فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۱(کتاب النکاح) |
قال فی الھدایۃ اذا ادعی رجل علی امرأۃ نکاحا وھی تجحد فصالحتہ علی مال بدلتہ حتی یترک الدعوی جاز وکان فی معنی الخلع لانہ امکن تصحیحہ خلعا فی جانبہ بناء علی زعمہ وفی جانبھا بذلا للمال لدفع الخصومۃ قالوا ولایحل لہ ان یأخذ فیما بینہ وبین اﷲ تعالٰی اذا کان مبطلا فی دعواہ ۱؎ اھ قال فی الکفایۃ ھذا عام فی جمیع انواع الصلح ۲؎ اھ
ہدایہ میں فرمایا اگر کسی مرد نے کسی عورت پر اس سے نکاح کا دعوٰی کیا جبکہ عورت انکاری ہے اور دعوٰی کو ختم کرنے کے لیے مال دے کر صلح کرتی ہے تو یہ صلح جائز ہے، اوراس صلح کو خلع کے معنٰی پر محمول کیا جائیگا کیونکہ مرد کی طرف سے اس کے دعوٰی کی بنا پر اس معاوضہ کی وصولی کو خلع قرار دینا صحیح ہے اور عورت کی طرف مال کی ادائیگی جھگڑے کو ختم کرنے کی کارروائی تصور کیا جائیگا، اس کے باوجود فقہاء کرام نے یہاں فرمایا کہ اگر وہ مرد جھوٹا ہے تواس کو عورت سے معاوضہ لینا حلال نہیں ہے اھ اور کفایہ میں کہا کہ یہ ہرقسم کی صلح کو شامل ہے اھ
(۱؎ ہدایہ کتاب الصلح مطبع یوسفی لکھنو ۳/۲۴۷) (۲؎ کفایہ مع فتح القدیر کتاب الصلح نوریہ رضویہ سکھر ۷/۳۸۹)
وفی الدرالمختار عن القھستاتی اما الصلح علی بعض الدین فیصح ویبرأعن دعوی الباقی ای قضاء لادیانۃ ولذا لوظفر بہ اخذہ ۳؎ اھ
درمختار میں قہستانی سے منقول ہے کہ قرض کے کچھ حصے پر صلح ہوجائے تو جائز ہے اور باقی قرض سے قضاءً بری ہوجائے گا دیانۃً یعنی عنداللہ بری نہ ہوگا اسی لیے اگر قرضخواہ کو موقع ملے تو باقی کو وصول کرے اھ،
(۳؎ درمختار کتاب الصلح مطبع مجتبائی دہلی ۲/۱۴۲)
وفی الشامیۃ عن المقدسی عن المحیط قضاہ الالف فانکر الطالب فصالحہ بمائۃ صح ولایحل لہ اخذھا دیانۃ ۱؎ اھ، وسرد النقول فی ذاک یطول،
اور فتاوٰی شامی میں ہے مقدسی کے حوالے سے محیط سے منقول ہے کہ اگر کسی نے قرض خواہ کو ہزار دیا مگر قرضخواہ وصولی سے منکر ہے تو مقروض نے ایک صد پرصلح کر لی توصحیح ہے لیکن قرض خواہ کو دیانۃً لینا حلال نہیں ہےاھ، یہاں تمام نقول کو ذکر کرنا ناطوالت کا باعث ہوگا،
(۱ردالمحتار کتاب الصلح داراحیاء التراث العربی بیروت ۴/۴۷۵)
وقال فی الھدایۃ الاصل ان الصلح یجب حملہ علی اقرب العقود الیہ واشبھھابہ احتیالا لتصحیح تصرف العاقد ماامکن ۲؎ اھ
ہدایہ میں فر مایا کہ قاعدہ یہ ہے کہ صلح کرنے والے کے تصرف کو صحیح قرار دینے کے لیے صلح کے قریب ترین کسی عقد پر محمول کرنا ضروری ہے تاکہ حتی الامکان اس کے عقد کو صحیح بنایا جاسکے اھ،
(۲؎ ہدایہ کتاب الصلح مطبع یوسفی لکھنؤ ۳/۲۴۶)
فبما اسمعتک یتحصل الجواب عن تمسک المولی البرھان بثلثۃ اوجہ الاول ارجاع الصلح الی تلک العقود تقدیر وتصویر ضروری فلایتعدی الثانی انما تثبت ھذہ العقود بتلک الالفاظ فی ضمن الصلح وکم من شیئ یثبت ضمنا ولایثبت قصدا الاتری ان قولہ اعتق عبدک ھذا عنی بالف یتضمن الابتیاع مع انہ لایعقد قصدا بلفظ الاعتاق،
