Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۵(کتاب السیر)
100 - 150
تحریر(اصل میں) فہرست عقائد دیوبندیان مرتبہ مولوی رکن الدین صاحب الوری پیش کردہ مولوی حاکم علی صاحب پروفیسر اسلامیہ کالج لاہور غرہ ربیع الاول ۱۳۳۹ھ



بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم

الحمدﷲ وکفی سلام علی عبادہ الذین اصطفی لاسیما علی حبیبہ المصطفی
فہرست نظر سے گزری جزی اﷲ من حررہ ووصف بہ وقدرہ حضرات کفر سمات گنگوہ ونانوتہ وانبٹھہ وتھانہ بھون وسائر وہابیہ(اخذھم اﷲ تعالٰی اخذۃ الرابیہ) کے کفر وضلال حد شمار سے خارج ہیں جسے انموذج وافرووافی پر اطلاع منظور ہو فقیر کاقصیدہ الاستمداد علٰی اجھال الاتداداس کی شرح کشف ضلال دیوبند مطالعہ فرمائے جس میں بحوالہ کتب وصفحات ان کے دو سو تیس اقوال کفر وضلال ہیں یہ پندرہ سولہ کہ یہاں شمار ہوئے بلکہ ان میں سے صرف دو ایک ''علم شیطان کا علم نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے زائد ہونا۱؎'' کہ براہین قاطعہ گنگوہی میں ہے،
 (۱؎ براہین قاطعہ     بحث علم غیب     مطبع لے بلاسا واقع ڈھور     ص۵۱)
دوسرا''حضور کا سالم علم غیب ہر پاگل ہر چوپایہ ہر جانور کوحاصل ہونا۲؎کہ خفض الایمان تھانوی میں ہے''۔ ہر مسلمان کے سمجھنے کو یہی بس ہیں۔
(۲؎ حفظ الایمان مع بسط البنان کتب خانہ اعزازیہ دیوبند سہانپور     ص۸)
یہ دونوں کفر قطعی وارتداد یقینی ہیں، ان پر علمائے حرمین شریفین نے بحوالہ شفا شریف وبزازیہ ومجمع الانہرودرمختار وغیرہا حکم فرمایا کہ:
من شک فی کفرہ وعذابہ فقد کفر۳؎۔
ان قائلوں کے کافر ہونے میں جوشک کرے وہ بھی کافر۔
(۳؎ حسام الحرمین     مکتبہ نبویہ،لاہور    ص۱۳)
 (۱) ابن عبدالوہاب نجدی کے کفر عام آشکار ہیں، اکابر عرب وعجم نے دفتر کے دفتر اس کی تکفیر وتضلیل میں تصنیف فرمائے۔ وہ روضہ انور کو صنمِ اکبر کہتا اور چھ سو برس کے تمام ائمہ واکابر کو کافر اکفر۔ اور کچھ نہ ہوتا تو یہی اس کے کفر کو کیا کم تھا کہ حضور سید المرسلین صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم وامیر المومنین مولا علی کرم اﷲ تعالٰی وجہہ وسیدنا غوث اعظم رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے خالی اسماء طیبہ بلاتعظیم لکھ کر کہا کہ یہ سب جہنم کی راہیں ہیں۔
الالعنۃ اﷲ علی الظٰلمین(خبردار ظالموں پر اﷲ تعالٰی کی لعنت ہے۔ت) گنگوہی صاحب اسے اچھا اور اس کے عقائد کو عمدہ کیوں نہ بتائیں کہ وہ ان کے دشمن محمد رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو سخت گالیاں دینے والاتھا۔ طرفہ یہ کہ گنگوہی صاحب کو اس پر ایمان بالغیب ہے،

 ان کے فتاوٰی حصہ اول ص۶۴میں ہے:''محمد بن عبدالوہاب کے عقائد کاحال مجھ کو معلوم نہیں۴؎''۔
 (۴؎ فتاوٰی رشیدیہ     کتاب الایمان والکفر     قرآن محل کراچی ص۴۴)
پھر بھی ص۸پر لکھتے ہیں : ''محمد بن عبدالوہاب کے عقائد عمدہ تھے وہ اوران کے مقتدی اچھے ہیں۵؎''۔

(

۵؎فتاوٰی رشیدیہ   مسائل مشورہ         قرآن محل کراچی     ص ۲۳۵)

ی
 (۵؎فتاوٰی رشیدیہ   مسائل مشورہ         قرآن محل کراچی     ص ۲۳۵)
یعنی اتنا اجمالاً معلوم تھا کہ وہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم کو سخت گالیاں دیتا، بس اتنا ہی اس کے اچھےاور اس کے عقائد عمدہ ہونے کےلئے کافی ہے، زیادہ تحقیقات کی کیا حاجت ہے دیگ سے ایک ہی چاول دیکھ لینا بس ہے۔
 (۲) قول دوم میں وبابیہ غیر مقلدین کے ساتھ عقائد میں اپنا اتحاد اور اعمال میں خلاف بتایا پہلا جملہ ضرور صحیح ہے بیشک وہابیہ مقلدین وغیر مقلدین یقینا تمام عقائد کفر وضلال میں متحد ہیں اور اگر کچھ اختلاف ہوتا تو نہ ہوتا کہ "الکفر ملۃ واحدۃ"،عجب کہ گنگوہی صاحب جو اپنے رب کو کاذب مانتے ہیں،خود یہاں سچ بول گئے مگر الکذاب قد یصدق(بہت بڑا جھوٹا کبھی کبھار سچ بول دیتا ہے۔ت) دوسرا جملہ کہ اعمال میں اختلاف ہے جھوٹ ہے صوری اختلاف ہو معنوی کچھ نہیں کہ براہین قاطعہ ص۱۳۷ میں صاف لکھا ہے کہ؛

