رسالہ
باب العقائد والکلام (۱۳۳۵ھ)
(عقائد وکلام کا باب)
مسئلہ۷۶:کفار اﷲ تعالٰی کو جانتے ہیں یانہیں؟
رسالہ باب العقائد والکلام جس کا رسالہ حسن التعمم میں وعدہ(عہ)تھا،
عہ: مصنف علیہ الرحمۃ کی طرف سے یہ نوٹ اس صورت میں ہے جبکہ یہ رسالہ جلد اول قدیم، کتاب الطہارت، باب التیمم(از صفحہ ۷۳۵تاصفحہ۷۴۹) پر تھا، اب اسے باقھی رکھتے ہوئے وہاں سے خارج کرکے مضمون کی مناسبت سے یہاں شامل کیا جارہا ہے۔
یہ بیان اگرچہ مسائل تیمم و طہارت ظاہری سے جدا ہے مگر باذنہٖ تعالٰی طہارت باطن کا اعلٰی ذریعہ ہے، جس طرح قرآن عظیم نے مسائل طلاق کے وسط میں تاکیدِ نماز کاذکر فرمایاکہ:
نگاہداشت کرو نمازوں اور خصوصاً نماز اوسط کی اور اﷲ کے حضور ادب سے کھڑے ہو۔
(۱؎ القرآن الکریم ۲/ ۲۳۸)
اسی سنتِ کریمہ کے اتباع سے یہ مسائل تیمم کے وسط میں عقائد اسلام کی یاددہانی ہے، مولٰی تعالٰی قبول فرمائےاور مسلمانوں کےلئے ذریعہ ثبات ایمان بنائے، اور اس کے کرم پر دشوار نہیں کہ بعض مخالفین کو بھی اس سے راہِ ہدایت دکھائے وباﷲ التوفیق۔
بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم
الحمد للذی ھدانا للایمان : واٰتانا القراٰن والفرقان : والصلوۃ والسلام الاتمان الاکملان : علی من اعطانا العلم بربنافصح لنا الایمان : وعلٰی اٰلہ وصحبہ وتابعیھم باحسان :
جانا جس نے جانا اور جس نے نہ جانا وہ اب جانے کہ اﷲ عزوجل کو جاننا بحمدہ تعالٰی مسلمانوں کے ساتھ خاص ہے، کوئی کافر کسی قسم کا ہو ہرگز اسے نہیں جانتا، کفر کہتے ہی جہل باﷲ کو ہیں، یہاں ناواقفوں کو ایک شبہہ گزرتا ہے جس کا جواب کاشف صواب ورافع حجاب والتوفیق من اﷲالوھاب۔
تقریر شبہہ: کافروں کے صدہافرقے اﷲ تعالٰی کو جانتے بلکہ مانتے بھی ہیں،
فلاسفہ تو اس کی توحید پر دلائل قائم کرتے ہیں، یہود ونصارٰی توراۃ وانجیل، اور مجوس اپنے زعم میں ژندواستا کو اسی کا کلام جان کر اعتقاد رکھتے ہیں، آریہ اگرچہ وید کو اس کا کلام نہیں جانتے مگر بزعمِ خود اسی کا الہام مانتے اور اسی کو مالک وخالق کل اعتقاد کرتے اور توحید کا محض جھوٹا دم بھرتے ہیں، ہنود وغیرہم بت پرست تک کہتے ہیں کہ سارے جہاں کا مالک سب خداؤں کا خدا ایک ہی ہے، عرب کے مشرک کہا کرتے
"مانعبد ھم الالیقربونا الی اﷲ زلفٰی۱؎"۔
یعنی وہ تو ان بتوں کو صرف اس لئے پوجتے ہیں کہ بت انہیں اﷲ سے قریب کردیں۔
(۱؎ القرآن الکریم ۳۹/ ۳)
اور لبیک میں کہا کرتے :
لبیک لاشریک لک الاشریکا ھولک تملکہ وماملک۲؎۔
ہم تیری خدمت کو حاضر ہیں تیرا کوئی شریک نہیں مگر وہ شریک کہ تیر اہی مملوک ہے توا س کا بھی مالک اور اس کی ملک کا بھی مالک۔
(۲؎ صحیح مسلم باب التلبیۃ وصفتہا ووقتہا قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۳۷۶)
