Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۱(کتاب النکاح)
74 - 1581
مسئلہ ۱۵۲: از (برہما) ڈاک خانہ چیگانگ محلہ میذنگ ضلع اکیاب مرسلہ محمد عمر صاحب ۵ ربیع الآخر ۱۳۳۶ھ
ماقولکم رحمکم اﷲ تعالٰی فی الفتاوٰی قاضی خاں وان ترک الجمعۃ ثلاث مرات  یصیر فاسقا کذا ذکر فی بعض المواضع و بہ اخذ شمس الائمہ  السرخسی رحمہ اﷲ تعالٰی وذکر فی بعض المواضع انہ یبطل العدالۃ انتھی، وان ترک الصلٰوۃ بالجماعۃ ولم یستعظم ذلک کمایفعل بہ العوام بطلت عدالتہ وان ترکھا متاؤ لابان کان  یضلل او  یفسق لایبطل عدالتہ ولایقبل شہادۃ من کان معروفا بالکذب ۱؎ انتھی
حضرات علمائے کرام اللہ تعالٰی تم پر رحم فرمائے، آپ کا کیا حکم ہے کہ فتاوٰی قاضی خاں میں ہے کہ اگر کسی نے تین جمعے ترک کردئے تو وہ فاسق ہوگا، یوں ہی بعض مقامات پر مذکور ہے جس کو شمس الائمہ سرخسی رحمہ اللہ تعالٰی نے لیا ہے اور بعض مقامات پر انھوں نے ذکرکیا کہ اس کی عدالت ختم ہوجائے گی اھ اور اگر کسی نے نما ز باجماعت کو اہمیت نہ دیتے ہوئے ترک کیا جیسا کہ عوام کرتے ہیں تو اس کی عدالت باطل ہوجائے گی اور اگراس نے اہمیت کے باوجود کسی تاویل وعذر کی بناپر مثلاً امام کو گمراہ یا فاسق قرار دیتے ہوئے جماعت ترک کردی تو اس کی عدالت باطل نہ ہوگی، اور جو شخص جھوٹ بولنے میں مشہور ہوجائے توا س کی شہادت مقبول نہیں اھ
 (۱؎ فتاوٰی قاضی خان    کتاب الشہادات    نولکشور لکھنؤ            ۳/۵۳۲)
وفی الدرالمختار لاتقبل شہادتہ  الابتاویل بدعۃ الامام او عدم مراعاتہ ۲؎اھ۔
اور درمختارمیں ہے کہ ایسے شخص کی شہادت مقبول نہ ہوگی، الایہ کہ وہ تاویل اور عذر مثلاامام کے بدعتی ہونے یاشرعی  امور کی رعایت  نہ کرنے کی وجہ سے جماعت ترک کرے۔ اھ (ت)
 (۲؎ درمختار        باب الامامۃ        مطبع مجتبائی دہلی        82/ 1)
جب ان لوگوں کی عدالت باطل ہو گئی تو بوقت نکاح وطلاق شہود بنانے سے نکاح وطلاق صحیح ہوگا یانہیں، چونکہ
درمختارمیں ہے،
شہود عادل عند الشافعی ۳؎
(امام شافعی رحمہ اللہ تعالٰی کے ہاں عادل گواہ ہوں۔ ت)
(۳؎ ردالمحتا ر مع درمختار    کتاب النکاح    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۲/۲۶۲)
شہود عادل شرط ہے، اور رجعت کرنے کے بارے میں اللہ تعالٰی فرماتا ہے:
واشہد واذوی عدل منکم ۴؎
(دو عادل گواہ بناؤ۔ ت)
 (۴؎ القرآن       ۲۵/۲)
اور آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:
لانکاح الا بولی وشاھدی عدل ۵؎
 (ولی کے بغیر نکاح نہیں،اور دو عادل گواہوں کے بغیر بھی۔ ت)
 (۵؎ السنن الکبرٰی للبیہقی    لانکاح الابشاہدین وعادلین    دارصادر بیروت        ۷/۱۲۵)