میں نے جو کچھ بیان کیا ہے اس سے مولانا برھان الدین کی دلیل کے تین جواب ہوئے پہلا یہ کہ ا س صلح کو عقود کی طرف راجح کرنا صرف فرضی صورت ہے جو کہ ایک ضرورت کے لیے ہے اس ضرورت کے بغیر تجاوز کرنا درست نہیں، دوسرا یہ کہ ان عقود کا ثبوت صلح کے الفاظ میں ضمناً ہوتا ہے جبکہ بہت سے امور ضمناً تو ثابت ہوتے ہیں لیکن مقصوداً ثابت نہیں ہوتے، آپ غور کریں کہ جب کوئی کہتا ہے کہ تو اپنے غلام کو میری طرف سے ایک ہزار کے بدلے آزاد کردے تو یہاں ضمناً بیع ہوجاتی ہے، جبکہ''آزاد کردے'' کے لفظ سے قصداً بیع منعقد نہیں ہوتی،
الثالث ان ھذہ العقود انما تقدر قضاء ولاتؤ ثر فی الدیانۃ اذا کان مبطلا ونحن لاننکران باقرار ھما یثبت النکاح قضاء وانما الکلام فی الدیانۃ فان کان مراد الامام البرھان ھو الصحۃ قضاء وقد یستأنس لہ بقولہ عطراﷲ مرقدہ جعل الاقرار انشاء حیث لم یقل کان انشاء ویعینہ بناؤہ الامر علی عبارۃ الاصل فانھا کما علمت لاتفید الاالجواز قضاء فھذا حق لامریۃ فیہ ولاغروفی المصیر الیہ تصحیحا لکلام ھذا الامام وتحصیلا للوفاق بینہ وبین غیرہ من الائمۃ الاعلام وان کان فیہ بعد بالنظر الٰی ظاھر الکلام والافلاشک ان الحق مع ھٰؤلاء الجھابذۃ الکرام واﷲ تعالٰی اعلم بحقیقۃ الامر فی کل مرام والحمد ﷲ مولٰینا الھادی ذی الجلال والاکرام۔
تیسرا یہ کہ یہ عقود صلح کے ضمن میں صرف قضاءً نافذ ہوتے ہیں،صلح جھوٹ پر مبنی ہو تو دیانۃً نافذ نہیں ہوتے، اور یہ بات ہم بھی تسلیم کرتے ہیں کہ مر د و عورت کے قاضی کے ہاں اقرار سے قضاءً نکاح ہوجاتا ہے جبکہ ہماری گفتگو دیانت یعنی عنداللہ کے بارے میں ہے، تو اگر امام برہان الدین کی مراد یہ ہو کہ صرف قضاءً نکاح ہوجاتا ہے جبکہ ان کاکلام اس طرف مائل ہوتا ہے کیونکہ انھوں نے اقرار کو انشاء بنایا ہے اور یہ نہیں فرمایا کہ وہ انشاء ہے اور پھر انھوں نے اپنی بات کا مدار اصل یعنی مبسوط کی عبارت کو بنایا ہے جس سے صرف قضاءً جواز ثابت ہے اگر ان کا یہی مقصد ہے تو بجاا ور حق ہے جس میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں ہے اور اگر اس عظیم امام کے کلام کودرست بنانے کے لیے اس مقصد کی طرف راجع کیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے اگرچہ ان کے ظاہر کلام سے یہ مقصد بعید نظر آتاہے تاہم اس سے ان کے اور دیگر ائمہ کرام کے کلام میں موافقت پیدا ہوجاتی ہے اور اگر ان کا مذکورہ مقصد نہ ہو تو پھر اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے مقابلہ میں دیگر ائمہ کا کلام حق ہے اور ہر مقصد میں اللہ تعالٰی ہی حقیقت کو بہتر جاننے والا ہے، اللہ تعالٰی رہنمائی فرمانے والے کے لیے تمام تعریفیں ہیں۔ (ت)
