فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۵(کتاب السیر) |
مشرکین کاجہل باﷲ تو اسی کریمہ سے ثابت جس سے ان کے جاننے پر شبہہ میں استدلال تھا مدعیانِ توحید پر کلام کیجئے جن میں نصارٰی بھی باوصف تثلیث اپنے آپ کو شریک کرتے ہیں اور شرع مطہر نے بھی ان کے احکام کو احکام مشرکین سے جدافرمایا: فاقول وباﷲ التوفیق پس میں کہتا ہوں اور توفیق اﷲ تعالٰی سے ہے۔ت) (۱) فلاسفہ کے جھوٹے خدا فلاسفہ ایسے کو خداکہتے ہیں جو صرف ایک عقل اول کاخالق ہے، دوسری چیز بناہی نہیں سکتا، تمام جزئیاتِ عالم سے جاہل ہے، اپنے افعال میں مختار نہیں، اجسام کو معدوم کرکے پھر نہیں بناسکتا، ولہذا حشرجساد کے منکر ہیں، آسمان اس نے نہ بنائے بلکہ عقلوں نے، اور ایسے مضبوط گھڑے کہ فلسفی خدا انہیں شق نہیں کرسکتا، ولہذا قیامت کے منکر ہیں وغیرہ وغیرہ خرافاتِ ملعونہ، کیا انہوں نے خدا کو جانا، حاش ﷲ سبحٰن رب العرش عما یصفون۔ (۲) آریہ کے جھوٹے خدا آریہ ایسے کو ایشر کہتے ہیں جس کے برابر کے ہم عمردوواجب الوجود اور ہیں روح ومادہ۔ ایشر نہ کا خالق نہ ان کے مالک اور ناحق نارواانہیں دبابیٹھا ان پر ظالمانہ حکم چلارہا ہے۔ ایسے کوجس کا اصلاً کوئی ثبوت ہی نہیں آریہ نے زبردستی مان رکھا ہے۔ جب روح ومادہ بے کسی کے بنائے آپ ہی ازل سے موجود ہیں تو کیا آپ ہی اپنا میل نہیں کرسکتے تو جونون کے بننے میں بھی اس کے وجود پر دلیل نہیں، رہا جونون کا بدلنا وہ کرم کے ہاتھ ہے ایشور کی کیاحاجت اور اس کے ہونے پر کیادلیل، ایسے کو جو،(عہ۱) ماں رکھتا ہے، اور وہ اس کی جان کی حفاظت کرتی ہے تو باپ بھی ضرور ہوگا کہ خودآریہ ولادتِ مسیح علیہ الصلٰوۃ والسلام پر کہتے ہیں کہ بےباپ ولادت نرا مضحکہ ہے،جب ایشور کے ہوتے ہوئے بے باپ ولادت نہیں ہوسکتی تو جب ایشور بھی نہ تھے ان کی ماتاآپ سے آپ کیسے گربھ کر لاتی۔ اور خاکی انڈا ہو بھی تو گندا۔ ایسے کو جو بستر(عہ۲) پر بیمار پڑااور اپنی ماں کو دوا کے لئے پکار رہا ہے وید آتے اور اس کا تنگ حال دیکھ کر سخت کڑھتے اور سر ہلاتے ہیں، ایسے کو جس سے زیادہ علم وعقل والے موجود ہیں یہ اپنی بیماری میں جن کی دوہائی دیتا اور چیخ رہا ہے کہ اوسیکڑوں طرح کے عقل وعلم والو! تمہاری ہزاروں بوٹیاں (عہ۳) ہیں ان سے میرے شریر کو نروگ کرو، اے اماں جان! تو بھی ایسا ہی کر، ایسے کو جو گونگا ہے اصلاً بول نہیں سکتا(اور یہ دوا کےلئے دوہائی تہائی کون مچارہاتھا) بات تو یوں نہیں کرتا کہ انسان کی مشابہت نہ پیدا ہو، مگر ویداتارنے کے لئے رشیوں کو بینڈ باجے کی طرح بجاتا اور کٹھ پتلیوں کی مانند نچاتا ہے فضیلت انسانی میں مشابہت گوارا نہ ہوئی اور بجانے نچانے کے رذیل کاموں میں شرکت کی ع فکر ہر کس بقدر ہمت اوست (ہر شخص کی فکر اس کی ہمت بھر ہوتی ہے۔