''مختلف فیہ مسئلہ تو یوں بھی بلاضرورت جائز ہوجاتا ہے۱؎''۔
 (۱؎ البراہین القاطعۃ     تحقیق مسئلہ اجرۃ تعلیم القرآن الخ    مطبع لے بلاسا واقع     ڈھورہ ص۱۳۷)
اور فتاوٰی حصہ اول ص۵میں ہے:''حدیث پر عمل کرنا لوجہ اﷲ تعالٰی اچھا ہے۲؎''ْ
 (۲؎ فتاوٰی رشیدیہ     کتاب التقلید والجہاد         قرآن محل کراچی     ص۱۷۹)
ص۶پر رفع یدین وآمین بالجہر کرنے والے کو کہا:''تعصب اچھا نہیں وہ بھی عامل بحدیث ہے''۳؎۔
(۳؎فتاوٰی رشیدیہ     کتاب التقلید والجہاد         قرآن محل کراچی     ص ۱۸۰)
بلکہ کہا: ''اگرچہ نفسانیت سے کرتا ہے مگر فعل توفی حد ذاتہ درست ہے''۴؎۔
 (۴؎فتاوٰی رشیدیہ     کتاب التقلید والجہاد         قرآن محل کراچی     ص ۱۸۰)
صفحہ ۵پرتھا:''سب حدیث پر ہی عامل ہیں مقلد ہویا غیرمقلد۵؎''۔
 (۵؎فتاوٰی رشیدیہ     کتاب التقلید والجہاد         قرآن محل کراچی     ص ۱۷۹ )
 (۳) ترکِ تقلید کا بیج ہندوستان میں اسمٰعیل دہلوی نے بویا جیسا کہ ا س کی تقویۃ الایمان اور تنویر العینین سے ظاہر ہے۔ گنگوہی صاحب کا اس پر ایمان قرآن عظیم پر ایمان سے بہت زائد ہے۔ 

فتاوٰی حصہ اول ص۱۲۲میں کہتے ہیں:''اس کا رکھنا اور پڑھنااور عمل کرنا عین اسلام ہے''۶؎
 (۶؎فتاوٰی رشیدیہ    کتاب الایمان والکفر         قرآن محل کراچی     ص ۴۱)
ہرشخص جانتا ہے کہ عین کی نفی ضد کا ثبوت ہے، جب تقویۃ الایمان کاپڑھنا عین اسلام ہے تو نہ پڑھنا قطعاً کفر ہے، حالانکہ کروڑوں مسلمان ہیں جو قرآن عظیم پڑھے ہوئے نہیں وہ کافر نہ ہوئے  جب تقویۃ الایمان کارکھنا عین اسلام ہے تونہ رکھنا کفر ہے، حالانکہ کروڑوں مسلمانوں کے پاس قرآن نہیں ہوتا وہ کافرنہ ہوئے لیکن تفویۃ الایمان وہابیہ ضرور پاخانہ میں لیجاتے ہوں گے کہ جس وقت نہ رکھی عین اسلام سے چھٹے اور کافر ہوئے غالباً گنگوہی صاحب کی قبر میں بھی رکھ دی گئی ہوگی کہ مر کر تو کافر نہ ہوں۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ انہیں مٹی میں ملے پندرہ سال سے زائد ہوئے کتاب بھی گل گئی ہوگی، جب رسول اﷲ صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم کے دشمن ان کے نزدیک مرکر مٹی میں مل گئے تو وہ ناپاک کتاب کیارہی ہوگی، بہر حال گنگوہی صاحب اب تو اپنے حکم سے بھی کافر ہوئے ہونگے۔ خیر، کہنا یہ ہے کہ جب ایک ایسی کتاب نے غیر مقلدی بوئی تو گنگوہی صاحب اس کی اجازت کیوں نہ دیں ثابت ہوا کہ ان کے نزدیک مقلدین ائمہ معاذ اﷲکفار تھے اور ہیں کہ تقلید کرکے تفویۃ الایمان کا خلاف کیا اور اس پر عمل عین اسلام تھا تو ضرور کافر ہوئے، اور اگر کہئے کہ یوں تو گنگوہی ونانوتوی وتھانوی و دیوبندی صاحبان سب کفار ٹھہرینگے کہ ظاہراً ان سب کا عمل تقلید پر ہے تو گنگوہی صاحب تقیہ کا حکم دے کر اس کا علاج کر گئے ہیں وہ کہہ دیں گے کہ ہمارا اور ان کا تقلید پر عمل تقیۃً ہے تو صورۃً کافرہوئے دل میں تو کفر نہیں غیر مقلدی بھری ہے۔
Flag Counter