فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۱(کتاب النکاح) |
فانما المعنی علی مابینا ولیس المراد ان اللفظ اذالم یتعین للاخبار عن الماضی صح العقد وان نویا بہ الاخبار کیف وانہ لایکون ح الامحض کذب ویشھد لک بذٰلک مااستشھد بہ من مسئلۃ الطلاق فانہ ان قال لست لی بامرأۃ ولم ینوبہ انشاء الطلاق وانما قصدا الاخبار الکاذب لم یقع قطعا فانہ لایقع عند ذلک بالتصریح کما قدمنا فکیف بالکنایات الاتری انہ بنفسہ قید المسئلۃ بقولہ ونوی الطلاق فکذا یقال ھٰھنا ونویا النکاح ھذا ماصرت الیہ لما وعیت ثم بتوفیق المولٰی سبحانہ وتعالٰی رأیت العلامۃ عبدالعلی برجندی نقل فی شرح النقایۃ کلام الامام فقیہ النفس بالمعنی وعبرعنہ بعین مافھمتہ، وﷲ الحمد،
اس تفصیل کا مقصد وہی ہے جو ہم نے بیان کیا اور اس سے یہ مراد نہیں کہ جب اقرار کا لفظ ماضی کی خبر کیلےمتعین نہ ہو تو خبرکے باوجود عقد نکاح صحیح ہوگا، یہ کیسے ہوسکتا ہے جبکہ مرد وعورت نے محض جھوٹ سے کام لیا ہے، اس کا شاہد یہ بھی ہے کہ امام قاضیخان نے اس بیان پر طلاق کے مسئلہ کوبطور شاہد پیش فرمایا کہ اگر کسی نے اپنی بیوی کو کہا کہ تومیری بیوی نہیں ہے اوراس نے انشاء طلاق کا ارادہ نہ کیا بلکہ صرف جھوٹ مراد لیا تو قطعا طلاق نہ ہوگی کیونکہ اس صورت میں صریح لفظ سے جب طلاق نہیں ہوتی تو کنایہ سے کیسے طلاق ہوسکتی ہے جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں آپ نے غور فرمایا ہوگا کہ انھوں نے اس مسئلہ کو طلاق کی نیت سے مقید کیا ہے (مذکورہ لفظ طلاق کی نیت سے کہے تو طلاق ہوگی ورنہ نہیں) اسی طرح جھوٹے اقرار نکاح میں بھی دونوں نے نکاح کی نیت کی ہو تو نکاح ہوگا ورنہ نہیں، یہ جس کو میں نے سمجھا وہی میں نے اختیار کیا ہے، پھر میں نے اللہ تعالٰی کی توفیق سے علامہ عبدالعلی برجندی کو دیکھا کہ انھوں نے نقایہ کی شرح میں امام قاضی خان کی عبارت کو بالمعنٰی نقل کیا اور اس کی وہی تعبیر کی جو میں نے سمجھی، اور اللہ تعالٰی کے لیے ہی تمام حمد ہے،
وھذا نصہ فی الظھیریۃ لوقال بمحضرمن الشہود این زن من است فقالت ایں شوئی من ست اختلف المشائخ فیہ والصحیح انہ لاینعقد وفی فتاوی قاضی خان انما لایکون ھذا نکاحا اذا قالا ذلک علی سبیل الاخبار عن عقد ماض ولم یکن بینھما عقد اما اذا اقرت انہ زوجہاو اقرانھا زوجتہ وارادا بذلک انشاء النکاح فھو نکاح ۱؎ اھ فالحمد ﷲ علی حسن التفھم،
یہی ظہیریہ کی عبارت ہے کہ اگر ایک شخص نے لوگوں کی موجودگی میں ایک عورت کو کہا کہ یہ میری بیوی ہے، اورعورت نے کہا یہ میرا خاوند ہے تو اس میں مشائخ کا اختلاف ہے، اور فتاوٰی قاضیخان میں ہے کہ اس صورت میں نکاح نہ ہوگا جب مرد و عورت نے جھوٹی خبر کے طور پر ماضی میں عقد کے بارے میں کہا ہو، اور اگر انھوں نے اس سے انشاء نکاح کا ارادہ کیا تویہ نکاح منعقد ہوگا، اچھے فہم پراللہ تعالٰی کی حمد ہے،
