Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۲(کتاب النکاح والطلاق)
6 - 155
مسئلہ ۳:ازسہسوان ۲۵جمادی الآخرہ ۱۳۰۵ھ 

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید ہندہ سے صرف نکاح کرکے چلا گیا،رخصت نہ ہُوئی، نہ ایک نے دوسرے کی صورت دیکھی، دو۲برس بعد ہندہ نے اس پر نالش کی، رخصت کرائے یا طلاق دے۔ وُہ کچہری میں آیا اور حاکم کے سامنے طلاق نامہ لکھ دیا، پدرہندہ نے کل مہر ہندہ بے اجازتِ ہندہ معاف کردیا، ہندہ اس معافی کونا منظور کرتی اور اپنا نصف مہر مانگتی ہے، اس صورت میں ہندہ پرعدّت لازم ہے یا نہیں؟ اور اس کا دعوٰی مہر صحیح ہے یا نہیں؟ اور باپ کے معاف کئے سے مہر معاف ہوگیا یا نہیں؟ بینوا توجروا۔
الجواب

باپ کو کسی طرح اپنی بیٹی کے مہر معاف کردینے کا اختیار نہیں، نہ ہرگز اس کے معاف کئے معاف ہوسکے
فان البنت ان کانت بالغۃ فلاولایۃ للاب علیھا اصلاوان کانت صغیرۃ فالولایۃ للنظر ولانظر فیما تمحض للضرر وکتب المذہب طافحۃ بھٰذا۔ ۱؎
اگر بیٹی بالغ ہو تو باپ کو اس پر بالکل ولایت نہیں اور اگر نابالغہ ہوتو پھر باپ کی ولایت شفقت پر مبنی ہے تو جو چیز محض ضرر ہووُہ شفقت نہیں ہوسکتی مذہب کی کتب اس بیان میں بھر پور ہیں۔(ت)
پس اگرزید نے بلاشرط معافیِ مہر طلاق دی تھی تو بیشک ہندہ پر طلاق بائن واقع ہوئی جس کے سبب وُہ زید کے نکاح سے نکل گئی اور ازانجا کہ ہنوز خلوت نہ ہُوئی تھی عدّت کی بھی حاجت نہیں،
فی مجمع الانہر طلق غیرالمدخول بھا بانت لاالٰی عدۃ۱؎اھ ملتقطا۔
مجمع الانہر میں ہے : غیر مدخول بہا کو طلاق دی تو عورت بائنہ ہوجائے گی اور  عدت نہ ہوگی اھ ملتقطا(ت)
 (۱؎مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر     فصل فی طلاق غیر امدخول بہا     داراحیاء التراث العربی بیروت     ۱ /۴۰۰)
اذا لاحالۃ تنتظر بعد الافتراقٍ بموت اوطلاق ۔
کہ موت یا طلاق کی وجہ سے افتراق کے بعد کوئی قابلِ انتظار نہیں۔ (ت)
اور اگر اُس نے یُوں کہا کہ میں نے ہندہ کو اس شرط پر طلاق دی کہ مجھے مہر معاف ہوجائے تو صورتِ مسئولہ میں نہ مہر معاف ہُوا نہ طلاق پڑی
اذا فات الشرط فات المشروط
 (جب شرط فوت ہوجائے تو مشروط بھی فوت ہوجاتا ہے۔ت)اس تقدیر پر دعوی مہر میں حکم ہوگا جو عورت کو بحالتِ زوجیت دیاجاتا ہے کہ مہر معجل ہوتو فی الفور لے سکتی ہے اور کُچھ وعدہ مقرر ہُوا ہوتو میعاد معلوم تک نہیں مانگ سکتی اورکچھ نہ ٹھہر اہوتو اُس شہر کے رواج پر چھوڑیں گے یعنی ایسی حالت میں جو وہاں کا عُرف ہو اُسی پر عمل ہے،
فی النقایۃ المعجل والمؤجل ان بینا فذاک والافالمتعارف ۲؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم
نقایہ میں ہے کہ اگر مہر معجل یا مؤجّل بیان کرے تو بہتر ورنہ جوعرف میں ہو وہ ٹھہریگا۔ واﷲتعالٰی اعلم۔(ت)
 (۲؎ مختصر الوقایۃ فی مسائل الہدایۃ     کتاب النکاح      نورمحمد کارخانہ تجارت کتب کراچی     ص۵۶ )
مسئلہ ۴ :۳۰ ربیع الاول ۱۳۲۷ھ از سہوان مرسلہ حافظ علی محمد صاحب

