فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۴(کتاب السیر) |
فالمولٰی سبحٰنہ وتعالٰی اعلم بمذاھبھم واعلم بما یشرع من الاحکام فلہ الحکم ولہ الحجۃ السامیۃ لاالٰہ الاھو سبحٰنہ وتعالٰی عما یشرکون۱؎حتی ترقتی بعض المشائخ فجوز نکاح الصائبات ایضًا ان کن یدن بکتاب منزل ویؤمن بنبی مرسل وان عبدن الکواکب وصرح انھا لاتخرجھم عن الکتابیۃ وھو الذی یعطیہ ظاہرکلام الامام المحقق برھان الملۃ والدین المرغینانی فی الھدایۃ حیث رتب عدم حل النکاح علی امرین عبادۃ الکواکب وعدم الکتاب وتبعہ العلامۃ ابوعبداﷲ محمد بن عبداﷲ الغزی فی التنویر فقال لاعبادۃ کوکب لاکتاب لھا۲؎ فاشار بمفھوم المخالف الی انھا ان کان لھا کتاب حل نکاحھا مع عبادتھا الکواکب،
تو اﷲ سبحانہ وتعالٰی ان کے مذاہب کو بہتر جانتا ہے اور احکام کی مشروعیت کو بہتر جانتا ہے، تو حکم اسی کا ہے اوربلند وبالا حجت اسی کی ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور جس کو انہوں نے شریک بنایا اﷲ تعالٰی اس سے بلند وبالا ہے اور بعض مشائخ نے اسی پر ترقی کرتے ہوئے صابی عورتوں سے نکاح کو بھی جائز قرار دیا بشرطیکہ وہ کسی دین کی آسمانی کتاب اور کسی نبی پر ایمان رکھتی ہوں اگرچہ وہ ستاروں کی پجاری ہوں اور انہوں نے یہ تصریح کی ہے کہ ستاروں کی پوجا ان کو کتابیہ ہونے سے خارج نہیں کرتی ، یہ وہ نظریہ ہے جو امام محقق برہان الملت والدین مرغینانی کی کتاب ہدایہ کے ظاہر کلا م سے ملتا ہے، جہاں انہوں نے نکاح کے عدمِ جواز کو دوچیزوں پر مرتب کیا ایک ستاروں کی پوجا اور دوسری کتاب کا نہ ہونا، اور اس کی علامہ ابوعبداﷲ محمد بن عبداﷲ غزی نے تنویر میں اتباع کرتے ہوئے فرمایا کہ ستاروں کی پوجا نہ کرتی ہو اور اس کی کتاب بھی نہ ہو۔ تو اس عبارت کے مفہوم مخالف سے یہ اشارہ دیا کہ اگر اس کی کتاب ہو تو نکاح جائز ہے اگرچہ وہ ستاروں کی پوجا کرتی ہو۔
(۱؎ القرآن الکریم ۹/ ۳۱) (۲؎ درمختار شرح تنویر الابصار کتاب النکاح مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۱۸۹)
فان قلت الیس قد تکلم فیہ المولٰی زین بن نجیم فی البحر فقال الصحیح انھم ان کانوا یعبد ونھا یعنی الکواکب حقیقۃ فلیسوا اھل الکتاب وان کانوایعظمونھا کتعظیم المسلمین للکعبۃ فھم اھل الکتاب کذافی المجتبٰی۱؎انتہی فیستفاد منہ ان الصحیح مباینۃ الکتابیۃ لعبادۃ غیراﷲ سبحانہ وتعالٰی فلایجتمعان ابداوحِ یتجہ مامال الیہ کثیر من المشائخ فی حق اولٰئک الیھود والنصارٰی انھم مشرکون حقاحتی قیل ان علیہ الفتوی قلت وباﷲ التوفیق ھٰھنا فرق دقیق ھوان قضیۃالعقل ھی المباینۃ القطعیۃ بین الکتابیۃ وعبادۃ غیراﷲ سبحانہ وتعالٰی فانھا ھی الشرک حقا والکتابی غیر مشرک عند الشرع فکل من رأیناہ یعبد غیرالحق جل وعلا حکمنا علیہ انہ مشرک قطعا وان کان یقر بکتب وانبیاء علیھم الصلٰوۃ والسلام ولکنا خالفناہ ھذہ القضیۃ فی الیھود والنصارٰی بحکم النص فانا وجدنا القراٰن العظیم یحکی عنھم مایحکی من العقائد الخبیثۃ ثم یحکم علیھم بان ھم اھل الکتاب ویمیزھم عن المشرکین فوجب التسلیم لورودالنص بخلاف الصابئۃ اذ لم یرد فیھم مثل ذٰلک فلم یجز قیاسھم علٰی ھٰؤلاء ولاالخروج عن قضیۃ العقل فی بابھم،
