Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۲(کتاب النکاح والطلاق)
5 - 155
امر چہارم  :  میں جس قاعدہ کا ذکر ہُوا جب سے مذہب حنفی عالَم میں آیا کسی عالم نے دربارہ اختلاف امام وصاحبین اُسے جاری نہ کیا، نہ ہرگز تمام دنیا میں کوئی اس کا قائل، بلکہ سلف وخلف کا اجماع کامل اُس کے برخلاف پر گواہ عادل، ہزار ہا مسائل میں صاحبین نے خلاف کیا، پھر شوق وغروب سے کتب فقہ جمع کرکے دیکھئے قولِ صاحبین معدود ہی جگہ مفتٰی بہ ملے گا جہاں اختلافِ زمانہ کے سبب تغیر حکم ہوا یا تعامل ودفع حرج کے مثل کوئی ایسی ہی ضرورت پیش آئی،
علامہ طحطاوی پھر علامہ شامی حاشےہئ درمختار میں فرماتے ہیں :
حصل المخالفۃ من الصاحبین فی نحو ثلث المذھب ولکن الاکثر فی الاعتماد علی قول الامام ۲؂۔
صاحبین کا تقریباًایک تہائی مذہب میں اختلاف ہے لیکن اکثر اعتماد امام ابوحنیفہ رحمہ اﷲتعالٰی کے مسلک پر ہے۔(ت)
(۲؎حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار     مقدمۃ الکتاب     دارالمعرفۃ بیروت    ۱ /۴۸)
میں یہاں ائمہ محققین کی بعض عبارات اقتصار کرتاہوں جن سے کالشمس ظاہر کہ سوا موضع معدودہ کے قولِ امام ہی پر اعتماد لازم، اور اس کے خلاف کثرتِ رائے، بلکہ فتوائے مشائخ پر بھی التفات نہیں کہ ایک آفتاب لاکھ ستاروں کوچھپالیتا ہے، اسی''سب سے عمدہ خلاصہ سب سے حال کی مستند کتاب'' فتاوٰی عالمگیری میں محیط امام شمسی الائمہ سرخسی سے ہے:
اذا اختلفو فیما بینھم قال عبد اﷲ بن المبارک یؤخذ بقول ابی حنیفۃ رحمہ اﷲتعالٰی لانہ کان من التابعین وزاحمھم فی الفتوی۱؎۔
جب احناف کا آپس میں اختلاف ہو تو عبد اﷲبن مبارک کے قول کے مطابق امام ابوحنیفہ کا قول قابل عمل ہوتا ہے کیونکہ وہ تابعی ہیں اور دیگر تابعین کے فتاوٰی کے مقابل اُنہوں نے فتاوٰی پیش کئے۔(ت)
 (۱؎ فتاوٰی ہندیہ    الباب الثالث فی ترتیب الدلائل للعمل بہا    نورانی کتب خانہ پشاور     ۳ /۳۱۲)
تنویرالابصار میں ہے :
یاخذ بقول ابی حنیفۃ علی الاطلاق ۲؂۔
قاضی مطلقاً امام ابوحنیفہ کے قول کو لے گا۔(ت)
 (۲؎درمختار شرح تنویر الابصار   کتاب القضاء    مطبع مجتبائی دہلی     ۲ /۷۲)
درمختار کا منیہ وسراجیہ سےنقل کرنا گزرا
ھوا لاصح
 ( وہی زیادہ صحیح ہے۔ت)
اور یہ بھی کہ
القاضی کا لمفتی
 ( قاضی کی مثل ہے۔ت)
اور یہ بھی کہ نہر الفائق میں اسی کو اضبط کہا، اسی کی کتاب ادب المقا ل میں تصحیح کی،
کما فی الحاشیۃ الطحطاویۃ
 (جیسا کہ حاشیہ طحطاوی میں ہے۔ت)
اسی پر امام محقق علی الاطلاق نے جزم فرمایا، اور بعض مشائخ جو کہیں قولِ صاحبین پر افتاکردیتے ہیں اُسے بلاوجہ قوی محض نا مقبول ٹہرایا۔ حاشیہ شامیہ میں ہے :
ردالمحقق ابن الھمام علی بعض المشائخ حیث افتوابقول الامامین بانہ لایعدل عن قول الامام الالضعف دلیلہ۳؎۔
بعض مشائخ نے صاحبین کے قول پر فتوٰی دیا تو محقق ابن ہمام نے ان کا رَدکرتے ہوئے فرمایا کہ امام ابوحنیفہ کے قول سے اعراض نہیں کیا جاسکتا الّایہ کہ ان کی دلیل کمزور ہو۔(ت)
