فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۴(کتاب السیر) |
مسئلہ۱:از بریلی پرانا شہر محلہ سیلانی مسئولہ مستقیم نداف یکم ذی الحجہ ۱۳۳۸ھ کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید کے تین بیٹے ہیں، ایک مرضِ مرگی میں مبتلا ہے، دوسرا بیٹا جوان گھر سنبھالو، اگر وہ نہ ہوں تو زید اور اس کی اہلیہ دوسروں کے محتاج ہوجائیں کیونکہ ضعیفی کا عالم ہے، بڑا بیٹا بعزمِ ہجرت کابل وداع ہوتا ہے کل کی تاریخ میں، اور اس کی بیوی سال بھر کی بیاہی پورے دن امید کے ہیں، اور اس کو بھی چھوڑے جاتا ہے۔ جو حکم قرآن و حدیث شریف کا ہو اس میں ہر گزانکار نہیں۔
الجواب اس صورت میں کابل کی ہجرت اسے جائز نہیں، حدیث میں ہے:کفی بالمرء اثما ان یضیع من یقوت۔۱؎واﷲتعالٰی اعلم۔ کسی آدمی کے گنہگار ہونے کے لئے اتنا کافی ہے کہ وہ اسے ضائع کردے جس کی روزی اس کے ذمہ تھی۔ واﷲتعالٰی اعلم(ت)
(۱؎ سنن ابوداؤد کتاب الزکوٰۃ آفتاب عالم پریس لاہور ۱/ ۲۳۸) (مسند احمد بن حنبل دارالفکر بیروت ۲/ ۱۶۰،۱۹۴،۱۹۵) (المعجم الکبیر حدیث ۱۳۴۱۵ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۲/ ۳۸۲)
مسئلہ۲:از لاہور محلہ سادھواں مرسلہ میاں تاج الدین خیاط ۱۳ذی الحجہ ۱۳۳۸ھ کیافرماتے ہیں علمائے دین کہ ہجرت کے احکاموں اور شرائط کا استعمال کس صورت میں ہونا چاہئے؟
الجواب: دارالحرب سے دارالاسلام کی طرف ہجرت فرض ہے،
قال اﷲ تعالٰی: ان الذین توفٰھم الملٰئکۃ ظالمی انفسھم قالوافیم کنتم ط قالواکنا مستضعفین فی الارض ط قالواالم تکن ارض اﷲ واسعۃ فتھا جروافیھاط فاولٰئک ماوٰھم جھنم وساءت مصیراo۱؎
اﷲ تعالٰی نے فرمایا: وہ لوگ جن کی جان فرشتے نکالتے ہیں اس حال میں کہ وہ اپنے اوپر ظلم کرتے تھے ان سے فرشتے کہتے ہیں تم کاہے میں تھے کہتے ہیں کہ ہم زمین میں کمزور تھے، کہتے ہیں کہ اﷲ تعالی کی زمین کشادہ نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے،تو ایسوں کا ٹھکانا جہنم ہے اور بہت بری جگہ پلٹنے کی۔(ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۴/ ۹۷)
ہاں اگر حقیقۃً مجبور ہوتو معذور ہے،
قال اﷲ تعالٰی الاالمستضعفین من الرجال والنساء والولدان لایستطیعون حیلۃ ولایھتدون سبیلاoفاولٰئک عسی اﷲ ان یعفو عنھم وکان اﷲ عفواغفوراo۲؎
اﷲ تعالٰی نے فرمایا: مگر وہ جودبالئے گئے مرد اور عورتیں اور بچے جنہیں نہ کوئی تدبیر بن پڑے اورنہ راستہ جانیں، تو قریب ہے اﷲ ایسوں کومعاف فرمائے اور اﷲ معاف فرمانے والا بخشنے والاہے۔(ت)
(۲؎ القرآن الکریم ۴/ ۹۸،۹۹)
اور دارالاسلام سے ہجرت کا حکم نہیں،
قال رسول اﷲصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم لاھجرۃ بعد الفتح۳؎۔
حضور اکرم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: فتح (مکہ) کے بعد ہجرت نہیں۔(ت)
(۳؎ کنز العمال حدیث ۱۵۰۵۴ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت ۶/ ۱۰۹)
ہاں اگر کسی جگہ کسی عذر خاص کے سبب کوئی شخص اقامت فرائض سے مجبور ہوتو اسے اس جگہ کا بدلنا واجب اس مکان میں معذوری ہوتو مکان بدلے، محلہ میں معذوری ہوتو دوسرے محلہ میں چلا جائے، بستی میں معذوری ہو تو دوسرے بستی میں جائے۔
مدارک التنزیل میں ہے:
والاٰیۃ تدل علی ان من لم یتمکن من اقامۃ دینہ فی بلد کما یجب وعلم انہ یتمکن من اقامتہ فی غیرہ حقت علیہ المھاجرۃ وفی الحدیث''من فربدینہ من ارض وان کان شبرامن الارض استوجبت لہ الجنۃ''وکان رفیق ابیہ ابراھیم ونبیہ محمد صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم۱؎۔
یہ آیت مبارکہ اس پر دال ہے کہ جب کوئی شخص کسی شہر میں اقامتِ دین پر اس طرح قادر و متمکن نہیں جیسا کہ لازم ہے اور وہ محسوس کرتا ہے کہ دوسرے شہرمیں اقامت پر قادر ہوجائے گا تو اس پر وہاں ہجرت کرنا لازم ہوجائیگا، اور حدیث میں ہے کہ جو شخص دین کی خاطر ایک جگہ سے دوسرے جگہ بھاگا خواہ وہ ایک بالشت ہی کیوں نہ ہو اس کے لئے جنت لازم ہوجاتی ہے اور وہ اپنے جدِّ امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام اور اپنے نبی حضرت محمد صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی سنگت پائے گا۔(ت)
(۱؎ مدارک التنزیل (تفسیر النسفی) تحت آیت ۴/۹۷ دارالکتاب العربی بیروت ۱/ ۲۴۶)
ہندوستان دارالحرب نہیں دارالاسلام ہے،
کما حققناہ فی فتوٰنا اعلام الاعلام
(جیسا کہ ہم نے اس کی تحقیق اپنے فتوٰی اعلام الاعلام میں کی ہے۔ت) واﷲاعلم۔