ہاں اگر مرد وزن نے وہ الفاظ کہے جوامر ماضی سے خبردینے کے لیے متعین نہ تھے مثلاً مرد نے کہا یہ میری زوجہ ہے، عورت بولی یہ میراشوہر ہے، یا مرد نے کہا میں اس کا خاوند ہوں، عورت بولی میں اس کی جورو ہوں، اور دونوں نے ان الفاظ سے عقد نکاح کرنے کی نیت کی یعنی ان میں کسی کا قصد اخبار نہ تھا دونوں نے باارادہ انشاء کہے تو بیشک یہ الفاظ عقد نکاح ٹھہریں گے کہ جب قصد اخبار نہیں تو یہ لفظ اقرار نہیں اور جب اخبار ماضی کے لیے متعین نہیں تو ارادہ انشاء کے صالح ہیں تو انھوں نے الفاظِ صالحہ سے قصد انشاء کیا اور اسی قدر تحقیق ایجاب وقبول کے لیے بس ہے بخلاف ان الفاظ کے جو اخبار الماضی کے سوا دوسرے معنی کے محتمل نہ ہوں مثلا کہیں باہم ہمارا نکاح ہوچکا ہے کہ اب اخبار میں متعین اور انشاء سے مبائن،
اقول ھذ ا الذی قررتہ بتوفیق اﷲ تعالٰی یجب ان یکون ھوالمراد من قولہ الامام الاجل فقیہ النفس قاضیخاں رحمہ اﷲ تعالٰی حیث افاد بعد مااثر عن البیھقی والنوازل مااسلفنا، قال مولٰنا رضی اﷲ تعالٰی عنہ ینبغی ان یکون الجواب علی التفصیل ان اقرا بعقد ماض ولم یکن بینھما عقد لایکون نکاحا وان اقرت المرأۃ انہ زوجھا واقر االرجل انھا امرأتہ یکون ذٰلک نکاحا، ویتضمن اقرارھما بذلک انشاء النکاح بینھما بخلاف مااذا اقرا بعقد لم یکن لان ذٰلک کذب محض وھو کما قال ابوحنیفۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ اذا قال الرجل لامرأتہ لست لی بامرأۃ ونوی بہ الطلاق یقع ویجعل کانہ قال لست لی بامرأۃ لانی قد طلقتک ولو قال لم اکن تزوجتھا ونوی بہ الطلاق لایقع لان ذٰلک کذب محض لایمکن تصحیحہ ۱؎اھ قال فی الفتح علی مانقل عنہ فی ردالمحتار ان الحق ھذا التفصیل ۲؎ اھ
اقول میں نے اللہ تعالٰی کی توفیق سے جو تقریر کی ہے امام اجل فقیہ النفس قاضی خاں کے قول کا بھی لازمی طور پر یہی مقصد ہے جہاں انھوں نے بیہقی اور نوازل کے قول کو ہمارے بیان کردہ کے مطابق نقل کرنے کے بعد افادہ کرتے ہوئے فرمایا کہ مناسب ہے کہ جواب میں تفصیل سے کام لیا جائے کہ مرد وعورت نے ماضی میں نکاح نہ ہونے کے باوجود ماضی میں نکاح ہونے کا اقرار کیا تو اس اقرار سے نکاح نہ ہوگا، اور اگر عورت نے اقرار میں یوں کہا کہ یہ میرا خاوند ہے اور مردنے یوں کہا کہ یہ میری بیوی ہے تو یہ اقرار نکاح قرار پائے گا اور ان کے اقرار کے ضمن میں نکاح ایجاب ہوجائیگا بخلاف جبکہ ماضی کے نکاح کے بارے میں اقرار ہو، کیونکہ وہ محض جھوٹ ہے۔ اس تفصیل کا ماحاصل ایسے ہے جیسا کہ امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو کہا کہ تو میری بیوی نہیں ہے اور اس نے طلاق کی نیت کی ہو تو طلاق ہو جائے گی گویا اس شخص نے یوں کہاں کہ تومیری بیوی نہیں کیونکہ میں نے تجھے طلاق دے دی ہے، اور اگر اس نے بیوی کویوں کہا کہ میں نے تجھ سے نکاح نہیں کیا اس قول سے اس نے طلاق کی نیت کی ہوتوطلاق نہ ہوگی کیونکہ یہ ایسا جھوٹ ہے جس کی توجیہ نہیں ہوسکتی اھ ردالمحتار میں فتح سے نقل کیا گیا ہے کہ یہی تفصیل حق ہے اھ ،
(۱؎ فتاوٰی قاضی خان کتاب النکاح الفصل الاول نولکشور لکھنؤ ۱/۱۴۹) (۲؎ ردالمحتار کتاب النکاح الفصل الاول داراحیاء التراث العربی بیروت ۲/۲۶۶)