ت) اس بجنے ناچنے میں جو کچھ رشیوں کے سُر کے بولے وہ اس کی الہامی کتاب وید ہے، ایسے کوجس نے نیوگ جیسی بیحیائی کو ذریعہ نجات کیا ہے، ایسے کو جس کے(عہ۱) ہزار سر ہیں دو۲مُونھے سانپ سے پانسو حصے سوا ہزار آنکھ ہیں ہر سر میں ایک ٭ہر منہ سے کانا، یا بعض چہروں میں کئی کئی باقی چہروں سے اندھا، ہزارپاؤں ہیں کنکھجور ا تو نہیں جسے ہزار پاکہتے ہیں۔ایسے کوجو زمین پر ہر جگہ ہے اُلٹا سیدھا، نٹ کی کلا کو بھی مات کیا، اور کلام حرام کہ انسان سے مشابہت نہ ہو، پھرجگہ پاخانہ بھی ہے سیدھا ہوتا تو پاؤں ہی بھرتے، الٹا بھی ہے تو سَر بھی سَنا تب بھی دس۱۰ انگلی کے فاصلے پر ہر آدمی کے آگے بیٹھا ہے تو ہر جگہ کب ہُوا پھر دو۲ آدمی آمنے سامنے دس ۱۰ انگل کے فاصلے سے ہوں تو ان میں ہر ایک ایشور کا جگہ میں شریک ہُوا ، اور دو۲ انگل کے فاصلے پر ہوں تو ایشور آٹھ آٹھ انگل ہر ایک کے پیٹ میں گُھساٹھہرا، ایسےکہ جو سر وبیاپک ہے ہر چیز میں حلول کئے ہوئے ہے ہر مادہ کی فرج ہر شخص کی مقعد ہر پاخانے کی ڈھیری میں نجاست کا کیڑا بھی اتنا گھناؤنا تو نہیں ہوتا۔پھر یہ سب جگہ رما ہُوا ایک ہی ایشور ہے یا ہر جگہ نیا،بر تقدیر دوم ایشوروں کی گنتی تمام مخلوقات کے شمار سے بڑھ نہ گئی تو برابر ضروررہی اس پر توحید کا دم بھرتے ہیں،بر تقدیر اول ایشور کے سنکھوں مہا سنکھوں ٹکڑے ہُوئے کہ ذرّے ذرّے بھر جگہ میں اس کا نیا ٹکڑا ہے تو ایشور مرکب ہُوا اور ہر مرکب محتاج ہے کہ جب تک اس کے سب اجزااکٹھے نہ ہوں نہیں ہوسکتا، تو ایشور محتاج ہوا، پھر جب ہر جگہ رما ہوا ہے فرض کرو ایک شخص نے دُوسرے کے جُو تا مارا تو یہ فضا جس میں جُو تا چل کر اُس کے بدن تک گیا اس میں بھی ایشور تھا یا نہیں، نہ کیونکر ہو گا وہ سب جگہ ہے اورجب یہاں بھی تھا تو جُوتاآتے ہوئے دیکھ کر ہٹ گیا یا جُوتا اس کے اندر ہوتا ہُوا گزر گیا ہٹ تو سکتا نہیں ورنہ ہر جگہ کب رہا یہ جگہ خالی ہو جائے گی ضرور جُوتا اُس میں ہو کرگزرا عجب ایشور کے جُوتے سے پَھٹ گیا، پھر اُس شخص کے جس حصہ بدن پر جوتاپڑا وہاں بھی ایشور تھا یا نہیں، نہ کیسے ہو گا ورنہ ہر جگہ نہ رہے گا اور جب وہاں بھی تھا تو اب بتاؤ کہ یہ جُو تا کس پر پڑا،کاش نراالٹاہوتا تو پاؤوں پر لگتا، سیدھا بھی ہے تو سر پر پڑا، یہ ہیں آریہ اور اُن کا ایشور، کیا اُنھوں نے خدا کوجانا، حاش للہ سبحٰن رب العرش عمّا یصفونo