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید کا نکاح اُس کی رضاعی بہن کے ساتھ بوجہ لاعلمیت کے ہُوا اور وُہ اس کے تصرف میں بھی رہی، تو اس صورت میں زید پر دین مہر واجب الادا ہے یانہیں؟

الجواب

صورتِ مسئولہ میں پُورا مہر مثل واجب ہے اگر چہ مہر مسمی سے زائد ہو، ردالمحتار وطحطاوی علی الدرالمختار میں زیرِ قول شارح
  ویجب مھر المثل فی نکاح فاسد بالوطی  ولمیزد علی المسمی لرضاھا بالحط
(نکاحِ فاسد وطی کرلینے سے مہر مثل واجب ہوتا ہے اور وہ مقررہ سے زائد نہیں ہونا چاہئے کیونکہ وہ ساقط پر راضی تھی۔ت)  فرمایا:
وفی الخانیۃ لوتزوج محرمہ لاحدّ علیہ عند الامام وعلیہ مھر مثلھا بالغا ما بلغ اھ فھی مستثناۃ الاان یقال ان نکاح المحارم باطل لافاسد  ۱  الخ ای فلااستثناء۔
خانیہ میں ہے کہ اگر کسی نے محرم عورت سے نکاح کیا تو امام صاحب کے ہاں اس پر حدنہیں، ہاں اس عورت کا مہر مثل جتنا گراں ہو خاوند پر لازم ہوگا اھ تو یہ صورتیں مستثنٰی ہیں، ہاں یُوں کہا جاسکتا ہے کہ محارم سے نکاح فاسد نہیں بلکہ ابتداء ہی باطل ہے الخ تو استثناء نہ ہُوا۔(ت)
 (۱؎ ردالمحتار  باب المہر مطلب فی نکاح الفاسد   دارا حیاء التراث ا لعربی بیروت  ۲ /۳۵۱)
خانیہ میں اس کی امثلہ میں فرمایا :
نحو الام والبنت والاخت والعمۃ والخالۃ اوتزوج بامرأۃ ابیہ وابنہ الخ۲؎فذکر محرمات الصھر ایضا فافادشمول محرمات الرضاع بالاولی وقال فی ردالمحتار قولہ شبھۃ العقد کوطی محرم نکحھا ما نصہ اطلق فی المحرم فشمل المحرم نسبا ورضاعا و صھریۃ ۳؎ ۔ واﷲتعالٰی اعلم
جیسے ماں،بیٹی،بہن، پھوپھی، خالہ، یا باپ کی بیوی یا بیٹے کی بیوی الخ تو اس میں انہوں نے سسرال رشتے بھی ذکر کئے، تو اس سے رضاعی محرمات کا شامل ہونا بطریقہ اولی واضح ہوگیا۔ ردالمحتارمیں شبہہ عقد کی مثال لکھی ہے جیسے محرم عورت سے نکاح کرکے وطی کرلی ہو۔ اس عبارت میں انہوں نے محرمات نسبیہ، رضاعیہ، صہریہ یہ سب کو شامل کیا ہے(ت) واﷲتعالٰی اعلم
(۲؎فتاوٰی قاضی خاں     باب فی ذکر مسائل المہر         نولکشور لکھنؤ            ۱ /۱۷۵)

(۳؎ ردالمحتار         کتاب الحدود    مطلب فی بیان شبہۃ العقد داراحیاء التراث العربی بیروت    ۳/۱۵۳)
مسئلہ ۵:  از ازماہرہ مطہرہ باغ پختہ مرسلہ حضرت سیّدابراہیم میاں صاحب یکم ذی قعدہ ۱۳۰۶ھ 

چہ مے فرمایند علمائے دین اندریں مسئلہ کہ تعداد مہر شرع محمدی صلّی اﷲتعالٰی علیہ وسلم چہ مقدار است؟بینواتوجروا۔
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ شریعتِ محمدی صلّی اﷲتعالٰی علیہ وسلم میں مہر کی مقدار کیا ہے؟ بیّنواتوجروا
الجواب 

