Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۵(کتاب السیر)
101 - 150
 (۴) امکان کذب کا اب ذکر فضول ہے گنگوہی اور ان کے اتباع صراحۃً وقوعِ کذب لکھ چکے اس کی تفصیل کشفِ ضلالِ دیوبند میں ص۹۱سے ص۹۴تک دیکھئے۔
 (۵) وصف کریم رحمۃ للعالمین مسلمانوں کے نزدیک تو ضرور خاصہ رحمتِ عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم، مگر گنگوہی صاحب اسے کیونکر مانتے کہ اس سے نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا مثل محال ہوجاتا کہ آیہ کریمہ
وماارسلنٰک الا رحمۃ للعٰلمین
 (اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت تمام جہانوں کیلئے۔ت)
 (۱؎ القرآن الکریم ۱۲/ ۱۰۷)
تمام ماسوااﷲ کو حضور کی رسالت عام کررہی ہے، سب ماسوا اﷲ حضور کے امتی ہیں اور امتی کا مثل نبی ہونا بداہۃً محال، لہذا عالمین کے عموم قطعی کو رد کرکے اس وصف کریم کو گلی گلی کے ملوں میں متبذل کردیا۔
 (۶) اس کی نسبت اوپر گزرا کہ کفر قطعی ہے مگر گنگوہی صاحب سے اس کی شکایت نہ چاہئے ہر شخص اپنے بڑے کی بڑائی چاہتا ہے۔
 (۷) مجلس میلاد مبارک کی نسبت جو مبشرات علمائے کرام وصلحائے عظام نے دیکھے کہ حضور اقدس 

صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اس عمل مبارک سے شاد ہیں۔
اور فرماتے ہیں صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم: "من فرح بنافرحنابہ" جوہماری خوشی کرتا ہے ہم اس سے خوش ہوتے ہیں۔ یونہی ولی اﷲ صاحب کے والد شاہ عبدالرحیم صاحب نے حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو اپنی نیاز سالانہ پر شادوفرحاں دیکھا، ان خوابوں کے جواب میں ان کے متکلمین کہتے ہیں کہ خواب کا کیا اعتبار، یہاں تک کہ عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما کی خواب مروی صحیح بخاری شریف کہ شادی ولادتِ اقدس پر ابولہب ملعون پر روز دوشنبہ قدرے تخفیف ہوتی ہے، اسے بھی مہمل بتاتے اور یہ شعر گاتے ہیں۔
چو غلام آفتابم ہمہ زآفتاب گویم    نہ شبنم نہ شب پرستم کہ حدیث خواب گویم
 (جب میں آفتاب کاغلام ہوں تو میں یہ کہتا ہوں کہ سب کچھ آفتاب سے ہے، میں شبنم و شب پرست نہیں کہ خواب کی بات کروں۔ت)
سبحان اﷲ! غلام محمد وغلام نبی شرک، اور غلامِ آفتاب ہونے کا خود اقرار، اس کا ترجمہ عربی میں عبدِ شمس اور ہندی میں سورج داس ہی ہوا یا کچھ اور، وہاں تو خوابوں کی یہ کیفیت اور اپنے سے استاذی  نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا فخر ثابت کرنے کےلئے ایک جعلی خواب سے تمسک، مگر ہونا ضرور تھا
لترکبن طبقا عن طبقo۳؎
 (ضرور تم منزل بمنزل چڑھوگے۔ت)، ان کے اگلوں نے رسول اﷲصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو کیا کہا تھا پڑھایا ہوا دیوانہ، انہوں نے پڑھائے کی تصدیق اس خواب سے کی اور دیوانہ کی تکمیل تھانوی صاحب نے خفض الایمان کہ''ان کا ساعلم غیب ہر مجنون کو ہے۵؎
"قالوامعلم مجنون"۴؎''وسیعلم الذین ظلمواای منقلب ینقلبون۶؎
 (عنقریب جان لیں گے ظالم کہ کس کروٹ پر پلٹا کھائیں گے۔ت)
 (۳؎ القرآن الکریم    ۸۴/ ۱۹)		(۴؎القرآن الکریم    ۴۴/ ۱۴)

(۵؎ حفظ الایمان مع بسط البنان     کتب خانہ اعزازیہ دیوبند  ضلع سہارن پور     ص۸)