 (۳؎ ردالمحتار    مطبع عن الامام اذا صح الحدیث الخ     داراحیاء التراث بیروت   ۱ /۴۶)
بحرالرائق میں ہے :
قد صححوا ان الافتاء بقول الامام فینتج من ھذا انہ یجب علینا الافتاء بقول الامام وان افتی المشائخ بخلافہ۴؎اھ نقلہ العلامۃ الطحطاوی اول القضا۔
مشائخ نے تصحیح فرمائی ہے کہ فتوٰی امام صاحب رحمہ اﷲتعالٰی کے قول پر ہے، تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم پر امام کے قول پر فتوٰی دینا واجب ہے اگر چہ مشائخ نے قولِ امام کے خلاف فتوٰی دیا ہواھ اس کو طحطاوی نے باب قضاء کی ابتداء میں نقل کیا ہے۔(ت)
 (۴؎ بحرالرائق     کتاب القضاء    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی     ۶ /۷۰ -۲۶۹ )
فتاوٰی خیریہ(۱۱)کی کتاب الشہادات مسئلہ شہادۃ الاعمٰی میں ہے :
المقرر ایضا عندنا انہ لایفتی ولایعمل الابقول الامام الاعظم ولایعدل عنہ الی قولھما اوقول احدھما اوغیرھما الالضرورۃ (من ضعف دلیل اوتعامل بخلافہ) لمسئلۃ المزارعۃ وان صرح المشائخ بان الفتوی علی قولھما لانہ صاحب المذہب والامام المقدم ؂
اذا قالت حذام فصد قوھا

فان القول ماقالت حذام ۱؎
یہ طے شدہ ہے کہ ہمارے ہاں امام اعظم رحمہ اﷲتعالٰی کے قول پر ہی عمل وفتوٰی ہوگا،اور صاحبین یا ان میں سے کسی ایک کے قول یا کسی اور کے قول پربغیر ضرورت فتوٰی نہ ہوگا(اور ضرورت کی مثال، ضعیف دلیل یا عرف وتعامل کا اس کے خلاف ہونا ہے) جیسا کہ مزارعت کا مسئلہ ہے اگر چہ مشائخ تصریح کرچکے ہوں کہ فتوٰی صاحبین کے قول پر ہے، کیونکہ امام ابوحنیفہ صاحبِ مذہب ہیں اور سب سے مقدم امام ہیں(شعر کا ترجمہ) جب حذام کچھ کہے تو اس کی تصدیق کرو، کیونکہ بات وہی ہے جو حذام کہتی ہے۔(ت)
 (۱؎ فتاوٰی خیریہ     کتاب الشہادات         دارا لمعرفۃ بیروت     ۲ /۳۳)
بعینہٖ اسی طرح بحرالرائق کی کتاب الصّلٰوۃ بحث اوقات میں تصریح فرمائی اور اس سے ردالمحتار وحاشیہ طحطاویہ میں نقل کرکے مقرر رکھا، امام المحققین شیخ الاسلام برہان الدین صاحبِ ہدایہ کتاب التجنیس والمزید میں فرماتے ہیں:
الواجب عندی ان یفتی بقول ابی حنیفۃ علی کل حال ؎۲
میرے نزدیک ہر حال میں امام ابوحنیفہ کے قول پر فتوٰی دینا واجب ہے۔(ت)
 (۲؎ حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار     کتاب الصّلٰوۃ     دار المعر فۃ بیروت    ۱/۱۷۵)
مسئلہ وقتِ عشا میں جو قول صاحبین کو دُرر میں مفتٰی بہ بتایا علّامہ نوح آفندی نے اس پر فرمایا:
لایجوز الاعتماد علیہ لانہ لایرجح قولھما علی قولہ الابموجب من ضعف دلیل او ضرورۃ او تعامل او اختلاف زمان ولم یوجد شئی من ذٰلک فالعمل علٰی قولہ۳ ؎ اھ نقلھما العلامۃ الطحطاوی فی مبحث اوقات الصّلٰوۃ۔
اس پر اعتماد درست نہیں کیونکہ امام صاحب کے مقابلہ میں صاحبین کے قول کو ترجیح نہیں ہوسکتی مگر جب کوئی سبب ہومثلاً دلیل کا ضعف، ضرورت، تعامل یا اختلاف زمان میں سے کوئی چیز ہو، اور جبکہ ان میں سے کچھ بھی نہیں تو امام کے قول پر عمل ہوگا اھ علامہ طحطاوی نے ان دونوں عبارتوں کو اوقاتِ صلٰوۃ کی بحث میں ذکر کیا ہے(ت)
