فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۱(کتاب النکاح) |
مسئلہ ۱۴۲: از بہاری پور بریلی مسئولہ جناب مولوی نواب سلطان احمدخاں صاحب مورخہ ۲۱ ذی قعدہ ۱۳۳۵ھ عرض درخدمت والیان شریعت محمدی وحامیاں دین متین احمدی علمائے مقلدین مذہب حنفی یہ ہے کہ ایک شخص میرا مام الدین نامی اپنی دختر عاقلہ بالغہ کا نکاح عبدالقدوس نامی کے ساتھ کردیا، نکاح کا ایجاب وقبول ایک لئیق شخص نے کرایا۔ بستی کے سب لوگ حاضر تھے مگر قاضی صاحب جلسہ میں موجود نہ تھے تو یہ نکاح جو غیر قاضی سے پڑھایا جائز ہوا یا نہیں؟ اور ان دونوں قاضیوں کو کیا اختیارات ہیں اور اگر کسی شخص نے کسی خاص وجہ سے قاضی کو شادی میں دعوت نہیں دی تو اس پر کیا الزام آتا ہے، اور قاضی کا حق نکاح خوانی اس کو دینا چاہئے یا نہیں جبکہ قاضی سے پڑھوایا، بینوا بیانا وافیااجر کم اللہ اجرا کافیا۔
الجواب : قاضی کوئی شرط نکاح نہیں، آدمی جس سے چاہے پڑھوائے چاہے مرد وزن دوگواہوں کے سامنے خود ایجاب وقبول کرلیں اس نام کے قاضی کے لیے شرعا کچھ اختیارات نہیں، نہ وہ اجرت کا مستحق، جبکہ نکاح دوسرے نے پڑھایا، نہ قاضی کو دعوت نہ دینے میں کوئی الزام، یہ نکاح خوانی کے قاضی
اسماء سمیتموھا انتم واٰباکم ماانزل اﷲ بہا من سلطٰن ۱؎
(یہ اپنے بنائے نام ہیں، شرعی طور ان پر کوئی دلیل نہیں۔ ت) واللہ تعالٰی اعلم
(۱؎ القرآن ۷/۷۱)
مسئلہ ۱۴۳: از بہیڑی ضلع بریلی مرسلہ حکیم ریاض الدین صاحب رضوی ۲۳ ذی القعدہ ۱۳۳۵ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید نے ایک عورت بیوہ جو کہ ا س کے چھوٹے بھائی کی زوجہ تھی اس سے نکاح کیا اور اب اس کے ساتھ میں ایک دختر نابالغ تھی اس دخترکانکاح اس کے سوتیلے باپ جو اس کا پہلے تایا تھا اس نےاپنی ولایت سے نابالغہ کا نکاح ایک لڑکے کے ساتھ کردیا لیکن لڑکی نکاح سے تاہنوز اپنے شوہر کے یہاں نہیں گئی اب ناکحین بالغ ہوئے تو ناکح اپنی منکوحہ کو اپنے گھر بلاتا ہے اورمنکوحہ اس کے گھر جانے سے انکار کررہی ہے اور کہتی ہے کہ تیرا چال چلن ٹھیک نہیں ہے میں تجھ سے نکاح توڑ دوں گی، تو اس صورت میں لڑکی اپنا نکاح فسخ کرسکتی ہے یا لڑکے کو مجاز ہے کہ زبردستی اسے لے جائے اور ولایت ا س کے سوتیلے باپ کی درست ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا
الجواب : سوتیلا باپ ہونا توکوئی وجہ ولایت نہیں۔ ہاں چچا ہونا سبب ولایت ہے۔ اگر اس سے مقدم اور کوئی ولی نہ تھا اوریہ لڑکا جس سے اس نے ا س لڑکی کا نکاح کیا مذہب نسب یا پیشہ یا چال چلن میں ایساکم نہ تھا کہ اس سے اس لڑکی کا نکاح باعث ننگ وعار ہو تونکاح ہوگیا، مگرا س لڑکی کو اختیار تھا کہ بالغہ ہوتے ہی فوراً اس نکاح سے اپنی ناراضی ظاہر کرے، جب تو اسے فسخ کرنے کا اختیار ہے، اور اگر ذرا دیر لگائی تو اب نکاح لازم ہوگیا اختیار فسخ نہ رہا، اور اگر وقت نکاح ہی اس لڑکے میں امور مذکورہ میں کوئی کمی تھی جس کے سبب اس لڑکی کا نکاح باعث ننگ وعار ہو، جب نکاح سرے سے ہوا ہی نہیں فسخ کی کیا حاجت! واللہ تعالٰی اعلم