جب وہ لاشریک لک تک پہنچتے کہ تیرا کوئی شریک نہیں حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے :ویلکم قِدقِد۳؎ تمہیں خرابی ہو بس بس، یعنی آگے نہ بڑھو استثناء نہ گھڑو،
(۳؎صحیح مسلم باب التلبیۃ وصفتہا ووقتہا قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۳۷۶)
رب عزوجل فرماتا ہے :
ولئن سألتھم من خلق السمٰوٰت والارض لیقولن اﷲ۱؎۔
اور اگر تم ان سے پوچھو کہ آسمان وزمین کس نے بنائے، ضرور کہیں گے اﷲنے۔
(۱؎ القرآن الکریم ۳۱/ ۲۵)
اور کلمہ گو فرقوں میں جو مرتد ہیں وہ تو نبی وقرآن سبھی کو جانتے قال اﷲ وقال الرسول سے سند لاتے نمازیں پڑھتے روزے رکھتے ہیں جیسے قادیانی، نیچری، چکڑالوی، وہابی، رافضی، دیوبندی، غیر مقلد خذلہم اﷲ تعالٰی اجمعین، پھر کیونکر کہا جائے کہ یہ اﷲ عزوجل کو جانتے ہی نہیں، ہاں نرے دہریوں کی نسبت یہ کہنا ٹھیک ہے جو اﷲ تعالٰی کو مانتے ہی نہیں۔
تقریر جواب بعون الوھاب اقول وباﷲ التوفیق ایجاب وسلب متناقض ہیں جمع نہیں ہوسکتے وجود شیئ اس کے لوازم کے وجود کامقتضی اور ان کے نقائض ومنافیات کانافی ہے کہ لازم کا منافی موجود ہوتو لازم نہ ہو اور لازم نہ ہو تو شیئ نہ ہو، تو ظاہرہوا کہ سلب شے کے تین طریقے ہیں:
اول خود اس کی نفی مثلا کہے انسان ہے ہی نہیں۔
دوم اس کے لوازم سے کسی شئے کی نفی مثلاً کہے انسان تو ہے لیکن وہ ایک ایسی شیئ کانام ہے جو حیوان یا ناطق نہیں۔
سوم ان کے منافیات سے کسی شئے کا اثبات مثلاً کہے انسان حیوان ناہق یا صاہل سے عبارت ہے ظاہرہے کہ ان دونوں پچھلوں نے اگرچہ زبان سے انسان کو موجود کہا مگر حقیقۃً انسان کو نہ جانا وہ اپنے زعم باطل میں کسی ایسی چیز کو انسان سمجھے ہوئے ہیں جو ہرگز انسان نہیں، تو انسان کی نفی اور اس سے جہل میں یہ دونوں اور وہ پہلا جس نے سرے سے انسان کا انکار کیا سب برابر ہیں فقط لفظ میں فرق ہے۔
مولٰی عزوجل کو جمیع صفات کمال لازم ذات، اور جمیع عیوب ونقائص اس پر محال بالذات کہ اس کے کمال ذاتی کے منافی ہیں، کفار میں ہرگز کوئی نہ ملے گا جو اس کی کسی صفتِ کمالیہ کا منکر یا معاذ اﷲ اس کے عیوب ونقص ونقص کا مثبت نہ ہو، تو دہریے اگر قسم اول کے کے منکر ہیں کہ نفسِ وجود سے انکار رکھتے ہیں، باقی سب کفار دوقسم اخیر کے منکر ہیں کہ کسی کمال لازم ذات کے نافی یا کسی عیب منافی ذات کے مثبت ہیں، بہر حال اﷲ عزوجل کونہ جاننے میں وہ اور دہریے برابر ہوئے وہی لفظ وطرزِادا کافرق ہے، دہریوں نے سرے سے انکار کیا اور ان قہریوں نے اپنے اوہام تراشیدہ کانام خدا رکھ کر لفظ کا اقرار کیا،
مولٰی سبحٰنہ وتعالٰی فرماتا ہے:
افرأیت من اتخذ اٰلہہ ھوٰہ۱؎۔
دیکھوتو وہ جس نے اپنی خواہش کو خدا بنالیا۔
(۱؎ القرآن الکریم ۴۵/ ۲۳)
ولہذاکریمہ "لیقولن اﷲ" کے تتمہ میں ارشاد ہوا:
قل الحمدﷲ بل اکثرھم لایعلمون۲؎۔