 (۳؎ حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار   کتاب الصّلٰوۃ   دار المعر فۃ  بیروت    ۱ /۱۷۵)
پھر یہ ضعیف دلیل جسے علماء مبیح عدول فرماتے ہیں اس کے معنی بھی سمجھ لیجئے یہ وُہ ہے کہ اعاظم ائمہ مجتہدانِ فتوٰی اُس کے ضعف پر تنصیص کریں، نہ وُہ جسے من وتو اپنے اذہان قاصرہ سے ضعیف سمجھ لیں کہ اوّل تو یہ دلائل جو مصنفین لکھتے ہیں کیا معلوم امام کی نظر انہیں پر تھی اورہو بھی تو ہم کیا اور ہمارا ضعیف سمجھنا کیا ؎
گدائے خاک نشینی تو حافظا مخروش

نظام مملکت خویش خسرو اں دانند
 (اے حافظ! گدائے خاک نشین کو مت چھیڑ کہ ملک کے نظام کو چلانا خود بادشاہ ہی جانتا ہے)
علامہ طحطاوی فرماتے ہیں :
انہ قد یظہر قوۃ لہ بحسب اداراکہ ویکون الواقع بخلافہ او بحسب دلیل ویکون لصاحب المذہب دلیل اٰخر لم یطلع علیہ انتہی؎۱
بھی امام کی دلیل کی قوت ظاہر ہوتی ہے جس کا ادراک کرلیا جاتا ہے اور واقع میں اس کے خلاف ہوتا ہے، یا یہ ہوتا ہے یہ کچھ دلیل سمجھے حالانکہ صاحبِ مذہب(امام صاحب) کی دلیل کچھ اور ہے جس پر اطلاع نہ ہوئی انتہی(ت)
 (۱؎ حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار    کتاب القضاء     مطبع دارا لمعرفۃ بیروت     ۳ /۱۷۶)
اب مجھے اس تحقیق انیق کے بعد اصلاً ضرورت نہ رہی کہ امر پنجم کی طرف تو جہ کروں، میرا  یہی کلام ہرگونہ دلائل کے جواب میں بس ہے معہذا جو کچھ اُس میں بیان ہُوا اُسی دلیل سے ماخوذ ہے جو ہدایہ وشرح وقایہ و کافی و اختیار ومستخلص وغیرہا میں مذہبِ صاحبین پر ظاہر کی گئی اور اُس کے ساتھ ہی انہیں کتابوں میں اُس کا نفیس جواب بھی دے دیا جہاں تک میری نظر ہے کوئی کتاب مستند ایسی نہ ملے گی جس میں یہ تقریر مسطور اور اُس کا جواب نہ مذکور ہو میں یہاں صرف درمختار کے وُہ مختصر لفظ جو اُنہوں نے امام صدر الشریعۃ وغیرہ سے اخذ کرکے لکھے نقل کرنا کافی سمجھتا ہوں دلیل امام میں فرماتے ہیں :
کل طاۃ معقود علیہا فتسلیم البعض لایوجب تسلیم الباقی  ۲؎
ہر وطی مہر کا بد ل ہے تو بعض مہر  کا سونپنا باقی کے سونپنے کا موجب نہیں بنتا ہے۔(ت)
اس مرام نفیس کی توضیح و تلخیص یہ ہے کہ بیع عین پر  وارد ہوتی ہے وُہ ایک بار سپرد ہوکر کیا باقی ہے کہ محبوس ہو بخلاف نکاح کہ عورت کے گوشت پوست پر وارد نہیں منافع بضع پر ہے اور وُہ متجدد تو بعض کی تسلیم کل کی تسلیم نہیں، نہ بعض پر رضا سے کل پر رضا لازم، وبعبارۃ اُخری شرع نے حق حبس دیا ہے نہ اختیار استرداد، اور مبیع میں تجدید منع بشکلِ استرداد ہی معقول، اور نکاح میں منفعت ماضیہ کی واپسی محال تو نہ ہوگا مگر حبس منفعت آئندہ، ولہذا اگر بیع میں بھی چند چیزیں ایک عقد میں بیچیں اور بعض بخوشی دے دیں بعض باقی کر روک سکتا ہے جب تک تمام ثمن وصول نہ ہو، کہ یہاں بھی بوجہ تعدد اقباض بعض اقباض کل نہیں،
کفایہ میں ہے :
لوسلم البائع بعض المبیع الی المشتری لایسقط حقہ فی حبس مابقی منہ ۱؎۔