عہ۱: دیکھو یجروید۱۲ عہ۲: یجروید ادھیانمبر۱۲و۱۴ عہ۳: یہ سمجھ میں آنے کی بات نہیں کہ بوٹی بواؤ معروف اور ان کے پاس ہو ایشرجی کے پاس نہ ہو، دیکھنا کہیں یہ بوٹی بواؤ مجہول تو نہیں، تو یہ ضرور ایشر جی کے یہاں کہاں کہ ان کے ہوم کرنے والے ماس سے بہت برا مانتے ہیں عجب نہیں کہ بیماری میں طاقت آنے کے لئے مسلمانوں سے گوشت کی بوٹیاں مانگتے ہوں۱۲اعجب العقاب تصنیف مولوی نواب مرزا صاحب قادری برکاتی رضوی۔ عہ۱: یہاں سے اُن الفاظ تک کہ ہر آدمی کے آگے بیٹھا ہے جس جس عبارت پر خط ہے یہ مضمون یجر وید ادھیا ۳۱ منتر اول کا ہے ۱۲۔
(۳)مجوس کے جُھوے خدا ایسے کو خدا کہتے ہیں جس کے برابر کی چوٹ کا دوسرا خالق شیطان ہے ، پھر بعض کے نزدیک تو شیطان اُس کا مخلوق ہی نہیں اُسی کی طرح واجب الوجود ہے خود بخود موجود ہے جب تو شیطان اُس کا ہمسر ہونا ظاہر، اورجن کے نزدیک وُہ بھی اسی سے پیدا ہوا وہ اور سخت اعجوبہ ہے یزدان سے کوئی جزئی شرتو اس لئے نہ بن سکا کہ وہ خیر محض ہے اُس سے شر کیونکر پیدا ہو، مگر اہر من کی ہر شر کی جڑ اور کلی شر ہے اس سے پیدا ہوگیا اور جب سب شراہرمن سے پیدا ہیں اور اہر من یزدان سے تو جملہ شرور کا ٹِیکا یزدان ہی کے ماتھے رہا، ایسے کوجسے بیٹھے بٹھائے ایک دن فکر ہوئی کہ اگر کوئی میرامخالف ہو تو کیسا ہو، اس خیال فاسد سے ایک دُھواں اُٹھا جو شیطان بنا اور اس نے قوت پکڑی یہاں تک کہ لشکر جوڑ کر یزدان کے مقابل ہُوا مجوس کا یزدان اُس کے مقابلہ کی تاب نہ لاکر بھاگا اورجنت میں قلعہ بند ہوا، اہرمن تین ہزار برس جنت کا محاصرہ کئے رہا، یزدان اس کا کچھ نہ بگاڑ سکا ، آخر فرشتوں نے بیچ بچاؤ کرکے تصفیہ کرادیا کہ سات ہزار برس دنیا میں شیطان سلطنت کرے پھر ملک یزدان کو سونپ دے، مجوس کا یزدان طول محاصرہ سے عاجز آچکا تھا جبراًوقہراً قبول کیا اور اب اس سے دعا فضول کی کہ وُہ دنیا کی سلطنت سے معزول ، ایسے کو جس نے بیٹے کےلئے ماں باپ کے لئے بیٹی جیسی بیحیائیاں حلال کی ہیں، کیا انھوں نے خدا کو جانا، حاش للہ سبحن رب العر ش عمّا یصفونo (۴)یہود کے جُھوٹے خدا یہود ایسے کو خدا کہتے ہیں جو آسمان و زمین بنا کر اتناتھکا کہ عرش پر جاکر پاؤں پر پاؤں رکھ کر چت لیٹ گیا، ایسے کو جو ان میں بعض کے نزدیک عزیر کا باپ ہے ایسے کو جو ایک حکم دے کر اس کا پابند ہوجاتا ہے زمانہ و مصالح کتنے ہی بدلیں اس کے بدلے دوسرا حکم نہیں بھیج سکتا و