مسئلہ۱۴۴ تا ۱۴۷: از دلیل گنج پرگنہ جہاں آباد ضلع پیلی بھیت مرسلہ منشی محب اللہ صاحب ضلعدار پنشنر ۲۳ ذی القعدہ ۱۳۳۵ھ وقت نکاح جو ایجاب وقبول کرائے جاتے ہیں ا س میں اکثر اشخاص ایک دوسرے کے خلاف اعتراض کرتے ہیں۔ (۱) زید کی لڑکی کہ نام ا س کا تم کو معلوم ہے اور بالفعل اس نام کی کوئی لڑکی اس گھرمیں موجود نہیں ہے بعوض مہر شرعی ا س قدر روپے اور اس قدر دینار سرخ سلطانی سکہ رائج الوقت سوائے نان نفقہ کے بیچ نکاح تمھارے کے آئی، اور دی میں نے قبول کی تم نے۔ (۲) باقی عبارت سب وہی ہے صرف بجائے لفظ ''سوائے'' کے علاوہ استعمال کرتے ہیں۔ (۳) میں سب عبارت وہی ہے بجائے ''سوائے'' یا ''علاوہ'' کے لفظ ''مع'' استعمال کرتے ہیں (۴) بعض شخص صر ف یہ کہتے ہیں کہ بیچ نکاح تمھارے کے آئی اور دی میں نے اور بعض صرف لفظ ''آئی'' کہتے ہیں اور بعض شخص صرف لفظ ''دی'' کہتے ہیں، اس میں کون سا لفظ استعمال کرناچاہئے، اب اعتراض اس لفظ پر ہے کہ جب لفظ سوائے نان نفقہ کہا گیا تو نان ونفقہ دولھا کے ذمہ عائد نہ ہوا بلکہ صرف روپیہ مہر کا عائد ہو ا جیسے کوئی شخص کہے کہ فلاں فلاں شے فلاں شخص کو دی گئی سوائے پگڑی کے یعنی پگڑی نہیں دی گئی، اس طرح لڑکی بالعوض اس قدر مہر کے نکاح میں دی گئی سوائے نان ونفقہ کے یعنی اس لڑکی کانان ونفقہ دولھا کے نکاح میں نہیں آیا، یہی اعتراض لفظ علاوہ کے کہنے سے بھی پیدا ہوتا ہے۔ اور جب لفظ مع نان ونفقہ کہاجاتا ہے تو معترض لوگ رجوع کرتے ہیں تعداد مہر کی طرف، اور کہتے ہیں کہ بالعوض اس قدر مہر شرعی مع نان ونفقہ کے کہنے سے نان ونفقہ مہر میں شامل ہوگیا، یعنی جب عورت نان ونفقہ پائے تو وہ مہر مجرادیا جائے اور تعین مہر کاروپیہ اس نان ونفقہ کے حساب سے جب سب پاچکے تو پھر عورت نہ نان ونفقہ پانے کی مستحق رہی اور نہ زر مہر کی، گویا وہ بے نان ونفقہ اورمہر کے نکاح میں رہی، اپنے کھانے پینے کا انتظام عورت خود کرے، معزز فرمائے کہ ہر سہ الفاظ سوائے علاوہ مع کے استعمال کے نکاح درست ہوگااور نان نفقہ بذمہ مرد عائد رہے گایانہیں؟ اور کون سے لفظ کے استعمال سے نان نفقہ عائد ہوگااور کون سے نہیں؟
الجواب : یہ سب اوہام ہیں اوران کی بحث فضول بھی، اوہام تویوں ہیں کہ جو رقم ذکر کی جاتی صرف مہرکے لیے مقصود ہوتی ہے اورعلاوہ اور ماسوائے اور مع یہ سب مہرکی صفتیں ہوتی ہیں یعنی وہ مہر کہ نان نفقہ سے علاوہ یا ان کے سوا یا ان کے ساتھ ہے علاوہ اور سوائے کے یہ معنٰی کہ اس کا وجوب ا ن کے وجوب پر زائد ہے اور مع کے یہ معنٰی کہ یہ اور وہ وجوب میں شریک ہیں یہی مراد ہوتی ہے اوریہ مفہوم، اوران سے بحث فضول یوں کہ نان ونفقہ ومہر ایسی چیز نہیں کہ اگر بالقصد ان کی نفی بھی کی جائے تو منتفی ہوجائیں یا نکاح میں کچھ خلل آئے، نکاح شروط فاسدہ سے باطل نہیں ہوتابلکہ وہ خود شرطیں ہی باطل ہوجاتی ہیں، اگر اس شرط پر نکاح کیا جائے کہ مہر کچھ نہ ہوگا جب بھی مہرلازم شرعاً ہوگا مہر مثل دینا آئے گا۔ اور اگر اس شرط پر نکاح کیا جائے کہ نان ونفقہ کچھ واجب نہ ہوگا جب بھی اپنی صورت وجو ب میں ضرور واجب ہوگا کہ قبل وجوب اسقاط مہمل ہے۔ حدیث میں ہے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
مابال اقوام یشترطون بشروط لیست فی کتاب اﷲ من اشترط شرطا لیس فی کتاب اﷲ فہو رد وان کانت مائۃ شرط شرط اﷲ احق واوثق ۱؎۔
ایسی قوم کا کیا حال ہو جوایسی شرطیں لگا تے ہیں جن کی اجازت کتاب اللہ میں کسی طرح نہیں، ایسی شرطیں سو بھی ہوں تو وہ مردود ہوں گی، اللہ تعالٰی کی طرف سے جائز شرط زیادہ ثابت مضبوط ہے۔ (ت)
(۱؎ صحیح بخاری کتاب الشروط فی الولاء قدیمی کتب خانہ کراچی 377/ 1)
بااینہمہ اگرایسی عبارت چاہیں جس میں یہ اوہام پیدا نہ ہوں تو یوں کہیں بعوض اتنے مہر کے کہ نان ونفقہ کا وجوب اس کے علاوہ ہے تیرے نکاح میں دی اور ''آئی'' سے ''دی'' بہتر ہے کہ یہ انشامیں صریح ہے، واللہ تعالٰی اعلم۔