اگر تیرا اعتراض ہو کہ اس مسئلہ میں مولانا زین نجیم نے کیا گفتگو کرتے ہوئے یہ نہیں فرمایا کہ صحیح بات یہ ہے کہ اگر یہ لوگ حقیقۃً ستاروں کی عبادت کرتے ہوں تو یہ اہل کتاب نہ ہوں گے اور اگر وہ صرف ستاروں کی تعظیم کرتے ہیں جیسا کہ مسلمان کعبہ کی تعظیم کرتے ہیں تو پھر یہ اہل کتاب ہیں، مجتبٰی میں یونہی ہے اھ، تو اس بیان کا مفادیہ ہے کہ کتابیہ اورغیراﷲ کی عبادت والی، ایک دوسرے سے الگ ہیں دونوں کا اجتماع نہیں ہوسکتا تو اب اس سے بہت سے مشائخ کا ان یہود و نصارٰی کے متعلق یہ نظریہ قابل توجہ قرار پایا کہ یہ لوگ حقیقی مشرک ہیں حتی کہ بعض نے اسی پر فتوٰی کا قول کیا ہے۔قلت (میں کہتا ہوں) اﷲ تعالٰی کی توفیق سے، کہ یہاں ایک باریک فرق ہے وہ یہ کہ عقل کا تقاضا یہی ہے کہ کتابیہ اورغیراﷲ کی عبادت کرنے والی عورت ایک دوسرے سے قطعًا جدا ہیں، کیونکہ غیراﷲ کی عبادت قطعاً شرک ہے جبکہ شرعاً کتابیہ غیرمشرک ہے لہذا جس کو بھی غیراﷲ کی عبادت کرنے والا پائیں گے اس کو قطعاً مشرک کہیں گے اگرچہ وہ کتب اور انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کا اقرار کرے لیکن ہم نے اس عقلی کلیہ کا خلاف یہود ونصارٰی میں نص کے حکم پر مانا ہے کہ ہم نے قرآن کو ان کے عقائد خبیثہ کی حکایت کرنے کے باوجود یہ حکم کرتے ہوئے پایا کہ یہ اہل کتاب ہیں، اور یہ کہ قرآن ان میں اور مشرکین میں امتیاز بھی کرتا ہے لہذا نص کے وارد ہونے پر اسکو تسلیم کرنا واجب ہے بخلاف صابیہ عورت کے کہ اس کے متعلق ایسی کوئی نص نہیں ہے اس لئے صابی لوگوں کو ان یہود ونصارٰی پر قیاس نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی ان کے بارے میں عقلی کلیہ کو ترک کیا جائے گا،
(۱؎ بحرالرائق کتاب النکاح فصل فی المحرمات ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۳/ ۱۰۴)
والحاصل ان کتابیۃ القائلین بالبنوۃ والوھیۃ الغیر من الیھود والنصاری واردۃ فیمااحسب علی خلاف القیاس فیقصر علی المورد، وبھذاتبین ان ماقالہ ذٰلک البعض من المشایخ ان عبادۃ الکواکب لاتخرج الصابئۃ عن الکتابیۃ قول مھجور وان کلام الھدایۃ والتنویر غیرمحمول علی ظاھرہ وان الحق مع العلامۃ صاحب البحر فی تصحیحہ اشراکھم ان کانوا یعبدون الکواکب وانہ لاتنا فی بین تصیحیحۃ ھذا وقولہ سابقاً فی اولٰئک الیھود والنصاری ان المذھب الاطلاق وان قالوا بثالث ثلثۃ وبہ ظھران انتصار العلامۃ عمر بن نجیم فی النھر والمولٰی محمد بن عابدین فی ردالمحتار لذلک البعض من المشایخ بان مامرمن حل النصرانیۃ وان اعتقدت المسیح الٰھا یؤید قول بعض المشایخ ۱؎ انتہی مبنی علی الذھول عن ھذاالفرق فاغتنم تحریر ھذاالمقام فقد زلت فیہ اقدام والحمد للہ ولی الانعام۔
خلاصہ یہ کہ یہود ونصارٰی کتابی لوگ جو بنوت کے قائل ہونے کے باوجود غیراﷲ کی الوہیت کے قائل ہیں کو اہل کتاب ماننا میرے خیال میں خلافِ قیاس ہے لہذا یہ حکم اپنے مورد میں ہی محفوظ رہے گا جس پر کسی اور کو قیاس نہیں کیا جاسکتا، اس سے ان بعض مشائخ کا یہ نظریہ کہ ستاروں کی پوجا صابیہ عورت کو کتابیہ سے جدا نہیں کرتی، واضح طور پر متروک قرار پاتا ہے اور یہ بھی واضح ہوگیا کہ ہدایہ اور تنویر کا کلام ظاہری معنٰی پر محمول نہیں ہے، اور صاحب بحر کا کلام حق ہے کہ صابی لوگ اگر ستاروں کی پوجا کرتے ہیں تو وہ مشرک ہیں جس کی انہوں نے تصحیح کی ہے، اس سے یہ بھی واضح ہوا کہ بحر