Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۲(کتاب النکاح والطلاق)
3 - 155
اسی طرح صدر الشریعۃ شرح وقایہ وکافی شرح وافی واختیار شرح مختار ومستخلص شرح کنز  وغیرہا شروح میں مذہب امام پر دلیل قائم کی اور دلیل صاحبین سے جواب دئے، امام محقق علی الاطلاق کمال الدین محمد بن الہمام رحمہ اﷲتعالٰی نے فتح القدیر میں ترجیح ہدایہ اور علامہ شیخی زادہ عالم دیار رومیہ قاضی دولت علیہ عثمانیہ معاصر ومستند صاحب درمختار نے مجمع الانہر میں تقدیم ملتقی اور علامہ یوسف چلپی نے ذخیرۃ العقبٰی فی شرح صدر الشریعۃ العظمٰی میں اعتمادمتن وشرح اور محقق علامہ وسیع النظر دقیق الفکر محمد بن عابدین شامی نے ردالمحتار علی الدرالمختار میں افاداتِ درمختار کومقرر ومسلّم رکھا اور ترجیح مذہب امام میں خلاف ونزاع کی طرف بھی اشارہ نہ کیا پھر بکثرت علماء اہلِ متون وشروح وفتاوٰی ان مذکورین اور ان کے غیر باب النفقات میں عورت کو طلب مہر معجل کے لئے بالفظ ارسال واطلاق منع نفس کااستحقاق بتاتے ہیں اور اصلاً عدمِ وطی وخلوت برضا کی قید نہیں لگاتے
کما یظہر بالمراجعۃ الی کتبھم
 (جیساکہ انکی کتب کی طرف مراجعت سے ہوتا ہے۔ت)
بلکہ شرح وقایہ میں تو صورتِ مسئلہ یُوں فرض کی کہ:
خروجھا بحق کما لولم یعطھا المہر المعجل فخرجت عن بیتہ ۲؎۔
بیوی کا باہر نکلنا برحق ہے جیسا کہ خاوند نے اس کو مہر معجل نہ دیا ہوتو وہ اس کے گھر سے نکل جائے۔(ت)
 (۲؎ شرح الوقایہ     باب النفقہ    مطبع مجتبائی دہلی    ۲ /۱۷۳)
اور ظاہر ہے کہ شوہر کے یہاں آنے کے بعد غالباً وطی واقع ہی ہوتی ہے بانیہمہ حکم مطلق چھوڑا تقیید کی طرف مطلق التفات نہ فرمایا یہ اطلاقات بھی اُسی اختیار مذہب امام سے خبر دے رہے ہیں، لاجرم علامہ خیرالدین رملی استاذصاحبِ درمختار نے قولِ امام ہی پر فتوٰی دیا اور مذہب آخر کا ذکر تک نہ کیا، فتاوٰی خیریہ لنفع البریہ میں ہے:
سئل فی المرأۃ اذا سلمت نفسھا قبل استکمال ماشرط تعجیلہ لھا من المہر ھل لھا بعد ذلک منع نفسھا عنہ اجاب لھا منع نفسھا حتی تستکمل ذٰلک عند الامام وان کانت سلمت نفسھا وبہ صرحت المتون قاطبۃ۱ ؎۔
ان سے ایسی عورت کےمتعلق سوال کیا گیا جو مہر معجل وصول کرنے سے پہلے اپنے آپ کو خاوند کے سپرد کرچکی ہوکیا پھر مہر معجل کے لئے اپنے آپ کو خاوند سے روک سکتی ہے؟ تو جواب دیا کہ ہاں  روک سکتی ہے یہاں تک کہ مہر معجل وصول کر لےامام صاحب رحمہ اﷲتعالٰی کے ہاں ہے، اگر چہ بیوی پہلے اپنے آپ کو سونپ چکی ہو، اس مسئلہ پر تمام متون تصریح کرچکے ہیں۔(ت)
 (۱؎ فتاوٰی خیریہ     باب النفقۃ        دارالمعرفۃ بیروت    ۱ /۶۹)
آخر یہ علمائے محققین وعظمائے مدققین رحمۃ اﷲعلیہم اجمعین فتوائے امام صفار واختیار بعض مشائخ سے غافل نہ تھے، پھر قولِ امام ہی پر جزم واعتماد فرماتے ہیں، کوئی تو قولِ صاحبین کا نام تک نہیں لیتا اور اکثر متون کایہی حال ہے، کوئی صاف وہ الفاظ بڑھاتا ہے جس سے ان کے مذہب کی صریح نفی ہوجائے، کوئی صرف مذہب امام ہی پر دلیل قائم کرتا ہے، کوئی دلیل صاحبین سے جواب دیتا ہے، جنہوں نے وعدہ کیا کہ قولِ قوی کو مقدم لائیں گے وُہ اسی مذہب کی تقدیم کرتے ہیں، جنہوں نے التزام کیا کہ دلیل معتمد کی تاخیر کریں گے وہ اسی کی دلیل پیچھے لاتے ہیں۔ غرض طرح طرح سے ترجیح وتصحیح مذہب امام کا افادہ فرتے ہیں، اور کبرائے ناظرین شراح  ومحشین کہ مذکور ہوئے تقریر وتسلیم سے پیش آتے ہیں' ناچار ماننا پڑے گا کہ ان سب کے نزدیک معتمد ومرجح ومحقق ومنقح مذہب امام ہے رضی اﷲتعالٰی عنہ، اور قوت دلیل کہ مطالعہ ہدایہ وکافی واختیار وکفایہ وغیرہ سے واضح ہوتی ہے اس پر علاوہ، پس جبکہ یہی (۱) مذہبِ امام اعظم ہے اور اسی پر(۲) متون کا اجماع اور اسی(۳) کی دلیل اقوٰی اور اس(۴) قدر کثرت سے اس کے مرجحین، تو وجہ کیا ہے کہ اس سے عدول کیا جائے حالانکہ علماء تصریح فرماتے ہیں کہ مفتی مطلقاً قول امام پر فتوٰی دے، اور قاضی عموماً مذہب امام پر فیصلہ کرے یعنی جب کوئی ضرورت مثل تعامل المسلمین یا اجماع المرجحین علی الخلاف کے داعی ترک، نہ ہو، کما فی مسئلتی جواز المزار عۃ وتحریم القلیل من لامائع المسکر (جیسا کہ مزارعت کے جواز  اور قلیل مسکر پانی کی تحریم کے دونوں مسئلوں میں ہے۔ت) اورحکم دیتے ہیں کہ قول امام سے عدول نہ کیا جائے اگر چہ مشائخ مذہب اس کے خلاف پر فتوٰی دیں۔ (۱) منیہ و(۲) سراجیہ و(۳) محیط امام سرخسی وفتاوٰی(۴) عالمگیری و(۵) بحرالرائق و(۶) نہر الفائق و(۷) فتاوی خیریہ و(۸) تنویر الابصار و(۹) شرح علائی (۱۰) حاشیہ طحطاویہ وغیرہا کتبِ معتمدہ میں اس کی تصریح ہے،
درمختار میں ہے :
یاخذ القاضی کالمفتی بقول ابی حنیفۃ علی الاطلاق ثم بقول ابی یوسف ثم بقول محمد ثم بقول زفر والحسن بن زیاد وھو الاصح منیۃ وسراجیۃ۲؎۔
قاضی بھی مفتی کی طرح امام صاحب کے قول مطلقاً لے گا، پھر امام ابویوسف، پھر امام محمد، پھر امام زفر اور حسن بن زیاد کے اقوال کو لے گا، یہی اصح ہے، منیہ وسراجیہ۔
 (۲؎ درمختار     کتاب القضاء     مطبع مجتبائی دہلی     ۲/۷۲)
بحرالرائق میں فرمایا:
یجب علینا الافتاء بقول الامام وان افتی المشائخ بخلافہ۱؎۔
ہم پر امام ابوحنیفہ رحمۃ اﷲعلیہ کے قول پر عمل واجب ہے اگر چہ مشائخ اس کے خلاف پر فتوٰی دے چکے ہوں۔ (ت)
 (۱ ۔۔ بحرالرائق      فصل تقلید      ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۶   / ۷۰ ۔۔  ۲۲۹ )
اور ایسا ہی فتاوی خیریہ میں ہے خصوصاً صورت مسئولہ میں جبکہ تقریر سوال سے ظاہر کہ زید کی طرف سے سوء معاشرت ہندہ کے ساتھ واقع ہوئی تو یہاں تو ایک اور فتوٰی قولِ امام کے موافق ہے تہذیب میں کلامِ امام ابوالقاسم نقل کرکے فرماتے ہیں :
المختار عندی فی المنع ان کان سوء المعاشرۃ من الزوج لھا المنع وان کان من جھتہا فلیس لھا المنع وفی السفر قول ابی حنیفۃ رضی اﷲتعالٰی عنہ۲ ؎۔
میرے نزدیک منع کے بارے میں مختار  یہ ہے کہ اگربد اخلاقی خاوند کی طرف سے ہوتو بیوی کو منع حق ہے اور اگر بد اخلاقی بیوی کی طرف سے ہوتو پھر اس کو حق نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو خاوند سے روک رکھے، سفر کے بارے میں فتوٰی امام صاحب رحمہ اﷲتعالٰی کے قول پر ہے(ت)
 (۲. تھذیب )