لہذانسخ کے منکر ہیں اور شریعتِ موسوی کوابدی کہتے اور اس صریح کذب کا افترا اپنے معبود کے سر دھرتے ہیں ، ایسے کو جس نے آپ ہی قومِ نوح پرطوفان بھیجا پھر اپنی اس حرکت پر ایسا نادم ہُوا اتنا رویا کہ آنکھیں دُکھ آئیں، نسخ تو پچتا نا ٹھہر کر محال، حالانکہ اُسے پچتانے سے کوئی تعلق نہیں، رات کو دن کرتا ہے پھر دن کو رات کر دیتا ہے، کوئی مجنون ہی اسے پچتا نا کہے گا، جب احکامِ تکوینیہ میں یہ ہے احکامِ تشریعیہ میں کون مانع ہے ، خیر وُہ تو پچتانے کے خوف سے نہ بدل سکے مگر آدم کو بنا کر پچتا یا اور طوفان بھیج کر تو پچتا نے کا وُہ طوفان آیاجس نے رُلا رُلا کر آنکھوں کا یہ دن کر دکھایا ، ایسے کو جس نے یہودی کے لئے اسکی سگی بہن حلال کی اور توراۃ میں اسکی حرمت غلط لکھ دی اس لئے کہ شریعت آدم میں یقینا حلّت تھی اب حرام کرے تو منسوخی حکم سے پچتا نا ٹھہرے ایسے کو جس نے خلیل و اسمٰعیل علیہما الصلٰوۃ والسلام کی دُعا قبول کی اور ان سے کہا کہ میں نے اسمٰعیل واولاد اسمعیل کو برکت دی اور تمام خیر و خُوبی اُن میں رکھی عنقریب تمام اُمتوں پر اُنھیں غالب کروں گا اور اُن میں اُنھیں میں سے اپنا رسول اپنےکلام کے ساتھ بھیجوں گا، پھر کیا کچھ نہیں بلکہ ان کا عکس کیا جیسا یہود بکتے ہیں۔ ایسےکو کہ نہ تورات اُس کی کتاب نہ موسٰی سے اُس کا کلام ، یہ سارے کرشمے ایک فرشتے کے ہیں۔کیا انھوں نے خدا کو جانا، حاش للہ سبحٰن رب العرش عمّا یصفونo (۵)نصارٰی کے جُھوٹے خدا نصارٰی ایسے کو خدا کہتے ہیں جو مسیح کا باپ ہے اور مزرہ یہ کہ اُس کے بھا ئیوں(عہ۱) کا بھی باپ ہے ، اُس (عہ۲) کے شاگردوں کا باپ ہے ، اُس (عہ۳) کے چھوٹے جھنڈ کا باپ ہے۔ ہر عیسائی(عہ۴) کا باپ ہے، پھر(عہ۵) ہر مصلح کا باپ ہے،خود(عہ۶) آدمیوں کے باپ آدم کا باپ ہے، تو ہر بشر کا باپ ہے یہاں تک کہ حکم (عہ۷) ہے کہ زمین پر کسی کو اپنا باپ مت کہو کیونکہ تمھاراایک ہی باپ ہے جو آسمان پر ہے ، یہ کچھ تونات پودھ پھیلی ہُوئی ہے اور پھراکیلا مسیح اُس کا اکلوتا، ایسے کو جو اپنے اکلوتے کو سُولی سے نہ بچا سکا، ایسے کو کہ جب اس کا بیگناہ اکلوتایہاں کی مصیبت جھیل کر ہاں ہاں عیسا ئیوں کا خدا مخلوق کے مارے سے دَم گِنوا کر باپ کے پاس گیا اُس نے اکلوتے کی یہ عزت کی اُس کی مظلومی و بیگناہی کی یہ داد دی کہ اُسے(عہ۸) دوزخ میں جھونک دیا اوروں کے بدلے اسے تین دن جہنم میں بُھونا،ایسے کو(عہ۹) جو روٹی اور گوشت کھاتا ہے اور سفر سے آکر اپنے پاؤں دُھلو اکر درخت کے نیچے آرام کرتا ہے درخت