(۱؎ شرح النقایۃ للبرجندی کتاب النکاح نولکشورلکھنؤ ۲/۳۷۴)
اقول وبما قررت ظھر لک ان ھذا الذی اختارہ المولی فقیہ النفس وقال المحقق علی الاطلاق انہ الحق لایخالف ماصححہ عامۃ الائمۃ اصلا بل ھو عین مااعتمدوہ فانھم انما صححو ا ان النکاح لاینعقد بالاقرار والاقرار انما یکون عند قصد الاخبار و ح قد نص الفقیہ علی عدم الانعقاد اما اذا قالاہ مریدین بہ الانشاء لم یکن ذٰلک من الاقرار فی شئی فان الاقرار ھوالاخبار دون الانشاء فتوافق القولان وتظافرت التصحیحات علی صحۃ ماافتیت بہ فان حمل کلام الذخیرۃ علٰی مااسلفناحصل التوفیق فی الاقوال جمیعا والافعلیکم بماحررت عضوا علیہ بالنواجذ ۔
اقول میری تقریر سے آپ پر واضح ہوگیا کہ جو کچھ امام قاضیخان اور محقق علی الاطلاق نے فرمایا وہی حق ہے اور وہ عام ائمہ کرام کی تصحیح کے ہر گز خلاف نہیں ہے کیونکہ ان ائمہ کرام نے یہی تصحیح کی ہے کہ صرف اقرار سے نکاح منعقد نہ ہوگا کیونکہ اقرار ماضی کے بارے میں خبر کا نام ہے جس وجہ سے امام قاضی خان نے نکاح نہ ہونے کی تصریح کی ہے لیکن اگر مر د وعورت نے نکاح منعقد کرنے یعنی انشاء نکاح کے ارادے سے اقرار کیا تو یہ بمعنٰی اخبار نہ ہوگا بلکہ انشاء ہوگا جبکہ اقرار حقیقتاً خبر کو کہتے ہیں پس فقہا ء اور امام کے قول کے موافق اور تمام تصحیحات میرے فتوے پر مجتمع ہوگئیں اور اگر ذخیرہ کی عبارت کواسی معنی میں لیا جائے جو میں نے پہلے ذکر کیا تو اس سے تمام اقوال میں بھی موافقت ہوجائے گی ورنہ میری تحریر کو مضبوطی سے اپناؤ۔ (ت)
اقول اب یہاں ایک مسئلہ خلافیہ وارد ہوگا جس طرح نکاح مسلم میں وقت ایجاب وقبول دو مردوں یا ایک مرد دوعورتوں عاقل بالغ آزاد اور نکاح مسلم میں انھیں اوصاف کے خاص مسلمین کا حاضر ہونابالاتفاق اور ان کا کلام عاقدین معاً سننا عندالجمہور علی المذہب المنصور شرط وضرور ہے آیا یوں ہی ان کا کلام عاقدین سمجھنا بھی شرط ہے یانہیں۔ مثلاً اگر دو ہندیوں کے سامنے مرد وزن نے عربی میں ایجاب وقبول کرلیا وہ نہ سمجھے، آیا یہ نکاح فاسد ہوگا یا صحیح، علمائے کرام کے اس میں دونوں قول منقول ہوئے،
جزم با لاول العلامۃ الزیلعی فی التبیین والمحقق علی الاطلاق فی الفتح والمولی الغزی فی متن التنویر وصححہ فی الجوھرۃ وقال فی الذخیرۃ والظھیریۃ وخزانۃ المفتین والسراج الوھاج وشرحی النقایۃ للقھستانی والبرجندی ومجمع الانھر والھندیۃ انہ الظاھر ۱؎ وکذا اختارہ فقیہ النفس فی الخانیۃ وضعف خلافہ قال الذخیرۃ ثم البحر ثم الدر ومجمع الانھر فکان ھوالمذھب ۲؎،