اسی طرح فتاوٰی ابراہیم شاہی وفتاوٰی حمادیہ میں اس سے نقل کیا، یہ ہے اس بارے میں کلام اجمالی،اور قدرے تفصیلی ان مباحث کی ہمارے فتوائے ثانیہ میں آتی ہے وباﷲالتوفیق، بالجملہ صورت مستفسرہ میں عند التحقیق مفتی وقاضی کے لئے قولِ امام ہی پر اعتماد ہے ۔ واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم
جواب سوال دوم

اقول وباﷲالتوفیق وبہ الوصول الی ذری التحقیق
اس تقریر میں امر اول ایک سخت حیرت انگیز بات ہے، درمختار میں اس مطلب کا کہیں پتا نہیں بلکہ اس میں صراحۃً اس کا خلاف مصرح کتاب القضا میں فرماتے ہیں :
یاخذالقاضی کالمفتی بقول ابی حنیفۃ علی الاطلاق۳ ؎۔
قاضی بھی مفتی کی طرح مطلقاً امام ابوحنیفہ رحمہ اﷲتعالٰی کا قول لے گا۔(ت)
 (۳؎ درمختار         کتاب القضاء     مطبع مجتبائی دہلی     ۲ /۷۲)
پھر منیۃ المفتی وفتاوٰی سراجیہ سے نقل کیا ہو
الاصح۴ ؎
 (وہی زیادہ صحیح ہے۔ت) ہاں ایک قول حاوی قدسی سے یہ لائے کہ وقت دلیل پر مدار ہے پھر اُسے بھی برقرار نہ رکھا،
اور نہر الفائق سے نقل فرمایا :
الاول اضبط۵؎
 (وہی  زیادہ مضبوط ہے۔ت)
(۴؎ درمختار         کتاب القضاء     مطبع مجتبائی دہلی     ۲/  ۷۲)
اور تحقیق وتوفیق وُہ ہے جو ماتن نے فرمایا کہ
لایخیر الااذاکان مجتہدا
یعنی جو خود مجتہد ہو وہ قوتِ دلیل پر نظر کرے اور ہم پر وہی ترتیب لازم کہ علی الاطلاق مذہبِ امام پر افتاوقضا کریں جب تک کوئی مانع قوی وعظیم نہ پایا جائے کما سنذکرہ ان شاء اﷲتعالٰی(ان شاء اﷲتعالٰی اس کو عنقریب ہم ذکر کریں گے۔ت)
امر دوم    : کے جواب،میں'اوّلاً عبارتِ درمختار کہ ابھی گزری اور وُہ عبارت کثیرہ کہ ان شاء اﷲتعالٰی لکھتا ہوں بس ہیں ۔

ثانیاً کلماتِ  علماء میں نہ عموماً  نہ بعد تخصیص معاملاتِ دُنیوی کہیں اس کانشان نہیں کہ جب امام  ابویوسف کے ساتھ حضرات طرفین سے ایک رائے اور ہو تو  ان کی تجربہ کاری کے باعث اُس کا قبول قاعدہ مسلّمہ ہے، ہاں علماء نے مسائلِ وقف وقضاء کی نسبت بیشک فرمایا کہ وہاں غالباً قولِ ثانی پر فتوٰی ہے، اس سے ہر وہ امر کے زیر قضا آسکے مراد نہیں تاکہ امثال صوم وصلٰوۃ کے سوا نکاح وبیع وہبہ اجارہ و رہن وغیرہا تمام ابواب فقہ کو عام ہوجائے یوں تو وقف بھی اسی قبیل سے تھا، پھر خاص اسے الگ گننے کے کیا معنی، نہ ہرگز عالم میں کوئی عالم اس کا قائل، اور خود ہزاراں ہزار کتبِ فقہ اس کے خلاف پر گواہ عادل، کہ لاکھوں مسائل معاملات میں بھی قولِ امام ہی پر فتوٰی ہے اگر چہ رائے امام ابویوسف سے امام محمد بھی موافق ہوں بلکہ یہ امر خاص اُن مسائل میں اکثری طور پر ہے جنہیں فقہاء کتاب القضاء وکتاب الوقف میں لکھتے ہیں اشباہ والنظائر میں جہاں یہ فائدہ زیرِ قاعدہ
المشقۃ تجلب التیسیر
 (مشقت کے سبب حکم میں آسانی ہوجایا کرتی ہے۔ت) وہاں یہی مسائل شمار کئے ۔
حیث قال: ووسع ابویوسف رحمۃ اﷲتعالٰی فی القضاء والوقف والفتوی علی قولہ فیما یتعلق بھما فجوز للقاضی تلقین الشاھد وجواز کتاب القاضی الی القاضی من غیرسفر ولم یشترط فیہ شیئا مما شرطہ الامام وصحح الوقف علی النفس وعلٰی جھۃ تنقطع ووقف المشاع ولم یشترط التسلیم الی المتولی ولاحکم القاضی وجوز استبدالہ عند الحاجۃ الیہ بلاشرط وجوزہ مع الشرط ترغیبا فی الوقف وتیسیراً علی المسلمین۱ ؎۔