اونچا اور وُہ نیچا ہے، ایسے کو جو فقط زندوں(عہ۱۰) کا خدا ہے مُردوں کا نہیں جو جو مرتے جاتے ہیں اس کی خدائی سے نکلتے جاتے ہیں، ایسے کو جو اپنے ایک بندے(عہ۱۱) سے رات کو صبح ہونے تک کشتی لڑا ور اُسے گرانہ سکا جب دیکھا کہ میں اس پر غالب نہیں آتا اُس کے پاؤں کی نس چڑھا کر کمزور کیا،ایسے کو جس کا(عہ۱۲) بیٹا اُسے جلا ل بخشتا ہے آریوں کے ایشور کی تو ماں اس کی جان کی حفاظت کرتی تھی عیسائیوں کے خدا کا بیٹااُسے عزت بخشتا ہے ، کیوں نہ ہو سپوت ایسے ہی ہوتے ہیں ، اس پر پھرا سے بے خطا جہنم میں جھونکنا کیسی محسن کشی ناانصافی ہے۔ ایسے کو جو (عہ۱۳) یقینا دغاباز ہے پچتاتا(عہ۱۴) بھی ہے، تھک جاتا بھی ہے ،
عہ۱: انجیل یوحنا باب ۲۰ درس ۱۷، عہ۲: انجیل متی باب ۵ درس ۴۵ و ۴۸ و باب ۶ درس ۲و ۴و ۱۵ و ۱۸ و ۲۶ و ۳۲ و باب ، درس ۱۱۔ و انجیل لو قا باب ۱۱ درس ۲ و باب ۱۲ درس ۳۰۔ عہ۳: انجیل لوقا باب ۲ درس ۳۲۔ عہ۴: پولس کاخط گلتیوں کو باب ۳ درس ۲۶۔ عہ۵: انجیل متی باب ۵ درس ۹۔ عہ ۶: انجیل لوقا باب ۳ درس ۳۸ ۔ عہ۷: انجیل متی باب ۲۳ درس ۹۔ عہ۸: مسئلہ کفارہ ۱۲۔ عہ۹: پیدائش باب ۱۸ درس ۴ تا ۸۔ عہ۱۰: انجیل متی باب ۲۲ درس ۳۲۔ عہ ۱۱: موسٰی کی پہلی کتاب باب ۳۲ درس ۵و ۲۴۔ عہ ۱۲: انجیل یوحنا باب ۱۷ درس اول ۔ عہ ۱۳: کتاب یر میاہ نبی باب ۴ درس ۱۹ ۔ عہ ۱۴: کتاب یر میاہ باب ۱۵ درس ۶ ۔
ایسے کو(عہ۱) جس کی دو ۲ جوروہیں ہیں دونوں پکّی زناکا رحد بھر کی فاحشہ، ایسے کوجس(عہ۲)کے لئے زنا کی کمائی فاحشہ کی خرچی ،کمال مقدس پاک کمائی ہے، ایسے کو جس (عہ۳) نے باندی غلام بنانا جائز رکھ کر نصارٰی کے دھرم میں حددرجے کی ناپاک ظالمانہ وحشیا نہ حرکت کی، اور پھر خالی(عہ۴)کام خدمت ہی کے لئے نہیں بلکہ موسٰی کو حکم دیا کہ مخالفوں کی عورتیں پکڑکر حرم بناؤ اُن سے ہم بستری کرو، ایسے کو جس (عہ۵) کی شریعت محض باطل ہے اُس سے راستبازی نہیں آتی اُسے ایمان(عہ۶) سے کچھ علاقہ نہیں جو ا س کی شریعت (عہ۷) پر عمل کرے ملعون ہے بلکہ اس کا اکلوتا(عہ۸) بیٹا خود ہی ملعون ہے پھر بھی ایسی لعنتی شریعت (عہ۹) پر عمل کا حکم دیتا ، بندوں سے اس کا التزام مانگتا اُسکے ترک (عہ۱۰) پر عذاب کرتا ہے،ایسے کو (عہ۱۱) جو اتنا جاہل کہ نہایت سیدھا ساحساب نہ کر سکا بیٹے کوباپ سے عمر میں بڑا بتایا گیا، ایسے کوجو(عہ۱۲) اتنا بھلکڑ کہ اپنے اکلوتے کے باپوں کی صحیح گنتی نہ گنا سکا، کہیں داؤد تک اس کے ستائیس ۲۷باپ، کہیں پنداہ۱۵ بڑھا کر بیالیس۴۲ باپ وغیرہ وغیرہ خرافات ملعونہ ، کیا انھوں نے خدا کو جانا ۔ حاش للہ سبحٰن رب العرش عمّا یصفونo