مہر در شرع مطہر جانب کمی حدے معین ست  یعنی دہ درہم جانب زیادت ہیچ تحدید نیست ہرچہ کہ بستہ شود ہماں قدر بحکم شرع محمد لازم آید صلی اﷲتعالٰی علیہ وعلٰی اٰلہٖ واصحابہ بارک وسلم،قال اﷲ تعالٰی
واٰتیتم احدٰھُن قنطارا  ۱؎،
پس تعیین نتواں کدکہ ہمیں قدر مقدار مہر شرعی است نہ غیر  او آرے ایں لفظ دربسیارے از عوام اہلِ حرفہ ایں بلاد شائع وذائع است مان کہ او را مقابل رسم شرفأومتمولانِ ہند نہادہ باشند آناں درمہور مغالات وافراط را از حد گزرا نیدہ برگردن کم مایہ پنجہ پنجاہ ہزار وصد ہزار وازاں ہم فزوں تر بارمی نہادند ایناں بتقلیل گرائیدہ مہر کمی سہل الحصول می بستند وایں را بمقاصد شرع مطہر نزدیک تردانستہ مہر شرع محمدی  می گفتند تار فتہ رفتہ تسمیہ وتعیین از میان برخاست و در بسیارے از عقود ایشاں ہمیں لفظ بر ز با نہا مانداگر پسی چہ قدر مہر بستہ شد گویند شرع محمدی وگر ہیچ وچوں ایں لفظ اصطلاح خاص ایشاں ست واجب ست در فہم مرادش رجوع ہم ایشاں کردن
فانہ یجب ان یحمل کلام کل عاقد وحالف وموص و واقف علی عرفہ۲؎کما فی ردالمحتار وغیرہ
شریعت پاک میں مہر کی کم از کم مقدار دس درہم مقرر ہے لیکن زیادہ سے زیادہ مقدار نہیں بلکہ جتنا بھی مقرر کردیا جائے وُہ شریعت محمدی میں لازم ہوگا صلی اﷲتعالٰی علیہ وعلی آلہٖ واصحابہ وبارک وسلّم۔ اﷲ تعالٰی نے فرمایا ہے: اور تم ان عورتوں میں سے بعض کو بہت زیادہ مال دیتے ہو، اس لئے کوئی تعیین نہیں کی جاسکتی کہ یہ مقدارِ شرعیہ اوریہ نہیں ہے ہاں شرعی مہر کا لفظ اس علاقے کے اہل ہُنر لوگون میں مشہور ہے تاکہ اس کو بڑے مالدار لوگوں اور معزز خاندانوں کی رسم کے برابر رکھا جائے جو اپنے ہاں بہت بھاری مہر مقرر کرتے تھے وُہ اس حد تک بڑھ گئے کہ ولی اپنے سے کم مایہ لوگوں کی گردن پر بھی پچاس ہزار پچپن ہزار اور لاکھ اور اس سے بھی زیادہ بوجھ ڈالتے ہیں، تو اہلِ ہنرنے مہر کا بوجھ کم کرنےکے لئے اور سہل اور معتدل کام کو شریعت کے قریب تر خیال کرکے اس کو شرعی مہر کہنا شروع کردیا اور آہستہ آہستہ یہ نام مشہور ہوگیا اور اکثر طور پر نکاح میں جب پوچھا جائے کہ کتنا مہر ہے تو جواب میں شرعی کہہ دیتے ہیں جب یہ لفظ خاص لوگوں کی اصطلاح بن گیا تو اب لازماً اس کی مراد یا مقدار کا تعیّن معلوم کرنے کیلئے ان کی طرف رجوع کرنا ضروری ہواکیونکہ عقد، قسم، وصیّت اور وقف کرنے والے لوگوں کے کلام کوان کے عرف پر محمول کرنا ہوتا ہے جیسا کہ ردالمحتار وغیرہ میں ہے،
 (۱؎ القرآن الکریم	 ۴/۲۰)

