فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۳(کتاب الطلاق ،ایمان، حدود وتعزیر ) |
مسئلہ ۱: از ضلع مظفر پور ڈاک خانہ رائے پور سب ڈویژن سیتامڈھی مقام گوری دروازہ سرفراز علیخاں مرسلہ ایوب علی خاں صاحب ۲۱ ذی الحجہ ۱۳۱۸ھ زوج زید نے عقب میں زوجہ ہندہ کے بمقابلہ بکر کے سوگند کھائی کہ ہم اپنے برادر خالد سے کارِ زمینداری نہ کرائیں گے اگر کرائیں تو اس کی زوجہ کو طلاق ہے، بعد چند روز کے زید نے برادر موصوف سے کام مذکور کرایا اس صورت میں زوجہ ہندہ مطلقہ ہوگی یانہیں؟ اور اگر ہوگی تو کون سی دلیل مطلقہ ہونے کی ہے کیونکہ اﷲجل جلالہ نے اپنے کلام مجید فرقانِ حمید میں کسی جگہ ذکر اس قسم کی سوگند کا نہیں کیا، اگر بمجرد سوگندہندہ مطلقہ ہوئی تو کون سی صورت نکاح قائم رہنے کی ہے، اور اس سوگند میں کفارہ ہے یانہیں؟فقط۔
الجواب :صورت مستفسرہ میں زوجہ پر ایک طلاق پڑگئی، اس کی دلیل اجماعِ ائمہ دین کہ جب طلاق کسی شرط پر مشروط کی جائے تو اس شرط کے واقع ہوجانے سے واقع ہوجائے گی،
فی الھدایۃ اذا اضافہ الٰی شرط وقع عقیب الشرط مثل ان یقول لامرأتہ ان دخلت الدار فانت طالق وھٰذا بالاتفاق۔۱؎
ہدایہ میں ہے کہ اگر طلاق کو شرط کی طرف منسوب کیا ہو تو وُہ شرط کے پائے جانے کے بعد واقع ہوگی، مثلاً یوں کہے''اگر تو گھر میں داخل ہوئی تو تجھے طلاق ہے''یہ ضابطہ متفق علیہ ہے۔(ت)
(۱؎ الہدایہ باب الایمان فی الطلاق المکتبۃ العربیۃ کراچی ۲ /۳۶۵)
بلکہ وہ آیہ کریمہ الطلاق مرتٰن وغیرہ سے ثابت ہے،
فان الاٰیات ذکرت الطلاق بالاطلاق فشمل المنجز المعلق۔
کیونکہ آیات میں مطلق طلاق کا ذکر ہے جو مشروط اور غیر مشروط دونوں طلاق کو شامل ہے۔(ت)
اسے سوگند یمین کہنا ایک اصطلاح علمی ہے جس کا پتا آیہ کریمہ:
یا ایھا النبی لم تحرم ما احل اﷲ لک الٰی قولہ قد فرض اﷲلکم تحلۃ ایمانکم۲؎
(اے نبی صلی اﷲتعالٰی علیک وسلم! اﷲتعالٰی نے آپ کے لئے جو حلال فرمایا اسے آپ کیونکہ حرام فرماتے ہیں تا اﷲتعالٰی کے ارشاد: بیشک اﷲتعالٰی نے تمہارے لئے قسموں کو حلال فرمانا فرض فرمایا ہے۔ت) سے مستفاد ہوتا ہے
(۲؎ القرآن الکریم ۶۶ /۱)
کہ یہاں بھی تحریمِ حلال ہے اور آیت میں تحریمِ حلال ہی کو یمین فرمایا:
علٰی کما بینہ المحقق علی الاطلاق فی الفتح قبیل باب الیمین فی الدخول والسکنی اقول وللعبد الضعیف ھھنا کلام ذکرتہ علی ھامشہ۔
جیسا کہ محقق ابن ہمام نے فتح القدیر میں دخول وسکنی کے باب سے تھوڑا پہلے بیان فرمایا، اقول (میں کہتاہوں) یہاں اس عبد ضعیف کو اعتراض ہے جس کومیں نے اس کے حاشیے پر ذکر کیا ہے۔(ت)
بلکہ تعلیق طلاق پر حلف کا اطلاق حدیث میں بھی وارد ہے، ابن عساکر حضرت انس بن مالک رضی اﷲتعالٰی عنہ سے راوی،
رسول اﷲصلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: ماحلف بالطلاق مومن ولااستحلف بہ الامنافق۔۳؎
مومن طلاق کی قسم نہیں کھاتا اور طلاق کی قسم نہیں لیتا مگر منافق۔(ت)
(۳؎ کنز العمال بحوالہ ابن عساکر عن انس حدیث ۴۶۳۴۰ کتاب الیمین من قسم الاقوال موسسۃ الرسالۃ بیروت۱۶ /۶۸۹)
مگر اس سوگند میں کفار ہ نہیں اﷲعزّوجل کی قسم میں ہے نہ بمجرد سوگند طلاق واقع ہوگی بلکہ بعد وقوعِ شرط واقع ہوگی۔ نکاح قائم رہنے کی صورت یہ ہے کہ شرط واقع نہ ہویا اگر ایک یا دو۲ طلاق رجعی کی سوگند ہے تو بعد وقوع شرط رجعت کرلے۔واﷲتعالٰی اعلم۔