فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۱(کتاب النکاح) |
مسئلہ ۱۵۰: ا ز موضع بھوٹا بھوئی بسوٹولانڈ ملک افریقہ مرسلہ جناب حاجی اسمٰعیل میاں بن حاجی امیر میاں صدیقی حنفی قادری (۱) زید سوال کرتا ہے کہ خدانے مر دکو حکم دیا دو دو تین تین چار چار، اور عورت کو کیوں نہیں ملا کہ تم دو دو تین تین چار چار مرد کرو۔ (۲) ایک شخص زانی عوت کا فرہ کو اسلام قبول کرواکے نکاح کیا اب وہ عورت حاملہ ہے مگر اسی مرد سے جس کے ساتھ نکاح ہوا ہے۔ آیا یہ نکاح جائز ہے یا نہیں؟ زید کہتا ہے کہ اگرچہ حاملہ اسی سے ہو جب بھی نکاح جائز نہیں اور شاہد وحاضرین کا ٹوٹ جاتاہے۔
مجموعہ خانی جلد ثانی ص ۳۹؟:
در ہدایہ وکافی آوردہ ست عورتے حربیہ در دارالاسلام آمد برآں عورت عدت لازم نشود خواہ اسلام در دارحرب آورد ہ باشد خواہ نیاوردہ باشد وایں قول امام اعظم ست رحمۃ اللہ علیہ۔ ونزدیک امام ابویوسف وامام محمد رحمہما اللہ تعالٰی عدت لازم شود، وباتفاق علماء برکنیز کہ درتاخت گیر ند عدت لازم نیست فاما استبراء، لازم ست واگر حربیہ کہ درداراسلام آمدہ ست وحاملہ تاآں زمان کہ فرزند نزاید نکاح نہ کند دیگر روایت از امام آنست کہ نکاح درست ست اگر حاملہ باشد فامانزدیکی بآں عورت شوہر نہ کند تاآں زمان کہ فرزند نزاید چنانچہ عورت را از ز نا حمل ماندہ ست خواستن اور واست ونزدیکی کردن روانیست تا آں زمان کہ فرزند نزاید واگر یکے ا ز میان زن وشوہر مرتد شد فرقت میا ں ایشاں واقع شود فاما طلاق واقع نشود ایں امام اعظم امام اابویوسف رحمہما اللہ تعالٰی ونزدیک امام محمد اگر مرتد شدہ است فرقت واقع شدہ است بے طلاق پس اگر مرد مرتد شدہ است وبازن نزدیکی کردہ باشد تمام مہر بر او لازم شود اگر نزدیکی نہ کردہ است چیزے از مہر لازم نشود ونفقہ نیز لازم نشود اگر خودازخانہ مرد بیروں آمدہ باشد واگر خودازخانہ مرد بیروں نیا مدہ باشد نفقہ برمرد لازم شود ۱؎۔
ہدایہ وکافی میں ہے کہ اگر کوئی عورت دارالاسلام آجائے تو اس پر عدت لازم نہیں خواہ دارالحرب میں مسلمان ہوئی یا نہ ہوئی، یہ امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا قول ہے، امام ابویوسف اورامام محمد کے نزدیک اس پر عدت لازم ہے اور جنگ میں گرفتار شدہ لونڈی پر عدت لازم نہیں ہے۔ یہ سب کاا تفاق ہے، اس پر صرف استبراء لازم ہے، اگر کوئی حاملہ عورت دارالحرب سے دارالاسلام آئی تو وہ بچہ کی پیدائش سے قبل نکاح نہیں کرسکتی، امام صاحب نے ایک دوسری روایت میں فرمایا کہ وہ نکاح کرسکتی ہے لیکن بچے کی پرورش سے قبل اس سے جما ع جائز نہیں ہے جس طرح زنا سےحاملہ سے نکاح جائز مگر بچے کی پیدائش سے قبل اس سے جماع جائز نہیں ہے۔ اگر خاوند بیوی سے کوئی ایک مرتد ہوجائے تو دونوں کی فرقت ہوگی لیکن طلاق نہ ہوگی، یہ قول امام اعظم ابوحنیفہ اور امام ابویوسف رحمہما اللہ تعالٰی علیہ کاہے۔ اور امام محمد رحمہ اللہ تعالٰی کے نزدیک اگر صر ف خاوند مرتدہوجائے تو فرقت ہوجائے گی طلاق نہ ہوگی، تو خاوند کے مرتدہونے کے بعد اگر اس نے بیوی سے جماع کیا تو مکمل مہر لازم ہوگا، اور مرتدہونے کے بعد جماع نہ کیا تو مہر اور نفقہ لازم نہ ہوگا، بشرطیکہ عورت خودا س کے گھر سے علیحدہ ہوچکی ہواور اگر اس کے گھر میں ہو تو نفقہ مرد پر لازم ہوگا، (ت)
( ۱؎ مجموعہ خانی)
الجواب (۱) اللہ عزوجل فرماتاہے:
ان اﷲ لایأمر بالفحشاء ۲؎
بیشک اللہ عزوجل بے حیائی کا حکم نہیں فرماتا۔
(۲؎ القرآن ۷/۲۸)
ایک عورت پر دو مردو ں کااجتما ع صریح بے حیائی ہے، جسے انسان تو انسان جانوروں میں بھی جو سب سے خبیث تر ہے یعنی خنزیر وہی روا رکھتا ہے۔ حرمت زنا کی حکمت نسب کا محفوظ رکھنا ہے، ورنہ پتا نہ چلے کہ بچہ کس کا ہے۔ اگر عورت سے د ومردوں کا نکاح جائز ہو تو وہی قباحت کہ زنا میں تھی یہاں بھی عائد ہو معلوم نہ ہوسکے کہ بچہ کس کا ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔ (۲) جسے زنا کا حمل ہو والعیا ذباللہ تعالٰی اور وہ شوہر دار نہ ہو اس سے زانی وغیرزانی ہر شخص کا نکاح جائزہے فرق اتنا ہے کہ غیر زانی کو اس کے پاس جانے کی اجازت نہیں جب تک وضع حمل نہ ہولے، اور جس کا حمل ہے وہ نکاح کرے تو اسے قربت بھی جائز،
درمختارمیں ہے:
صح نکاح حبلی من زنا وان حرم وطؤھا و دواعیہ حتی تضع لئلا یسقی ماءہ زرع غیرہ اذ الشعر ینبت منہ ولونکح الزانی حل لہ وطؤھا اتفاقا ۱؎۔
زنا سے حاملہ کا نکاح صحیح ہے اگر چہ اس سے وطی اور اس سے متعلقہ امور حرام ہیں جب تک وہ بچے کو جنم نہ دے تاکہ اس کا پانی غیرکی کھیتی کو سیراب نہ کرے یہ اس لیے کہ جماع سے حاملہ کے بچے کو بال اگتے ہیں، اور اس سے خود زانی نے نکاح کیا تو اس کو جماع بھی جائز ہے۔ (ت)
(۱؎ درمختار کتاب النکاح فصل فی المحرمات مجتبائی دہلی ۱/۱۸۹)
زید کا قول محض غلط ہے اور اس کا کہنااگرچہ حاملہ اسی مردسے ہے جب بھی نکاح جائز نہیں شریعت پر افترا ہے بلکہ صحیح ومفتی بہ یہ ہے کہ اگر چہ حمل دوسرے کا ہو جب بھی نکاح جائز ہے اوراس کا کہنا کہ شاہد وحاضران محفل کے ٹوٹ جاتے ہیں افتراء برافتراء ہے، مجموعہ خانی سے جو عبار ت اس نےنقل کی ہے صراحۃً اس کے خلاف ہے۔
اگر عورت را از زنا حمل ماندہ است خواستن اورواست ونزدیکی کردن روانیست تاآنکہ نزاید۔
اگر عورت زنا سے حاملہ ہوجائے تو اس سے نکاح جائز اور جماع جائز نہیں جب تک بچے کو جنم نہ دے دے۔ (ت)
اور وہ جو اسی سے نقل کیا کہ:
حربیہ کہ داراالاسلام آمدہ است وحاملہ تا نزاید نکاح نہ کند ۲؎۔
حربی عورت اگر دارالاسلام آجائے اگر حاملہ ہو تو بچے کی پیدائش تک وہ نکاح نہ کرے۔ (ت)
(۲؎ مجموعہ خانی)
یہ اس میں ہے کہ حربی کافر کی حاملہ عورت دارالاسلام میں آکر مسلمان ہوگئی نہ کہ حمل زنا میں، واللہ تعالٰی اعلم