(۲؎ ردالمحتار   باب التعلیق   ۲ /۴۹۹،   باب الایلاء   ۲ /۵۵۳،   کتاب البیوع   ۴ /۱۴    داراحیاء التراث العربی بیروت)
پس اگر مراد ومتعارف ایشاں یا گروہے ازایشاں ازیں لفظ ہماں اقل مقاد یر مہرست دراں گروہ دہ درہم لازم آید وقومے را کہ مقصود ومفہوم مہر سرادق عفت فلک رفعت کنیز ان درگاہ طہارت پناہ حضرت بتول زہرا صلوات اﷲ وسلامہ علٰی ابیہا الکریم وعلیہا باشد آنجا چار صد مثقال سیم کہ بسکہ ئوقت یک صد و شصت روپیہ است واجب شود وکسا نکہ خود اذہان ایشاں نیز ازمعنی ایں لفظ خالی ست ہمیں سخنے ست کہ برزباں رانند ومفہوم ومرادش خود ند انند (ومی ترسم کہ غالب ہمچنیں باشک) تا آنگاہ ظاہر آنکہ مہر مثل لازم گر دو اذ ھوالاصل اذھوالاعدل فلاعدول عنہ الاعند صحۃ التسمیۃ وقد فسدت لمکان الجھالۃ  فوجب المصیر الی الاصل وراجع لھدایۃ وغیرھا من الکتب المعللۃ۔
لہذا اس لفظ کو استعمال کرنے والے لوگوں سے معلوم کیا جائے،ا گر اس سے ان کا مقصد مہر کی کم از کم مقدار ہے تو دس درہم مراد ہوں گے اور اگر کسی قوم کا مقصد حضرت بتول زہراجناب عزّت مآب فاطمہ رضی اﷲتعالٰی عنہا کا مہر ہے تو یہ چار سو مثقال چاندی مراد ہوگی جو آج کل کے سکّہ کے حساب سے ایک سو ساٹھ ۱۶۰ روپے ہوں گے، اور اگر اس لفظ کو استعمال کرنے والے کچھ لوگ خالی ذہن ہیں اور کوئی مراد معین نہیں ہے ویسے ہی زبان پر یہ لفظ لاتے ہیں اسکے مفہوم ومراد کو نہیں جانتے، میرے خیال میں اکثریت ایسی ہی ہے جو ایسی صورت میں نکاح ہو تو مہر مثل لازم ہوگا اس لئے کہ وہی اصل اور معتدل ہے اس سے عدول جائز نہیں ہے جب تک مقرر شدہ ہونامعلوم نہ ہو اور مقرر شدہ یہاں مفقود ہے کیونکہ مجہول ہے،تولازمی طور پر اصل کی طرف رجوع کرنا ہوگا جو کہ مہر مثل ہے۔ ہدایہ وغیرہ جو احکام کی علت کو بیان کرنے والی کتب ہیں انکی طرف رجوع کرو۔(ت) واﷲتعالٰی اعلم
مسئلہ ۶:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ مہر معرابیان تعجیل وتاجیل سے قبل از موت وطلاق واجب الادا فی الحال ہے یا نہیں؟ بینواتوجروا
الجواب

صورتِ مسئولہ میں نہ عموماً وجوب ادافی الحال ہے نہ کلیۃً عدم، بلکہ مدار عرف وعادت پر ہے، اگر عرف یہ ہے کہ قبل ازموت وطلاق ادا کردیتے ہیں تو فی الحال ادا لازم ہے ورنہ نہیں،
فی مختصر الوقایۃ والمعجل والمؤجل ان بینا والافالمتعارف ۱؎ وفی شرحھامختصر الوقایہ والمختار ھذافان المتأخرین اختار وھذا بناءَ علی المتعارف۱؂  واﷲاعلم بالصواب وعندہ تعالٰی ام الکتاب۔
مختصر الوقایہ میں ہے کہ معجّل یا مؤجّل مہر کو بیان کیا گیا ہو تو بہتر ورنہ عرف میں جو مراد ہو  وہی ٹھہرےگا،

اسکی شرح  میں ہے یہی مختار ہے کیونکہ متاخرین نے مہر کو عرف پر مبنی قرا ر دیا ہے۔(ت) واﷲاعلم بالصواب وعندہ تعالٰی ام الکتاب
 (۱؎ مختصر الوقایہ         کتاب النکاح         نورمحمد کارخانہ تجارت کتب کراچی      ص۵۶)

(۱؎ شرح الوقایہ         باب المہر         مطبع مجتبائی دہلی     ۲/۴۷)
Flag Counter