہ ہے جس کا یہ ارشاد ہے تو اُس نے خداکو کہاں جانا اور اگر اس کا ارشاد مان کر تکذیب کرتا ہے تو ایسے کو خدا سمجھا ہے جس کی بات جھٹلانا رواہے اور خدا اس سے پاک و وراء و بلند و بالا تو اس نے خدا کو کب جانا ،حاصل وہی ہوا کہ
اتخذالھہ ھوٰ ہ ۱؎
 (اپنی خواہش کو اپناخداٹھہرالیا۔ت)
(۱؎ القرآن الکریم     ۴۵/ ۲۳)
اور یہاں سے ظاہر ہُوا کہ اس جہل باللہ میں نِرے دہریوں کے بعد جو سرے سے وجود خدا کے منکر ہیں سب سے بھاری حصہ ان وہابیوں اسمٰعیلیوں خصوصا دیوبندیوں کا ہے کہ اور کافر تو اس سے کافر ہوئے کہ انھوں نے خدا کو جھٹلایا خدا کو عیب لگایا مگر اُن میں ایسا کُھلا بیباک مشکل سے نکلے گا جو اپنی زبان سے خود ہی کہے کہ ہاں ہاں اُس کا خدا جُھوٹا ہونے اور نہ صرف جُھوٹ بلکہ ہر سڑے سے سڑے عیب ہر ناپاک سی ناپاک گندگی میں سننے کے قابل ہے یہودی نصرانی بھی شایداسے کہتے جھجکیں گے، یہ دھوئی دھائی دیدے کی صفائی ، انہی صاحبوں کے حصہ میں آئی کہ اپنے معبود کے کذاب عیبی آلودہ ہونے کو دھڑلے سے جائز کریں اور اُس پر تحریر کریں لکھیں چھا پیں اسی پر کمالِ اسلام کا مدار جانیں
"وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون"۲؎
 (اور اب جان جائیں گے ظالم کہ کس کروٹ پلٹا کھائیں گے۔ت)
   ( ۲؎ القرآن الکریم      ۲۶/ ۲۲۷)
تنبیہ: ان چند اوراق میں جو کچھ بیان ہُوا کتب ورسائل فقیر و اصحاب فقیر میں بحمدہ  تعالٰی مبسوط و مبرہن ہیں،مسلمان انھیں حروف کو یاد رکھیں تو ضرور ضرور ان تمام بے دینوں کے سائے سے بچیں، انکی پرچھائیں سے دُور بھاگیں انکے نام سے گھن کریں، انکے قال اﷲ وقال الرسول کے مکر کے جال میں نہ پھنسیں،"یثبت اﷲالذین اٰمنوا بالقول الثابت فی الحیٰوۃ الدنیا"تو بعونہ تعالٰی یہیں روشن ہوا اور ان شاء اللہ الکریم ، ان شاء اللہ الکریم،ان شاء اللہ الکریم،
انشاء اللہ الکریم وفی الاخرۃ۳؎
کل کے دن پر وہ برافگن ہو یعنی ثابت رکھے اللہ ایمان والوں کو حق دین پر دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں،
واﷲ قدیرواﷲ غفور رحیمoوﷲ الحمد ۔والیہ الصمد۔ وصلی اﷲتعالٰی علی خیر خلقہ محمد واٰلہ وصحبہ وابنہ وحزبہ اجمعین ۔ اٰمین والحمد ﷲ ربّ العٰلمینo
 (۳؎  القرآن الکریم    ۱۴/ ۲۷)
Flag Counter