امام زیلعی نے تبیین میں اور محقق علی الاطلاق نے فتح میں پہلے پر جزم کیا ہے اور غزی نے تنویر کے متن میں ذکرکیا اور جوہرہ میں اس کی تصحیح کی۔ ذخیرہ، ظہیریہ، خزانۃ المفتین، سراج الوہاج، قہستانی اور برجندی نے اپنی شرحوں ،مجمع الانھر اور ہندیہ میں فرمایا کہ یہ ظاہر ہے، اور یونہی قاضی خان نے خانیہ میں اس کو پسندیدہ قرار دیا اوراس کے خلاف کو ضعیف کہا ہے۔ اور ذخیرہ، بحر، در،مجمع الانہر نے کہا کہ یہی مذہب ہے ،
(۱؎ شرح النقایۃ للبرجندی کتاب النکاح نولکشور لکھنؤ ۲/۴ مجمع الانہر کتاب النکاح داراحیاء التراث العربی بیروت ۱/۳۲۱) (۲ مجمع الانہر کتاب النکاح داراحیاء التراث العربی بیروت ۱/۳۲۱)
وجزم بالثانی فی الفتاوی وکذا ذکرہ البقالی وقال فی الخلاصۃ وجواھر الاخلاطی انہ الاصح ۳؎، وفی مجمع الانھر عن النصاب، علیہ الفتوی ۴؎ ولم یتعرض لقید الفھم فی مختصر القدوری والوقایۃ والنقایۃ والکنز والاصلاح والایضاح والملتقی وکلاھما روایۃ عن مدار المذھب محمد رضی اﷲ تعالٰی عنہ لما فی الفتح۔
اور دوسرے (صحیح) پر جزم کا اظہار فتاوٰی میں کیا اور یوں اس کو بقالی نے ذکرکیا۔ اور خلاصہ اور جواہر الاخلاطی میں کہا کہ یہ ظاہر ہے۔ اور مجمع الانہر میں نصاب کے حوالے سے کہا کہ اس پر فتوٰی ہے، اور مختصر القدوری، وقایہ، نقایہ، کنز، اصلاح، ایضاح اور ملتقی میں فہم کی قید کو ذکر نہیں کیا جبکہ یہ دونوں قول مدار مذہب امام محمد رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہیں، جیساکہ فتح میں مذکور ہے۔ (ت)
(۳؎ جواہر اخلاطی کتاب النکاح قلمی نسخہ ص۴۷) (۴؎ مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر کتاب النکاح داراحیاء التراث العربی بیروت ۱/۳۲۱)
اور توفیق نفیس یہ ہے کہ معنٰی الفاظ سمجھنا ضروری نہیں مگر اس قدر سمجھنا ضرور ہے کہ یہ عقد نکاح ہورہا ہے۔
اقول وقدکان سنح لی ھذا ثم رأیتہ للعلامۃ مصطفی الرحمتی لمحشی الدر وقال فی ردالمحتار ووفق الرحمتی یحمل القول بالاشتراط علی اشتراط فھم انہ عقد نکاح والقول بعدمہ علی عدم اشتراط فھم معانی الالفاظ بعد فھم ان المراد عقد النکاح ۱؎ اھ وھو کما تری حسن جدا،
اقول مجھے یہ واضح ہوا، پھر اس کے بعد مجھے یہ بات در کے محشی علامہ مصطفی رحمتی کے ہاں مل گئی۔ اور ردالمحتار میں فرمایا کہ علامہ رحمتی نے فہم کی شرط والے قول اور فہم کی شرط نہ ہونے والے قول میں یوں تطبیق دی ہے____ کہ جہاں فہم کی شرط کا قول ہے اس سے مراد نکاح ہونے کا فہم ہے اور جہاں فہم کی شرط کی نفی ہے اس سے نکاح کے وقت بولے جانے والے الفاظ کے فہم کی نفی مراد ہے بشرطیکہ نکاح ہو نا سمجھا گیا ہو۔ اھ آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ بہت اچھی تطبیق ہے
(۱؎ ردالمحتار کتاب النکاح داراحیاء التراث العربی بیروت ۲/۲۷۳)