(۶؎ القرآن الکریم ۲۶/ ۲۲۷)
 (۸) وہ مجلس مبارک جنم کنھیا سے تشبیہ کیوں نہ دیں جو قرآن عظیم کو ویداشلوک سے تشبیہ دے چکے ہیں دیکھو براہین قاطعہ ص۷۹۔
 (۹ و ۱۰) نفسِ میلاد وعرس سے انکار کا کیا گلہ جب کہ انہیں نفسِ انبیاء واولیاء اور خود حضور سید الانبیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام سے صاف انکار ہے اور ان کا ماننا نرا خبط ٹھہراتے ہیں۔ ان کے قرآن بلکہ ان کے نزدیک قرآن سے اعظم تقویت الایمان مطبع صدیقی دہلی ۲۱۷۰ھ ص۲۱میں ہے: اﷲ کے سوا کسی کو نہ مان۱؎۔''
 (۱؎ تقویۃ الایمان  الفصل الاول فی الاجتناب عن الاشراک  مطبع علیمی لوہاری دروازہ لاہور ص۱۲)
ص۸:''اوروں کا ماننا محض خبط ہے''۲؎۔
 (۲؎تقویۃ الایمان  مقدمہ کتاب  مطبع علیمی لوہاری دروازہ لاہور ص۵)
ص۱۹:''اﷲ صاحب نے فرمایا میرے سوانہ مانیو۔۳؎''۔
 (۳؎تقویۃ الایمان   الفصل الاول فی الاجتناب عن الاشراک   مطبع علیمی لوہاری دروازہ لاہور ص۱۲)
ص۱۷:''جتنے پیغمبر آئے سواﷲکی طرف سے یہی حکم لائے ہیں کہ اﷲ کو مانے اور اس کے سواکسی کو نہ مانے۴؎''۔
 (۴؎تقویۃ الایمان  الفصل الاول فی الاجتناب عن الاشراک   مطبع علیمی لوہاری دروازہ لاہور ص ص۱۰)
 (۱۱) ایصال ثواب کے طریقوں کو بدعت سیئہ وحرام کیوں نہ کہیں ؎ 

جگ بیتی سے کیا مطلب ہے     اپنی بیتی سناتے یہ ہیں

ان کی میت کو ثواب پہنچنا محال کہ
مالہ فی الاٰخرۃ من خلاق۵؎
 (آخرت میں اس کا کچھ حصہ نہیں۔ت)
 (۵؎القرآن الکریم    ۲ /۲۰۰)
ان کے قاری کو ثواب ملنا محال کہ
قد مناالٰی ماعملوامن عمل فجعلنٰہ ھباء منثوراo۶؎
 (جو کچھ انہوں نے کام کئے تھے ہم نے قصد فرماکر انہیں باریک باریک غبار کے بکھرے ہوئے ذرے کردیا یعنی برباد کردیا۔ت)
 (۶؎القرآن الکریم    ۲۵/ ۲۳)
 (۱۲) سالگرہ دو طرح ہوتی ہے، ایک میں کچھ قرآن مجید ودرو دشریف پڑھ کر حضور سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم وسیدنا غوث اعظم وغیرہ اولیائے کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم کی نیاز اور احباب وفقراء کو کچھ تقسیم، گنگوہی صاحب اسے ہرگز جائزنہیں کہہ سکتے کہ اس میں تو دن کی تعیین بھی ہے اور ہر سال کا التزام بھی، اوران کے دشمنوں کی نیاز بھی، اسے جائز کہہ کروہابیت میں کس دین کے رہتے۔ دوسری وہ جوکہ کفاروفجار کرتے ہیں کہ جس میں لہو لعب ناچ رنگ وغیرہا شیطنتیں ہوتی ہیں، گنگوہی صاحب اسے جائز فرماتے ہیں تو ان پر اعتراض بیجا ہے، رہا یہ کہ اس میں بھی تعیین والتزام ہے، ہوا کرے، تعیین تو التزام ہی کے لئے ہوتی ہے اور ان کے یہاں حسنات ہی کا التزام حرام ہے نہ کہ سیئات، بلکہ بسااوقات سیئات کا التزام ان کے یہاں فرض قطعی بلکہ مدارِ ایمان ہے، جیسا ان کے قرآن تقویۃ الایمان سے عیاں ہے۔ص۱۲میں ہے :

''اس کے گھر دور دور سے قصد کرکے سفر کرنا اور راستے میں نامعقول باتیں کرنے سے بچنا یہ کام عبادت کے ہیں جوکسی پیغمبر یا بھوت کو کرے اس پر شرک ثابت ہے۱؎''۔(ملخصاً)
 (۱؎ تقویۃالایمان     مقدمہ کتاب     مطبع علیمی لاہاری دروازہ لاہور ص۷و۸)
تو ثابت ہوا کہ مدینہ طیبہ کے راستے میں نامعقول باتیں کرنا فرض بلکہ مدارِ ایمان ہیں اگر نہ کرے گا مشرک ہوجائیگا، اور نہ ایک مدینہ طیبہ بلکہ سفر حج کے سوا گنگوہ یا دیوبند یا تھا نہ بھون جہاں کہیں جاتے ہوئے بھی نامعقول باتیں اور جنگ وجدال بلکہ فسق وفجور بھی نہ کرے گا مشرک ہوجائے گا کہ آیت نے سب کو ایک نسق میں بیان فرمایا ہے کہ:
فلارفث ولافسوق ولاجدال فی الحج۲؎۔
 (۲؎ القرآن الکریم۲/ ۱۹۷)
تو نہ عورتوں کے سامنے صحبت کا تذکرہ ہو، نہ کوئی گناہ، نہ کسی سے جھگڑا حج کے وقت(ت)
Flag Counter