امام ابویوسف رحمہ اﷲتعالٰی نے قضاء ووقت کے متعلق وسعت پیدا کی ہے، ان دونوں بابوں میں ان کے قول پر فتوٰی ہوگا، انہوں نے گواہ کو قاضی کی تلقین، قاضی کا قاضی کو بغیر سفر خط، بغیر ان شرائط کے جوا مام ابوحنیفہ رحمہ اﷲتعالٰی نے لگائی ہیں کو جائز قرار دیا ہے، انہوں نے وقف علی النفس (یعنی اپنی جائدادیوں وقف کرے کہ تاحیات وہ خود اسکی آمدنی سے ممتنع  رہے گا) اور وقف علی جہۃ منقطعہ اور غیر منقسم چیز کے وقف کو جائز کہا ہے اور متولی کو سونپ دینے کی شرط نہیں لگائی اور نہ ہی انہوں نے وقف کے لئے قاضی کے حکم کی شرط لگائی ہے، اور  انہوں نے  وقف کو ضرورت کے وقت  تبدیل کرنے کو بلا شرط جائز قرار دیا ہے اور بلا ضرورت اس کے تبدیل کرنے کو مع جائز الشرط جائز قرار دیا ہے تاکہ وقف کرنے میں ترغیب اور مسلمانوں کے لئے آسانی ہو۔(ت)
 (۱؎ الاشباہ والنظائر القاعدۃ الرابعۃ المشقتہ تجلب التیسیر     ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی    ۱/  ۱۵ ۔ ۱۱۴  )
ثالثاً ان مسائل میں تو موافقت رائے دیگر، کی بھی حاجت نہیں
کما یظہر بالمراجعۃ
(جیسا کہ کتب کی طرف سے مراجعت سے ظاہر ہوتا ہے۔ت) 

تو کلماتِ علماء اس قید کے مساعد نہیں رابعاً کوئی نہیں کہہ سکتا کہ امام ابویوسف علماً امام اعظم کے ہم پلّہ ہیں، امام سے بے اذن لئے ان کے مجلس درس منعقد کرنے  پر امام کا  کسی کو پانچ سوال دے کر بھیجنا' ان کے ہر مسئلے میں مختلف جواب دینا، ہر جواب پرسائل کی طرف سے تخطیہ ہونا 'آخر متحیّر ہوکر خدمتِ امام میں رجوع لانا، مشہور اور اشباہ والنظائر وغیرہا میں مذکور۔ علماء فرماتے ہیں : جو مسئلہ امام کے حضورطے نہ ہولیا قیامت تک مضطرب رہے گا، امام ابویوسف بعض مسائل میں پریشان ہوکر فرماتے : جہاں ہمارے استاد کا کوئی نہیں اس میں ہمارا  یہی حال(پریشان) ہے۔

بحرالرائق کے مفسدات  الصّلٰوۃ میں ہے :
لقد صدق صاحب الفتاوی الظہیریۃ حیث قال فی الفصل الثالث فی قراءۃ القراٰن ان کل مالم یروعن ابی حنیفۃ رحمہ اﷲتعالٰی فیہ قول بقی کذٰلک مضطر باالٰی یوم القیامۃ وحکی عن ابی یوسف رحمہ اﷲتعالٰی علیہ  انہ کان یضطرب فی بعض المسائل وکان یقول کل مسئلۃ لیس لشیخنا فیھا قول فنحن فیھا ھکذا انتہی ۲؎۔
فتاوٰی ظہیریہ والے نے درست فرمایا، جو انہوں نے قراءت قرآن کی فصل ثالث میں فرمایا کہ جس معاملہ میں امام ابوحنیفہ رضی اﷲتعالٰی عنہ سے کوئی قول مروی نہ ہو وُہ معاملہ قیامت تک باعثِ اضطراب ہی رہے گا، اور امام ابویوسف رحمہ اﷲتعالٰی سے منقول ہے کہ وہ بعض مسائل میں مضطرب تھے تو انہوں نے فرمایا: جس معاملہ میں ہمارے شیخ کا کوئی قول نہ ہوتو اس میں ہمارا یہی حال ہوتا ہے انتہی۔(ت)
 (۲؎بحراالرائق       باب مفسدات الصلوۃ       ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۲/ ۱۴)
امام ابویوسف سے منقول ہے میں بعض مسائل میں جانتا حدیث میری طرف ہے تنقیح کے بعد کُھلتا کہ امام نے جس حدیث سے فرمایا وہ میری خواب میں نہ تھی اوکماقال رحمۃ اﷲتعالٰی۔
Flag Counter