ا س عبارت مرقومہ اور بعض کتابوں سے معلوم ہوتاہے کہ فاسق کو نکاح وغیرہ میں مشہود بنانا معتبر نہیں ،جب معتبر نہیں ہے تو ثانیۃً تجدید نکاح کرنا چاہئے یا نہیں؟
الجواب : بلاشبہ بلاعذر ترک جمعہ اورترک جماعت کی عادت موجب فسق ومسقط عدالت و وجہ ردشہادت ہے مگر نکاح  میں جو شاہد ین کی شرط ہے یہ وقت ادائے شہادت نہیں کہ عدالت کی حاجت ہو بلکہ وقت تحمل شہادت ہے اور اس میں عدالت کچھ ضرور نہیں، حنفی مذہب میں تصریح ہے کہ شاہدین نکاح اگر فاسق بھی ہوں حرج نہیں،
درمختارمیں ہے:
ولو فاسقین او محدودین فی قذف ۶؎
 (اگرچہ دوگواہ فاسق ہوں یاقذف کی حد لگائے گئے ہوں۔ ت)
(۶؎ درمختار        کتاب النکاح    مطبع مجتبائی دہلی        ۱/۱۸۷)
حدیث میں ارشاد ہوا  :
لانکاح الابولی وشاہدی عدل
(ولی اور دو عادل گواہوں کے بغیر نکاح نہیں۔ ت) نفی بمعنی نہی ہے اور منافی صحت نہیں بلکہ ہمارے نزدیک یہ نہی ارشادی ہے کہ بالغہ کے نکاح میں ولی بھی شرط نہیں، واللہ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۱۵۳: از شمس آباد ضلع کیمل پور علاقہ اٹک مرسلہ مولوی قاضی گیلانی صاحب ۱۹ جمادی الاولٰی ۱۳۳۰ھ

بحضور لامع النور، موفورالسرور،قاطع الشرور والفسق والفجور حضرت عالم اہل السنۃ والجماعۃ مجددمائۃ حاضرہ زید مجد ہم! بعد نیاز بے آغاز حضور  نے فرمایا تھا کہ کتب خانہ فیض نشانہ میں عینی ہدایہ نہیں ولہذا دو ورق بقدر حاجت ارسال خدمت فیض درجت ہیں، مسئلہ خطبہ ونکاح بغیر کفو میں اس ملک کے علماء سخت مخالف ہیں بعض کتب عربیہ وفارسیہ قلمی غیر مشہور میں لکھا ہے کہ تقسیم فواکہ وشکر بافاتحہ خوانی بلاایجاب وقبول کے یا وعدہ کہ میں تم کو اپنی بیٹی دوں گا یا اس ارادہ پر کوئی تحفہ خوردنی یا پوشیدنی لیا تو بھی مثل ایجاب وقبول کے موجب انعقاد نکاح ہوگیا اور حدیث
تحرم الخطبہ علٰی خطبۃ اخیہ ۱؎
(بھائی کی منگنی پر منگنی حرام ہے۔ ت) سے ان عبارتوں کو اوربھی تاکید دیتے ہیں
( ۱؎ صحیح مسلم        باب تحریم الخطبۃ علی خطبۃ اخیہ    قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۴۵۴)
اور عینی شرح ہدایہ کی عبارت کتاب النکاح میں
لان الخطبۃ التزوج ۲؎
 (کیونکہ منگنی نکاح کے لیے ہوتی ہے۔ ت)
 (۲؎ عینی شرح ہدایہ    فصل فی الحداد        مکتبہ امدادیہ مکہ مکرمہ     ۲/۴۳۴)
ان کے مدعاکی پوری مثبت ہے ان کے نزدیک ایجاب وقبول لفظی یا کوئی قول وفعل اس پر دال ہو موجب نکاح ہے اگرچہ فتاوی مہدیہ وغیرہ کتب کی عبارتیں ان کو بارہا دکھائی گئیں مگر وہ لوگ قاصر الفہم اپنی ہٹ سے باز نہیں آتے اور اس کا نام احتیاط فی الفروج رکھا ہے۔ حضورنے ایک بارفرمایا تھا کہ قلم ناسخ کی غلطی معلوم ہوتی ہے، اور صحیح عبارت "لان الخطبۃ للتزوج" معلوم ہوتی ہے حضور کی یہ در فشانی نہایت اوفق واوجہ ہے مگر عرض یہ ہے کہ اس مسئلہ خطبہ کے متعلق کل ما لہا وما علیہا مع ازالہ اوہام وابانۃ مرام ابحاث کے ساتھ بقدر چار پانچ ورق کے بزبان عربی حضور ارشاد فرمائیں۔