عہ ۱:کتاب حز قیل نبی باب ۲۳ درس اتا ۲۳ عہ۲:کتاب یسیعا ہ نبی باب ۲۳ درس ۱۸۔ عہ۳: خروج باب ۱۲ درس ۱ و ۴ تا ۶ و پیدائش باب ۱۶ درس ۱ تا ۶ وغیرہ۔ عہ ۴: استثنا باب ۷ درس ۲ باب ۲۱ درس۱۰ و ۱۱ ۔ عہ۵: پولس کا خط گلتیوں کو باب ۳ ورس ۱۱۔ عہ۶: ایضاً درس ۱۲ ۔ عہ۷: ایضاً درس ۱۰ و ۱۳۔ عہ۸: ایضاً درس ۱۳ ۔ عہ۹: انجیل متی باب ۲۳ درس ۲۳۔ عہ ۱۰: کتاب یرمیاہ باب ۹ درس ۱۲ تا ۱۶ ۔ عہ۱۱: تواریخ کی دوسری کتاب باب ۲۲ درس او ۲ مع باب ۲۱ درس ۲۰۔ عہ ۱۲:انجیل لو قادرس ۲۳ تا ۳۱ مع انجیل متی درس ۶تا ۱۷۔
(۶) نیچریوں کے جُھوٹے خدا نیچری ایسے کو خدا کہتا ہے جو نیچر کی زنجیروں میں جکڑا ہے اس کے خلاف کچھ نہیں کر سکتا اور نیچر بھی اُتنا جو نیچری کی سمجھ میں آئے جو اس کی ناقص عقل سے وراء ہے معجزہ ہو یا قدرت سب پادَر ہوا ہے، ایسے کو جس نے (خاک بدہن ملعونان) جھوٹا دین اسلام بھیجا کہ اس میں باندی غلام حلال کیا(اگرچہ پیر نیچر کے نزدیک ابتدا ہی میں) (عہ۱۳) اور وہ دین جس میں باندی غلام بنانا حلال ہواہو نیچری کے نزدیک خدا کی طرف سے ہر گز نہیں ہو سکتا، ایسے کو جس نے مدتوں اسلام میں اپنی خلاف مرضی باتیں ناپاک چیزیں، اصلی ظلم ، ٹھیٹ نا انصافی روارکھی، ایسی بد باتیں بہائم کی حرکتیں کہ ایک لمحہ کے لئے بھی یہ بات مانی نہیں جا سکتی کہ سچّا مذہب جو خدا کی طرف سے اترا ہو اُس میں ایسے امور جائز ہوں۔ ایسے کو جو ان سخت ظالموں ، ٹھیٹ ناانصافوں جانور سے بدتروحشیوں کو جن کا چھوٹا بڑا اوّل سے آج تک اُن ناپاکیوں پر اجماع کئے ہوئے ہے خیر الامم کا خطاب دیتا اور اپنے چُنے ہوئے بندے کہتا ہے۔ ایسے کو جس نے کہا تو یہ روشن آیتیں بھیجتا ہوں تمھیں اندھریوں سے نکال کر روشنی میں لاتاہوں اور کیا یہ کہ جو کہی کہہ مکر فی کہی تمثیلی داستان پہیلیاں چیستا ، لفظ کچھ مراد کچھ جو لغۃً عرفاً کسی طرح اُس کا مفہوم نہ ہو۔ فرشتے، آسمان ، جن ، شیطان، بہشت ، دوزخ ،حشراجساد، معراج، معجزات سب باتیں بتائیں اور بتائیں بھی کیسی ایمانیات ٹھہراہیں اور من میں یہ کہ درحقیقت یہ کچھ نہیں یو ہیں طو طا مینا کی سی کہانیاں کہہ سُنائیں وغیر ہ وغیرہ خرافات ملعونہ ۔کیا انھوں نے خداکو جانا۔ حاش للہ سبحٰن رب العرش عمّا یصفونo