اگر بائع مشتری کو کچھ مبیع سونپ دے تو باقی کو روک رکھنے کا حق اس سے ساقط نہیں ہوگا۔(ت)
 (۱؎ کفایہ مع فتح القدیر      باب المہر     مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۳ /۲۵۰)
پس فرق واضح ہوگیا اور استدلال ساقط، میں یہاں تطویل کلام نہیں چاہتا کہ یہ امر تو علما پہلے ہی طے فرما چکے مگر شاید اتنا کہنا بیکار نہ ہو کہ خودامام ابویوسف رحمہ اﷲتعالٰی بیع ونکاح کے اس مسئلہ میں زمین وآسمان کافرق رکھتے ہیں یہآں تک کہ اُن کے نزدیک مہر مؤجل کے لئے بھی عورت کو حق، منع حاصل، اور ثمن مؤجل ہوتو استحقاق حبس بالاجماع زائل، وُہ فرماتے ہیں حقِ حبس بیع میں اصل عقد کا مقتضی نہیں اور نکاح میں بحالت اطلاق نفس عقد کا مقتضی ہے، ولہذا شوہر پر تقدیم تسلیم مطلقاً لازم اگر چہ مہر اشیائے متعینہ سے ہو جیسے عبد یا دار یا ثوب، اور بیع میں مشتری پر تقدم اُسی حالت میں ضرور کہ مبیعین ہو اور ثمن دین، جیسے درہم ودینار، امام سغناقی نہایہ میں کہ ہدایہ کی پہلی شرح ہے تقریر مذہب ابی یوسف میں میں فرماتے ہیں :
قال ان موجب النکاح عند الطلاق تسلیم المہر عینا کان اودینا فحین قبل الزوج الاجل مع علمہ بموجب العقد فقد رضی بتاخیر حقہ الی ان یوفی المہربعد حلول الاجل وبہ فارق البیع لان تسلیم الثمن اولا لیس من موجبات البیع لامحالۃ الاتری ان البیع لوکان مقایضۃ لاتجب تسلیم احد البدلین اولافلم یکن المشتری راضیا بتاخیر حقہ فی المبیع الی ان یوفی الثمن وجعل  (ف)فتوی علی قول ابی یوسف  ؎۱ ۔
انہوں نے کہا کہ نکاح کا موجب مطلقاً مہر کا ادا کرنا ہے خواہ نقد ہو یادین ہو، تو جب خاوند نے مہر کے لئے مدّتِ مقررہ قبول کرلی جبکہ وُہ نکاح کے موجب کے جانتا ہو تو گویا اس نے مدت مقررہ گزرنے تک اپنے حق کو مؤخر کرنا تسلیم کرلیا،اسی نکتہ کی بنا پر نکاح اور بیع میں فرق واضح ہوگیا، کیونکہ بیع میں اوّلاً ثمن کی ادائیگی اس کا موجب لازمی نہیں، آپ جانتے ہیں کہ بیع مقایضہ(سامان کا سامان سے سودا) میں کسی بدل کا  بھی ادا کرنا ابتداءً ضروری نہیں، لہذا بیع میں ثمن کی ادائیگی تک مشتری بیع کی تاخیر پر راضی نہ ہوا اورفتوٰی امام ابویوسف رحمہ اﷲتعالٰی کے قول پر ہے(ت)
 (۱؎العنایۃ حاشیۃ علی الہدایۃ مع فتح القدیر     باب المہر      مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر     ۳ /۲۴۹)
ف : خط کشیدہ عبارت عنایہ میں نہیں، یہ نہایہ کی ہے، اور نہایہ دستیاب نہیں۔ نذیر احمد
اسی طرح فتح القدیر وغیرہ شروح ہدایہ میں ہے پھر باوجود اس قدر تفرقوں کے کیونکر مانا جائے کہ نکاح میں یہ حکم محض مشابہت بیع ہی پر مبنی ہے کہ اس کے احکام سے کہیں تفاوت نہ کرسکے، یہ مسئلہ ایک مبسوط رسالے کے قابل تھا،
وفیما ذکرنا کفایۃ لاھل الدرایۃ واﷲولی الھدایۃ منہ البدایۃ والیہ النھایۃ۔ واﷲتعالٰی اعلم ۔
جو کُچھ ہم نے ذکر کیا ہے اس اہلِ فہم کے لئے کفایت ہے، اﷲتعالٰی ہی ہدایت کا مالک اور اسی سے ابتداء اور انتہا ہے۔ واﷲتعالٰی اعلم (ت)
Flag Counter