دوسری عبارت عینی کی:
وعنہ فی الرجل یشرب الشراب اوھوحائک یفرق بینھما وفی البسیط ذھبت الشیعۃ الی ان نکاح العلویات ممتنع علی غیرھم مع التراضی قال السروجی وھما قولان باطلان ۳؎ انتھی۔
عینی سے روایت ہے کہ جو شراب کا عادی یا جولاہا ہے تو دونوں کی تفریق کر دی جائے گی، اور بسیط میں ہے کہ شیعہ کا مذہب ہے کہ علویات (سیدزادیوں) کا نکاح ا ن کے اولیاء کی رضامندی کے باوجود بھی غیر سے ممنوع ہے، سروجی نے کہا : یہ دونوں قول باطل ہیں انتھی۔ (ت)
 (۳؎ عینی شرح ہدایہ فصل فی الکفاءۃمکتبہ امدادیہ مکہ مکرمہ  ۲/۱۰۲)
اور عبارت تو اس سے پہلے صاف ہے ھما کے مرجع ہی میں شبہہ ہے۔ اگر اس قاعدہ اکثریہ پر کہ اصل مرجع میں مذکور قریب ہے قریب کے  دو قول لیے جائیں جو کہ ایک شارب وحائک کا دوسرا شیعہ والاہے۔ تو اگرچہ شیعہ کے قول کا بطلان ظاہر ہے کہ ظاہر روایت میں بغیر تراضی اولیاء بھی نکاح درست ہے باوجود ثبوت اعتراض للولی، اور بروایت نوادر نا درست ہے،
لفسادالزمان فلم یکن ممتنعا
(اس کی وجہ زمانے کا فساد ہے لہذا اصلا ممنوع نہ ہوا۔ ت) مگر شارب الشراب یا حائک سے اگر اعلٰی قوم کی عورت نے  بغیر تراضی اولیاء کے نکاح کرلیا تو ظاہر روایت ہی کی رو سے تو تفریق کی جائے گی جیسا کہ کل متون وشروح وفتاوی میں مذکور ہے  پس اس کے بطلان کی وجہ کیا ہے، سروجی حنفی مذہب کا ہے یاکہ غیر، اور کس طبقہ کا ہے، اور اس کی عبارت کا صاف مطلب کیا ہے، ملک خراساں کے اکثر حصص میں اکثر علمائے احناف اس کے قائل ہیں کہ سید زادی کا نکاح ہر شخص شریف و رذیل کے ساتھ درست ہے ولی راضی ہو یا خفا۔ اور فقہ کی کل کتابوں سے اغماض  کرکے صرف دو عبارتوں پر مصرہیں ایک آیت سورہ احزاب کے اول رکوع میں؛
النبی اولٰی بالمؤمنین من انفسھم وازواجہ امھاتھم ۱؎ الخ
نبی پاک صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مومنین کی جانوں سے بھی ان کے لیے قریب تر ہیں اور آپ کی ازواج پاک مومنین کی مائیں ہیں الخ (ت)
( ۱؎ القرآن        ۳۳/۶)
کہ تحریم ازواج مطہرات  کی رسول اللہ  وازواج کی بنات واخوات وخالات کی طرف متعدی نہیں،جیسا کہ مدارک و خازن واحمدی وروح البیان وغیر ہ میں ہے۔

اور دوسری عبارت قال السروجی الخ جو کہ ابھی عینی سے نقل ہوئی ان کو جواب دیا گیا ہے کہ ظاہر روایت و نوادر سے یہ عبارت مخالف نہیں کیونکہ ظاہر روایت میں بھی درست ہے مع اعتراض ولی، اور نوادر میں جو نادرست ہے تو وہ بوجہ فساد زمانہ ہے فلاتعارض ولاتصادم (ظاہر اور نادرروایت میں تعارض وتصادم نہیں ہے۔ ت) اس کے متعلق بھی حضورلامع النور کچھ تحریر فرمائیں
Flag Counter