فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۵(کتاب السیر) |
مسئلہ ۱: از شہر مسئولہ محمد خلیل الدین احمد صاحب ۱۶ محرم ۱۳۳۹ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین ا س مسئلہ میں کہ زید نے کہا کہ ایک ہندی مہاجر مدنی کی اہلیہ افغانی النسل مدنی بی بی صاحبہ ہندوستان تشریف لائی ہیں ، وہ تعزیوں وغیرہ کے حالات سن کر فرماتی ہیں کہ ہندیوں نے یہ اسلامی بت بنائے ہیں ، ا س کو سن کر خالد نے نہایت غضبناک ہوکر کہا تعزیوں کو بت کہنے والا خودکافرہے اگرچہ عالم ہو۔
الجواب تعزئےناجائز ضرور ہیں مگر ان کو بت کہنا زیادت وغلو ہے، مسلمان ان کی پرستش نہیں کرتے، اورجس نے وہ کلمہ کہا کہ ''بت کہنے والا خود کافرہے اگر چہ عالم ہو'' اس نے اس سے بھی ہزار درجے بدتر کہی سخت سزا کا مستحق ہے بلکہ توہین علماء کے سبب اس پر تجدید اسلام ونکاح لازم ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۲: از شہر مسئولہ محمد خلیل الدین احمد صاحب ۱۶ محرم ۱۳۳۹ھ کیا فرماتے ہیں علمائے اسلام اس مسئلہ میں کہ عمرو نے کہا تفضیلیہ کے پیچھے ہم نماز نہیں پڑھیں گے، بکر یہ سن طیش میں آگیا اور کہا ہم تو تفضیلیہ ہیں ہم کو دوسروں (غیر تفضیلیہ) سے کیا مطلب اگر وہ دوخدا کہیں تو ہم نہیں مانتے اگر وہ گوہ کھائیں تو ہم نہیں کھاسکتے، اسطرح عالم اہل سنت وجماعت پر کنایۃ تبرا کہا اوریہ بھی کہا کہ ہم خارجی کونماز نہیں پڑھانے دیں گے، (مسجد کا امام ایک سید اہلسنت وجماعت ہے) اس طرح اہلسنت وجماعت کو خارجی کہا،
الجواب تفضیلیہ گمراہ ہیں اور علماء کی توہین راہ جہنم ہے اور اہلسنت کوخارجی کہنا رافضیوں کا شعارہے،واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۳تا۷: ازشہر کہنہ محلہ کوٹ مسئولہ عنایت اللہ خاں یکم صفر ۱۳۳۹ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ (۱)جو شخص کہے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو علم غیب نہ تھا اور(۲) معراج جسمانی نہ ہوئی اور(۳) جملہ شہداء واولیاء اللہ وبزرگان دین کی نیاز ونذر کرنا حرام اور(۴) ان سے بذریعہ دعاامداد طلب کرنا شرک ہے، پس وہ(۵) شخص ونیز اس کے پیرو قابل امام ہیں یا نہیں ؟ اور و ہ کس فرقہ سے ہیں؟ اور مسئلہ مندرجہ بالا کون سی بات جائز وناجائزہے؟ اور حضرت کوعلم غیب تھا یا نہ؟ اور معراج جسمانی ہوئی یا نہ؟
الجواب (۱)اللہ عزوجل نے روز اول سے روز اخر تک جوکچھ ہوا اور جو کچھ ہے اور جو کچھ ہونے ولا ہے ایک ایک ذرہ کاتفصیل علم اپنے حبیب اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو عطافرمایا، ہزار تاریکیوں میں جو ذرہ یا ریگ کادانہ پڑاہے حضو ر کا علم ا س کو محیط ہے، اورفقط علم ہی نہیں بلکہ تمام دنیا بھر اور جو کچھ ا س میں تا قیامت تک ہونے والا ہے سب کو ایسا دیکھ رہے ہیں جیسا اپنی اس ہتھیلی کو۔ آسمانوں اور زمینوں میں کوئی ذرہ ان کی نگاہ سے مخفی نہیں بلکہ یہ جو کچھ مذکورہے ان کے علم کے سمندروں میں سے ایک چھوٹی سی نہرہے، اپنی تمام امت کو اس سے زیادہ پہچانتے ہیں جیسا آدمی اپنے پاس بیٹھنے والوں کو ، اور فقط پہچانتے ہی نہیں بلکہ ان کے ایک ایک عمل ایک ایک حرکت کو دیکھ رہے ہیں ۔ دلوں میں جو خطرہ گزرتا ہے اس سے آگاہ ہیں ، اور پھرا ن کے علم کے وہ تمام سمندر اور جمیع علوم اولین وآخرین مل کر ہم علم الٰہی سے وہ نسبت نہیں رکھتے جوایک ذرا سے قطرہ کو کر وڑ سمندروں سے ، وما قدرو اﷲ حق قدرہ ۱؎ ظالموں نے اللہ ہی کی قدرنہ پہچانی کہ جو کچھ ہو گزرااور قیامت تک ہونے ہونے والاہے اس کا علم اس کی عطاسے اس کے محبوب کے لئے مانا اورکہہ دیا کہ یہ تو خدا سے برابری ہوگئی مشرک ہوگیا۔ بے ادبو! کیا خدا کا علم اتنا ہی ذرا ساہے کہ دو حدوں میں محدود ہے، یہ تو نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اپنے صدقہ میں اپنے غلاموں کو عطا فرماتے ہیں ، یہ سب آیات کریمہ واحادیث صحیحہ واقوال ائمہ وعلماء واولیاء سے ثابت جن کی تفصیل ہماری کتابوں
" الدولہ المکیہ وانباء المصطفی وخالص الاعتقاد"
وغیرہ میں ہے،
(۱؎ القرآن الکریم ۶ /۹۱)
(۲) معراج شریف یقینا قطعا اسی جسم مبارک کے ساتھ ہوا نہ کہ فقط روحانی جوا ن کے عطاسے ان کے غلاموں کو بھی ہوتاہے، اللہ عزوجل فرماتا ہے:
سبحن الذی اسرٰی بعبدہ ۲؎
پاکی ہے اسے جو رات میں لے گیا اپنے بندہ کو، یہ نہ فرمایا کہ لے گیا اپنے بندہ کی روح کو۔
(۲؎ القرآن الکریم ۱۷/ ۱)
(۳)نیاز نذر کرنا جائزہے،
(۴)اوراولیاء سے طلب دعا مستحب ہے۔
اور(۵) یہاں ان مسائل میں کلام کرنے والے نہیں مگر وہابی، اور وہابی مرتد ہیں اور مرتد کے پیچھے نماز باطل محض جیسے گنگاپر شاد کے پیچھے ، واللہ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۸: از ایم ، اے ،او ، کالج علی گڈھ نمبر ۷ مارلیس کور ٹ مسئولہ مقصود علی صاحب ۲۰ صفر ۱۳۳۹ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ۱۱ اکتوبر کو مولانا شوکت علی ومحمدعلی صاحب علی گڑھ تشریف لائے اور انھوں نے ہم طالب علموں کو یہ سمجھایا کہ گورنمنٹ مسلمانوں کی دشمن ہے اورچاہتی ہے کہ جزیرۃ العرب ومقامات مقدسہ پر اگر اپنی حکومت نہیں تو کم سے کم اثر رکھیں ، تو اس حالت میں ہم لوگوں کو کیا کرنا چاہئے، انھوں نے یہ بتایا کہ خلافت کمیٹی نے یہ طریقہ بتایا ہے کہ اس وقت گورنمنٹ سے ہم مسلمانان قطع تعلق کرلیں اور کالج کے طاطب علموں کو یہ بتایا کہ چونکہ کالج میں گورنمنٹ روپیہ دیتی ہے اور اس سے کالج کا تعلق ہے تو ہم طالب علم کالج چھوڑ دیں ، توکیا یہ اس قت ہم لوگوں کا مذہبی فرض ہے کیا ا س کی عدول حکمی سے کفر عائد ہوتاہے یا نہیں ؟ بینوا توجروا
الجواب کالج اور اس کی تعلیم میں جس قدر بات خلاف شریعت ہے اس سے بچنا ہمیشہ فرض تھا اور ہے جہاں تک مخالفت شرع نہ ہو اس سے بچنا کھبی بھی فرض نہیں ۔ واللہ تعالٰی تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۹: از خیرو پور ٹامے والی ریاست بہاولپوری مسئولہ مولوی عبدالرحیم خانقاہی ۲ صفر ۱۳۳۹ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید بیانی ہے کہ مجھے فیصلہ شرح محمدی کا منظور وقبول نہیں ہے بلکہ رواج وقانون منظورہے، یہ سخن بالادریغ عوام الناس میں کہہ دیا ہے عند الشریعۃ اس کے ساتھ یعنی زید کے ساتھ شریعت مبارک کا کیا ارشاد ہے؟ صاف خوشخط استفتاء پر جواب فرماویں ، اُجرت جواب پر دی جائے گی۔
الجواب یہاں فتوٰی پر کوئی اجرت نہیں لی جاتی نہ پہلے نہ بعد، نہ اپنے لئے نہ اسے روا رکھا جاتاہے، بیان مذکور ہ سوال اگر واقعی ہے تو زید پر تجدید اسلام واجب ہے توبہ کرے، اور از سرنو کلمہ اسلام پڑھے، اس کے بعد اپنی عورت سے نکاح جدید کرے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