عہ۱۳: رسالہ سید احمد خان پیر نیچر ابطال غلامی صفحہ ۳ ایسی حالت صانع کی مرضی نہیں ہوسکتی صاف عیاں ہے کہ غلامی اس قادر مطلق کی مرضی اور قانون قدرت دونوں کے برخلاف ہے صفحہ ۲۰ غلامی خدا کی مرضی کے مطابق نہیں ہو سکتی کیا پاک پروردگار ہی ناپاک چیز کو انسان کے حق میں جائز کرتااصلی ظلم اور ٹھیٹ ناانصافی ہےخدا ایسے قصور کا تقصیر وار نہیں ہو سکتا صفحہ ۲۴ جو امور لونڈیوں اور قیدی عورتوں کے ساتھ جائز سمجھے جاتے ہیں کیا حرکات بہا ئم سے کچھ زیادہ رتبہ رکھتے ہیں ، کیا وہ کسی مذہب کے سچے اور خدا کے دئے پر دلیل ہو سکتے ہیں،حاشاوکلا ایک لمحہ کےلئے بھی یہ بات مانی نہیں جا سکتی کہ سچا مذہب جو خدا کی طرف سے اترا ہو اس میں ایسے امور جائز ہوں، صفحہ ۲۵ یہودی مذہب نے غلامی کے قانون کو جائز سمجھا ، اور عیسٰی مسیح نے اس کی نسبت کچھ نہ کہا مگر محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے جو کچھ کہا اس کو کسی نے نہ سمجھا ، صفحہ ۲۹ زمانہ اسلام میں بھی غلامی کی رسم پر جب تک آیتِ حُریت نازل نہ ہُوئی کچھ تھوڑا سا عملدر آمد ہُوا، اس میں کُچھ شک نہیں کہ قبلِ نزول آیتِ حریت جو غلام موجود تھے ان کو اسلام نے دفعۃً آزاد نہ کیا ، نہ ان کے تعلقات کو توڑا، ملا حظہ ہو موسوی، عیسوی ، محمدی تینوں دین باطل کردئے ، مُوسوی تو یوں کہ اس نے غلامی کے قانون کو جائز رکھا، اور عیسوی یُوں کہ عیسٰی مسیح نے اسی شدید بیحیائی ٹھیٹ ظلم پر کچھ نہ کہا نبی کا کسی بات پر سکوت بھی اسے جائز کرنا ہے ، اسلام یوں کہ صدر اسلام میں غلامی کی رسم پر عملدر آمد رہا پھر جب اس مرتد کے زعم میں آیت آزادی اُتری اس نے بھی اگلے حکموں کو بر قرار رکھا، ان بے حیائیوں کو معدوم نہ کیا ۔ سود منع فرمایا جب تو یہ حکم دیا کہ پہلے کا جو باقی رہا ہو وہ ابھی چھوڑدو ورنہ اللہ و رسول سے لڑائی کو تیار ہو جاؤ، اور یہاں موجودہ ظلموں بے حیائیوں کو قائم رکھا جائز کر دیا فقط آئندہ کے لئے اس کے زعمِ ملعون میں منع کیا، بہر حال تینوں دینوں میں ہمیشہ یا ایک زمانہ دراز تک رسمِ غلامی جائز رہی ، اور خود کہہ چکا کہ ایک لمحہ کےلئے یہ بات نہیں مانی جا سکتی کہ سچا مذہب جو خدا کی طرف سے اترا ہو اس میں ایسے امور جائز ہوں کیسا صاف صریح کہہ دیا کہ موسوی، عیسوی، محمدی تینوں دین باطل ، اور پھر عجب ہے کہ اس کے پیرو اُسے نہ صرف مسلمان بلکہ اسلام کا سنورانے والا بتاتے ہیں کلا واللہ بلکہ ابٰی واستکبر و کان من الکفرین ۱؎، وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون ۲؎ (منکر ہو ا اور غرور کیا اور کافر ہو گیا ، عنقریب جان لیں گے ظالم کہ کس کروٹ پر پلٹا کھائیں گے۔ت) ۱۲ منہ علیہ الرحمۃ
(۱؎ القرآن الکریم ۲/ ۳۴ ) (۲؎ القرآن ۲۶ / ۲۲۷)