کی اس تصحیح اور اسکے پہلے قول کہ یہود ونصاری کا اہل کتاب ہونا علی الاطلاق مذہب ہے اگرچہ وہ ثالث ثلٰثہ کے قائل ہیں میں منافات نہیں ہے او ر اسی سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ علامہ عمر ابن نجیم کا نہر میں اور علامہ محمد بن عابدین کا ردالمحتار میں مذکور بیان کہ نصرانی عورت اگرچہ مسیح علیہ السلام کوالٰہ ہونے کا عقیدہ رکھے تب بھی اس سے نکاح حلال ہے کو ان بعض مشائخ کی تائید ماننا الخ اس فرق سے ذہول پر مبنی ہے، اس تحریر کو غنیمت سمجھو، کیونکہ اس میں بہت سے قدم پھسلے ہیں، نعمتوں کے مالک اﷲ تعالٰی کے لئے ہی حمد ہے۔(ت)
(۱؎ ردالمحتار فصل فی المحرمات داراحیاء التراث العربی بیروت ۲/ ۲۹۰)
مگر تاہم جبکہ علماء کا اختلاف ہے اوراس قول پر فتوٰی بھی منقول ہوچکا تو احتیاط اسی میں ہے کہ نصارٰی کی نساء وذبائح سے احتراز کرے، اور آج کل بعض یہود بھی ایسے پائے جاتے ہوں جو عزیر علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ابنیت مانیں تو ان کے زن وذبیحہ سے بھی بچنا لازم جانیں کہ ایسی جگہ اختلاف ائمہ میں پڑنا محتاط آدمی کا کام نہیں، اگر فی الواقع یہ یہود و نصارٰی عنداﷲ کتابی ہوئے تاہم ان کی عورتوں سے نکاح اور ان کے ذبیحہ کے تناول میں ہمارے لئے کوئی نفع نہیں، نہ شرعاً ہم پر لازم کیاگیا، نہ بحمد اﷲ ہمیں اس کی ضرورت بلکہ برتقدیر کتابیت بھی علماء تصریح فرماتے ہیں کہ بے ضرورت احتراز چاہئے،
فی الفتح القدیر یجوز تزوج الکتابیات والاولٰی ان لایفعل ولایأکل ذبیحتھم الاللضرورۃ الخ۱؎
فتح القدیر میں ہے کتابیات سے نکاح جائز ہے،اور اولٰی یہ ہے کہ نہ کیا جائے اور نہ ہی ان کاذبیحہ بغیر ضرورت کھایا جائے الخ(ت)
(۱؎ فتح القدیر کتاب النکاح فصل فی بیان المحرمات مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۳/ ۱۳۵)
اور اگر انہیں علماء کا مذہب حق ہو ااوریہ لوگ بوجہ اعتقادوں کے عنداﷲ مشرک ٹھہرے تو پھر زنائے محض ہوگا اور ذبیحہ حرام مطلق والعیاذ باﷲ تعالٰی، توعاقل کاکام نہیں کہ ایسا فعل اختیار کرے جس کی ایک جانب نامحمود ہو اور دوسری جانب حرام قطعی، فقیر غفراﷲ تعالٰی لہ ایسا ہی گمان کرتا تھا یہاں تک کہ بتوفیق الٰہی مجمع الانہر میں اسی مضمون کی تصریح دیکھی،
حیث قال فعلی ھذایلزم علی الحکام فی دیارنا ان یمنعوھم من الذبح لان النصارٰی فی زماننا یصرحون بالابنیۃ قبحھم اﷲ تعالٰی وعدم الضرورۃ متحقق والاحتیاط واجب لان فی حل ذبیحتھم اختلاف العلماء کما بیناہ فالاخذبجانب الحرمۃ اولی عندعدم الضرورۃ ۲؎انتہی، واﷲ تعالٰی سبحٰنہ وتعالٰی اعلم۔
جہاں انہو ں نے فرمایا کہ اس بناء پر ہمارے ملک کے حکام پر لازم ہے کہ وہ لوگوں کو نصارٰی کے ذبیحہ سے منع کریں کیونکہ ہمارے زمانہ کے نصارٰی عیسٰی علیہ السلام کے ابن اﷲ ہونے کی تصریح کرتے ہیں، جبکہ ضرورت بھی متحقق نہیں ہے تو احتیاط واجب ہے کیونکہ ان کے ذبیحہ میں علماء کا اختلاف ہے جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے تو حرمت والی جانب اپنانا بہتر ہے جبکہ ضرورت نہیں ہے اھ، واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم(ت)
(۲؎ مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر کتاب النکاح فصل فی بیان المحرمات داراحیاء التراث العربی بیروت ۱/ ۳۲۸)