اگر ان سے پوچھو کہ آسمان وزمین کا خالق کون ہے، کہیں گے "اﷲقل الحمدﷲ"تم کہو حمد اﷲ کو کہ اس کے منکر بھی ان صفات میں اسی کانام لیتے ہیں اپنے معبود ان باطل کو اس لائق نہیں جانتے، مگر کیا اس سے کوئی یہ سمجھے کہ وہ اﷲ کو جانتے ہیں، نہیں نہیں بل اکثرھم لایعلمونoبلکہ اکثر اسے جانتے ہی نہیں،
ان ھم الایخرصونo۳؎
وہ تو یونہی اپنی سی اٹکلیں دوڑاتے ہیں، جیسے اور بہتیرے معبود گھڑلئے کہ:
ان ھی الااسماء سمیتموھا انتم واٰباؤکم ماانزل اﷲ بھا من سلطٰن۴؎
۔وہ تو نرے نام ہیں کہ تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے دھر لئے اﷲ نے ان کی کوئی سند نہ اتاری۔
(۲؎القرآن الکریم ۳۱/ ۲۵) (۳؎ القرآن الکریم ۴۳/ ۲۰ ) (۴؎ القرآن الکریم ۵۳/ ۲۳)
یونہی اپنی اندھی اٹکل سے ایک سب سے بڑی ہستی خیال کرکے اس کا نام اﷲ رکھ لیا ہے حالانکہ وہ اﷲ نہیں کہ جس صفات کی اسے بتاتے ہیں اﷲ عزوجل ان سے بہت بلند وبالا ہے،
رہایہ کہ یہاں اکثر سے نفی علم فرمائی اقول اولاً دفع شبہہ کو اتنا ہی کافی کہ آخر یہ ان کے اکثر سے نفی ہے جو اقرار کرتے تھے کہ آسمان وزمین کا خالق اﷲ ہی ہے، معلوم ہوا کہ ان کا اقرارباﷲ منافی جہل باﷲ نہیں اور ہمارے سالبہ کلیہ کی نفی نہ فرمائے گا کہ یہ مفہوم لقب سے استدلال ہوا اور وہ صحیح نہیں اکثر سے نفی سلب جزئی ہوئی اور سلب جزئی کلی کو لازم ہے نہ کہ اس کا منافی۔
ثانیاً ایسی جگہ اکثر پر حکم فرمانا قرآن عظیم کی سنت کریمہ ہے حالانکہ وہ احکام یقینا سب کفار پر ہیں
اوکلما عٰھدواعھدانبذہ فریق منھم بل اکثرھم لایؤمنونo۵؎فان اکثر کم فسقون۶؎oولٰکن الذین کفروایفترون علی اﷲ الکذب واکثرھم لایعقلون۷؎oولکن اکثرھم یجھلون۸؎oیرضونکم بافواھھم وتأبی قلوبھم واکثرھم فسقون۹؎oیعرفون نعمۃ اﷲثم ینکرونھا واکثرھم الکفرون۱۰؎o
کافروں کو فرمایا ان میں اکثر ایمان نہیں رکھتے، ان کے اکثر فاسق ہیں، ان کے اکثر بے عقل ہیں، ان کے اکثر جاہل ہیں، ان کے اکثر کافر ہیں، حالانکہ وہ سب ایسے ہی ہیں۔
(۵؎ القرآن الکریم ۲/ ۱۰۰ ) (۶؎ القرآن الکریم ۵/ ۵۹) (۷؎ القرآن الکریم ۵/ ۱۰۳)
(۸؎ القرآن الکریم ۶/ ۳۷) (۹؎ القرآن الکریم ۹/ ۸) (۱۰؎ القرآن الکریم ۱۶/ ۸۳)
یونہی یہاں فرمایا کہ ان کے اکثر نہیں جانتے حالانکہ ان میں کوئی بھی نہیں جانتا یہاں تک کہ شیاطین کے بارے میں فرمایا
یلقون السمع واکثرھم کٰذبون۱؎
ان میں اکثر جھوٹے ہیں حالانکہ یقینا وہ سب جھوٹے ہیں اور ان کے سوااور آیاتِ کثیرہ،
(۱؎ القرآن الکریم ۲۶/ ۲۲۳)
اب یا تو یہ کہ اکثر سے کل مراد ہے جیسے کبھی کل سے اکثر مراد ہوتا ہے کریمہ "ومایتبع اکثرھم الاظنا" کے تحت میں مدارک التنزیل میں ہے:المراد بالاکثر الجمیع۲؎اکثر سے مراد کل ہے۔ت)
(۳؎ معالم التزیل علی ہامش الخازن سورۃ یونس آیۃومایتبع اکثرھم الاظناکے تحت مصطفی البابی مصر ۱/ ۱۸۹)
شہاب علی البیضاوی میں ہے:
یعنی ان الاکثر یستعمل بمعنی الجمیع کما یرد القلیل بمعنی العدم،وحمل النقیض علی النقیض حسن وطریقۃ مسلوکۃ۴؎اھ
یعنی اکثر بمعنی کل ہے جیسے قلیل بمعنی معدوم استعمال ہوتا ہے اور ایک نقیض کی مراد پر دوسری نقیض کو مراد لینا اچھا اور مروج طریقہ ہے اھ
(۴؎ حاشیۃ الشہاب علی البیضاوی سورۃ یونس آیۃومایتبع اکثرھم الاظناکے تحت دارصادر بیروت ۵/ ۲۸)
اقول لکن لاشک ان منھم من لایتبع ظناولاوھما ولاادنی شبھۃ انما یتبع ھوی نفسہ عناداواستکبارا یعرفونہ کمایعرفون ابناء ھم۵؎، فلما جاء ھم ماعرفواکفر وابہ فلعنۃ اﷲ علی الکفرینo۶؎وجحدوابھا واستیقنتھا انفسھم ظلماوعلوا ۱؎،
وقد سلفت الاٰیۃ یعرفون نعمۃ اﷲ ثم ینکرونھا، نعمۃ اﷲ محمد صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم۲؎قالہ ابن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما۔
میں کہتا ہوں، لیکن اس میں شک نہیں کہ ان کے بعض ظن اور وہم اور کسی ادنٰی شبہ میں متبلا نہیں وہ تو قطعاً عناد اور تکبر کی بنا پر نفسانی خواہش کے پیروکار ہیں (جس کو قرآن میں ہم نے یوں بیان فرمایا) نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو وہ خوب جانتے ہیں جیسے وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں(اور فرمایا) جب انکی پہچان کے مطابق وہ تشریف لائے تو انہوں نے اس کا انکار کردیا تو کافروں پر اﷲ تعالٰی کی لعنت ہے(نیز فرمایا) انہوں نے ان کاانکار کردیا باوجود یکہ دلی طور پروہ یقینی سمجھتے تھے یہ انکار ظلم اور تکبر کی بناء پر کیا۔ پہلے آیہ کریمہ گزری کہ اﷲ تعالٰی کی نعمت کو پہچانتے ہیں اور پھر اس کا انکار کردیتے ہیں، ابن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما کے قول کے مطابق نعمۃ اﷲ سے مراد محمد صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ہیں(ت)
(۵؎ القرآن الکریم ۲ /۱۴۲و۶/ ۲۰) (۶؎ القرآن الکریم ۲ /۸۹) (۱؎ القرآن الکریم ۲۷/ ۱۴)
(۲؎ الجامع لاحکام القرآن بحوالہ السدی داراحیاء التراث العربی بیروت ۱۰/ ۱۶۱)
اقول(میں کہتا ہوں۔ت) یا یہ کہ ان میں سے جو علمِ الٰہی میں ایمان لانے والے ہیں ان کا استثناء فرمایا جاتا ہے۔
وھو مسلک حسن نفیس ذھب الیہ خاطری بحمد اﷲ تعالٰی اول وھلۃ ثم رأیت العلامۃ ابالسعود اشار الیہ فی''ارشاد العقل السلیم''حیث قال تخصیص اکثرھم للتلویح بما سیکون من بعضھم من اتباع الحق والتوبۃ۳؎۔
یہ نفیس اور خوب مسلک ہے، ابتداءً ہی میرا دل اس کی طرف مائل ہوا، پھر میں نے علامہ ابوالسعود کو ''ارشاد العقل السلیم'' میں اس کی طرف اشارۃ کرتے ہوئے پایا جہاں انہوں نے فرمایا کہ خصوصیت سے اکثر کفار کاذکر اس لئے کہ ان میں سے بعض حق کی اتباع اور توبہ کو پالیں گے(ت)
(۳؎ ارشاد العقل السلیم سورہ یونس آیۃ ومایتبع اکثر ہم الاظنا داراحیاء التراث العربی بیروت۴/ ۱۴۵)